بزدل (افسانہ)


فضاء میں پہلے گارڈ اور پھر ٹرین کے وسل کی آواز یکے بعد دیگرے گونجی، اس کے ساتھ ہی ٹرین کے بے جان پہیے تھرتھرائے اور گاڑی آہستہ آہستہ پلیٹ فارم سے آگے سرکنے لگی۔ نیچے کھڑے افراد جلدی جلدی گاڑی میں سوار ہونے لگے، اسی افراتفری میں پلیٹ فارم پہ کھڑے لوگوں سے بچتا بچاتا، بیگ کندھے پہ لٹکائے بھاگتا ہوا وہ بھی آخری ڈبے میں چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ دروازے سے ہی ٹیک لگا کر اس نے اپنی سانس بحال کی۔ آگے جانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، گاڑی کچھا کھچ بھری ہوئی تھی اس لیے وہ باقی کچھ لوگوں کے ہمراہ دروازے میں ہی کھڑا ہو گیا۔ گاڑی اب شہری حدود سے باہر نکل رہی تھی۔ وہ دروازے کے دونوں اطراف میں موجود پولز کو تھامے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔

لمحہ بہ لمحہ گاڑی کی بڑھتی رفتار کی وجہ سے اطراف میں لگے درخت اور پودے پیچھے بھاگتے محسوس ہو رہے تھے، اسے وہاں کھڑے اب کچھ دیر ہو چکی تھی، گاڑی اب شہر سے نکل کر ایک پہاڑی علاقے سے گزر رہی تھی۔ تیزی سے بدلتے مناظر آہستہ آہستہ دھندلانے لگے اور اس کی نظروں کے آگے گذشتہ رات کا واقعہ چلنے لگا۔

۔۔۔

دفتر کا کام مکمل کر کے اس نے لیپ ٹاپ بند کر کے میز پر رکھا اور آنکھیں بند کر کے کرسی پر ہی نیم دراز ہو گیا۔ درد سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں سے اس نے اپنی کنپٹیاں مسلیں۔ مسلسل کام کرتے رہنے سے اس کی انگلیاں بھی دکھ رہی تھیں۔ رات جانے کتنی بیت چکی تھی۔ بند آنکھوں سے ہی اس نے سامنے موجود میز پر ہاتھ مارا، لیپ ٹاپ کے ساتھ موجود موبائل اس کے ہاتھ میں تھا۔ نیم وا آنکھوں کے سامنے لا کے اس نے موبائل کی سکرین آن کی۔

رات کے دو بجنے والے تھے۔ نیند اور سر درد سے اس کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ میز کے سامنے موجود شیشے پہ اس کی نظر پڑی۔ بے رونق چہرہ، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور چہرے پہ موجود برسوں کی تھکاوٹ۔ وہ کچھ دیر تک اپنے آپ کو شیشے میں دیکھتا رہا، پھر اس نے سر جھٹکا اور رہی سہی ہمت مجتمع کر کے کرسی سے اٹھا۔ اپنے دونوں ہاتھ ملا کے ایک زور کی انگڑائی لی، بیٹھے رہ رہ کے اس کی کمر اور ٹانگوں کے پٹھے جیسے اکڑ کے رہ گئے تھے۔

آہستہ آہستہ چلتا وہ کرسی کی پشت کی جانب موجود اپنے بیڈ تک پہنچا اور اس کے ساتھ ہی موجود سوئچ بورڈ سے اس نے کمرے کی باقی بتیاں گل کر کے ایک ہلکی روشنی والا بلب جلا دیا جس کی ملگجی روشنی پورے کمرے میں پھیل گئی۔ بیڈ کے اوپر پڑے بیگ کو اٹھا کے نیچے رکھا، صبح آفس اور اس کے بعد چونکہ آگے ویک اینڈ تھا تو گھر واپس جانے کا ارادہ تھا کہ مہینہ ہونے کو آیا تھا اور وہ گھر نہیں گیا تھا۔

وہ بستر پہ لیٹ تو گیا تھا لیکن وہ نیند جو کچھ لمحے پہلے اس پہ حاوی تھی اب جانے کہاں غائب ہو چکی تھی۔

”جانے کب اس عذاب سے جان چھوٹے گی؟“ کروٹیں بدلتے ہوئے اس نے سوچا۔

بستر پہ لیٹتے ہی نیند کے غائب ہونے کی بیماری کافی عرصے سے اس کے ساتھ تھی۔ شاید اس کی وجہ وہ خواب یا واقعات تھے جو کافی عرصے سے تواتر کے ساتھ اس کے ساتھ پیش آ رہے تھے۔ جس کی وجہ سے اسے اب سونے سے خوف آنے لگا تھا۔

جانے کتنی دیر ہو چکی تھی، کروٹیں بدلتے شاید اس کی آنکھ لگ ہی رہی تھی کہ اچانک کسی جانے پہچانے احساس سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے، ایک ہلکی لیکن مانوس سی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھنے کی کوشش کی لیکن اندھیرا اتنا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس بہت شدید تھا۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی اس کے بیڈ کی پائنتی کی طرف سے چلتا کرسی کی طرف گیا ہو۔ کرسی کے گھسیٹنے کی آواز کمرے کی خاموشی میں پیدا ہوئی، ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے کرسی کا سامنے کا حصہ بیڈ کی جانب کر دیا ہو، اس کے ساتھ ہی ایک ہلکی سی چرچراہٹ کی آواز آئی جیسے کوئی اس کرسی پہ بیٹھا ہو۔ اب شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی تھی۔

”کب تک آنکھیں بند کیے مجھ سے کتراتے رہو گے۔“ ایک مانوس سی آواز کمرے میں گونجی

گھپ اندھیرے کی وجہ اب اس کی سمجھ میں آئی تھی۔ شاید اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس نے زور لگا کے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ بولنے، حرکت کرنے اور دیکھنے کی حسیات نے کام چھوڑ رکھا تھا۔ باوجود کوشش کے وہ اپنے جسم کو حرکت نہیں دے پا رہا تھا، نہ منہ سے کوئی آواز نکل پا رہی تھی۔

” بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کرلینے سے کبوتر کی جان نہیں بچتی۔ اور پھر میں تو تمہارے بھلے کے لیے ہی آتا ہوں۔ تمہیں تمہاری بھولی ہوئی اوقات یاد دلانے۔ اب کون یقین کر سکتا ہے کہ دو ٹکے کی کلرک کی نوکری کے لیے خوار ہوتا یہ شخص سکول سے یونیورسٹی تک اپنی کلاس کے ٹاپرز میں شامل رہا ہے۔“ وہی جانی پہچانی آواز پھر سنائی دی

”میں خوش ہوں اپنی نوکری سے۔“ ادھ کھلی آنکھوں سے کرسی کی طرف دیکھتے ہوئے وہ زیر لب بڑبڑایا۔

باقی جسم ابھی تک بے حس و حرکت تھا، لیکن اب وہ کسی حد تک دیکھنے کے قابل ہو گیا تھا۔ دھندلائی ہوئی نظروں سے اس نے دیکھا، سامنے موجود کرسی پہ کسی شخص کا ایک ہیولہ سا بیٹھا محسوس ہو رہا تھا۔

”خوش۔ ہونہہ۔ اچھا مذاق ہے۔“ کرسی پہ بیٹھے اس شخص نے جیسے پہلو بدلا تھا
”میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔ یہ بھی غنیمت ہے جو مل رہا ہے مجھے“ اس کی آواز ابھی بھی بہت آہستہ تھی

”ہونہہ۔ یہی ایک ناکام اور ہارے ہوئے شخص کی نشانی ہے کہ وہ اپنے حالات میں بہتری کی کوشش کرنے کی بجائے جو ہے، جیسا ہے پہ سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔“ کرسی کی جانب سے تحقیر زدہ لہجے میں کہا گیا

”زندگی گزر رہی ہے۔ اور کیا چاہیے۔“ اس کی آواز اس کے اپنے کانوں تک بمشکل آ رہی تھی لیکن کرسی پہ موجود شخص اس کی ہر بڑبڑاہٹ کو سن رہا تھا

”زندگی گزارنے کے لیے نہیں جینے کے لیے ہوتی ہے۔ اور سوچو کیا اسی طرح جینا چاہتے تھے تم۔“
”کیا فرق پڑتا ہے کہ میں کیا چاہتا تھا۔“ اب کے وہ ذرا جھنجھلا کے بولا

”اسی بات کا تو افسوس ہے کہ تم نے اپنے خوابوں اور سب سے بڑھ کر اپنی انا اور خود داری کو گروی رکھ کر اس ذلت بھری زندگی سے سمجھوتا کر لیا ہے۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ تم جو کبھی ایک شاہانہ اور پرمسرت زندگی کے خواب دیکھا کرتے تھے، لوگوں کی نظروں میں ممتاز ہونے کی تمنا رکھتے تھے اب دوسروں کے لیے فقط ناکامی کی ایک مثال کے اور کوئی مقام نہیں رکھتے۔“

اب کی بار اس سے کچھ بولا نہ گیا۔ وہی دوبارہ گویا ہوا

”تم جو کبھی اپنے سے وابستہ لوگوں کی توقعات اور خواہشات کو پورا کرنے کاعزم رکھتے تھے اب دوسروں کی تو کیا تم تو اپنی ہی خواہشات اور ضروریات کے لیے بھی پل پل ترستے ہو۔“ اس کے لہجے میں بلا کی تلخی تھی

وہ پھر خاموش رہا اس کے پاس ان سب باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا

”چپ کیوں ہو۔ بولو ناں۔ تمہاری یہ خاموشی ہی تمہاری ناکام اور نامراد زندگی کی نوحہ خواں ہے۔ تمہاری انہی ناکامیوں نے ہی لوگوں کو تم سے دور کر کے تمہیں تنہا کر دیا ہے۔“ کرسی پہ بیٹھے شخص کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔

”میں تنہا نہیں ہوں۔ میرے گھر والے، میرے رشتہ دار اور دوست احباب میرے ساتھ ہیں۔“ اب کی بار اس سے چپ نہ رہا گیا

”تم اتنے نا سمجھ اور بیوقوف پہلے تو نہ تھے، لگتا ہے تمہارے سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں تمہاری دیگر صلاحیتوں کے ساتھ خاک ہو چکی ہیں۔ تب ہی ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ کون سے رشتہ دار، وہ جو تمہیں ذلیل کرنے اور نیچا دیکھا کے خود کو برتر ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے یا وہ مطلب پرست دوست جو صرف کام پڑنے پہ ہی تمہیں یاد کرتے ہیں اور یا پھر وہ گھر والے جنھوں نے تمہاری خواہشات اور پسند کے برخلاف، جذباتی بلیک میل کر کے تمہیں اس دوزخ میں دھکیلا ہے۔ اگر انہی سب کو تم اپنا خیر خواہ اور اپنے ساتھ سمجھتے ہو تو تم سے زیادہ ناسمجھ اور کوئی نہ ہو گا۔“ اب کی بار کرسی پہ موجود شخص نے انتہائی غصے سے کہا۔ اس کی آواز اس کے کانوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھی

”نن۔ نہیں۔ نہیں۔ تم جھو۔“ وہ بولتے بولتے رک گیا

”کیوں رک کیوں گئے، بولو کہ یہ سب جھوٹ ہے اور ایسا کچھ نہیں ہے۔ تم خود جانتے ہو کہ یہ سب سچ ہے۔ اس مطلب پرست دنیا میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہے۔ جب تک آپ کسی کے کام آ سکتے ہیں تب تک آپ کی عزت لوگ پوجنے کی حد تک کریں گے، لیکن جونہی آپ کسی کام کے نہیں رہیں گے وہ آپ کو بھولی ہوئی داستان کی طرح یاد بھی نہیں رکھیں گے۔“ وہ بپھر کے بولا

”تو میں کیا کروں؟“ اس نے آہستہ آواز میں پوچھا

”تم کچھ نہیں کر سکتے۔ تمہاری ہمت، تمہارا حوصلہ، تمہاری انا، تمہاری خوداری کچھ بھی تم میں باقی نہیں بچا۔ تم ایک راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں ہو۔“ ایسا لگا جیسے اس نے تأسف سے سر جھٹکا ہو

”میں اپنے تئیں کوشش تو کر رہا ہوں“ اس نے جیسے اپنی صفائی پیش کی

”کیا فائدہ ہوا ان کوششوں کا۔ تمہیں تمہاری قابلیت کے مطابق نوکری مل گئی؟ تمہاری زندگی سنور گئی؟ ؟ جو تم کرنا چاہتے تھے وہ تم نے حاصل کر لیا؟ دنیا میں کوئی مقام کوئی مرتبہ حاصل کر لیا؟ بولو۔“

اس کے پاس ان سب سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا

”نہیں ناں۔ تو ایسی سعی لاحاصل کا کیا فائدہ۔ خود کو جھوٹے دلاسے اور فریب سے تم خود کو کب تک دھوکہ دیتے رہو گے۔ ایسی بے بس زندگی سے تو موت بہتر ہے لیکن تم میں تو اتنی ہمت بھی نہیں کہ اپنی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ کر سکو۔ تم تو اتنے بزدل ہو کہ اپنی مرضی سے مر بھی نہیں سکتے۔“ اس کے اس آخری جملے نے اس کو تڑپا دیا

”نہیں میں بزدل نہیں ہوں“ آواز اس کے گلے میں جیسے پھنس سی گئی تھی

”اگر اتنی ہی ہمت ہوتی تم میں تو تم اس ذلت بھری زندگی سے چھٹکارا حاصل کر چکے ہوتے۔ لیکن نہیں تم تو انتہائی بزدل ہو“ انتہائی کاٹ دار لہجے میں جملہ مکمل کرتے کرتے وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا

”میں بزدل نہیں ہوں“ وہ دوبارہ چلایا۔ ٹرین کی انتہائی اونچی سیٹی میں اس کی آواز دب کے رہ گئی۔ وہ رات کے واقعات کی دنیا سے واپس آ چکا تھا۔ ٹرین اس وقت نہایت برق رفتاری سے دوڑتی کسی سرنگ میں سے گزر رہی تھی کیونکہ ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ سرنگ میں ہونے کی وجہ سے ٹرین کا شور بھی کئی گنا زیادہ ہو چکا تھا۔ ڈبے میں ایک سالخوردہ سا بلب لٹک رہا تھا جس کی روشنی ڈبے کو مکمل طور پر منور کرنے سے قطعاً قاصر تھی۔ دروازے میں لگے دونوں پولز کو تھامے اس نے باہر دیکھنے کی کوشش کی۔ بلب کی ہلکی روشنی میں اسے سرنگ کی دیواروں پہ کچھ سائے سے بنتے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے ایک تو اس کا اپنا تھا۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے اس سائے کی آنکھوں کی جگہ چمک لہرائی ہو۔ خدا کی پناہ۔ وہ یہاں بھی موجود تھا

”تم میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے“ وہ چلایا لیکن اس کی آواز ٹرین کے شور میں دب کے رہ گئی

”میں تمہیں ایسے بزدل اور بے بس لوگوں کی طرح زندگی گزارتا نہیں دیکھ سکتا۔“ اس شور میں بھی اس سائے کی آواز وہ واضح طور پہ سن سکتا تھا

”میں بزدل نہیں ہوں“ وہ دوبارہ چلایا لیکن اس کی آواز اس کے اپنے کانوں تک بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی

”بزدل نہ ہوتے تو ایسی ذلت آمیز زندگی سے موت کو ترجیح دیتے، لیکن تم تو بزدل کے ساتھ ساتھ ڈرپوک بھی ہو“ اس کے لہجے میں بلا کا تمسخر تھا

سرنگ نہایت طویل ہوتی جا رہی تھی
”میں بزدل نہیں ہوں“ اس کے دل کے کسی کونے میں دبا انا کا خوابیدہ جذبہ بیدار ہوتا جا رہا تھا

”تم کچھ نہیں کر سکتے، انتہائی کمزور انسان ہو تم۔ اگر ہمت ہے تو جان چھڑا کیوں نہیں لیتے اس بے کسی کی زندگی سے۔ لیکن نہیں تم نہیں کر سکتے۔“

”میں بزدل نہیں ہوں۔“ وہ بار بار ایک ہی جملہ چلائے جا رہا تھا۔ سرنگ اور لمبی ہوتی جا رہی تھی، اس کے گرد اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا

سامنے موجود ہیولا اس کو اپنے اوپر ہنستا محسوس ہو رہا تھا۔ سرنگ میں لہراتی اور تیز رفتاری سے دوڑتی ٹرین میں اچانک ایک خیال اس کے ذہن میں بیدار ہوا۔ وہ بزدل نہیں تھا، اس نے سوچ لیا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے

پولز کو تھامے دونوں بازؤں پہ اپنا سارا زور ڈالتے وہ باہر کو جھکا، جسے اس سائے کو چھو لینا چاہتا ہو۔

”میں بزدل نہیں ہوں“ وہ انتہائی بلند آواز میں چلا کر باہر کو اور جھکا

ہیولے کی چمکتی آنکھوں میں ایک پل کو حیرت کا شائبہ محسوس ہوا۔ ٹرین میں سوار باقی افراد نے اس بلند آواز کے تعاقب میں دروازے کی طرف نظریں دوڑائیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پولز کو چھوڑ کر باہر موجود ہیولے پہ چھلانگ لگا دی۔

ٹرین تیز رفتاری کے ساتھ لہراتی ہوئی انتہائی سرسبز کھیتوں میں سے گزر رہی تھی، اندھیری سرنگ جانے کب کی گزر چکی تھی۔

محمد نعمان، اٹک
Latest posts by محمد نعمان، اٹک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments