گلوبلائزیشن پر عمل درآمد میں سست روی اور امریکہ کا چین فوبیا


سرد جنگ کے تمام دور میں امریکہ نے جمہوریت کو کرۂ ارض کے لیے جنت بنا کر پیش کیا اور اشتراکی آمریت کو جہنم ثابت کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا، مغرب کے ہر سرمایہ دار نظام سمیت امریکہ نے اشتراکی آمریت کو عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بنا کر پیش کیا اور سوویت یونین کے اختتام سے دنیا کے جنت نظیر بن جانے کے امکانات کا امریکی پروپیگنڈا دن رات جاری رہا۔

اشتراکی سوویت کی ناکامی کے دوران قلیل عرصے میں چین نے اپنے جغرافیہ میں خاموشی سے صنعتی انقلاب برپا کر کے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ دنیا بھر کے بازار چینی مصنوعات سے بھر گئے، ہر شخص چین میں تیارشدہ مصنوعات استعمال کرتا نظر آیا، چین میں بنی مصنوعات کی برآمدات سمیت دنیا نے تجارت کے لیے ایک دوسرے پر اپنے دروازے وا کرنے شروع کر دیے، ممالک کی کہکشاں ایک دوسرے کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ یا آزادانہ تجارت کے معاہدے دستخط کر کے تجارت کا دائرہ وسیع کرنے لگے، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی فعالیت نے ممالک کے درمیان روایتی سرحدیں نرم کرنا شروع کر دیں تاکہ عالمگیریت کا خواب حقیقت بن سکے، کسٹم ڈیوٹیز پر نظرثانی سے اشیاء کی قیمتوں میں کمی نے کھپت کے فروغ میں اضافہ شروع کر دیا۔

اشتراکی ڈکٹیٹرشپ کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے امریکی ڈالر کا بے تحاشا استعمال اور ڈالر کے چسکے میں پڑے گماشتہ حلیفوں کی حاشیہ برداری سمیت خود اشتراکی آمریت کی اندرونی کمزوریوں نے سوویت یونین کو مات تو دے ڈالی، لیکن، کرۂ ارض امریکی دعوؤں کے برخلاف ایک نئے جہنم میں دھکیل دی گئی۔

یوگوسلاویہ بکھر کر خون میں نہا گیا، عراق اور افغانستان براہ راست امریکی ہتھیاروں کی افادیت آزمانے کی تجربہ گاہ بن گئے اور برباد کر کے اندرونی شورش کے حوالے کر دیے گئے جبکہ شام، لبنان اور لیبیا کے امن غارت کر کے متحارب گروہوں کی جنگ میں جھونک دیے گئے، معصوم بچے، بوڑھے، جوان، مرد و زن لاشوں سے اٹے وطن میں اپنا سب کچھ مسمار ہوتا دیکھتے اور کربناک کیفیت پر ہاتھ ملتے رہے، گھر مسمار ہو جانے اور مذہبی انتہاء پسندوں کی خوفناک ظالمانہ کارروائیوں کے نتیجے میں اچھے بھلے خوشحال گھرانے محفوظ علاقوں کی تلاش میں اپنی، اپنے بچوں اور خاندانوں کی جان بچانے کی خاطر دنیا بھر میں در بدر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔

ان گنت جانوں کے چھن جانے کے بعد شکم کی آگ بجھانے کی خاطر لرزتے ہاتھوں سے نہ چاہتے ہوئے بھیک مانگنے پر مجبور ہونا اس جمہوریت اور عالمگیریت کے خواب کا نتیجہ ثابت ہوئی جو اشتراکی آمریت کو شکست دینے کے بعد دنیا کا نصیب بتائی جا رہی تھی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس تھی، امریکی اسلحہ کی صنعت کو معصوم جانوں پر فوقیت تھی جس نے دنیا کے امن کو تہس نہس کر ڈالا، کہیں کوئی الزام دھرا کہیں کچھ، کمزور کی لاشوں کے انبار لگا کر پورے پورے خود مختار ممالک کھنڈر بنا ڈالے۔

دنیا کا نمبر ون ہونے کے دعویدار امریکہ کو سب سے بڑا خوف اپنی نمبر ون حیثیئت کے تسلسل اور اسے قائم رکھنے کا لاحق ہو گیا، امریکہ کی اپنی سرزمین پر لگی بڑی بڑی صنعتیں اپنی زیادہ لاگت کے باعث امریکہ چھوڑ کر چین کا رخ کرنے لگیں۔ آئی فون سے لے کر مرسیڈیز بینز تک چین میں تیار ہوتی دیکھ کر امریکی رعونت نے معیشت کے میدان میں بھی اپنے ہی لگائے نعرے ”کھلا مقابلہ“ اور ”برابری“ کے مواقعوں کے نعروں کا کھوکھلا پن ظاہر کرنا شروع کر دیا۔

اس کھوکھلے پن کا عروج ڈونلڈ ٹرمپ کا دور صدارت تھا جو امریکی جمہوریت کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ اور چین فوبیا میں مبتلا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر رات میں سوتے ہوئے بھی چین کا بھوت سوار رہتا تھا، امریکہ پر سوار چین کا معاشی بھوت امریکہ کی کرۂ ارض پر مسلط کردہ جنگوں کے ساتھ مل کر عالمی معیشت کو اتنا شدید نقصان پہنچا چکا ہے جس کا ازالہ آنے والی کئی دہائیوں میں بھی ممکن نظر نہیں آتا۔

امریکہ کی جانب سے عالمگیریت یا گلوبلائزیشن کو شدید نقصان پہنچانے کے باوجود 21 ویں صدی کو ایشیاء کی صدی ہونے سے روکنا امریکہ کی بے پناہ طاقت کے لیے بھی ممکن نہیں ہے، چین کے بعد انڈیا معاشی ترقی کی تیز دوڑ میں شامل ہو چکا ہے، چین اور انڈیا کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا 36 فیصد جبکہ ایشیا کی آبادی کا 67 فی صد ہے اور تمام دنیا کے لیے سب سے بڑی مارکیٹ ہے، چین اور انڈیا اپنے آپس کے تنازعات کے باوجود لگ بھگ سو (100) بلین ڈالر سالانہ کی تجارت کرتے ہیں جبکہ مستقبل میں دونوں ممالک کی جی ڈی پی دنیا کی کل جی ڈی پی کا 35 فیصد ہو گی۔

پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک معاہدے کی شقوں میں بے حد اہم شق پاکستان کا انڈیا سے تعلقات کو معمول پر لانا اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ہے۔ انڈیا، پاکستان اور چین کے مابین تجارتی راستوں کا معمول کے مطابق کھل جانا، ان تین ممالک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے عالمگیریت یا گلوبلائزیشن میں جان ڈالنے اور عالمگیریت کے عمل کو تیز رفتار مہیا کرنے کا باعث اور امریکہ کی منفی حکمت عملی کو مثبت بنانے کا باعث بھی ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments