ڈنمارک کا کبڑا فلسفی اور عمران خان


کہتے ہیں ”حقیقت تصورات سے بڑی مختلف ہوتی ہے“ صرف تین سے چار سال پہلے کے سیاسی حالات و واقعات کو ذہن میں لائیں۔ عمران خان کے جلسوں، انتخابی نعروں، وعدوں اور دعووں کا تصور کریں۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان ”تبدیلی“ کا استعارہ بنے تھے۔ نوجوانوں کی آنکھیں حسین خوابوں سے بھر دی گئی تھیں، ملک کو نئے خد و خال اور نئی سمت دینے کا جذبہ عروج پر تھا۔ ایسا تاثر دیا جا رہا تھا جیسے تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ ایک ”نیا نکور“ اور ”چمکتا دمکتا پاکستان“ وجود میں آئے گا، صحرا ؤں میں بہار آ جائے گی، شادمانی کے نئے گل لالہ، دلکش ٹیولپس اور لال پیلے گلاب چارسو خوشبو بکھیریں گے۔ یوں لگتا تھا عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی پاک سرزمین سے خوشحالی کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پھوٹ پڑیں گے، لوگوں کے ہاتھ میں شنگرفی پیالے ہوں گے اور سال ہا سال کی ناآسودہ خواہشوں کی ساری تشنگی جاتی رہے گی۔ جیسا میں نے کہا ”حقیقت تصورات سے بڑی مختلف ہوتی ہے“ ۔ نئے خوشحالی کے چشمے کیا جاری ہوتے، پرانے کنویں بھی خشک ہونے لگے۔ مسرت کے نئے پھول تو نہ کھلے البتہ ہر طرف معاشی بدحالی، بے روزگاری اور مہنگائی کے خاردار تھوہر ضرور اگ آئے، جن کی نوک دار شاخیں مچھلی کے کانٹے کی طرح عوام کے حلق میں پھنسی ہیں۔

آج کا پتا نہیں لیکن چند سال پہلے تک ریاستی ادارے پوری قوت اور شدومد سے عمران خان کے پیچھے کھڑے تھے، عمران خان کے سیاسی مخالفوں کو عدالتوں سے نا اہلی اور عمران خان کو صادق و امین کے سرٹیفکیٹ مل رہے تھے۔ پی ٹی آئی کے سب سے بڑے سیاسی حریف اور اس کی حکومت کو نکیل ڈالنے کے لیے ریاستی گھیراو¿ جاری تھا۔ عوام کھلی آنکھوں سے ادارہ جاتی گٹھ جوڑ کے حیران کن اور ناقابل یقین تماشے دیکھ رہے تھے۔ سسلین مافیا کا بڑا چرچا تھا، اپنے مطلب کے فیصلے سننے کے لیے ججوں سے چھپ چھپ کر ملاقاتیں ہو رہی تھیں، انہیں ڈرایا دھمکایا اور بہلایا پھسلایا جا رہا تھا، کہیں نوجوانی کے گناہوں کے ’پکچرائزڈ ثبوت‘ انصاف پسندی کی راہ میں رکاوٹ بنے تھے، نتیجے میں عدالتوں سے قانون کے غلاف میں لپٹے سیاسی فیصلے اور تعصب میں لتھڑے ریمارکس آ رہے تھے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے عمران خان روز ایک نیا ”نسخہ کیمیا“ پیش کرتے تھے۔ عمران خان کو قوم کا مسیحا ثابت کرنے کے لیے کچھ غلام اور کچھ مجبور میڈیائی بقراطوں کو ’رٹو طوطوں‘ کا کردار تفویض کیا گیا تھا۔ ”سرکاری چوری“ کھانے کے شوقین یہ ”رٹو میاں مٹھو“ چوبیس گھنٹے ’تصوراتی پاکستان ”کے لیے پروپیگنڈہ مشین بنے تھے۔ پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین اور اس وقت کی حکومت کا ناطقہ بند کرنے کے لیے خفیہ قوتیں پوری طرح متحرک اور یکسو تھیں۔

ایک منتخب حکومت کو مفلوج کرنے کے لیے اسلام آباد کی سڑکوں پر مذہب کے نام پر جتھوں کولا بٹھایا گیا پھر جس طرح اس ڈرامے کا ”دی اینڈ“ ہوا اس پر پوری قوم کے شر شرم سے جھک گئے۔ دنیا میں ہمارا مذاق بن گیا، ریاستی اداروں نے اپنی غیر جانبداری کے نیم مردہ تاثر کو بھی اپنے ہاتھوں سے زائل کر دیا۔ یوں محسوس ہونے لگا جیسے اہم ترین اور ذمے دار عہدوں پر بیٹھی شخصیات کو اپنی انائوں کی تسکین ملکی مفاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی بس ایک شخص سے نجات ملتے ہی ملک کو تمام مسائل سے چھٹکارا مل جائے گا۔ اپنی کوتاہیوں اور نالائقیوں کا تمام ملبہ بس ایک شخص کے سر تھوپا جا رہا تھا لیکن جیسا کہ میں نے کہا ”حقیقت تصورات سے بڑی مختلف ہوتی ہے۔“

جس شخص کو میدان سیاست سے باہر کرنے کے لیے قانون، آئین اور اخلاقیات کی تمام حدیں پار کی گئیں، آج بھی پاکستان کے تمام قومی میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا، بیٹھکوں، چوک چوراہوں اور تھڑوں پر ہونے والی تمام تر سیاسی گفتگو اسی ایک شخص کے گرد طواف کر رہی ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج گواہ ہیں سیاسی مقبولیت اور عوامی حمایت کا خزانہ اس وقت بھی اسی کی جھولی میں پڑا ہے، اور تو اور اس نے پنجاب کے عوام کی پوری نفسیات ہی بدل ڈالی، حالات بتا رہے ہیں اپنے ووٹ کی حفاظت، ملک پر ناجائز قبضے اور ڈکٹیٹرز کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی میں پنجاب فرنٹ فٹ پر ہو گا۔ اس کی صرف ایک وجہ ہے اس شخص نے محض ہوائی قلعے نہیں بنائے، سبز باغوں کی سیر نہیں کرائی، عوام کے سب سے بڑے مسئلے مہنگائی کے بیل کو سختی سے نکیل ڈالے رکھی۔ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر کے ملک کو پتھر کے دور سے واپس جدید زمانے میں لے آیا، لالٹین اور دیے کی روشنی میں پڑھنے والے بچوں کو برقی روشنیاں واپس لوٹائیں۔ گرمی کی شدت سے پسینوں میں شرابور جسموں کو دوبارہ پنکھوں کی ہوا نصیب ہوئی۔ دہشت گردی کے اس ناسور کا خاتمہ کیا جس نے ملک و قوم کا مستقبل دائو پر لگا رکھا تھا۔ اس نے محض تصوراتی نہیں حقیقی ترقیاتی منصوبے تشکیل دیے جو زمین پر اپنی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا کہ تبدیلی سرکار تین سال بعد بھی اسی کے بنائے منصوبوں پر تختیاں لگا رہی ہے، دوسری جانب ان کے اپنے دامن میں چند لنگر خانوں یا فطرانہ وصولی کے سوا اور کیا ہے؟

عمران خان کو 2018 میں جو عوامی حمایت ملی سو ملی لیکن جو کھلی اور خفیہ حمایت انہیں طاقت کے اندرونی مراکز سے فراہم کی گئی، ملکی تاریخ میں اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ وہ الیکٹ ایبلز (electables) جو عمران خان کی تنقید کا سب سے بڑا نشانہ تھے، جن جاگیرداروں، صنعتکاروں، گدی نشینوں اور چودھریوں کو عمران خان ملکی نظام کی تبدیلی میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اسٹیٹس کو کی علامت سمجھتے تھے، جنہیں عمران خان لٹیرے، ڈاکو اور ”مافیاز“ قرار دیتے تھے، انہی لوگوں کو گھیر گھار کر عمران خان کے دائیں بائیں بٹھا دیا گیا۔ نئے صوبے کے جھوٹے راگ پاٹ بھی دیے گئے، ان تمام تر کوششوں، سازشوں اور ترکیبوں کے باوجود بھی جب ”دو سالہ محنت“ ضائع ہوتی محسوس ہوئی تو منصوبہ سازوں کو مجبوراً عمران خان کو آر ٹی ایس کی پالکی میں بٹھا کر وزیر اعظم ہائوس پہنچانا پڑا۔ انائوں کے سلگتے الائو بجھ گئے، سینے ٹھنڈے ہو گئے، انہیں لگا بس اب ڈرامے کی ”ہیپی اینڈنگ“ ہو گئی لیکن میں ایک بار پھر کہوں گا ”حقیقت افسانے سے بڑی مختلف ہوتی ہے“ یہ ڈرامے کا ہرگز خوش کن اختتام نہیں تھا بلکہ اصل دردناک کہانی تو اب شروع ہوئی تھی۔

عمران خان نے جس قسم کی ”افسانوی دنیا“ تخلیق کر کے بھولے بھالے عوام کو چکنے چپڑے لفظوں کے دام میں پھنسایا تھا جلد ہی اس کی حقیقت کھلنے لگی، جس یوٹوپیائی (Utopian) اور تخیلاتی ریاست کا خاکہ پیش کیا گیا تھا اب اس میں رنگ بھرنے کا وقت تھا مگر کہنا آسان اور کرنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ عمران خان کے تخت نشیں ہوتے ہی معیشت کا پہیہ الٹا چلنے لگا، ملکی تاریخ میں پہلی بار معاشی گروتھ منفی صفر اعشاریہ چار فیصد پر چلی گئی، مہنگائی کا کوبرا خوفناک پھن پھیلائے سامنے آ گیا، ایک کروڑ نئی نوکریاں کیا ملتیں، بے روزگاری کا سونامی آ گیا۔ قوم نے 65 کی جنگ میں بھی ایسے بدترین معاشی حالات نہیں دیکھے تھے۔ آٹے، چینی، بجلی گیس، پیٹرول اور دیگر عام چیزوں کی قیمتیں راکٹ پر سوار ہو گئیں۔ صرف ادویات پانچ سے چھ سوفیصد تک مہنگی ہو گئیں، مڈل کلاس تو جیسے کھائی میں جا گری، جب عوام کی جان بیلنے میں گنے کی طرح پھنس گئی تو شاہی دربار سے ’گھبرانا نہیں ”کی صدائیں سنائی دینے لگیں۔

”کرپشن فری پاکستان“ کے خواب کی تعبیر کرپشن کی نت نئی داستانوں کی صورت میں سامنے آ گئی، ایک اسکینڈل کی گونج ابھی تھمنے نہ پاتی دوسرا جنم لے لیتا، جس مافیا کا خاتمہ ہونا تھا وہ حکومت میں آ کر مزید مضبوط اور توانا ہو گیا، عمران خان کے اہم ترین سیاسی یار پرانے ادھار چکانے لگے، ہر طرف لوٹ مار مچ گئی، گورننس کے معاملے میں ملک اور خاص طور پر پنجاب تو جیسے یتیم ہو گیا۔ چیک اینڈ بیلنس کا تصور ختم ہو گیا۔ ایسا لگنے لگا کوئی ہاتھی کسی اندھیرے کمرے میں گھس گیا ہے، ہر شے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ ترقیاتی منصوبے جہاں تھے وہیں رک گئے، تبدیلی کا حسین خواب جلد ہی کابوس (nightmare) بن گیا، چونکہ ”حقیقت تصورات سے بہت مختلف ہوتی ہے“ عوام سوچنے لگے انہیں جس تبدیلی کا انتظار تھا یہ تو وہ ہرگز نہیں تھی۔ انہوں نے تو خوش بختی کے نخلستان کے سپنے دیکھے تھے مگر یہاں تو بدقسمتی کا ایک لق و دق اور تپتا صحرا ان کا منتظر تھا۔

ویسے تو سیاسی بصیرت رکھنے والوں کو اندازہ تھا کہ عمران خان جس تبدیلی کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہیں، کیونکہ عمران خان جن کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے تھے یہ طبقہ ستر سال سے بذات خود تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے لیکن عمران خان کی جھوٹی امیدوں، شیخ چلی نما خوابوں اور غیر حقیقی توقعات کا بھرم اتنی جلدی کھل جائے گا اس کی شاید کسی کو بھی توقع نہ تھی۔ اب حال یہ ہے نوے دن میں تبدیلی کے دعوے دار کو کہنا پڑا اس کے ہاتھ میں کوئی بٹن نہیں جسے دباتے ہی تبدیلی آ جائے۔ عمران خان کے لیے بدنامی مول لینے والوں کو بھی اندازہ ہو گیا وہ غلط شخص کا انتخاب کر بیٹھے ہیں۔ سلیکٹڈ حکومت آج سب کے گلے کی چھچھوندر بنی ہے، لیکن جہاں غلطی کو تسلیم کرنے کی کوئی تاریخ نہ ہو، وہاں غلطی کو درست کرنے کی امید فضول ہے، ڈھٹائی اور خود فریبی کا عالم دیکھیں، عمران خان اور ان کے ساتھی اب بھی خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ وہ ابھی تک ”پاکستان بدل رہا ہے“ کے خود ساختہ فریب میں مبتلا ہیں۔ ایسی ہی اسٹیٹ آف ڈینائل کا تجزیہ ژاں پال سارتر نے بہت پہلے کر دیا تھا۔ ”سارتر کے مضامین“ سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔

© ”جب ہم میں مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی تو ہم تصوراتی طور پر خود فریبی اور خوش فہمی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اپنے طور پر سمجھتے ہیں ہم نے مشکل حالات پر قابو پا لیا ہے حالانکہ حقیقت میں ہم نے خود کو ایک“ تخیلاتی اور طلسماتی دنیا ”میں گم کر رکھا ہوتا ہے، ہمارا تمام اطمینان فرضی ہوتا ہے۔ گویا مشکل اور کٹھن حالات کی دنیا تو اپنی جگہ جوں کی توں موجود رہتی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں جیسے ہم نے دنیا بدل دی ہے۔“

سچ یہ ہے تین سال بعد بھی اس ملک کو ”تبدیلی“ کی کوئی شاہراہ تو درکنار ایک پگڈنڈی تک میسر نہیں، عمران خان سمیت ان کے حامیوں کو بھی اپنی ناتجربہ کاری اور ناکامیوں کا پتا چل چکا ہے لیکن تلخ حقیقتوں کا اعتراف انہیں اپنی شکست محسوس ہوتی ہے، مجھےڈنمارک کے کبڑے فلسفی سورین کرکیگارڈ (Søren Kierkegaard ) کا ایک خط یاد آ رہا ہے جو اس نے اپنی محبوبہ منگیتر کو انگوٹھی واپس کرتے ہوئے لکھا تھا۔ ”اس شخص کو معاف کر دو جو کچھ اور تو کر سکتا ہے لیکن ایک لڑکی کو خوش نہیں رکھ سکتا“ خود فریبی میں رہنے سے کہیں بہتر ہوتا ہے بندہ حقیقتوں کا اعتراف کر لے تاکہ ہمیشہ کی شرمندگی، لعن طعن اور ندامت سے محفوظ رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments