ڈسکہ کا ضمنی انتخاب اور آئین کی پاسداری کا معاملہ


آج ڈسکہ کے حلقہ این اے 75 میں انتخابی معرکہ برپا تھا۔ جیتنے والی پارٹی اسے پاکستانی عوام کے حتمی فیصلہ سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے سیاسی ایجنڈے کو درست قرار دے گی حالانکہ یہ ایک حلقہ کا ضمنی انتخاب ہے جس میں ہار جیت کا قومی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی صورت حال پر اثر انداز ہونے کا امکان نہیں ہے۔

البتہ پاکستان میں یہی سیاست ہے۔ جس معاشرے میں سیاست کو نعرہ، طعنہ اور تہمت بنالیا گیا ہو، اس میں یہ سب کچھ حسب توقع ہے۔ جو پارٹی ایسا نہ کرپائے اسے ’کھلاڑی نہیں اناڑی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈسکہ میں دوبارہ منعقد ہونے والے ضمنی انتخاب میں حکمران تحریک انصاف اور مد مقابل مسلم لیگ (ن) کی سیاسی شہرت اور عوامی مقبولیت داؤ پر لگی ہے۔ اس لئے جیتنے والا اسے ایک امید وار کی ناکامی نہیں کہے گا بلکہ مخالف جماعت کے سیاسی مؤقف اور اس کے لیڈروں کی دیانت داری کی شکست کہا جائے گا۔ ہارنے والا فریق ان الزامات کا مقابلہ انتخاب میں دھاندلی اور بے قاعدگیوں کے الزامات عائد کرکے کرے گا۔ اس طرح دونوں فریق اپنی اپنی ’جیت‘ پر خوش ہوں گے۔

گو کہ ان رویوں سے ملک میں جمہوریت کمزور اور منتخب ادارے بے وقار ہوئے ہیں لیکن فی الوقت اس مزاج میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کی سادہ سی وجہ مسائل سے نظریں چرا کر نعروں اور الزامات کی بنیاد پر عوام کو رجھانے کا طرز عمل ہے۔ حال ہی میں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی صفوں میں پڑنے والی دراڑیں بھی اسی مزاج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے پیدا ہونے والے اختلاف کو کسی اصولی سیاسی بحث تک محدود رکھنے کی بجائے، اسے ایک دوسرے کی سیاسی دیانت اور درپردہ اسٹبلشمنٹ سے ساز باز بتایا گیا۔ کسی پارٹی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ ایک دوسرے پر جو الزام عائد کررہی ہیں، وہی تو ان کے مل بیٹھنے کا بنیادی مقصد تھا یعنی ملکی سیاست سے عسکری اداروں کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کروانے کا ایک نکاتی ایجنڈا۔

اس ایجنڈے کو نواز شریف اور مریم نواز ’ووٹ کو عزت دو‘ قرار دیتے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری اسے ’نامزد‘ حکومت کو ختم کرنے کی جد و جہد بتاتے ہیں۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں سامنے آنے والے حالات سے یہی واضح ہؤا ہے کہ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈا کے لئے کوشش کرتی رہی ہیں۔ اسٹبلشمنٹ کی سیاسی قوت کم کرنے کی بات اسی وقت تک سہانی لگتی ہے جب تک وہ کسی مخالف سیاسی جماعت کے حق میں استعمال ہورہی ہو۔ اگر نگاہ التفات کا مرکز تبدیل ہوجائے تو اس سے استفادہ کرنے والی پارٹی کو اس سے کوئی تعرض نہیں ہوتا کہ یہ طریقہ عوامی حاکمیت کے اصول سے متصادم ہے۔

طاقت ور اسٹبلشمنٹ کے لئے سیاسی پارٹیوں میں پایا جانے والا یہی نرم گوشہ دراصل عسکری یا غیر منتخب اداروں کی اصل طاقت ہے۔ اسے عام شہری اور میڈیا سیاسی لیڈروں کی مفاد پرستی سمجھتے ہیں اور اس طرح اعتبار کا وہ رشتہ کمزور پڑنے لگتا ہے جو ووٹ کی طاقت سے اپنے نمائیندے منتخب کرکے ان کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کے اصول سے استوار ہوتا ہے۔ جب کوئی سیاست دان کسی حلقے کے لوگوں سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی کسی نشست پر نمائیندگی کے لئے ووٹ مانگتا ہے تو اصولی طور پر وہ یہ عہد کررہا ہوتا ہے کہ وہ آئین و قانون کے تحت منتخب نمائیندے کے طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا اور عوامی بہبود اور ملکی فلاح کے علاوہ کسی بھی مقصد سے اپنے عہدے کا استعمال نہیں کرے گا۔ لیکن اس مقصد کی بنیادی تفہیم سے لے کر اس پر عمل درآمد تک کا سارا طریقہ اس سے متضاد تصور کی عکاسی کرتا ہے۔

کسی حلقے کے ووٹر محض اس لئے کسی شخص کو کامیاب کروا تے ہیں کہ وہ ترقیاتی منصوبے شروع کرے گا، تھانہ کچہری میں پیدا ہونے والے مسائل میں ان کی دستگیری کرے گا اور روزگار، لائسنس و پرمٹ یا اسی قسم کی دوسری سرکاری مراعات میں انہیں حصہ لے کر دے گا۔ یہ ایک طرح سے سودے بازی ہوتی ہے۔ ہر محلے، گاؤں یا مخصوص حلقے کے لوگ،برادریاں یا گروہ اسی بنیاد پر اپنے امیدوار کا تعین کرتے ہیں۔ منتخب ہونے کی صورت میں کوئی بھی رکن اسمبلی خواہ اس کا تعلق حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اپنے حلقے کے لئے کچھ کرکے دکھائے تاکہ وہ آئیندہ بھی ووٹ مانگ سکے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو قومی یا صوبائی اسمبلی کے کسی رکن کو فلاحی منصوبے شروع کرنے یا ایک مخصوص علاقے میں ترقیاتی کام کروانے کی بجائے، قانون سازی اور صوبے یا ملک میں بہتر نظام کی تشکیل کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں اراکین اسمبلی کے اس بنیادی کردار کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ ووٹ دینے والا یا لینے والا دونوں ہی یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ اس آئینی جمہوری پریکٹس کا اصل مقصد کیا ہے۔ اس لئے یہ حقیقت باعث تعجب نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستا ن میں نام نہاد ’الیکٹ ایبلز‘ کی بڑی تعداد پیدا ہوئی ہے جو موقع کی مناسبت سے پارٹی یا سیاسی وفاداری کا تعین کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے حلقہ انتخاب کے لئے سہولتیں و مراعات حاصل کرسکیں۔

جیسے حلقوں سے منتخب ہونے والے ارکان اپنے مخصوص و محدود ایجنڈے کے لئے کام کرتے ہیں، اسی طرح سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی صفوں میں شامل ہونے والے کسی سیاسی اصول یا ملکی نظام میں اصلاح کے مقصد سے ان کے منشور کو طاقت فراہم کریں گے بلکہ وہ ایسےشخص کو ٹکٹ دیتے ہیں جو کسی بھی قیمت پر کامیاب ہوکر ان کی سیاسی سودے بازی یا حکومت سازی کی پوزیشن کو مستحکم کرے ۔ ارکان اور پارٹیوں کے مزاج اور کلچر میں پائی جانے والی یہی کمزوری دراصل ان عناصر کو طاقت دیتی ہے جو جوڑ توڑ یا بلیک میلنگ و دباؤ کے ہتھکنڈوں سے ملک کو ایک خاص نہج پر گامزن رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس مقصد کے لئے انہیں ہمیشہ ایسے سیاسی کرداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو اپنے ’چھوٹے‘ مقصد کی تکمیل پر مطمئن رہیں اور قومی معاملات، سلامتی، خارجہ امور اور معاشی حکمت عملی کے حوالے سے وسیع ایجنڈے پر غور کے قابل نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں میں منتخب ارکان کی اکثریت خاموش رہنے یا پارٹی قیادت کے اشارے پر ہاتھ کھڑا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتی۔

کوئی بھی سیاسی پارٹی جب آئینی تقاضے اور عدالتی اصرار کے باوجود بلدیاتی انتخاب کروانے پر راضی نہیں ہوتی اور مقامی سطح پر حکمرانی کے نظام کو متعارف کروانا مناسب نہیں سمجھتی تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ملکی سیاست میں قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کو کسی علاقے کے کونسلر کا مقام دے دیا گیا ہے ۔ منتخب ہوکر آنے والے لوگ بھی اپنے آئینی کردار پر اصرار نہیں کرتے بلکہ ترقیاتی فنڈز اور سرکاری عہدوں میں بندربانٹ پر ہی خوش رہتے ہیں۔ جب اس میں رکاوٹ پیدا ہو تو سیاسی بحران کی کیفیت دیکھنے میں آتی ہے۔

اس سیاسی کلچر ہی کی وجہ سے ملک میں جمہوری رویات پنپ نہیں سکی اور اصل طاقت غیر منتخب اداروں یا سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے ہاتھوںمیں جمع ہوگئی ہے ۔ وہ اپنے زیادہ ’حصہ‘ کے لئے مسلسل پنجہ آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک کا قیام اور اس کے انتشار کو اس سیاسی منظر نامہ میں دیکھاجائے تو تصویر واضح ہوجاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے ’معتوب‘ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز اسلام آباد میں آئین سے متعلق ایک سیمینار میں گفتگو کرتے ہوئے آئین کی عوامی آگہی پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ پڑھ کر ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ ہمارے حقوق و فرائض کیا ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین کے تحت اٹھایا گیا حلف بھی اتنا ہی مقدس ہوتا ہے جتنا آئین کا احترام ضروری ہے۔ اسی لئے آئین شکنی کی طرح حلف کی خلاف ورزی بھی غداری کے زمرے میں آتی ہے جس کی سزا موت مقرر ہے۔ آئین اور حلف کی اس اہمیت کی روشنی میں اگر پاکستان کے سیاسی انتخابی عمل کا جائزہ لیا جائے تو صاف دکھائی دے گا کہ کسی بھی سطح پر آئین کی پاسداری دیکھنے میں نہیں آتی۔

آئین سے لاعلمی دراصل اس سے روگردانی کا سبب بن رہی ہے۔ اس تصویر کا یہ پہلو زیادہ المناک ہے کہ یہ صورت حال اب صرف کسی حلقے میں ووٹ دینے والے لاعلم اور کسی حد تک ان پڑھ لوگوں ہی کی حد تک موجود نہیں ہے۔ منتخب ہو کر دودھ شہد کی نہریں بہانے کا دعویٰ کرنے والے امیدوار بھی اپنے آئینی فریضہ سے اسی حد تک نابلد ہوتے ہیں۔ سماج کو عمومی طور چونکہ نعروں اور ایک خاص مزاج کو مطمئن کرنے کے ڈھب پر ڈال دیا گیا ہے ، اس لئے اعلیٰ ترین مناصب پر فائز لوگ بھی آئین کی حرمت اور اس کے تحت اٹھائے حلف کی معنویت اور تحدیدات کا یا تو ادراک کر نہیں پاتے یا اس معاملہ میں سہو کو زندگی کا معمول سمجھ لیا گیا ہے۔ گزشتہ روز ہی مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے جاوید لطیف کی ایک درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے تبصرہ کرتے ہوئے جو نکات اٹھائے، ان سے بھی حلف، آئین، عہدہ کی حرمت اور انصاف کے تقاضوں کی تصویر دھندلی ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

چیف جسٹس محمد قاسم خان نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ ’ پاکستانی عوام پاکستان کھپے نہ کہنے والے کو کچل دیں گے۔ شخصیت پرستی کی بجائےملک سے وفاداری بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ شخصیات تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ اگر مدعی (جاوید لطیف) پاکستان کے خلاف بات کرنا چاہتے ہیں تو وہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں۔ پاکستان کے خلاف بولنے والوں کو ریلیف نہیں مل سکتا۔ پہلے یہ لوگ ملک کے خلاف بات کرتے ہیں پھر عدالتوں سے سہولت مانگتے ہیں‘۔ درخواست گزار کے وکیل نے ان ارشادات کے بعد درخواست واپس لے لی۔ کسی درخواست پر غور کے دوران ایک عالی مقام جج کے تبصروں پر رائے زنی مناسب نہیں۔ لیکن اگر یہ نہ بتایا جائے کہ یہ الفاظ کسی جج نے ایک درخواست کی سماعت کے دوران کہے ہیں تو کوئی نہیں جان سکے گا کہ کہ یہ کسی سیاسی جلسہ میں کی گئی تقریر ہے یا کسی ٹاک شو میں معمولی حیثیت کے سیاسی لیڈر کا انداز گفتگو ہے۔

ملک میں ووٹ، انتخاب، رتبہ اور آئینی تقاضوں کے مطابق کردار اور حلف کی تفہیم پر بات ہو گی تو بدقسمتی سے سامنے آنے والی تصویر دھندلی اور غیر واضح رہےگی۔ المیہ یہ ہے کہ یہ کام صرف ’مفاد پرست‘ سیاست دان ہی نہیں کرتے بلکہ اس میدان میں آئین کے محافظ بھی ٹھوکر کھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments