عورت اگر عورت کی دشمن نہ ہوتی تو۔۔۔



ہمارے معاشرے میں خواتین جن جن مسائل و مظالم کا شکار ہیں، ان میں سے اکثر کی ذمہ دار خواتین خود ہیں، جو حسد کے مارے اپنی ہم جنس کو آگے بڑھتے ہوئے، خوش ہوتے ہوئے دیکھ نہیں پاتیں، اور چھپ چھپا کے ایسی چالیں چلتیں ہیں کہ ان کا تیر سیدھا جا کے اپنے نشانے پہ لگتا ہے۔ اس بات کا قطعی طور پہ یہ مطلب نہیں کہ مرد حضرات عورتوں سے کی گئی ناانصافیوں اور جبر سے بری ہو جاتے ہیں، لیکن عورت کی اپنی ہم جنس سے دشمنی بھی حقیقت ہے،جسے رد نہیں کیا جا سکتا۔

عورت سے عورت کی دشمنی ہمیں نہ صرف پاکستانی اور انڈین ڈراموں میں دکھائی دیتی ہے بلکہ یہ ہماری اصل زندگی کا حصہ بھی ہے۔ جس طرح یہ بات میں نے آس پاس محسوس کی اور اس موضوع پہ لکھنے کے لیے قلم اٹھایا، اسی طرح اگر یہ کالم پڑھنے والے دو منٹ کے لیے غور و فکر کریں تو ان کے ذہنوں میں بھی ایسے کردار لازمی ظاہر ہوں گے، جہاں عورت ہی عورت کی دشمن بنی بیٹھی ہے۔

بیشک مردوں کے معاشروں میں عورت کو اس کا اصل مقام حاصل نہیں ہے لیکن جب خواتین جو آپس میں رشتہ داری میں، ایک آفس یا کام کی جگہ میں ایک دوسرے سے جڑی ہیں، اگر وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنا شروع کر دیتی ہیں تو اس کا زیادہ تر نقصان ایک عورت کو ہی ہوتا ہے،جو ایک عورت کا ہی دیا ہوا ہوتا ہے اور اس کا پورا فائدہ مرد حضرات کو مفت میں ملتا ہے۔

یہ سلسلہ ساس بہو کی ایک دوسرے کے خلاف چغلیوں، شکایتوں اور غلط فہمیوں سے شروع ہوتا ہے اور دونوں عورتیں آپس میں مل بیٹھ کر اپنے حقوق حاصل کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے پر تلی ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر بہو کسی معاملے میں ساس سے دو قدم آگے ہے، تو ساس اس بات کو قبول کر کے سراہنے کے بجائے، اپنی بہو کو اسی مقام پر لانا چاہتی ہے جہاں وہ خود کھڑی ہے۔ اور جو اس نے اپنی جوانی میں اپنے شوہر سے مار کھائی تھی یا اپنی خواہشات کی قربانی دی تھی، وہ اپنے بیٹے سے اپنی بہو کے لیے بھی یہی توقع رکھتی ہے۔

اگر وہ خود پڑھی لکھی نہیں تو وہ چاہتی ہے کہ میری بہو بھی پڑھی لکھی نہ ہو، ورنہ اسے انگریزن یا سدھری ہوئی بننے کا طعنہ دے دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف بہو بھی، جب ساس کو سلجھا ہوا پاتی ہے تو اسے بھی چین نہیں پڑتا، اور ساس کی تعریف کرنا تو جیسے منہ میں چھالے پڑنے کے برابر ہو اور باوجود اس کے کہ پتا ہو فلاں لڑکا شادی شدہ ہے، بچوں کا باپ ہے، پھر بھی لالچ میں آ کر اس سے شادی کرنا عورت سے عورت دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جو سوتن کے روپ میں آ کر ایک عورت سے ایک ہی گھر میں، ہر قدم پر دشمنی نبھاتی ہے اور شوہر کو پہلی بیوی کے خلاف کرنے میں دن رات مشغول ہوتی ہے۔

ٹھیک اسی طرح ملازمت پیشہ خواتین بھی بھلے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، لیکن ایک دوسرے کی ترقی سے جلنے کے باعث، وہ اپنے ساتھ کام کرتی خواتین کو نیچا دکھانے اور خود برتری حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتی ہیں اور اسی دھن میں کئی بار حد سے بھی گزر جاتی ہیں۔ اگر اسکول، کالج یا یونیورسٹی ہو تو اپنی سہیلیوں سے آگے بڑھنے کے چکر میں، پیٹھ پیچھے کسی نہ کسی طرح انہیں پیچھے دھکیلنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔

جو قریبی رشتہ دار خواتین ہوتی ہیں، ان کو خدا نہ کرے اگر کوئی بہانہ مل جائے تو، وہ چغلی کھانے میں اور بلا وجہ خوار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ ذرا سی کسی نئے نویلی دلہن کو خاموش یا اداس کیا دیکھ لیا، اس کے ہزاروں عاشق نکال لائیں گی اور شک کی نگاہیں چوبیس گھنٹے اس پر جمی رہیں گی۔ کچھ سال اولاد نہیں ہوئی، یا بیٹیاں پیدا ہونے لگیں تو بھی اس کی ذمہ دار اس ایک اکیلی عورت کو ٹھہرایا جائے گا اور اس طرح عورت دشمنی اکیلی عورت ہی بھگتتی ہے۔

خواتین اپنی حساس باتوں کو اپنی سہیلیوں، رشتہ دار خواتین تک محدود رکھ کر، مردوں سے چھپانے میں کامیاب بھی ہو سکتی ہیں لیکن وہیں کچھ خواتین ان حساس باتوں کو خاص طور پہ ان مردوں تک مرچ مصالحے لگا کر پہنچاتی ہیں، جو بات سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں اور ایسا انتہائی قدم اٹھاتے ہیں جس سے اس گھر کی خواتین کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر بہن یا بیٹی کو موبائل فون لا دیا اور اس پر کسی رانگ نمبر سے مس کال کیا آئی، تو سمجھو اس لڑکی کی شامت آ جاتی ہے، کیونکہ اس کے آس پاس منڈلاتی عورتیں یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دیتی ہیں۔

بورڈ کے امتحانوں کے دوران اکثر میں نے دیکھا ہے اور سنا بھی ہے کہ لڑکے پرچہ حل کرنے کے دوران بنا کسی حسد کے ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوتے ہیں، اور وہیں لڑکیاں، ان کو کبھی گوارا نہ ہو گا کہ اپنی ہم جماعت کی مدد کریں۔

دیہاتوں میں اگر ایک عورت پڑھ لکھ کر سدھر جاتی ہے، ملازمت کرتی ہے تو باقی خواتین اس کو نہ صرف حسد کی نگاہ سے دیکھتی ہیں بلکہ اسے برا بھلا کہنے سے نہیں کتراتیں ۔ کسی لڑکی نے برادری سے باہر پسند کی شادی کیا کر لی، اس کو اس قدر معاشرے میں رسوا کیا جائے گا جیسے اسں نے اپنے رسم و رواج کے مطابق نکاح کر کے کوئی بڑا گناہ کر دیا ہو۔ اگر ہمارے معاشرے میں، عورت کا عورت سے حسد ختم ہو جائے، وہ ایک دوسرے سے خلوص رکھیں تو، خواتین کی زندگیوں میں کافی آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔

یہ باتیں کہنے میں اتنی بڑی نہیں لیکن یہ بہت اہمیت کی حامل ہیں، اگر ان پر توجہ دی جائی۔ عورت اگر دوسری عورت کی سگی بن جائے تو مردوں کے معاشرے میں عورت اپنے جائز حقوق حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہو سکتی ہیں۔ جب ایک عورت دوسری کی ہمدرد بنے گی، اس کو سہارا دے کر اس کی مدد کرے گی، تو ہمیں اردگرد کافی مثبت تبدیلیاں نظر آئیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments