مردانہ ذہن میں ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے کا بٹن کہاں ہے؟


“رحم میں بچہ دیکھنے کے لئے الٹراساؤنڈ مشین کے دو حصے اہم ہیں، سکرین جس پہ بچے کا عکس نظر آئے گا اور پروب جو خاتون کے پیٹ پہ رکھا جائے گا۔آپ کی آنکھیں سکرین کی طرف ہونی چاہییں اور یہ پروب ( probe) مریض کے پیٹ پہ”

ہم اپنی جونئیر ڈاکٹر کو حاملہ عورت کا الٹراساؤنڈ کرانا سکھا رہے تھے۔

“یہ گول سی نظر آنے والی چیز بچے کا سر ہے، یہ پسلیاں نظر آ رہی ہیں اور یہ دل… دیکھو کیسے دھڑک رہا ہے”

“میم، مجھے تو سوائے کالے اور سفید دائروں کے اور کچھ نہیں دکھ رہا، اور وہ سب بھی آپس میں گڈمڈ ہو رہے ہیں جیسے کچھ چیزیں ناچ رہی ہوں” وہ منہ لٹکا کر بولی،

“دیکھو بیٹا، ہر عضو کی ایک نشانی ہے اس نشانی کی مدد سے متعلقہ عضو کو پہچانا جاتاہے۔ جیسے کھوپڑی کی ہڈی ایک خاص طرح سے نظر آئے گی اور یہ چھوٹی گیند کی مانند نظر آنے والی آنکھیں ہیں۔ دماغ میں پانی کی نالیاں ایک خاص طریقے سے نظر آئیں گی” ہم نے مثالوں سے واضح کیا۔

“میم، یہ سب کچھ تو بہت مشکل ہے، آپ نے کیسے سیکھا؟” وہ روہانسی ہو کے بولی۔

“ارے ابتدا میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ ہماری آنکھ کوری ہوتی ہے، اس کو ہر چیز پہچاننے کے لئے ایک خاص قسم کی تربیت چاہیے ہوتی ہے۔ ایسا صرف الٹرا ساؤنڈ کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز کی پہچان تربیت سے ہوتی ہے۔

اگر الٹراساؤنڈ کا معاملہ ہو تو اس تربیت کے دوران آنکھ کے راستے ذہن کو بار بار بتایا جاتا ہے کہ یہ کالی نظر آنے والی چیز کیا ہے اور سفید نظر آنے والی کیا؟ یہ جو فٹبال سا دکھ رہا ہے یہ سر ہے اور یہ پتلی پتلی چھڑیاں اصل میں پسلیاں ہیں۔ ریل کی پٹڑی جیسی شبیہہ اصل میں کمر کے مہرے ہیں۔

یہ سب تصویریں ایک ڈیٹا کی طرح دماغ میں جمع ہو جاتی ہیں یا یوں سمجھ لو کہ دماغ کو ہدایت کر دی جاتی ہے کہ اگر اس طرح کا عکس نظر آیا تو اس کا نام یہ ہو گا، اور اگر یہ والی شببیہ نظر آئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا”

“میم، اس کا مطلب یہ ہوا کہ نتیجہ اخذ کرنے میں ڈیٹا جمع کرنا اور اس کی صحیح پہچان ازحد ضروری ہے” وہ سوچ کے بولی۔

“جی بالکل! ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے کہ آنکھ بھلے کچھ بھی دیکھے، وہ نتیجہ اخذ نہیں کر سکتی کہ یہ کام ذہن کا ہےاور ذہن وہ بتاتا ہے جو برسوں لگا کر اسے سجھایا گیا ہے۔ اب بے ہوشی میں مریض کا دماغ ہی تو سلایا جاتا ہے تاکہ اسے کچھ بھی محسوس نہ ہو”

“میم، اس کا مطلب ہے کہ اچھا استاد ملنا اور درست معلومات دماغ تک پہنچنا بہت اہم ہے”

“درست سمجھا تم نے، اگر ڈیٹا میں غلط معلومات، مبہم تشبیہات اور علامات جمع کر دی گئی ہیں اور کسی بھی عضو پہ غلط لیبل لگا دیا گیا ہے تو نتیجہ صحیح کیسے نکلے گا؟

بہت سے لوگ اپنی زندگی میں شاہ دولے کے چوہے اسی لئے بن جاتے ہیں کہ ذہن کو بڑھوتری کی اجازت نہیں دی گئی ہوتی اور آنکھ دکھاتی تو ہے لیکن سجھانے کا عمل انتہائی محدود ہوتا ہے”

“افوہ ہمیں شاہ دولے کے چوہے یاد آ گئے۔ اب اس غریب کو کیا علم کہ وہ ہمارے معاشرے میں کھیلے جانے والے گھناؤنے کھیل کا حصہ کیسے بنتے ہیں؟” ہم بڑبڑائے۔

یک لخت ذہن میں جھماکا سا ہوا… اوہ خدایا ، یہی تو ہوا ہے ہمارے معاشرے کے شاہ دولوں کے چوہوں کے ساتھ… جن کی سوچ کے افق کو وسیع تر کرنے کی بجائے ایک گدلے پانی کا جوہڑ بنا دیا گیا ہے۔ اہل  ہنر نے ان کے ذہنوں میں جو ڈیٹا بھرا ہے۔ اس کی ترجمانی آنکھ سے دیکھا جانے والا منظر ایک ہی رخ اور ایک ہی سمت میں کرتا ہے۔

حالیہ مباحث میں ریپ اور فحاشی کا سمبندھ، کیا پیغام دیا گیا ہے آخر؟

ایک گھٹن زدہ، طبقاتی تقسیم اور ناانصافی کے شکار معاشرے میں عورت، اس کا جسم، اس کا لباس، اس کی چال ڈھال اور اس کا ہر فعل وفکر جنسی اشتعال انگیزی کی چھتری تلے جمع کر دیا گیا ہے۔ اور مرد کے ذہن میں یہ ڈیٹا فیڈ کر دیا گیا ہے کہ تمہاری ہر بے اختیاری، شتابی اور متشددانہ افکار و رویوں کی ذمہ داری تم پہ نہیں، اس پہ ہے جو اپنا جسم لے کر باہر نکلی ہے اور تمہیں ورغلانے و بہکانے کو ہی نکلی ہے۔ بکاؤ جنس ہے، اور بکنے کو تیار بھی، ورنہ باہر کیوں نکلتی؟

اب جیسے چاہو برتو اس بے اختیارمحکوم مخلوق سے۔ ہر عضو کی گالی ایسے دو جیسے تکیہ کلام ہو، دیدے پھاڑ کے ہر عضو کو اپنا حق سمجھ کے دیکھو، جہاں سے دل چاہے چھوؤ، طبعیت جولانی پہ ہو تو مسخ کر کے لطف اٹھاؤ، آپ کو سات خون معاف!

اور یہ سات خون اس لئے معاف کہ مرد کو اپنے خود ساختہ فطری میلان، اشتعال انگیزی، شہوت پرستی اور حاکمانہ انداز فکر پہ چونکہ قابو نہیں، ذرا سی ٹھوکر پہ ہی ڈھیر ہو جاتا ہے۔ آنکھ بہک کے کہیں اور کے خواب دکھا دیتی ہے، نفس پہ لگام نہیں سو کہیں ٹکنے نہیں دیتا۔ دیکھیے کس قدر مشکل زندگی ہے بے چارے مرد کی، بے چارہ ترغیبات سے نبرد آزما ہو ہی نہیں پاتا۔

تاریخ کچھ اور کہتی ہے! مرد کو دل ہتھیلی پہ رکھنے کا مراق حالیہ وقت کی بات نہیں، زمانہ قدیم سے ہے جب چلمن کے پیچھے آنچل کی سرسراہٹ، چوڑیوں کی کھنک، دور سے آتی ہنسی کا سریلا پن، کسی خوش رنگ لباس کی جھلک اور دروازے کی اوٹ میں حنائی ہاتھ کی خوشبو سے ہی موصوف کا دماغ الٹ جایا کرتا تھا اور اپنی وحشتوں کا علاج بالا خانوں میں ڈھونڈا جاتا تھا۔ گئے زمانوں میں ضبط کھو دینے کا پیمانہ کچھ اور تھا اور آج کچھ اور۔ مگر جو بات جسے زوال نہیں آیا وہ ان کی بے بسی کا اقرار ہے، کل بھی اور آج بھی۔

کاش نہ ہوئے ہمارے اہل دانش اس وقت کہ ان چلمنوں، رنگوں اور ہوا کے دوش پہ تیرتی آوازوں پہ ہی فحاشی کا لیبل لگا کے مرد کی مجبور فطرت اور شتر بے مہار نفس کا اعلان کرتے ہوئے انہیں ہر ضابطے سے مبرا قرار دیتے۔

مسئلہ کل بھی یہی تھا اور آج بھی کہ مرد کے لئے عورت کل بھی ملکیت تھی، آج بھی ملکیت ہے۔ مرد چاہے اسے ریپ کریں، چاہے ونی کے طور پہ زندہ درگور کر دیں، چاہے جسم کو مضروب کریں، چاہے اخلاقی طور پہ معتوب ٹھہرائیں، چاہے آگ میں جلا کے راکھ کر دیں، چاہے زندہ دفن کر دیں، یا چاہے قران سے بیاہ دیں، یہ ان کی صوابدید اور عورت کا مقدر ہے۔

مرد کے ذہن میں صدیوں سے فیڈ کردہ یہ ڈیٹا نہ جانے کیسے مٹے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments