معراج بھائی قسط ( 3 )


آج کی رات ہمیشہ یاد رہنے والی تھی اور وہ بے حد نروس ہو رہی تھی مگر
تیمور کا مہربان رویہ اس کے اطمینان کا باعث تھا۔ رات کا ایک بج چکا تھا مہمان
جا چکے تھے اور ٹھہرنے والے بھی ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز میں بھیجے جا رہے تھے
اس وقت صائمہ نے بھی دلہا دلہن کو آرام کے لئے کہا۔

تیمور نے بے حد نرمی سے سہارا دے کر عفت کو اٹھایا۔ بی بریو، اس کے ٹھنڈے یخ ہاتھ اپنے ہاتھوں بھینچ کر تیمور نے ایک ریشمی سرگوشی کیاور عفت کا دل ٹھہر گیا۔ وہ اس کا ہاتھ تھام کر سیڑھیاں چڑھ گیا، اوپر کاوسیع و عریض پورشن جوڑے کے لئے

مخصوص کر دیا گیا تھا۔ اور بہت خوبصورتی سے دیکوریٹ کیا گیا تھا۔
کمرے میں پہنچ کر تیمور نے اسے ایک آرام دہ صوفے پر بٹھایا اور ہلکا سا گھونگٹ
اٹھا کر اس کی پیشانی کو چوم لیا،
دا موسٹ بیوٹی فل گرل آئی ہیو ایور سین!
وہ گنگنایا،
عفت کو اپنے کان اور چہرہ گرم ہوتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اور پیشانی بھی

دہک رہی تھی، تیمور کی فرینڈلی نیچر نے اجنبیت کی دیوار فوراً گرا دی اور دونوں باتیں کرنے لگے مگر عفت کچھ خاص باتیں سننا اور کرنا چاہتی تھی، وہ اپنے بارے میں

اس کی بے تابیوں اور بے چینیوں کے قصے سننا چاہتی تھی، وہ ہجر کی ان راتوں کے بارے
بتانا چاہتی تھی جو محض اس نے تیمور کو سوچتے ہوئے گزاری تھیں مگر بھید بھری
پر فسوں رات ادھر ادھر کی باتوں میں گزر رہی تھی
بہت تھک گئی ہوگی؟
وہ اس کی کمر میں بازو حمائل کرتے ہوئے بولا، عفت نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا
کچھ کھاؤ گی؟
چائے!
وہ بے اختیار بولی
شیور!
وہ ٹیکسٹ کرنے لگا
پھر اس کے پاس بیٹھ گیا اور ہاتھوں میں اس کا ہاتھ تھام کر چوم لیا۔
تم اتنی حسین کیسے ہو عفت؟
وہ اس کی چوڑیوں سے کھیل رہا تھا
عفت کو بے اختیار ہنسی آ گئی
بس اللہ نے بنا دیا!
اس بات پر دونوں کی نظر ملی اور ایک بلند وبانگ قہقہہ دونوں نے لگایا
اچھا یہ سب بہت ہی بھاری ہے پلیز چینج کر کے کمفرٹیبل ہو جاؤ۔
عفت نے محجوب انداز سے سر ہلایا اور اپنا آپ سنبھال کر اٹھنا چاہا تو تیمور نے سہارا
دیا اور وہ ملحقہ ڈریسنگ میں چلی گئی اور دیوار گیر شیشے میں اپنا روپ دیکھ کر
حیران رہ گئی، کن اپسراؤں کا روپ چرا لیا تھا اس نے، مگر تیمور کی دیوانگی اور
وارفتگی میں عجیب سا ٹھہراؤ تھا۔ وہ باہر نکلی تو ایک ٹرالی کمرے میں لوازمات
اور چائے کے ساتھ موجود تھی اور تیمور فون پر بات کر رہا تھا مگر اس کودیکھ کر
اس نے فون بند کر دیا۔
آسٹریلیا سے فرینڈ تھا، شادی کی مبارکباد دے رہا تھا
وہ اثبات میں سر ہلاتی ٹرالی کی طرف بڑھی مگر تیمور نے آگے بڑھ کر اسے بازؤں
میں لے لیا
آپ نہیں شہزادی صاحبہ چائے ہم پیش کریں گے
وہ وارفتگی سے بولا، تو وہ مسکراتے ہوئے بیڈ کی سائیڈ پر ٹک گئی
میری منہ دکھائی کہاں ہے؟
اس نے اپنی ساحر آنکھیں اٹھائیں
وہ آنکھیں سامری فن ہیں، وہ عیسی نفس ہیں دیکھو
ھمیں پر سحر ہوتے ہیں ہمیں پر دم بھی ہوتے ہیں!
تیمور نے اس کی طرف دیکھ کر کہا،
عفت نے تعجب سے اسے دیکھا
داغ کا ہے، مائی فیورٹ پوئیٹ، سارا کلام میرے فنگر ٹپس پر ہے۔
واقعی؟ یو آر سو ٹیلنٹڈ ماشا اللہ!
وہ محجوب سی تھی
ارے تمھاری منہ دکھائ
تیمور نے اپنے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا اور سائیڈ ٹیبل سے چاندی
کا ڈبہ نکا لا اور کھولا اس میں ان گنت قیمتی اینٹیک جیولری پیسز تھے
عفت یہ میری دادی کے ہیں، انھوں نے ممی کو دیے اور اب یہ تمھارے ہیں،
جو چاہے منہ دکھائی کے لیے پہن لو۔
عفت نے ایک فیروزہ جڑے بھاری چوکر کو اٹھایا
آپ پہنائیں!
مائی پلئیر
اس نے نہایت سہولت سے پہنا دیا۔
دونوں گرم چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے، عفت اس کی قربت میں پگھل رہی تھی
اور رات بیتے جا رہی تھی۔
آپ بھی چینج کر لیں
اس نے جھجک کر کہا
ہاں ضرور
مگر مجھے تھوڑی دیر آرٹ سٹوڈیو جانا پڑے گا، ایک پینٹنگ پر صرف چند
برشز چاہیں اس کو کل اٹلی بھجوانا ہے جہاں ایک سٹی ہال میں رکھی جائے گی۔
وہ چائے کا سپ لیتا ہوا بولا
عفت کا ہاتھ ایک لمحے ساکت ہوا اور ساحر آ نکھیں پھر اوپر اٹھیں،
آئی ہوپ تم مائنڈ نہیں کرو گی، آئیایم سوری مگر بہت ضروری ہے
وہ اپنا کپ ٹرالی میں رکھ رہا تھا تو عفت نے بھئی اپنا ادھ بھرا کپ واپس رکھ دیا۔
تیمور نے جلدی سے چینج کیا اور ایک آرام دہ لباس میں نکلنے کے لئے تیار تھا
میں نکل رہا ہوں اور تھوڑی میں دیر آتا ہوں،
وہ اس کا گال تھپتھپا کر نکل گیا اور عفت بے حس وحرکت بیٹھی رہی۔
پھپھو کا گھر بہت بڑا تھا، اتنا بڑا کہ سائیڈ لان میں تین بیڈروم کی ایک انیکسی
بھی تھی مگر تیمور کے آنے سے پہلے اس کورینو ویٹ کیا گیا تاکہ وہ اس میں
اپنا سٹوڈیو بھی بنا سکے اور اس کے دوستوں مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس بھی
رہے سو اب وہ وہیں گیا تھا۔
عفت نے تکیہ سیدھا کیا اور کمر ذرا ٹکائی اور آنکھ اگلے دن بارہ بجے کھلی تو وہ غائب
دماغی کے عالم میں چند ثانئیے چھت کو گھورتی رہی اور پھر نظر ساتھ ہی بے سدھ
تیمور پر پڑھی تو وہ ہڑ بڑا گئی اور رات کا تمام منظر نامہ اس کی آنکھوں کے سامنے
تھا ٹائم دیکھا تو فوراً اٹھی اور پہلے کچھ وقت تیمور کو دہکھا۔ اگر وہ حسن میں
اپنی مثال آپ تھی تو اس کا جیون ساتھی بھی لاکھوں میں ایک تھا، اس نے دھیرے
سے تیمور کے چہرے چھوا اور اپنے آپ کو یقین دلایا کہ اب وہ اس کا تھا۔
وہ باتھ روم میں گھس گئی اور ایک گھنٹہ گرم پانی میں بھیگتی رہی اور جب باہر نکلی
تو کمرے میں تیمور کی دھدیالی کزنز اور بھابیوں نے ہلچل مچا رکھی تھی اور وہ بھی
آلتی پالتی مارے ان سے فقروں کی چو مکھی لڑائی کر رہا تھا اور اس کو دیکھتے ہی وہ
اس کی جانب لپکا اور بڑھ کر اسے بازؤں میں سنبھال کر آگے بڑھا،
لیو دا پلیس فار مائی کوئین پلیز،
سب نے واقعی ملکہ کی طرح اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، ناشتے کی ٹرالیاں کمرے میں پہنچ
چکی تھیں اور سب ان سے انصاف کرنے پر تلے تھے لیکن عفت نے صرف چائے پی
اور تیمور کے بہت اصرار پر ایک ٹوسٹ کترنے لگی مگر خود تیمور نے صرف کافی لی
اسی وقت کمرے میں پھپھو اور پھپھا آ گئے تو باقی خواتین باہر نکل گئیں۔
دونوں نے کھڑے ہو کر سلام کیا تو صائمہ اور وقار نے گلے لگا کر پیار کیا بہت
سی دعائیں بھی دیں۔ تیمور نے کمال پھرتی سے ماں باپ کو کافی سرو کی اور
پھر ادھر ادھر کی باتوں کے بعد وقار نے عفت کو خاندانی عزت وآبرو کے ساتھ ساتھ
ہر چیز کا مالک و مختار قرار دیا اور بیٹے کو ہمیشہ بیوی کا خیال رکھنے کی نصیحت
کی اور وہ سب کچھ سنتی اور اثبات میں سر ہلاتی رہی مگر تیمور حسب عادت ہنسی
مذاق کرتا رہا، پھر وقار احمد عفت کا سر تھپتھپا کر باہر گئے۔
پھپھو تھوڑی دیر اور بیٹھیں اور گزشتہ رات بارات کے بہترین انتظام پر تعریف کرتی
رہیں۔
اچھا بیٹے سیلون کے لوگ چار بجے تک آ جائیں گے، آپ کے ڈریس کا ان کو پتہ ہے
اور ولیمے کے زیورات میں بھجوا رہی ہوں۔
اور آپ نے کوٰئی میک اپ کیا نا چینج کیا، ایس ہوتی ہے پہلے دن کی دلہن
وہ پیار سے کہہ رہی تھیں۔
ممی میری ناقابل یقین حد تک حسین بیوی کو میک اپ کی ضرور ہی نہیں
تیمور نے اس کے کال چھوتے ہوئے کہا،
اس میں کیا شک ہے؟ وہ ہنستے ہوئے بولیں
پھر صائمہ بھی چلی گئیں کیونکہ انھیں اسی سیلون کے لوگوں سے تیار ہونا تھا
ولیمہ بہت بڑے پیمانے پر تھا اور چوٹی کے اکابرین شامل تھے مگر ہر ایک کے
لبوں پر ایک ہی بات تھی کہ ایسا حسین جوڑا چشم فلک نے بہت کم دیکھا ہو گا
ولیمہ کی شب بھی تمام ہوئی اوروہ دونوں اتنے تھکے ہوئے تھے کہ آتے ہی بستر
پر جو گرے تو اگلی دوپہر کی ہی خبر لائے۔
اگلا پورا ہفتہ مکلاوہ اور اس کی تقریبات میں گزر گیا اور عفت کا دماغ کچھ دھندلا
رہا تھا اورکیا ٹھیک ہو رہا تھا اور کیا غلط وہ سمجھ نا پا رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ نئے جوڑے کے اعزاز میں دعوتوں نا ختم ہونے والا سلسلہ
شروع ہوجاتا، طے ہوا کہ پہلے وہ لوگ ہنی مون ٹرپ لگا لیں تا کہ سکون سے
کچھ وقت ساتھ گزار لیں اور عفت کی بات مانی گئی، وہ لوگ وقار احمد کے
نتھیا گلی والے گھر آ گئے تھے مگر ساتھ گارڈ کی گاڑی تھی اور معراج بھائی تو
دو دن پہلے ہی آآچکے تھ
ھم ہنی مون کے لئے جا رہے ہیں یا جنگ پر!
اس نے خفگی سے تیمور کو دیکھا، جو گاڑی خود ہی ڈرائیو کر رہا تھا۔
آئی مین یہ گارڈز اور معراج بھائی ان کا کیا کام ہے؟
تم نہیں سمجھو گی سویٹ ہارٹ
گھر سے دور کوئی ایمر جنسی ہو سکتی ہے تو گارڈز ضروری ہیں اور معراج بھائی
نے آ کر گھر رننگ کنڈیشن میں کیا ہوگا اور باقی انتظامات سنبھال لیں گے اور
میں اور تم تو بس۔
وہ آنکھ دبا کر اس کی طرف جھکا
شادی کے تین ہفتوں میں وہ پہلی بار اپنے آپ کو آرام دہ محسوس کر رہی تھی،
موسم بہت اچھا تھا اور موسم بہار جوبن پر آ رہا تھا لان پھولوں سے لدے
ھوئے تھے، صبح صبح پرندے چہچہاتے اور تتلیاں تمام دن ایک دوسرے کا
تعاقب کرتیں۔
گھر میں کام کاج کے لئے جو فیملی تھی وہ بہت سالوں سے گھر کے سرونٹ کواٹر
میں اپنے تین بچوں کے ساتھ مقیم تھے اور وقار فیملی کی عدم موجودگی گھر کی
دیکھ بھال اچھے طریقے سے کرتے اور جب کوئی رہنے کے لئے آتا تو چوبیس گھنٹے

گھنٹے خدمت میں حاضر رہتے تھے اوران کے بڑے بیٹے کی شادی بھی تھوڑے دن پہلے ہوئی تھی، عبدالرحمان بیس سال کا تھا اور گل پریشے سولہ سترہ برس کی تھی، دونوں اندر باہر کے کاموں میں ماں باپ کی مدد کرتے اور فارغ وقت میں برآمدے کی سیڑھیوں میں بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرتے اور ہنس ہنس کر نا تھکتے تھے۔

وہ دونوں میاں بیوی عفت کے لئے گویا کھوج کی ایک نئی دنیا تھے۔ گل پریشے کا
شرمایا ہوا سراپا اور رحمن کی اس سے الفت بہت ہی دل موہ لینے والی تھی
اس کے اور تیمور کے درمیان کچھ کڑیاں ابھی گم تھیں حالانکہ وہ تیمور کو بہت
چاہتی تھی اور اس کی موجودگی میں وہ آرام دہ محسوس کرتی تھی، وہ بھی

ایسا ہی تھا مگر کچھ تھا جو نہیں تھا۔ پریشے بہت ہی کیوٹ تھی اور جب اپنے مخصوص لہجے عبد رحمانا کہہ کر آواز دیتی تو وہ دیوانہ وار لپکتا اور اس کی وارفتگی دیکھ کر وہ اپنا چہرہ اوڑھنی میں چھپا کر اپنی ہنسی دباتی تو عفت کے وجود میں ایک سنسنی سیدوڑ جاتی تھی۔

وہ بھول گئی تھی کہ وہ بھی نئی دلہن ہے اور شہر کی گہماگہمی سے دور ان
پہاڑوں میں اور اس تنہائی میں محبت کشید کرنے آئی تھی، وہ اور اس کا حسن

بلا خیز شوہر کی محبت، دیوانگی اور وارفتگی کا حقدار ہے۔ وہ تو بس رحمان اور پریشے کی محبت میں کھو گئی تھی۔ اس نے ان کو فوراً ہی دوست بنا لیا تھا کیونکہ وہ ایسی ہی مہربان نرم مزاج اور محبت کرنے والیتھی۔

وہ لوگ صبح دیر سے اٹھتے تھے پھر سارا دن چائے کافی کے دور چلتے اور اس کے

بعد لنچ ہوگا یا ڈنر یہ تیمور کی مرضی پر منحصر ہوتا تھا۔ یہاں بھی اس کی آرٹ گیلری تھی جو معراج بھائی نے آتے ہی سیٹ کر دی تھی، وہ کچھ دیر ہر روز ایک پینٹنگ

پر کام ضرور کرتا تھا جو بعد ازاں ایک پنج ستارہ ہوٹل میں آویزاں ہونی تھی
اور موڈ ہوتا تو ستار کی تانیں بھی اڑاتا تھا اور عفت خاموشی سے اس کی
مصروفیت دیکھتی رہتی تھی۔ انھیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتاتھا کہ نوبیہاتا جوڑا
پہاڑوں میں ماہ عسل کے لئے ٹھہرا ہوا ہے۔

معراج بھائی اور تیمور ہائیکنگ کے لئے بھی جاتے تھے، شروع میں تو عفت بھی جانے کے لئے مچلی مگر تیمور نے جھٹ سے اسے بازؤں میں لے لیا۔

تم اتنے سخت کاموں کے لئے نہیں بنی ہو میری جان!
وہ اسے بازؤں میں لئے لئے ڈانس کے سٹائل میں جھومنے لگا
تو کس لئے ہوں!
وہ قاتلانہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی
اف یہ آنکھیں!
وہ اس کی دونوں آنکھوں کو باری باری چوم کر بولا
اچھا سنا ہے نیچے کوئی ڈھابہ کھلا ہے اور اس کا چکن تندوری اور ماش کی دال
تو اسلام آباد تک جاتے ہیں، تیار رہنا آتا ہوں تو چلتے ہیں
میں تیار ہوں اور کیا تیاری کرنی ہے!
عفت نے پژمردگی سے کہا
مگر وہ سنے بغیر تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا تھا۔
باقی آئندہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments