شانگلہ سے دس سال پہلے اغوا ہونے والے مزدوروں کی لاشیں پشاور سے برآمد

محمد زبیر خان - صحافی


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کے سب ڈویژن درہِ آدم خیل سے 2011 میں لاپتا ہونے والے کوئلے کی کان کے 16 مزدوروں کی لاشیں انتہائی دور دراز پہاڑی سلسلے احسن خیل ضلع پشاور سے برآمد ہوئی ہیں۔

ان سب مزدوروں کا تعلق سوات کے علاقے شانگلہ سے ہے۔ یونین کونسل رانیال سے تعلق رکھنے والے پانچ لوگوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا جس میں دو سگے بھائی، ایک چچا اور دو آپس میں کزن تھے۔

ہلاک ہونے والوں میں ایک اور علاقے کے دو بھائی بھی شامل ہیں۔ جن میں ایک بھائی اس وقت ایف ایس سی کے طالب علم تھے۔

یہ بھی پڑھیے

کوئٹہ: کان حادثات میں 23 ہلاک، مزدور تنظیم کا احتجاج

کوئلے کی کانوں میں حادثات کے بڑھتے واقعات

گڈانی سانحہ: مزدوروں کی صحیح تعداد کا علم نہیں

پاگوڑی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک ہلاک مزدور عمر زادہ کے چچا شمس اللہ اپنے بھتیجے کی لاش کی شناخت کے لیے درہ آدم خیال میں موجود تھے۔

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مزدور احتجاج کررہے ہیں۔

’میں ان سے کہتا ہوں کہ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ دس سال بعد لاشیں تو مل گئی ہیں۔ اب کم از کم ہم ان کا جنازہ کریں گے۔ ان کو اچھے طریقے سے دفن کریں جس سے ان کے پیاروں کچھ سکون تو مل جائے گا۔‘

شمس اللہ کا کہنا تھا کہ ان 16 خاندانوں پر کیا بیت رہی تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب بھی کوئی عمر زادہ کے گھر کا دروازہ کھٹکاتا تھا تو اس کی ماں دوڑ کر جاتی تھی اور کہتی تھی کہ عمر زادہ سے متعلق کوئی اطلاع ہوگی۔

عمر زادہ کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ اب وہ بڑے ہوچکے ہیں۔ بیوی اور والدین کا حال تو بیان ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ 16 لاشیں نہیں 16 خاندانوں سے جڑی ایسی المناک کہانیاں ہیں۔ جن کو سننا اور سنانا ممکن نہیں ہے۔

ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا؟

لیبر یونین کونسل کول مین چراٹ کے جنرل سیکرٹری نور اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ یہ مزدور فروری 2011 کو لاپتا ہوئے تھے۔ جس کے بعد ان کا کوئی بھی پتا نہیں چل سکا تھا۔ اس وقت سے اب تک ان کی تلاش جاری تھی۔

تحریک انصاف شانگلہ کے صدر وقار احمد کا کہنا تھا کہ اس وقت 32 مزدوروں کو دہشت گردوں نے اغوا کیا تھا جن میں سے 16 کسی نہ کسی طرح دشوار گزار راستوں سے فرار ہو کر واپس پہچنے میں کامیاب ہوگے تھے اور ان 16 مزدوروں نے واقعے کے متعلق بتایا تھا۔

دہشت گردوں کی جانب سے اغوا کیے گئے مزدوروں کے لیے تاوان بھی طلب کیا جاتا رہا تھا۔ ’میرا خیال ہے کہ وہ 60 لاکھ روپے مانگ رہے تھے۔ یہ تو مزدور لوگ تھے اتنی رقم ادا نہیں کرسکتے تھے۔‘

کوئلہ کانوں کے مالکان نے چندہ بھی کیا تھا۔ مگر اس کے بعد اچانک اغوا کرنے والوں کے ساتھ رابطے منقطع ہوگئے تھے۔ اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری تھی جس بناء پر شاید اس وقت معاملات آگے نہیں چل سکے تھے۔ اب ان کی لاشیں بر آمد ہوئی ہیں۔

علی باش پاکستان سنٹرل مائن لیبر فیڈریشن صوبہ خیبر پختونخوا کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں اغوا اور ہلاک ہونے والے مزدور درہ آدم خیل کے علاقے کال خیل میں مزدوری کرتے تھے۔ وہاں سے ان کو اغوا کیا گیا تھا۔ان کے لواحقین تلاش جاری رکھے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی لاشیں انتہائی دور دراز علاقے سے نکال کر لائے ہیں۔

لاشوں تک رسائی کیسے ممکن ہوئی؟

کوہاٹ ریسیکو 1122 کے ترجمان یاسر اللہ کا کہنا تھا کہ انھیں جمعرات کی شام پشاور ہیڈ کوارٹر سے اطلاع ملی تھی کہ اُنھوں نے جمعہ کے روز ایک آپریشن کرکے لاشوں کو نکالنا ہے، جس کے لیے ایمبولینس سمیت تمام تر تیاریاں مکمل کرلی تھی۔

جمعے کے روز ٹیم درہ آدم خیل سے جمون کے علاقے میں علی الصبح ہی پہنچ گئی تھی، جہاں سے چار گھنٹے انتہائی دشوار گزار راستے پر پشاور کی طرف احسن خیل کے پہاڑی سلسلے میں پیدل سفرکر کے اس مقام تک پہنچے جہاں پر لاشیں ایک گڑھے میں پھینکی گئی تھیں۔ وہاں پر آبادی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔

یاسر اللہ کا کہنا تھا کہ لاشیں نکالنے میں ہمیں دو گھنٹے لگے تھے جس کے بعد ان کو جمون کے علاقے میں پہنچا کر وہاں سے ایمبولینسوں کے ذریعے سے شانگلہ رزانہ کیا گیا ہے۔

نور اللہ یوسفزئی لیبر یونین کول مائن چراٹ کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تمام مقتولین کے لواحقین سالوں سے اپنے پیاروں کو تلاش کررہے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں پر ان کی تلاش کا کام نہ کیا گیا ہو۔ مگر ان کا نام و نشان بھی نہیں مل رہا تھا۔

قبروں کی شناخت کیسے ہوئی؟

نور اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس دوران تین چار دن پہلے اس علاقے میں چراہوں نے گڑھے کے نشانات اور کچھ ڈھانچے دیکھے جس پر وہ لوگ ڈر گئے مگر انسانی ہمدری کی بنا پر انھوں نے یہ اطلاع مقامی لوگوں کو پہنچا دی۔ وہاں سے یہ اطلاع درہ آدم خیل میں کام کرنے والے شانگلہ کے مزدوروں تک پہنچی جو مقتولین کے اغوا کے واقعے سے آگاہی رکھتے تھے۔

ان میں سے چند مزدور اور مقتولوں کے کچھ لواحقین پہلے موقع پر گئے جہاں پر ان کو کچھ خستہ حال شناختی کارڈ بھی ملے تھے۔

انھوں نے تسلی کی کہ اس مقام پر لاشیں دفن ہیں جس کے بعد حکومت کو سارے معاملے سے آگاہ کیا گیا۔

محمد علی باش کا کہنا تھا کہ ریسیکو اہلکاروں اور موقع پر موجود ہم سب لوگوں نے لاشوں کے ایک ایک اعضاء کو اکھٹا کیا ہے۔ ان کو پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈال کر جمون کے علاقے میں پہنچایا گیا اور وہاں پر ان کو تابوتوں میں ڈالا گیا تھا۔

مقتولوں کی پسندیدہ اشیاء ان کی شناخت کا باعث بنیں

محمد علی باش کا کہنا تھا کہ لاشیں بے رحمانہ انداز میں گڑھا کود کر ایک دوسرے کے اوپر پھینکی گئی تھیں۔ ان کی ہڈیاں بھی گل سڑ چکی تھیں اور لواحقین ان کی شناخت ان کے پاس موجود کپڑوں سے کررہے تھے۔

جب پہلی لاش نکلی تو قریب ہی کھڑے ایک شخص نے چیخ ماری کہ یہ میرا بھائی ہے۔ اس سے پوچھا کہ تم نے کیسے پہچانا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ میں نے ٹوپی سے پہچانا ہے۔ اس وقت اس نے اپنے موبائل سے بھائی کی تصویر نکالی تو وہ اس میں وہ ہی سندھی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ جو لاش سے بر آمد ہوئی تھی۔

محمد علی باش کا کہنا تھا کہ وہ شخص چیخیں مار مار کر رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میرے بھائی پختونوں کی روایتی ٹوپی نہیں بلکہ سندھی ٹوپی پہنا پسند کرتے تھے۔

’کئی سال پہلے جب وہ مزدوری کے لیے گھر سے جارہے تھے تو والد نے کہا کہ بیٹا اپنے علاقے کی روایت کے مطابق ٹوپی پہنوں تو اُنھوں نے مذاق میں کہا کہ اب تو یہ ہی ٹوپی میری شناخت بن چکی ہے۔‘

محمد علی باش کا کہنا تھا کہ دوسرے شخص نے اپنے والد کی لاش کو ان کے مصنوعی دانت سے شناخت کیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ والد صاحب نے میرے سامنے یہ دانت لگوائے تھے۔ اس لیے مجھے یاد ہے۔

ان کا کہنا تھا ایک اور شخص نے اپنے بھائی کی شناخت اس کی چپلوں سے کی تھی۔ ان کے بھائی جب بلوچستان میں مزدوری کرتے تھے تو وہاں سے خصوصی طور پر اپنے لیے بلوچستان کی روایتی چپل لے کر آئے تھے جو اُنھیں بہت پسند تھی۔

ایک اور شخص کی لاش کو اس کے پاس موجود گھڑی سے پہچانا گیا تھا۔ وہ گھڑی اُنھیں سسرال کی جانب سے بطور شادی کا تحفہ ملی تھی۔ ایک اور شناخت انگوٹھی سے ہوئی تھی۔ اس انگوٹھی کو وہ اپنے لیے خوش بختی کی علامت سمجھتے تھے۔

محمد علی باش کے مطابق یہ غریب لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی خواہشات اور پسند کی اشیاء بہت چھوٹی ہوتی ہیں۔ یہ اپنی پسند کی اشیاء بہت سبنھال کر رکتھے ہیں اور ان کے قریبی عزیز بھی جانتے ہوتے ہیں کہ انھیں کیا پسند ہے۔

آج ان ہی اشیاء کی بدولت اپنے عزیزوں کی لاشوں کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

زندہ لاشیں بن چکے ہیں‘

ہلاک ہونے والے محمد اعظم کا تعلق پیر آباد کے علاقے سے ہے۔ ان کی لاش ان کے بھائیوں نے وصول کی ہے۔ محمد اعظم نے سوگواروں میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑا ہے۔ ان کے ماں باپ حیات ہیں۔

محمد اعظم کے بھائی امانت دین کا کہنا تھا کہ 10 سال گزر چکے ہیں مگر اُن کی ماں اور بھابھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوئیں کہ اعظم اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ’میرا پورا خاندان اس کام سے منسلک ہے۔ ہم لوگ آٹھ بہن بھائی ہیں۔ اعظم سب سے بڑے تھے اور میں سب سے چھوٹا ہوں جس بناء پر میں ابھی تک کام پر نہیں گیا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی کبھی وہ باہر جاتے یا باہر سے آتے تو اُن کی والدہ اور بھابھی اُنھیں جواب طلب نظروں سے دیکھا کرتی تھیں۔ ’ماں اکثر مجھ سے کہتی کہ حکومت والوں سے پوچھ کر آؤ کہ اعظم کا پتا چلا کہ نہیں۔ بھابھی نے کبھی بھی نہیں پوچھا شاید اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ بچے اگر کبھی اس سے پوچھتے تو ان کو بھی ڈانٹ دیتی تھی۔‘

قابل محمد لاڑی کے علاقے کے رہائشی ہیں۔ وہ بھی ان 16 مقتولوں میں شامل ہیں۔ ان کے چچا سراب کا کہنا تھا کہ ان کے بھتیجے کی شادی اپنے اغوا سے دو ماہ قبل ہوئی تھی۔ شادی کے بعد وہ ایک ماہ اپنے گھر میں رہے تھے جس کے بعد وہ کام پر چلے گئے تھے۔

سراب کا کہنا تھا کہ جس خاتون کے ساتھ قابل محمد کی شادی ہوئی تھی وہ بھی اُن کی بھتیجی ہے۔ ’ماں باپ، بہن بھائیوں کا دکھ اپنی جگہ مگر اس کی اہلیہ نے 10 سال جس عذاب میں گزارے ہوں گے، اس پر جو کچھ بیتی ہوگی، وہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ قتل ہو ہی چکے تھے تو ان کے بارے میں 10 سال قبل ہی گھر والوں کو اطلاع ہوجاتی تو جو کچھ قابل محمد کی اہلیہ اور اُن جیسی دوسری خواتین پر گزرا، وہ کچھ تو ان کے ساتھ نہ ہوتا۔

’قیامت گزر چکی اب صرف آنسو بہانے ہیں‘

یونین کونسل رانیاں کے علاقے میں ایک ہی خاندان کے پانچ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جن میں سردار حسین اور امام حسین بھائی، عمر رحمان اور ظاہر رحمان کزن، جبکہ امان خان ان سب کے چچا ہیں۔

رانیاں کے شہباز خان کا کہنا تھا کہ ویسے تو ہمارے علاقے میں کوئی خاندان، قوم ایسی نہیں ہوگی جس کا کوئی نہ کوئی فرد کوئلے کی مزدوری کے دوران ہلاک نہ ہوا ہو، مگر یہ تو پورا خاندان ہی اجڑ گیا ہے۔ سگے بھائیوں کے والد سردار رحمان اس خاندان کے سربراہ بھی ہیں۔

اُنھوں نے اپنے بیٹے اور بھتیجے اپنے بھائی امان خان کی نگرانی میں روانہ کیے تھے اور اپنے بھائی سے کہا تھا کہ بچوں کا خیال رکھنا جبکہ وہ علاقے میں رہ کر کوشش کریں گے کہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر لیں تاکہ خاندان کی اس کام سے جان چھوٹ جائے۔

اب وہ 10 سال بعد اپنے بھائی، بیٹوں اور بھتیجوں کی گلی سڑی لاشوں کو دفن کر رہے ہیں۔

اسلم اور امان سگے بھائی ہیں۔ دونوں کا تعلق بنڑ ڈھیری کے علاقے سے ہے۔ علی باش کہتے ہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے چھوٹا بھائی تعلیم میں بہت لائق تھا۔

انھوں نے بتایا کہ چھوٹے بھائی نے میٹرک اور ایف ایس سی میں شاندار نمبر حاصل کیے تھے۔ وہ انجینیئر بننا چاہتا تھا۔ وہ اتنی اچھی پڑھائی کرتا تھا کہ ہم لوگ چاہتے تھے کہ وہ کام پر نہ جائے۔ مگر جب اس نے ایف ایس سی کا امتحان دیا تو اس وقت اس نے کہا کہ یہ اچھا نہیں لگتا کہ میرا بھائی اور والد کام پر ہوں اور میں کام نہ کروں۔

اس نے کہا کہ جب تک امتحان کے نتائج نہیں آتے اس وقت تک کام کرتا ہوں اور نتیجہ آنے کے بعد داخلے کے لیے آجاؤں گا۔ ابھی اسے کام پر گے تھوڑی ہی دن ہوئے تھے کہ یہ واقعہ پیش آگیا۔ اس کا ایف ایس سی کا نتیجہ امتحان کے بعد آیا تھا۔

علی باش کا کہنا تھا کہ چلو 10 سال بعد تو لاشیں مل گئیں کہ ان کے لواحقین اب ان کی تلاش کا کام تو بند کردیں گے۔

شبہاز خان کا کہنا تھا کہ قیامت تو گزر چکی ہے۔ سولہ خاندانوں کے لوگوں پر جو بیتنی تھی وہ بیت چکی ہے۔ اب اچھا ہے کہ یہ آنسو بہا لیں گے شاید اس طرح ہی ان لوگوں کا غم ہلکا ہوسکے۔

انڈس ہائی وے پر احتجاج

مزدوروں کی مختلف تنظیموں اور لواحقین نے درہ آدم خیل کے علاقے میں انڈس ہائی وے پر لاشوں کے تابوتوں کو روڈ پر رکھ کر احتجاج کیا تھا جس دوران پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کے علاوہ دیگر واقعات بھی ہوئے تھے۔

احتجاج رات نو بجے شروع ہوا اور تقریباً دو بجے ڈیرہ اسماعیل خان کو پشاور سے ملانے والا بین الاضلاعی اور انتہائی مصروف ہائی وے بلاک رہی تھی۔ جس سے گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگ چکی تھیں۔

احتجاج مذاکرات کی کامیابی کے بعد ختم کیا گیا تھا۔ مذاکرات میں شریک نور اللہ یوسفزئی کے مطابق مذاکرات میں وزیر اعلیٰ کے مشیر ضیاء اللہ بنگش شریک ہوئے تھے جبکہ شانگلہ ہی سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی اور وزیر شوکت اللہ یوسفزئی کے علاوہ دیگر روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے نہیں پہنچ سکے تھے۔

نور اللہ یوسفزئی کے مطابق مذاکرات میں اُن کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں جس میں لواحقین کے لیے فی کس 26 لاکھ روپے امداد شامل ہے۔ اس کا اعلان ضیاء اللہ بنگش نے موقع پر کیا ہے جبکہ متاثرہ خاندانوں کے ایک فرد کے لیے سرکاری ملازمت کا سرکاری اعلان کرنے کے لیے انھوں نے وقت مانگا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا میں کام کے دوران ہلاک ہونے والے مزدوروں کی امدادی رقم کو تین لاکھ سے بڑھا کر پورے ملک کی طرح پانچ لاکھ روپے کرنے کا بھی مطالبہ تسلیم ہوا ہے۔

نور اللہ یوسفزئی کے مطابق قاتلوں کی تلاش کے لیے جی آئی ٹی بنانے کا مطالبہ بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ جس کے بعد احتجاج ختم کیا گیا ہے۔

سولہ مزدوروں کی لاشوں پر قانونی کاروائی کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے بی بی سی کے ضلع کوہاٹ اور پشاور پولیس سے رابطے قائم نہیں ہوئے۔ اس طرح ضیاء اللہ بنگش سے بھی رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp