افغان امن ممکن ہو سکے گا؟


خطہ کی سیاست سمیت پاکستان اور افغانستان سمیت امریکہ یا دیگر طاقت ور ممالک کے سامنے بنیادی نکتہ افغان امن معاہدہ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فریقین میں تصفیہ طلب معاملات ہیں۔ کیونکہ اگر اس خطہ میں امن کی بنیاد پر تنازعات کا خاتمہ اور معاشی ترقی کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو افغان امن کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔

بہت سے سیاسی پنڈت یا افغان امن سے جڑے اہم معاملات پر باریک بینی سے نظر رکھنے والے اہم افراد کو یقین تھا کہ موجودہ صورتحال میں افغان امن معاہدہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے گا۔ لیکن اب جو حالات سامنے آرہے ہیں اس میں افغان امن معاہدے کے تناظر میں نئی سیاسی پیچیدگیاں سامنے آ رہی ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں جو اعتماد سازی کا ماحول بن رہا تھا اس میں بگاڑ یا بداعتمادی بڑھ رہی ہے، جو اچھا شگون نہیں۔

امریکی نئے صدر اور ان کی انتظامیہ کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اس برس مئی میں امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا کسی بھی طور پر امریکی مفاد میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ طے شدہ معاہدے کے باوجود مئی میں اپنی فوجیوں کے انخلا پر شدید تحفظات رکھتا ہے۔ اس پر یقینی طور پر افغان طالبان کا ردعمل فطری ہے۔ ان کے بقول اگر امریکہ نے طے شدہ معاہدے کے تحت امریکی فوجیوں کے انخلا کو یقینی نہیں بنایا تو پھر امن معاہدہ کی ناکامی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انتشار کی بڑی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہی عائد ہو گی۔

امریکہ کے مختلف تھنک ٹینک نے امریکی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ اگر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا پر افغان متحارب فریقوں کے مابین اقتدار تقسیم کرنے کے معاہدے کے بغیر واپس بلا لیا گیا تو دو تین برسوں میں طالبان افغانستان کے زیادہ تر حصوں پر دوبارہ قبضہ کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول اسی بنیاد پر وہاں القاعدہ کو دوبارہ منظم ہونے کے مواقع میسر آسکتے ہیں۔

اسی نکتے کو بنیاد بنا کر امریکہ فوری طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بارے میں مخمصے کا شکار ہے۔ اگرچہ اس تناظر میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا لیکن امکان یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ مئی میں امریکی فوجیوں کے انخلا ممکن نہیں۔ اگرچہ امریکی صدر کے بقول ہم افغانستان سے جلد نکلنا چاہتے ہیں لیکن ٹائم فریم دینا فوری طور پر ممکن نہیں۔ یقیناً امریکہ افغان کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہے لیکن کیا یہ کمبل امریکہ کو اگلے دو تین برس میں چھوڑ دے گا۔

کیونکہ ابھی تو کابل میں عبوری حکومت کے معاملات بھی طے نہیں ہوئے اور افغانستان میں حالیہ عرصوں میں شدت پسندی یا تشدد کے واقعات بڑھے ہیں۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر افغان طالبان سے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ وہاں تشدد کی نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ وہ افغانستان سے جانے سے قبل بھارت کو کسی اہم ذمہ داری میں ڈالے لیکن پاکستان اور افغان طالبان بھارت کے کسی بڑے کردار کو قبول نہیں کریں گے۔

بنیادی طور پر افغان حکومت امریکہ کے سامنے یہ نکتہ اٹھا رہی ہے کہ افغانستان میں جو پرتشدد کارروائیاں چل رہی ہیں ، اس کی بڑی ذمہ داری افغان طالبان پر عائد ہوتی ہے۔ امریکہ بھی یہ ہی سمجھتا ہے کہ ایک طرف افعان طالبان مذاکرات کو بنیاد بناتے ہیں تو دوسری طرف وہ تشدد کا راستہ بطور ہتھیار اختیار کر کے امن معاملات کو خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یقینی طور پر افغان طالبان بھی تشدد کے عمل کو فروغ دینے کا حصہ ہوسکتے ہیں۔

لیکن یہ سمجھنا کہ افغانستان میں صرف طالبان ہی تشدد کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں درست نہیں۔ دیگر فریقین کو بھی اس تشدد کی سیاست میں شامل کرنا ہو گا۔ کیونکہ طالبان تو واضح طور پر انکاری ہیں کہ وہ تشدد کی آگ کے ذمہ دار ہیں۔ اصل میں افغان امن معاہدہ کے جہاں حامی ہیں وہیں اس معاہدے کے مخالفین بھی ہیں جو امن معاہدے کو اپنے لیے کمزوری سمجھتے ہیں۔ اس لیے تشدد کو روکنا ہے تو سب فریق جو افغان امن کے حامی ہیں ان کو داخلی اور خارجی محاذ پر ان کرداروں کو سمجھنا بھی ہو گا اور بے نقاب بھی کرنا ہو گا جو اس امن معاہدے کو ناکام بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ کیونکہ محض الزام تراشیوں کی بنیاد پر افغان حکومت، امریکہ اور افغان طالبان ماسوائے معاملات کو خراب کر کے صورتحال کو اور زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیں گے۔

اچھی بات یہ ہے کہ امریکہ، افغان حکومت، طالبان اور خود پاکستان مذاکرات کی میز پر بیٹھا ہے۔ ماسکو میں ہونے والی امن کانفرنس نے بھی تعاون اور امن کے نئے امکانات کو پیدا کیا ہے۔ کیونکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر اس بار امن مذاکرات کی سیاسی میز بغیر کسی نتیجہ یا بداعتمادی یا مذاکرات سے علیحدگی کی صورت میں سامنے آتی ہے تو مستقبل میں اول دوبارہ مذاکرات کے امکانات بہت زیادہ محدود بھی ہوں گے اور دوئم کا اس کا عملی نتیجہ مزید پرتشدد سیاست کی صورت میں سامنے آئے گا۔

ایک مسئلہ خود افغان حکومت بھی ہے جو سمجھتی ہے کہ جو بھی طے ہو اس میں ان کو ہر سطح پر سیاسی برتری حاصل ہونی چاہیے۔ جبکہ طالبان یقینی طور پر ان مذاکرات کی بنیاد پر خود کو بڑی سیاسی برتری میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ مسئلہ کسی ایک فریق کی سیاسی برتری کا نہیں ہونا چاہیے اور سب کے سامنے پہلی ترجیح افغان امن معاملات کو ترجیحی سطح پر برتری دینا کا ہونی چاہیے۔ کیونکہ اگر سب فریق اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر جنگ لڑیں گے تو مسئلے کا حل ممکن نہیں ہو گا۔

طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ افغان حکومت کو غیر قانونی حکومت سمجھتے ہیں۔ طالبان سمجھتے ہیں کہ اگر امریکی فوجیوں کا انخلا ہوتا ہے تو افغان حکومت کی سیاسی سطح پر موجود طاقت کمزور ہو گی۔ اسی بنیاد پر افغان حکومت فوری طور پر امریکی فوجیوں کے انخلا کی حامی نہیں۔

اسی حوالے سے امریکی کانگریس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان تنازعات کے حل کے لیے پاکستان سب سے زیادہ اہم ملک ہے اور رہے گا۔ زلمے خلیل زاد بھی بڑی سنجیدگی کے ساتھ معاملات کو درست کرنے میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ خود بھی پاکستان کی اب تک کی تمام کوششوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور ان کے بقول جو کچھ بھی اب تک کسی بڑی پیش قدمی کی صورت میں ہوا ہے وہ پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان کو بھی اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ اگر ہم نے معاشی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو اس کی کنجی افغان امن معاملات سے جڑی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان مثبت انداز کی بنیاد پر امریکہ، افغان حکومت او رطالبان کے درمیان مفاہمتی عمل میں پیش پیش ہے۔

افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی استنبول میں ہونے والی کانفرنس میں افغان امن کے لیے ایک نیا روڈ میپ پیش کریں گے جو تین مراحل پر مبنی ہو گا۔ اول انتخابات سے قبل سیز فائر، دوئم صدارتی انتخابات اور حکومت کے قیام کا عمل اور سوئم ملک کا آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر اس سے بڑھ کر پہلا چیلنج مئی میں امریکی فوجیوں کے انخلا کی صورت میں طالبان کا ردعمل ہو گا۔ کیا وہ امن معاہدے کے ساتھ رہیں گے یا وہ خود کو علیحدہ کر لیں گے۔

اگر امریکی واقعی مئی میں امریکی فوجیوں کے انخلا کا حامی نہیں تو اسے ہر صورت میں افغان طالبان کو اعتماد میں لے کر ایک نئے فریم ورک پر باہمی اتفاق پیدا کرنا ہو گا۔ کیونکہ اس سطح پر مذاکرات کا ٹوٹنا یا کسی فریق کا باہر نکلنا افغانستان سمیت خطہ کی سیاست یا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ اس وقت سب کی نظریں اسی افغان امن معاہدے سے جڑی ہوئی ہیں اور دیکھنا ہو گا کہ اس کے نتیجے سے امن یا جنگ کا کون سا راستہ باہر نکلتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments