انگلش لوپ سیاسی خرگوش …


25 اپریل 1996ء… یہ ہے وہ تاریخ سازدن جب ورلڈ کپ کے فاتح نے سیاسی میدان فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ عمران احمد خان نیازی نے ’تحریک انصاف‘کی بنیاد رکھی۔ ’ انصاف، انسانیت اور خود داری‘ پارٹی کا نعرہ تھا مگر آل راوَنڈر کرکٹر کے لیے سیاسی کھیل توقع سے بھی زیادہ کٹھن اورصبر آزما ثابت ہوا۔ ہر کوشش اور جتن کے باوجود دو دہائیوں تک کپتان سیاست کا بارہواں کھلاڑی ہی رہا۔ آخرکار ایک بات عمران خان کی سمجھ میں آگئی، پاکستان میں اقتدار کا راستہ اسٹیبلشمنٹ کی راہداریوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ ملک کی واحد طاقت ہے جو جادوئی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔ یہ چاہے تو کسی تانگہ پارٹی کے جلسے میں لاکھوں لوگوں کو مینار پاکستان میں لابٹھائے اور نہ چاہے تو بڑی سے بڑی سیاسی جماعت کے جلسہ گاہ میں اُلوبولتے سنائی دیں۔ یہ کسی گدھے کے سر میں لومڑی اور کسی لومڑی کے دماغ میں گدھے کا بھیجا بھی فٹ کر سکتی ہے، پاکستان میں آپ کتنے بھی سیاسی طرم خان کیوں نہ ہوں اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملائے بغیر اقتدارکا ’ہما‘ آپ کے سر پر بیٹھنے کی گستاخی نہیں کرسکتا۔ عمران خان نے بھی یہی کیا اوراپنا سیاسی اخلاقیات کا خلائی گھونسلہ زمین پر لے آئے۔ مثالیت پسندی چھوڑ کر حقیقت پسندی کا چوغا پہن لیا۔

2014 کے دھرنوں سے شروع ہونے والا عمران خان کا یہ نیا روپ 2018 کے عام انتخابات میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔ کپتان کو 22 برسوں میں اتنا تو اندازہ ہو گیا تھا معاشرہ ایک واضح سیاسی او ر سماجی تبدیلی کے لیے مچل رہا ہے۔ عمران خان نے عوام کی اسی’’مچلتی خواہش ‘‘پراپنا انتخابی منشور استوار کیا۔ ’نیا پاکستان‘،’دو نہیں ایک پاکستان‘اور ’تبدیلی‘ کانعرہ اس زور و شور اور تکرار سے لگایا کہ بڑے بڑے زیرک اورعقاب نگاہی کے دعوے دار بھی سیاسی نظربندی کا شکار ہوگئے۔ خاص طور پر نوجوان نسل تو کپتان کی دیوانی ہوگئی۔

عمران خان نے عدالتوں میں ذلیل وخوار ہوتے عوام کو سستا انصاف دلانے کا یقین دلایا۔ پولیس نظام اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے اور 90 دنوں میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے دعوے کیے۔ عوام کو باور کرایاگیا تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی نوکریاں لوگوں کے گھروں پر خود دستک دیں گی۔ مہنگائی کی کمر ہی نہیں ہاتھ پاؤں ٹانگیں سب توڑ دی جائیں گی۔ پاکستانیوں کے مذہبی جذبات کا سوچا سمجھا سہارا لیتے ہوئے ’ریاست مدینہ‘ کی دن رات گردان کی۔ عوام کو یقین ہوگیا پی ٹی آئی کی حکومت بنتے ہی 100 دنوں میں ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ ایک الف لیلوی جھماکا ہوگا اور لوگ اپنی تنگ و تاریک اور بساند زدہ کوٹھڑیوں کی جگہ خود کو کسی شاہی محل میں استراحت کرتا ہوا پائیں گے۔

ولادی میر الیچ الیانوف المعروف لینن کے الفاظ ہیں ’لوگ سیاست میں ہمیشہ دھوکہ دہی اور خود فریبی کا شکار رہے ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک ان میں اتنی صلاحیت پیدا نہیں ہو جاتی کہ وہ (جھوٹے) ترقیاتی اعلانات اور کھوکھلے (انتخابی) وعدوں کے پیچھے سیاسی رہنماؤں کے ذاتی مفادات کا پتا نہ چلاسکیں ‘۔بے چارے سادہ دل پاکستانیوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ عمران خان کے دلکش تصوراتی نعروں کے پُرفریب جال میں پھنستے چلے گئے۔ کسی نے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی عمران خان جس تخیلاتی ’فردوس بریں ‘ کا خواب دکھا رہے ہیں اس تک پہنچنا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ عوام کی اسی سادہ مزاجی نے ان تمام مرئی اور غیر مرئی طاقتوں کا راستہ اور بھی آسان کردیا جو عمران خان کو مسند اقتدار تک بٹھانے کے لیے 2014سے تڑپ رہی تھیں۔ پھر 18 اگست 2018 کا وہ دن بھی آیا جب عمران خان وزارت عظمی ٰکی کرسی پر بیٹھ گئے۔

عمران خان حکومت کو ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا لیکن حقیقت یہ ہے عمران خان کے انتخابی نعرے اور وعدے اپنی طبعی عمر پوری کرکے مر چکے۔ کوئی ایک ایسا عہد نہیں بچا جسے اب تک توڑا نہ گیا ہو۔ شاید یہ پاکستان کی تاریخ کی واحد حکومت ہے جس نے جو کام کرنے کا کہا وہ ہرگز نہیں کیا اور جسے نہ کرنے کا کہا وہ ضرور کیا ہے۔ ’’مر جاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا‘‘ کہنے والے نے ڈھائی برس میں 14 ہزار ارب کا ریکارڈ قرضہ لیا۔ جس معیشت نے ستاروں کو چھونا تھا وہ زمین میں دھنستی چلی گئی، ملک میں پہلی بار ہماری معاشی نمو صفر سے بھی نیچے چلی گئی۔ عالم یہ ہے کہ آج ملکی معیشت آئی ایم ایف کے مرکھنے بیل کے سینگوں پر رکھی ہے اور بائیس کروڑ عوام اس کی خوفناک ٹکروں کی زد میں ہیں۔

ہم ایک ایسا اپاہج زدہ نظام دیکھ رہے ہیں جس میں کوئی چیز آگے بڑھ ہی نہیں رہی۔ بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہے کیا موجودہ نظام سے زیادہ برا نظام بھی کوئی ہو سکتا ہے۔ آج ہر مصیبت اسی طبقے کے گلے پڑی ہے جس کی قسمت بدلنے کے دعوے کیے گئے تھے۔ جو نظریہ پیٹ بھرنے آیا تھا اسی نے پیٹ پر پتھر باندھ دیے۔ صرف دو سال میں دس لاکھ سے زیادہ افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ، جس کرپشن کے ناسور کو ختم کرنا تھا وہ اور پھیلتا گیا ، نیا پاکستان کرپٹ ملکوں کی فہرست میں اوپر سے اوپر جا رہا ہے۔ یورپ کی ترقی کی مثالیں دینے والے عمران خان آج قوم کو سمجھا رہے ہیں شکر کریں پاکستان کے حالات وینزویلا جیسے نہیں ہوئے ورنہ یہاں بھی 90 فیصد افراد غربت کے دوزخ میں سڑ رہے ہوتے اور افراط زر 90 ہزار فیصد تک پہنچ چکا ہوتا۔

عمران خان دن رات مافیاز کے خلاف بات کیا کرتے تھے لیکن چینی ، پیٹرول ، آٹا اور ادویات سمیت تمام مافیاز کو جتنا اس حکومت میں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا اس کی مثال نہیں ملتی۔ عوام کو ریلیف کیا ملتا الٹا مہنگائی آسمان سے اولوں کی طرح برس رہی ہے۔ عمران خان کے انتخابی منشور کی تمام تر مفروضاتی ترقی اب تک ایک مخصوص اقلیت ہی کا مقدر بنی ہے اور اس کی گواہی اقوام متحدہ کے ہیومن ڈولپمنٹ کی تازہ رپورٹ دے رہی ہے ، رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’’گزشتہ سال سے اب تک پاکستان میں دولت مند طبقے کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوا، با اثرطبقہ زیادہ سے زیادہ وسائل پر قابض ہونے کے لیے اندھی طاقت استعمال کرتا رہا۔ ایک طبقے کو دنیا کی تمام سہولتیں حاصل ہیں جبکہ دوسرے کے ہاتھ خالی ہیں ، امیر اور غریب طبقے میں خلیج اور گہری ہوتی جا رہی ہے۔ امیر مزید امیر اور غریب غریب تر ہورہا ہے۔ ‘‘دو نہیں ایک پاکستان ، کی عملی تصویر یہ ہے، حکومت چند طبقوں اور اداروں کے ہاتھوں مظلوم طبقے کے لیے ظلم کی مشین بنی ہے۔ وہ عمران خان جس نے سائیکل پر دفتر جانا تھا وہ ہیلی کاپٹر سے اترنے کو تیار نہیں۔ دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی مثالیں اب انہیں یاد بھی نہیں آتیں۔

عمران خان کہا کرتے تھے ’’کفر کی حکومت چل سکتی ہے لیکن ظلم کی نہیں ‘‘ لیکن خود کیا کیا ؟اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے تو میڈیا کے گلے پر ہاتھ ڈالا یعنی وہی مقدس ’میڈیائی ہارس ‘ جس پر سوار ہو کر عمران خان وزیراعظم ہاوَس پہنچے تھے ان کا پہلا نشانہ بنا۔ میڈیا کو ہرطرف سے اور ہر قسم کے ریاستی دباوَ میں رکھا گیا۔ اسے حکومت کا غیر سرکاری ترجما ن بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ، نتیجے میں کئی صحافتی ادارے بند اور سیکڑوں ملازمین روزگار سے محروم ہوگئے۔ پاکستانی صحافت نے پہلی بار یہ منظر دیکھا جب صحافیوں کوبالواسطہ پیغام دیا گیا اگر وہ حکومتی خواہش کے مطابق کام کریں گے تو انہیں کچھ نہ کچھ ملتا رہے گا اور اپنی مرضی کریں گے تو بھوکے مریں گے۔

انصافی منشور اب تک ایسے جوتشی کی جنتری ثابت ہوا ہے جس کی پیش گوئیاں کبھی سچ نہیں ہوتیں۔ وہ عمران خان جو کبھی واش روم میں بیٹھے شخص کو لوٹا تھمانے کا کام بھی ریاست کے ذمے لگاتے تھے حکومت میں آتے ہی نہ صرف ریاست کو تمام فرائض سے آزاد کر دیا بلکہ حقوق کی ’گردن توڑ‘ گٹھڑی شہریوں کے رعشہ زدہ سروں پر لاد دی۔ آج سرکاری بھالووَں کے سامنے ریاستی مراعات کی تازہ مچھلیوں کا ڈھیر لگا ہے لیکن متوسط اورغریب طبقے کے لیے ریاست ایسی نوبالغ کوئل بنی ہے جو گھونسلے سے نکلنے کو تیار نہیں۔

عمران خان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ کریں پاکستان کی آدھی آبادی والا صوبہ ایسے سادھو نما شخص کے سپرد کر رکھا ہے جس کا آئی کیو لیول آٹھ سالہ لاہوری بچے سے بھی کم ہے۔ سب سے بڑے صوبے کا منتظم اعلیٰ کسی مدد کے بغیر مال روڈ پار کرلے تو معجزہ ہوگا۔ اس کی بدانتظامی اور نا اہلی کا حال یہ ہے کہ دو سال پہلے تک خوبصورت ترین شہر وں میں شمار ہونے والا’ پاکستان کا دل‘ لاہور آج کچرے کے ڈھیر میں دھڑک رہا ہے اور گندگی میں کراچی کے ہم پلہ ہونے میں بس کچھ ہی فاصلے پر کھڑا ہے۔

سابقہ حکمرانوں کو شاہانہ مزاج کے طعنے دینے والے وزیراعظم کی سادگی بھی سب کو نظر آرہی ہے، وزیروں ، مشیروں اور معاونین خصوصی کا پورا ایک گروہ ہے جو شہنشاہ معظم کے ساتھ کنیزوں کی طرح چلتا ہے۔ ان کی واحد قومی ذمے داری عوام کو جھوٹی تسلیوں کے بہکاوے میں الجھائے رکھنا ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف دن رات دھاوے بولنا اور تمام تر حکومتی ناکامیوں کو پچھلی حکومتوں کے سر منڈھنا ہی ان کی اصل کارکردگی ہے۔ ان لوگوں نے اپنی چرب زبانی اور بے باکی کو ہی کامیابی کی کنجی سمجھ رکھا ہے۔ ایک بدیسی کہاوت ہے ’ اکثر بے باکی جہالت کی اولاد ہوتی ہے ‘ اور سرکاری سطح پر ایسے مظاہرے ہم روز دیکھتے ہیں۔ برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل درست کہتا تھا ’کچھ لوگ مٹر کے سوپ پر بھی حکمرانوں کے لیے شاعری(مداح سرائی) کرتے ملیں گے۔ ‘ سرکاری ترجمانوں کی دروغ گوئی کو دیکھ کر لگتا ہے ان میں میکیاویلی کی روح گھس گئی ہے۔ یہ ایک دن ایک وزیر کی کارکردگی کی تعریفیں کرتے ہیں پھر اگلے ہی دن اس کی برطرفی کے جواز پیش کرتے ہیں۔

جب سے ’تبدیلی سرکار‘ آئی ہے ملک کا نظام بدحواس کر دینے کی حد تک سُست روہے ، کسی نے سچ کہا یہ بوڑھے پیر ہیں جو ریت کا ٹیلہ چڑھ رہے ہیں۔ تمام ترقیاتی منصوبے وہیں رکے ہیں جہاں پچھلی حکومت چھوڑ کر گئی تھی۔ سی پیک جیسا قومی نوعیت کا منصوبہ بھی امریکی مفادات کے شکنجے میں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ چین جیسا محسن دوست ہمیں ایک فون کال پر پالیسیاں بدلنے کے طعنے دے رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے لوگوں میں امید کے سوتے ہی خشک کر ڈالے ، جو لوگ تھوڑی بہت تبدیلی کی آس میں کبھی جی لیا کرتے تھے اب تو وہ بھی کہہ رہے ہیں یہ ملک قیامت تک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ عمران خان کواب تک پتا چل جانا چاہیے وہ ’ تبدیلی‘ کی چھت پر چڑھنے کے لیے جو سیڑھی استعمال کر رہے ہیں اس کے ڈنڈے ہی غائب ہیں۔

عمران خان کے اخلاقی اصول نہ سمجھ میں آنے والے ہیں۔ وہ ایک طرف اپنے ساتھیوں کو ضمیر فروش اور قابل فروخت جنس قرار دیتے ہیں اور جب اعتما دکا ووٹ لینا ہوتو یہی’بکاو مال ‘‘ان کے لیے سب سے’قیمتی سرمایہ ‘‘ بن جاتا ہے۔ عمران خان نے اپنے انتخابی منشور میں تاثر دیا وہ ریاست مدینہ کی طرز کی ایسی حکومت قائم کرنے جا رہے ہیں جو آسمان کی مقدس انگلی کے اشارے سے چلے گی لیکن افسوس آسمانی انگلی تو کسی نے نہیں دیکھی لیکن امپائر کی انگلی سب دیکھ رہے ہیں ،اور یہ بھی دیکھ رہے ہیں ریاست مدینہ کا دعوے دار پی ٹی آئی کا ’’ انتخابی منشور‘‘ ڈھائی تین سال سے کون سے ’’ہیڈ کوارٹر‘‘کی کھونٹی پر ٹنگا ہے۔

انسان اگر ایک غلط موڑ مڑ جائے تو پتہ پوچھ کر درست راستہ اختیار کر سکتا ہے لیکن اس حکومت نے اتنے غلط موڑ مڑے ہیں یہ صحیح اور غلط کی پہچان ہی بھول بیٹھی ہے۔ اس گم شدہ بچے کی طرح جو چوک میں کھڑا ہے اور اتنا بوکھلایا ہوا ہے اسے یہ بھی نہیں معلوم وہ کدھر سے آیا ہے اور کدھر جانا ہے۔ اتنا توہمارے مہربانوں کو بھی سمجھ آگیا ہوگا حکومتیں زبردستی گرائی تو جا سکتی ہیں لیکن چلائی نہیں جاسکتیں۔ حکومت کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں عمران خان کے ووٹرز اورخفیہ سپورٹرز کے ساتھ قسمت نے وہی سلوک کیا ہے جو ہالینڈ کے کسان کے ساتھ اس کے نایاب خوگوشوں نے کیا تھا، اس نے اپنی طرف سے انتہائی اعلیٰ نسل کے انگلش لوپ(English Lop)خرگوشوں کے چند قیمتی جوڑے خریدے، افزائش نسل کے لیے انہیں بہترین قدرتی ماحول فراہم کیا لیکن اس وقت کسان کا سینہ دکھ سے بھر گیا جب اسے معلوم ہوا کہ انہیں تو اسقاط حمل کی لاعلاج بیماری تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments