مردہ خانے میں عورت: مشرف عالم ذوقی کا فاشزم کو للکارتا ناول


جدید ہندوستان میں فاشزم دسمبر میں آیا جب لوگوں کو غسل کیے کئی کئی دن ہو جاتے ہیں اور ان کے کپڑے کالے پڑجاتے ہیں اور اسے لانے والے خانہ بدوش تھے جنھیں ’گھومنتو‘ کہا جاتاتھا اور ان میں سے ایک مارخیز کے شہر سے آیا تھا۔ وہ بوڑھا تھا، بندروں کی نسل کا، جس کے سرکے بال اڑگئے تھے، وہی ہندستان میں فاشزم کا مبلغ اور داعی تھا۔ اس اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں میں ترشول تھے، لمبے لمبے چھرے تھے۔ اس نے ہی یہاں کے امنستان میں نفرتوں کی آندھیاں چلانی اور آگ لگانی شروع کی۔

ایک خون جمادینے والے دسمبر میں تو اس نے اور اس کے اپنے بندروں نے سلطان کا بنایاہوا مقدس گھر ایک ڈھانچہ کہہ کر ’آستھا‘ کی دہائی دیتے ہوئے گرا دیا، اس کے گنبد توڑ دیے اور کبوتروں /پرندوں کے آشیانے نوچ کر پھینک دیے۔ پھر وہ اور اس کے ہم نوا بندر مقدس گھر کی اینٹیں لے بھاگے۔ اس طرح ہندستان بھر میں فاشزم کی سرخ آگ شعلے بھڑک گئے۔

R مردہ خانے میں عورت ناول میں ان ہی اقسام ہائے فاشزم کا تعاقب کیا گیا ہے اور انھیں کو للکارا گیا ہے اور ان کے بے لگام ہوتے مظالم پر قدغن لگانے یا روک تھام کی کوشش اس میں کی گئی ہے۔ یہ کوشش کامیاب تو ہے ہی، معاً اس نے فاشزم کو آئینہ ایام بھی دکھایا ہے۔

زندگی بہ نام انسان/انسانوں سے مایوس، ماضی میں بھر پور اور خوش گوار زندگی گزارنے والا ایک فرد جب اپنے پورے گھر کو مردہ خانے تبدیل کر کے سفید سفید دبیز پردے آویزاں کرلیتاہے، جب وہ موت کے انتظار میں گھربیٹھا اس کے تصور کرتا رہتا ہے اور موت کا فرشتہ کبھی عورت کی شکل میں، کبھی سجیلے گھوڑے پر، کبھی کسی جانور/چوہے کی صورت میں آتا ہے۔ جب اسے انسانوں کی بھیڑبھاڑ، ان کا شہروں میں بے ہنگام چلے چلنا، ایک دوسرے کو دھکا دے کر آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنا وغیرہ برا لگنے لگتاہے تو یہی فاشزم کی تنقید اورزندگی کی موت ہے۔ یہی فاشزم کو آئینہئی ایام دکھاناہے۔ کیو ں کہ اپنے آباد و خوشحال گھر کو مردہ خانے میں تبدیل کردینے والا شخص، ماضی میں فاشزم کا پرچارک اور مبلغ رہا ہے۔

وہ اپنی سیاسی زندگی میں پے درپے اس طرح کے حالات دیکھتا ہے جو اسے اندرسے توڑکررکھ دیتے ہیں۔ وہ سچ اور صاف گوئی کے مقابلے جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، جعل سازی اور خلط مبحث جیسی مکروہ چیزیں دیکھتاہے تو دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ وہ الیکشن میں دھاندلی، انتخابی مشینوں میں چھیڑچھاڑکے ذریعے دھاندلی اور الیکشن چوری کر کے جیت حاصل کرنا وغیرہ۔ یہ حالات اسے یہاں تک لے آتے ہیں کہ وہ ٹوٹ کررہ جاتا ہے اور اس کی زندگی کی تمام رونقیں گھر کی رونقوں سمیت مٹتی چلی جاتی ہیں۔

وہ موت کے انتظار میں گھر سجا لیتاہے، ہزارہاتصورات ذہن میں لاتارہتاہے اورموت کے نقشے بناتارہتا ہے، یا وہ نقشے خود بہ خود بنتے رہتے ہیں۔ اور جب تک موت نہیں آتی ہے وہ خود کو مردوں میں شمار کرتاہے، نہ آنکھوں میں چمک، نہ جسم وجثے میں رونق اور نہ ہی بول چال میں تازگی۔ اس پر مکمل مردنی چھاجاتی ہے۔ بس ایسا لگتا ہے جیسے وہ کسی قبرستان کا سال خوردہ گورکن ہے مزید وہ ہرچیز کو مردہ ہی تصور کرتاہے۔

مردہ خانہ]نے [ میں عورت ’میں فاشزم پر سخت چوٹ اور کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ جدید طلسم ہوش ربا کا علامتی پس منظر بھی پیش کیا گیا ہے اور اس انداز سے کہ یوں محسوس ہوتاہے جیسے ہم آ ج بھی مافوق الفطرت عناصر اور سحر و طلسم کی دنیا کے قریب ہیں اسی طرح‘ طلسم ہوش ربا ’اور‘ عمروعیار ’کے جادوئی کھیل اب بھی جاری ہیں۔ دوران مطالعہ احساس ہوتا ہے کہ بے پناہ طاقت والا جن اب بھی طلسماتی لوح کے ذریعے چراغوں کو روشن کرنے اور تاریک کرنے کا کھیل، کھیل رہا ہے۔

آج بھی قاف کے پہاڑوں سے کوئی سیاہ فام دیو دانت پھاڑکر منھ سے آگ اگل رہا ہے۔ نفرت اور تعصب، سیاست اور طاقت کے اوراق پر تہہ در تہہ ہزار داستانیں رقم ہیں اس ناول میں، جن کا سلسلہ داستان امیر حمزہ کے ہر دلعزیز کردار امیر حمزہ کے پر خطر معرکوں سے شروع ہوا اور جب انجام کو پہنچا تو مرگ انبوہ کے جادوگر نے افراسیاب کی جگہ لے لی۔

مشرف عالم ذوقی نے ان مذکورہ داستانوں کو، جو کسی صحرا میں گم ندی کی مانند ہو چکی ہیں، عہد جدید کا لباس پہنایا تو یہاں بھی ایک افراسیاب جادوگر موجود تھا۔ ’مرگ انبوہ‘ کا طوفان، ’مردہ خانہ]نے [ میں عورت‘ تک آتے آتے، اس قدر شدید ہو جاتا ہے کہ ہماری یہ خوب صورت کاینات، طلسم ہوش ربا سے زیادہ بھیانک محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہاں وہ جنگی داستانیں بھی ہیں جو یہ سناتی ہیں کہ کس طرح ایک جنگ افراسیاب جادو گر کے خلاف لڑی جا رہی ہے، وہ افراسیاب جو جادو نگری ’ہوش ربا‘ پر حکومت کرتا ہے۔ مشرف عالم ذوقی اس تہذیب کے نوحہ گر ہیں جہاں ماضی حال اور مستقبل آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں پاکستان کے مشہور نقاد، یونس خان لکھتے ہیں :

اس ناول میں ایک کیفیت کو ایک ناول کی صورت دینا یقیناً قوت متخیلہ کے زرخیز ہونے کی علامت ہے۔ اگرچہ ناول زیادہ تر علامتی ہے لیکن یہ بہت زیادہ قوت متخیلہ لیے ہوئے ہے۔ مرگ انبوہ کے مقابلے میں یہ ناول زیادہ گہرا اور زیادہ مضبوط ہے۔

رافعہ سرفراز اس طرح لکھتی ہیں :

مردہ خانہ میں عورت، جس نے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی ہے اور بہت سارے سوالات ذہن میں ڈال دیے ہیں۔ جب میں نے اس ناول کو پڑھنا شروع کیا تو ابتدا ہی سے تجسس نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ جب تک مکمل نہیں پڑھ لیا تب تک اٹھ نہیں پائی۔ میں بلا تامل کہہ سکتی ہوں کہ یہ ناول 2020 کے شاندار ناولوں میں سے ایک ہے۔

یہ ناول سات برس کی ہلاکت خیز داستان کا علامت نامہ ہے۔ مگر ان علامات کے پس پشت وہ تیس، چالیس برس ہیں جن کا ظاہری نام 1980، 1984 اور 1992 ہے۔ اس داستان میں ان ہی برسوں کے دھماکہ خیز حالات اس طرح درج ہیں جیسے مکئی کی بالوں میں دانے جڑے ہوتے ہیں۔ کسا ہوا انداز بیان، بابری مسجد کی شہادت سے پہلے ملک بھر میں نکلی رتھ یاترا کے سبب ملک بھر میں پھیلے خوف وہراس اور اس کے سیاسی پہیوں کے نیچے آئے ہزاروں معصوم لوگوں کے نوحے، سنگھ کے یوم تاسیس کے بعد سے ہی ملک میں بھڑکی نفریں آگ کا اور تقسیم ہند کا المیہ، اس ناول کی روح کو آفاق سے ملادیتے ہیں۔

اس ناول میں 2014 سے اب تک کے سات برس کی ہلاکت کی داستان کو علامتی پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہلاکت، خوں ریزی، جنگ عظیم کی وحشتوں کے درمیان بھی انسانی سفر ختم نہیں ہوتا۔ دھول کی چادر میں لپٹی ہوئی زہریلی گیسیں تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہیں، یہ ہماری اس نئی دنیا کا سچ ہے، جہاں تمام تر اقدامات کے باوجود ماحولیات کے تحفظ میں ہم ناکام رہے ہیں۔ ایک ایسی دنیا اور سیاسی نظام سامنے ہے جہاں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے خوفناک اثرات کو دیکھتے ہوئے کتنی ہی امن پسند تنظیموں کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ جس قدر بھی ممکن ہو سکے تیسری جنگ عظیم کی صورت حال کو پیداہونے سے روکا جائے۔

آج انسانی حقوق و تحفظ سے وابستہ تنظیمیں بے بس ہیں اور ہم آہستہ آہستہ جنگی کہرے میں گھرتے جا رہے ہیں۔ صیہونی فوجیوں کی انتقامی کارروائیاں، میانمار کے مظالم، روہنگیائی مسلمانوں کی بربادی، کابل میں مسلسل ہونے والے خودکش حملے، شام اور فلسطین میں ہونے والی انہدامی کارروائیاں، ہندستان میں زعفرانی چوغے کا غلبہ اور مصنوعی مور سے جاری ہونے والا خون، اقلیتوں کے لیے نفرت کا کھلا اظہار، چین، جاپان، امریکہ اور روس کی حکمت عملیاں، سیاسی میزائل تاناشاہوں کے حرم سے باہر نکل کر ایک دوسرے پر یلغار کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی اس بات سے واقف ہیں کہ عالمی سیاست پر آہستہ آہستہ جنگ عظیم کے خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ اس خوفناک ماحول سے بے نیاز ہو کر بہتر ادب تخلیق نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناول ایک ایسا بیانیہ ہے جس میں توہمات اور مفروضے نہیں، حقیقت ہے حقیقت اوراس حقیقت کو استعارے اور مجاز میں گھول کر ابہامات کی شکلیں بناکر دینا کے سامنے پیش کرنا نہایت مشکل ترین عمل سے گزرنا ہے۔ جیسے خارزار راہ سے گزرنا اور دھیان رکھنا کہ کوئی کانٹا چبھنے نہ پائے۔

یا کوچہ قاتل میں آنا اور صحیح سلامت گزرجانا۔ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی ملک بالخصوص ہندستان کے دیوالیہ پن کی اس سے زیادہ خوف ناک تصویر ایک ناول کی شکل میں مغرب کے عظیم فن کاروں میں بھی خال خال دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ سفاک وقت ملک ہندستان کی زعفرانی قوتوں، اینٹی سیکولر ازم فورسس اور فاسسٹ گروپس کے ساتھ مل کر حالات کو مخدوش بنایارہا اور گھٹن اس قدر ہے کہ اپنی ہی سانسوں پر ہی اعتبار نہیں۔ گھٹتی سانسیں مردگی کی جانب لے جا رہی ہے۔ اگر کوئی ہنستا نظرآ رہا ہے تواس کے پیچھے چھپی مردنی بھی صاف جھلکتی ہے۔ کوئی اگر آسودہ دکھتاہے، اس کا مردہ پن بھی دکھنے لگتاہے۔

کیا ہم دسمبر کے بارے میں سوچ سکتے تھے؟ ان میں سے ایک نے پوچھا جو ابھی تک ایک بڑے سے چھرے کو پتھرپر رگڑرہا تھا۔

دسمبر، جہاں آگ روشنی دیتی ہے۔ کدال اورپھاوڑے گنبدوں کو ڈھادیتے ہیں اور پرندے آسمانوں میں چھپ جاتے ہیں۔

خوب۔ دسمبر۔ اور بوڑھے نے فرض کیا کہ اس کے ہاتھ میں بھی ایک اینٹ ہے۔ جس پر سنسکرت زبان میں کچھ لکھا ہوا ہے۔ کاش وہ سنسکرت کی سمجھ رکھتا۔ مگر اس نے اپنے لیے یاترائیں چنیں۔ تیرتھ یاترا۔ رتھ یاترا۔ رتھ یاترا اور دسمبر، جب کہرے آسمان پر چھاجاتے ہیں اوررتھ یاترا کے ٹائر اس طرح گھومتے ہیں اور ناچتے ہیں جیسے سفید گھوڑے آسمانوں پر رقص کر رہے ہوں۔ جب رات کو ٹمٹماتے دیے بجھ رہے تھے، وہ خانہ بدوشوں کو جمع کر رہا تھا اور یہ خانہ بدوش پورے ملک کے جنگلوں سے آئے تھے۔

٭٭٭

دیکھو۔ پرانی عمارت تھی۔ مگر اب نہیں ہے۔ صرف انسان نہیں گم ہوتے۔ نقشے گم ہو جاتے ہیں۔ عمارتیں گم ہوجاتی ہیں۔ مکاں گم ہو جاتے ہیں۔ مکیں گم ہو جاتے ہیں۔

مسیح سپرا ہے۔
مسیح سپرا بھی نہیں رہے گا۔
٭٭٭
جنگلی بلیاں۔ کیا ان بلیو ں کا رنگ زعفرانی ہوگا؟

ہاں۔ اور زمین کا بھی ہے۔ اور ملک کے نقشے کا بھی۔ فصیلوں کا رنگ بھی۔ یہاں تک کہ ہمارے چہروں کا رنگ بھی۔

کیا ہمارے لیے زنداں کے دروازے بھی ہوں گے۔ ؟
ہاں ہوں گے۔ تب تک ہم اپنے گھوڑوں پر بہت آگے نکل چکے ہوں گے۔

بوڑھے نے اشارہ کیا۔ دوبرس قبل ہم نے اسی مقام پر گولیاں کھائی تھیں۔ اور اب پرندے اڑگئے۔ گنبد ٹوٹ گیا۔ ملبہ میں حیرتیں دفن ہیں۔

٭٭٭
قہقہہ کیوں؟ بندروں نے پوچھ لیا۔
ہم انسانی ہڈیوں کے ڈھانچے پر بنائی جانے والی سیاست میں کامیاب ہو گئے۔
کامیاب؟ تو کیا ہم خانہ بدوش سزا سے بچ جائیں گے؟
ہاں۔
تو پھر سیکولر ازم کا کیا؟
میرے پیارے خانہ بدوش بھی سیکولر ازم کی زبان سمجھتے ہیں؟ بوڑھا ہنسا۔
اور عدالت؟ عدالت کا کیا کریں گے آپ؟
ہاں وقت بدل چکا ہے۔
٭٭٭

بوڑھے نے ہاتھ ہلایا اور اسی لمحہ اس نے دیکھا، اس شخص نے جھک کر اس کے ہاتھ کو تھاما ہواہے۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی داڑھی تھی ]جو اب کئی بالشت بڑھ چکی ہے [وہ دبلا پتلا تھا۔ ]اس کے [کپڑے گندے اور دھول سے بھرے تھے۔ اور اس نے بوڑھے کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور عقیدت سے دریافت کیا۔

آپ تھک گئے ہیں۔ میں آپ کے لیے چائے لے کر ابھی حاضر ہوتاہوں۔
٭٭٭

ممکن ہے زندان کا دروازہ ہم پر کھول دیاجائے۔ ممکن ہے مذہبی عمارت گرانے کے عوض ہم پر مقدمہ چلایا جائے۔ مگر یہاں ہم سب دوست ہیں۔ جوزندان کے پالن ہار ہیں، وہ بھی۔ جو بیڑیوں میں قید ہیں، وہ بھی۔ جو وحشتوں کے اسیر ہیں، وہ بھی۔ جو حکومت کے طرف دار ہیں، وہ بھی۔ اس لیے تماشا تو ضرور ہوگا۔ لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا، کیوں کہ یہاں سب اپنے ہیں اور ان کی تعداد بہت کم ہیں جو پرانی عمارت سے چپکے ہوئے ہیں۔

٭٭٭
اور تم پر ذمہ داری تھی کہ پرانی عمارت۔
میں ایک مذہبی آدمی بھی ہوں۔
کیا مذہبی آدمی آئین اور دستور کا خیال نہیں رکھتا؟
مذہب کا دائرہ ان دائروں سے زیادہ بلند ہے۔
کیا تم کو معلوم ہے کہ افراتفری میں کتنے لوگوں کی جان گئی؟
تین سو چھیاسی
اور اس موقع پر کتنے شہروں میں فساد ہوا؟
ایک سو باون
ذمہ دار کون ہوا؟
سلطان]بابر[
کیا سلطان نے پرانی عمارت تعمیر کی تھی؟
ایسا ہی ہے
کیا پرانی سے بھی پہلے بھی کوئی عمارت تھی، اس کا کوئی ثبوت ہے؟
آستھا ہے
آستھا کا تعلق کن لوگوں سے ہے؟
صرف اکثریت سے
اور اقلیت؟
حکومت اقلیتوں کے ووٹ سے تعمیر نہیں ہوتی۔
٭٭٭

وقت بدل چکا تھا۔ سیاسی لہروں میں چیخنے اور چلانے کی ہزاروں دردناک آوازوں نے سپرا اور ریحانہ کی سرگوشیوں میں ڈر گھول دیا تھا۔ سپرا نے موت کو دیکھ لیا تھا۔ اسے چیخیں سنائی دیتی تھیں۔ جمہوریت کی چیخ۔ قانون کی چیخ۔ مردوں کی چیخ، چیخیں بہت دردناک ہوتیں اور سپرا نے ان ہی چیخوں کے درمیان خود کو مردہ تصور کر لیا تھا۔

٭٭٭
تو کیا سچ دنیا ختم ہو چکی تھی۔
ہاں۔
جنھوں نے خود کو مردہ سمجھ لیا تھا وہ اس دنیا میں نہیں تھے۔
٭٭٭

سب کچھ ویسا نہیں ہے، جیسا ایک اندھیری رات میں ہوتا ہے، جب ہم سوئے رہتے ہیں آرام سے اپنے گھروں میں، کچھ لوگ اس وقت بھی نیندمیں چلتے ہوئے ہمیں ہلاک کرنے آ جاتے ہیں۔

٭٭٭

بچپن سے شیکسپیئر اور میکسم گورکی کو پڑھنے والی گل بانو غربت نے اسے خاندانی پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

مگر کیسے؟ گل بانو اس ناول کا مضبوط کردار ہے مگر میں دیکھ رہاہوں کہ اس کی تقدیر کی ریکھائیں بدل رہی ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ گل بانو کسی صندوق کے بارے میں پوچھ رہی ہے :

صندوق؟
ہاں صندوق
صندوق کیسا؟

وقت آنے پر سب بتاؤں گی۔ ماں کا جواب ہوتا۔ دیو نما صندوق میں کیا ہونا چاہیے؟ صندوق سے کسی سرنگ کا راستہ تو نہیں؟

گل بانو سوچتی اور وہ یہ بھی سوچتی کہ صندوق کھلے گا اور ایک بدشکل دیو یا راکھشش یا ہاتھی باہر آ جائے گا اور اسے کھالے گا۔ ایک اجنبی شخص جس نے نور جہاں اور گل بانو کو قحبہ خانوں کی کھائی سے نکال کر بنگلے میں سجایا اور جس کے ساتھ نور جہاں کی جنسیت کا رشتہ بھی قائم تھا، اس کی موت نے نورجہاں کی محبت کو خوب متاثر کیا۔

غربت آ گئی اور صندوق کے سارے دروازے کھل گئے۔ گل بانو نے اپنی اور ماں کی بھوک کو مٹانے کے لیے اپنے جسم کو نچوڑ کر ہوس کی الگنی پر لٹکانا شروع کر دیا۔ میں دیکھ رہاہوں، صندوق سے کئی راستے پیدا ہوچکے ہیں : طوائف۔ دولت۔ انقلاب!

انقلاب؟ اور وہ بھی طوائف سے؟
ہاں۔
اور اسی طوائف نے ایک بڑے راکھشش کو قتل کیا۔
تمہیں پتا بھی ہے کس کا قتل ہوا؟
ہاں شہر کے بڑے کمشنر راٹھور کا۔
کس نے قتل کیا ہوگا؟ ایک پولیس والا اپنے ساتھی سے پوچھ رہا ہے۔
نہیں معلوم۔

گل بانو نے راکھشش کا قتل کر دیا ہے اور میں دیکھ رہاہوں کہ وہ قتل کر کے مسلسل بھاگ رہی ہے۔ باہر آندھی اور بارش کی تیزی ہے۔ گل بانو کے کپڑے بھیگ چکے ہیں یہ لڑکی اب کہاں پناہ لے گی؟ اسے ایک نیم پلیٹ ملا: مردہ گھر۔ یہ لفظ اس پلیٹ پر لکھا ہوا ملا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک شخص باہر نکلا۔ اس نے محسوس کیا کہ قبر پھٹ چکی ہے اور ایک مردہ اس کے سامنے آکھڑا ہے۔ کیا میں یہاں رہ سکتی ہوں؟ ہاں۔ اندر آ جاؤ۔ اجنبی نے غور سے دیکھ کر کہا۔ یہ کیسی جگہ ہے؟ اتنا گہرا اندھیرا کس لیے؟ مردہ گھر۔ مردہ گھر؟ لائٹ نہیں ہے؟ مردہ گھر میں روشنی نہیں ہوتی اور یہ سفید چادریں؟ مردوں کا کفن سفید ہوتا ہے اور یہ عورت؟ موت کی دیوی، جو روح قبض کرتی ہے۔ ہاں۔ مطلب ابھی تم زندہ ہو۔

پتا نہیں۔

مسیح سپرا نے چاند کو افق میں خون سے غسل کرتے دیکھا تھا۔ ان ہی سرخیوں کے درمیان اس نے خود کو پہلے ہی ثابت کر دیا تھا کہ وہ مرچکا ہے اور گل بانو کو بھی انقلاب کے اندر سے نکلنے والی چندا کی دردناک چیخ نے سپرا کے مردہ گھر کا راستہ بتادیا تھا۔

میں نے جان لیا کہ ماضی میں طوائف کے پیشے سے نکل کر عورت مردہ خانے میں قدم رکھ چکی ہے۔ مردہ گھر کے اندر دو مردے ہیں : مسیح سپرا اور گل بانو۔ جو پناہ گزین ہے اور ابھی مردنی کی پوری طرح عادی نہیں ہوئی تھی۔

مگر کیا یہ دو ہی مردے ہیں؟

مسیح سپرا ہو یا گل بانو۔ دونوں کے کردار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سپرا اور گل بانو جیسے لوگ ہی نہیں، ہم بھی مردہ ہیں۔ ہماری تہذیب و ثقافت بھی۔ ہماری بھائی چارگی بھی۔ ہماری شان وشوکت بھی اور ہمارا مستقبل بھی مردہ گھر کے سوا کچھ بھی نہیں۔

یہاں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو مردہ ہونے کا احساس نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ۔ مگر جب دلی کی قطب مینار کی بلندی سے ایک مصور ہندستانی گنگا جمنی تہذیب کی رنگینیوں کو کینوس پر بھرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ہاتھوں سے برش چھوٹ جاتا ہے کیوں کہ کینوس پر رنگ بھرنے والا مصور بھی مرچکا ہوتا ہے۔

یہاں کوئی بھی ایسا نہیں جو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہو کہ وہ زندہ ہے۔

مذکورہ بالایہ تمام اقتباسات کے مطالعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندستان کے ساتھ ایک مخصوص ٹولے نے کس طرح دھوکہ دیا ہے۔ کس طرح اس کے خلاف گہری سازشیں کی گئیں، کس طرح محض آستھا/واہمہ کی بنیاد پر ایک تاریخی عمارت کو زمیں بوس کر دیا گیا۔ اس طرح عدالتوں میں ججس کی آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر اپنے مذہب]اکثریت[کو آئین اور دستور سے بالابنایا گیا، اس مقدس گھر اور اس کے گنبد کے گرنے کے بعد جو تین سوچھیاسی جانیں گئیں اور ایک سو باون شہروں میں جو فساد برپا ہوا اس کا ذمے دار کس سلطان بابر کو بنا دیا گیا۔ اورعدالت ان کا منھ دیکھتی رہ گئی۔

اس طرح اس ناول میں ملک کے سیکولر ازم اور ہندستان کی سالمیت پر چمٹے فاسسٹ چمگادڑوں، الوؤں ٹڈیوں پر ضرب کاری لگانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ناول میں اس نظام پر سخت تنقید میں جسے چند طاقت ور وں نے یرغمال بنالیاہے اور وہ اب اس کی طاقت یونٹس ]سول پولیس سے لے کر آرمڈ پولیس [تک کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں بسا درد، اس میں موجود تاریخی اشارے، اس میں موجود خدشات اور اندیشوں کے کنائے یہی سب کہتے ہیں کہ اگر بھارت ورش کو بچانا ہے یا آنے والی نسلوں کوصحیح سلامت سونپنا ہے تو ان موجودہ عناصر سے ٹکرانا ہی ہوگا، جنھوں نے ملک میں لامتناہی خلفشار اور انتشاربرپا کردیے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ انسان کو انسان انسیت کے بجائے وحشت ہو گئی۔

مردہ خانہ میں عورت، ہزاروں عنوانات، معانی، جہات، کثیر الموضوعاتی، متنوع فکر اور ہر قاری کے مشاہدے، تجربے، اس کی زندگی میں پیش آمدہ حاثات وسانحات کے فریم میں متناسب آتی ہے۔ چنانچہ قاری اس کے موضوعات، تاثرات اور پیغامات کو اسی طرح قبول کرتا ہے اور اس کی نیرنگ فضاؤں میں گھل جاتا ہے ۔

مجھے تویہ بھارت ورش کی موجودہ صورت حال کا ایسا نوحہ لگتاہے جس کے پیچھے سلگتے ہوئے تیس برسوں کے دردوغم، نفرتیں، تکالیف، فسادات، اقلیتوں کے بے رحم قتل اور خون کی دہائیاں اور آنسوؤں کابے کراں سمندر ہے۔ آگ کا اور خون کا ایک دریا اس نوحے کی روانی میں معاون بنتا ہے، ایک مختلف الصوت چیخوں کاسیل رواں جو اس نوحے کے سوز میں مل گیا ہے ۔ اس طرح زندگی مردگی اور ہر زندہ مردہ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ حقیقت اشیادھندلی ہوتی جاتی ہے اور کاینات پر ایک سفید مردوں والی چادر دراز ہوتی جا رہی ہے۔

نوحہ زن نوحہ زنی میں مصروف ہیں اور زعفرانی راکشش، شیطان کا ہمزاد دورکہیں پہاڑوں پر کھڑا مونچھوں کو بل دیتا ہوا گلاپھاڑکر ہنستاہے اور معصوم انسانیت سہم جاتی ہے۔ خانہ بدوش بندر اور ان کا بوڑھا سردار اور اسے چائے پلانے والا اب مزید سفاک ہو گئے ہیں۔ آباد اور ہر ے بھر ے شہروں سے انھیں نکالنا ایک گمبھیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ مقدس گھرآستھا کی بنیاد پر دیے گئے ایک عدالتی فیصلے کے بعد مکمل زمین سے ملادیا گیا ہے دھیرے دھیرے ہندستان کی اقلیتوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments