اپوزیشن کی لڑائی اور حکومتی پالیسی میں تبدیلی


کائنات میں حسن اور توازن کا سبب پیار، محبت اور ایثار ہیں۔ انسانوں کے باہمی تعلق کو ایک خوبصورت حدیث سے سمجھاتا ہوں۔ نبی پاکﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان بھائی محفوظ ہو۔ دوسری جگہ ارشاد نبیﷺ ہے کہ تم اپنے دو جبڑوں کے درمیان کی چیز کی ضمانت دے دو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ سبحان اللہ، یہ فرمان مصطفی ہے جس کے ہم پیروکار ہیں جنہوں نے اپنی ذات پر ظلم کرنے والوں کو بھی بلا تمیز معاف کر دیا اور رحمت للعالمین کا لقب پا گئے۔ مگر وہ لوگ جو راہ راست پر نہ آئے تو ان کے تخت و تاج تو زمیں بوس کر دیے گئے مگر جنگ ہو یا امن کبھی بھی توازن، صبر اور عدل کا دامن نہ چھوڑا۔

آج بھی ہمارے ملک کی اکثریت اپنے نبی پاک ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہے اور ان کی ذات اقدس کی روشنی میں ہی آگے قدم بڑھانے کی خواہش مند ہے۔ مگر کیا کہنے ہمارے سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے جو ہر وقت اپنی توانائیاں اندرونی چپقلشوں اور رنجشوں پر ضائع کرتے ہیں۔ نیوٹرل عوام کہ جس میں ہر مکتبہ فکر کے افراد شامل ہیں جو سیاسی بدامنی اور انتشار کا ہولناک نتیجہ ماضی میں دیکھ چکے ہیں موجودہ سیاسی صورت حال پر پریشان ہیں۔

آج سیاسی ناخداؤں میں بحث ہے کہ گدھے کے سر پر جب سینگ نہیں ہوتے تو پھر گدھے کے سر سے سینگ غائب ہونے والا محاورہ کیوں بنا۔ ان ناعاقبت اندیش سیاسی خداؤں اور عقل کے اندھو کے لیے عرض ہے کہ ہوش کے ناخن لو۔ آج پاکستانی عوام اپنے سیاسی و مذہبی اکابرین سے پوچھتے ہیں ”کس کو آباد کرو گے، ہمیں برباد کر کے“ ۔ یاد رکھو! یہ قوموں کی تعمیر کے دن ہیں نہ کہ تخریب کے۔ اب بھی وقت ہے کچھ سنور جاؤ، وگرنہ اجاڑ دیے جاؤ گے اور کوئی نہ ہو گا جہاں میں نام بھی لینے والا۔

پاکستان کا سنجیدہ طبقہ چیخ چیخ کر صدائیں دے رہا ہے ”کوئی کم ظرف میرے شہر کا سلطان نہ ہو“ مگر یاد رکھو بہت ظالم ہے طاقت کا نشہ، جس کے آگے رشتے، ناتے، تعلق داری، دینی تعلیمات، اخلاقیات اور معاشرتی مجبوریاں، سب بے کار اور فالتو شے بن جاتی ہیں ”آتش اقتدار جو بجھائے نہ بجھے اور مسند تخت کی خوشبو مٹائے نہ مٹے“ ۔

براڈ شیٹ کمیشن میں جسٹس عظمت سعید کی رپورٹ آ گئی ہے۔ چنانچہ اب ہر جگہ فساد برپا کرنے والے اور ذاتیات کے دائرے میں پھنسے ہوئے بے نقاب ہو گئے ہیں لہٰذ اب فساد، انتشار اور جنگ میں ہی ان ناہنجاروں کی نجات اور بقاء ہے جبکہ اس وقت اپنی عمدہ حکمت عملی سے عمران خان بدعنوان اور نااہل سیاست دانوں کی گاڑیوں کے آگے ناچنے والوں، شخصیت پرستی کے پیروکاروں، ابن الوقت سیاسی بندروں کو شکست دیتے ہوئے اس سیاسی اور کرپشن کے خلاف جنگ کو اعصابی جنگ میں تبدیل کر چکا ہے جو پاکستان میں گدھے کا گوشت کھانے والوں کی سمجھ سے باہر ہے۔

تو بھکاری، سمجھ رہا ہے مجھے
کاسہ پلٹوں تو تیری کائنات لے ڈوبوں

پی ڈی ایم اتحاد اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن مل کر حکومت کا مقابلہ کرنے کا پروگرام رکھتی ہے جبکہ بلوچستان میں انتخابی معرکہ میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی مل کر پی پی پی کے امیدوار کے خلاف میدان میں اتری ہیں۔ پی ڈی ایم نے اے این پی اور پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے جبکہ نون لیگ نے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن رہنما سینیٹ ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ ایسے میں احسن اقبال نے تو کمال کر دیا اور بلاول زرداری کو نومولود سیاست دان کہہ دیا ہے۔

پی پی پی اور نون لیگ کے رہنماؤں کے گرم بیانات نے بقول مریم نواز دونوں پارٹیوں کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی ہے جبکہ مریم کی صحت بھی ایک معما بن چکی ہے ، کہیں سے ایک صدا اس خاموشی کو ”ڈیل“ اور کبھی ایک صدا اس بیماری کو ”انتظار کرو پالیسی“ کا پارٹ ٹو کہتی ہے۔

دونوں پارٹیوں کے اختلافات نے ایک بار پھر سے ان پارٹیوں کی قیادتوں کی خفیہ ملاقاتوں اور نامکمل خواہشوں کے بہت سے چھپے راز فاش کر دیے ہیں۔ الزامات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور دن بدن اس میں شدت آتی جا رہی ہے ۔ دوسری طرف بلاول کے مرکز میں شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ سے رابطہ کرنے کی بات نے نون لیگ کی صفوں میں تہلکہ مچا دیا ہے اور حقیقت میں اس وقت نون لیگ بھی کئی گروہوں اور نظریات میں بٹی نظر آتی ہے۔

اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکمرانوں کو آر یا پار کرنے کے دعویدار خود پارہ پارہ ہو گئے ہیں۔ استعفے لینے اور دینے والے، لانگ مارچ کرنے والے اور حکومت گرانے والے اب خود لاوارث ہو چکے ہیں۔ حد یہ ہے کہ جو اپوزیشن موجودہ وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ کہتی تھی ، اب ایک دوسرے کو سلیکٹڈ کہہ رہی ہے۔

اس صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد اب عمران خان نے بھی اپنے ترجمانوں سے کہا ہے کہ اپوزیشن پر وقت ضائع کرنے کی بجائے عوام کو اپنی حکومت کے کاموں سے آگاہی دیں جبکہ دوسری طرف ان سیاسی جماعتوں کی لڑائی کا ایک اور غیر سیاسی فائدہ بھی ہوا ہے کہ اس لڑائی کی وجہ سے فی الحال ہمارے بچہ جمورا سیاسی قائدین کی توپوں کا رخ افواج پاکستان اور عدلیہ سے ہٹ گیا ہے اور سلامتی کے اداروں کے خلاف جاری پروپیگنڈا رک گیا ہے۔ اللہ کرے کہ مستقبل کی سیاسی لڑائی سیاسی میدانوں میں ہی لڑی جائے اور اس میں افواج پاکستان اور عدلیہ پاکستان کو بلاوجہ شامل نہ کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments