کورونا: جنوبی افریقہ کی وہ خواتین جو وبا کی ’جھوٹی خبروں‘ کے خلاف لڑ رہی ہیں


جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کی ویکسین لگانے کا آغاز رواں برس فروری میں ہوا
جنوبی افریقہ میں رضاکاروں کا ایک چھوٹا سا گروہ کووڈ-19 اور ویکسین کے حوالے سے غلط معلومات کے خلاف ایک آن لائن جنگ لڑ رہا ہے۔ جیک گڈ مین کی رپورٹ کے مطابق غلط اور گمراہ کن خبریں زیادہ تر بیرونِ ممالک سے آ رہی ہیں۔

جب سارہ ڈاؤنز نے یہ ٹویٹ کی کہ کیسے ان کی دادی کووڈ-19 کی وجہ سے مریں تو انھیں ٹویٹ پر ایک ایسا ردعمل ملا جس کی وہ ہرگز توقع نہیں رکھتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام پوسٹ کیا تھا جس میں بنیادی طور پر میں یہ کہہ رہی تھی کہ میری عظیم دادی فوت ہو گئی ہیں اور وہ میرے لیے بہت اہم شخصیت تھیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ پھر مجھ سے کئی لوگوں نے مختلف سوالات پوچھے کہ ’کیا کوئی پورسٹ مارٹم ہوا ہے؟ پوسٹ مارٹم کے کیا نتائج تھے؟ تم کیسے جانتی ہو کہ وہ کورونا کی وجہ سے فوت ہوئی ہیں۔ ان کے مرنے کی کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے فوری طور پر براہ راست کورونا کے امکان کو رد کیا۔ وہاں نسبتاً کم لیکن ایک فعال گروہ موجود ہے جو مختلف قسم کے عقائد رکھتا ہے لیکن عام طور پر بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس مذاق ہے یا حقیقت میں نہیں ہے۔

اس وقت سارہ کی بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ ویکسینز کے بارے میں گمراہ کن اور غلط معلومات کے خلاف مہم چلائی جائے۔

لیکن سارہ جنھوں نے مولیکیولر بائیولوجی اور متعددی امراض کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے، سوشل میڈیا پر گمراہ کن پوسٹ کرنے والوں کا ہدف بنیں تو یہ ان کے لیے اچھا نہ تھا کیونکہ انھوں نے غلط معلومات دینے والوں کے خلاف لڑنا پسند کیا۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا بھر کے لوگوں کو کورونا وائرس کی ویکسین کب تک لگ جائے گی؟

ترقی پذیر ممالک کو ویکسین بنانے کی صلاحیت کیوں نہیں دی جا سکی؟

ڈبل میوٹینٹ: انڈیا میں کورونا وائرس کی نئی قسم کتنی خطرناک ہے؟

‘مسٹریس آف سائنس’

سارہ کئی گھنٹے اپنے دوستوں، خاندان والوں اور اجنبیوں کے جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کرنے میں گزارتی ہیں۔ وہ مسٹریس آف سائنس (سائنس کی ماہر) کے نام سے معروف اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے یہ کام کرتی ہیں۔ انھوں نے اور ان کے ہم خیال لوگوں نے جنوبی افریقہ میں اس وبا کے بارے میں گمراہ کن خبروں کے بارے میں اپنی معلومات جمع کی ہیں۔ جنوبی افریقہ اس وقت اس وبا سے متاثر ہونے والے بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

انفارمیشن پائپ لائن کے حصے میں فیس بک گروپوں اور صارفین کا نسبتاً چھوٹا سا گروہ ہے جس میں کچھ ایسے افراد شامل ہیں جنھوں نے برسوں سے ویکسی نیشن کے مخالف مواد کو فعال طور پر اپنے غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

جنوبی افریقہ کے ویکسین اور حفاظتی ٹیکوں کے مرکز (ساوک) کے فارماسسٹ اور جنوبی افریقہ کی حکومت کے مشیر، پروفیسر ہنیلی میئر کا کہنا ہے کہ ’ہمارا اندازہ ہے کہ یہ جنوبی افریقی کے قریباً 20 ہزار شہری ہیں جو ‘اینٹی ویکس’ کہلانے والے فیس بک صفحات پر سرگرم ہیں۔‘

یہ ملک کی پانچ کروڑ نوے لاکھ افراد کی آبادی کا ایک فیصد حصہ بھی نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، جنوبی افریقہ میں ویکسین کے خلاف گمراہ کن دعوؤں کی اطاعات کا اصل مرکز امریکہ میں ہے۔

قصوں کہانیوں والے شواہد ثبوت، مثال کے طور پر ایک امریکی آسٹیو پیتھ کے ذریعہ ویکسین اور ڈی این اے کے بارے میں جھوٹے دعوؤں کا ملک بھر میں عام کیا جانا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رجحان وبائی مرض کے پورے دور میں جاری رہا ہے۔

پروفیسر میئر کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ میں ویکسین کے بارے میں پائی جانے والی ہچکچاہٹ کے بارے میں اعداد و شمار محدود ہیں، لیکن تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ آسودہ حال اور تعلیم یافتہ گروہ، جن میں ایسے افراد شامل ہیں جن کے سفید فام ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، ویکسین کے ڈوز لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

جنوبی افریقہ

خرافات اور چھوٹے دعوؤں کی بیخ کنی

جنوبی افریقہ میں ویکسین لگائے جانے کا آغاز تاخیر سے ہوا تھا۔ اس کی وجہ وہ خدشات تھے کہ آیا پہلی ویکسین نئے کورونا وائرس کے خلاف موثر ہو گی یا نہیں۔ بہرحال اب ویکسین لگانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔

دریں اثنا حکومت نے صحت سے متعلق خرافات اور غلط دعوؤں کی تردید اور انھیں روکنے کے لیے ایک عوامی مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے۔

ایک سرکردہ وائرولوجسٹ نے بھی اسی طرح کی جعلی خبروں اور افواہوں کو جھوٹا ثابت کرنا شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر سارہ والی جعلی خبر کو ہی لیجیے کہ کووڈ-19 اور اس کی ویکسین افریقہ کی آبادی کو کم کرنے اور براعظم کے قدرتی وسائل پر قابو پانے کی مغربی سازشیں ہیں۔

پروفیسر جیفری مفاہلِل نے اس غلط فہمی کو ’دماغ کو چکرا دینے‘ والا قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق ایسی جعلی خبر ایک ایسے منصوبے کی نشاندہی کرتی ہے جس کے لیے مغرب کو ایسا وائرس پیدا کرنے کی ضرورت ہو گی جو لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

لیکن ذمہ دار عہدوں پر فائز اہلکاروں نے بھی جھوٹے دعوے کیے تھے۔ جنوبی افریقہ کے ایک اعلیٰ جج کو اس وقت ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا جب انھیں ایک ویڈیو میں وائرس کو ’شیطانی ایجنڈے‘ کا حصہ کہتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

مذہبی سکالرز نے مذہبی کتابوں کے چند متعلقہ اقتباسات بھی پیش کر کے مسیحوں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ ایک براہ راست نشریاتی خطاب میں بشپ مالسی ایمپلوانا نے ایک اور جھوٹی سازشی تھیوری پھیلائی کہ فائیو جی ٹیکنالوجی اس وائرس کا سبب ہے۔ اہلکاروں کے مطابق لوگوں نے اس ٹیکنالوجی کے کھمبوں کو اِس برس کے اوائل میں کوازُولو-ناٹال صوبے میں نذرِ آتش کر ڈالا۔

جھوٹی معلومات کے خلاف جنگ

جنوبی افریقہ اُن جعلی سائنسی نظریات کا مقابلہ کر رہا ہے جو اس ملک میں پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ کہیں اور سے یہاں پہنچیں ہیں۔ اور دوسرے ممالک کی طرح فیس بک گروپ بھی ویکسین کے مخالف جذبات کا گڑھ رہے ہیں۔

ایک سب سے نمایاں گروپ ، ’10000 سٹرانگ‘ ویکسینوں کے بارے میں ‘آگاہی’ پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ حقیقت میں یہ ویکسین کے خلاف سب سے زیادہ سخت نظریات رکھنے والا ایک طاقتور گروپ ہے۔ گروپ میں پوسٹوں کی اکثریت ویکسینوں کا مذاق اڑاتی ہے یا انھیں مسترد کرتی ہے۔

جنوبی افریقہ

اس گروپ میں شائع کی گئی ایک ویڈیو، اصل میں ایک امریکی مسیحی فرقے کے امریکی کرسچن ٹیلی ویژن پروگرام پر نشر کی گئی تھی۔ جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ویکسین کے ٹیکے سے 'زندگی بھر کی بیماری' لاحق ہو سکتی ہے۔

وہ خاتون جو ’کرسٹین ہیولٹ‘ نامی گروپ چلاتی ہیں ایک کتاب کے ساتھ ‘ویکسین سے پاک’ بچوں کی پرورش کے بارے میں ایک آن لائن شاپ میں مدافعتی نظام کو فروغ دینے والے سپلیمنٹس فروخت کرتی ہے۔

بی بی سی نے بار بار ‘کرسٹین ہیولٹ’ سے تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا، لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بی بی سی نے فیس بک سے بھی رابطہ کیا، جس کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے گروپس کی تلاش کی ہے جن کی ہم نے نشاندہی کی تھی۔ ایک ترجمان نے کہا کہ فیس بک ‘پہلے ہی دو ارب لوگوں کو ماہرین صحت کی قابل اعتماد معلومات مہیا کر چکا ہے۔’

کام کے بعد ‘فیکٹ چیکنگ’

چونکہ غیر تصدیق شدہ اطلاعات نے وبائی امراض کے دوران سوشل میڈیا پر اُدھم مچا دیا تھا اس لیے سارہ ڈاؤنز نے ان کے بارے میں سوالات کے جوابات پوسٹ کرنے میں مدد کی۔

ان میں سے ایک جن کی اس نے مدد کی وہ ایک تیراکی سیکھانے والی ایک انسٹراکٹر، شیونا لوٹرنگ تھیں۔

شیونا کا کہنا ہے کہ ‘میری ایک دوست نے مجھے جرمنی میں لکھا گیا مقالہ فارورڈ کیا تھا۔ وہ مجھے اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ موت کووڈ -19 ویکسینیشن کے ضمنی اثرات میں سے ایک ہے۔

‘اور میں یہ مضمون پڑھ کے تھوڑی سے حیران ہوئی۔’

کسی کے ویکسینیشن لگوانے کے بعد وائس نوٹ کے تبادلے کے ذریعہ سارہ نے کسی اچانک بیماری یا موت کی طرح کسی منفی واقعے کی نشاندہی کی۔ ان واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ضروری نہیں ہے کہ یہ منفی واقعہ یا موت ویکسین اس کی وجہ سے ہوئی تھیں۔

ویکسین سے متعلق مشکل سوالات کے بارے میں اب شیونا باقاعدگی کے ساتھ سارہ سے رابطے میں رہتی ہے۔

بھیس بدل کر خفیہ طریقہ

جنوبی افریقہ کے کچھ رضاکاروں نے چھوٹی اور گمراہ کن معلومات کے خلاف جنگ میں بھیس بدل کر نت نئے طریقے استعمال کیے۔ لیزا کا کہنا ہے کہ ‘دعوے اتنے عجیب و غریب ہیں کہ میں سمجھ نہیں پاتی کہ کوئی ان پر کیسے یقین کر سکتا ہے۔’

لیزا ان کا اصل نام نہیں ہے۔ لیزا فیس بک گروپوں میں گھنٹوں موجود رہتی ہے۔ ان کا مقصد بہت واضح ہے اور وہ مقصد ہے لوگوں کو صحت سے متعلق معلومات کے قابل اعتماد ذرائع کی تلاش کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کرنا۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے غلط معلومات پسند نہیں ہیں، لہذا جب میں کچھ دیکھتی ہوں تو میں صرف اسے درست کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

وہ ایک دہائی کے دوران ایک طریقہ یا کسی دوسرے طریقے سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے، لہٰذا انھوں نے دیکھا ہے کہ غلط معلومات پھیلانے والے گروپس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور اس لیے وہ ایسے گروپوں کے حربوں سے اچھی طرح واقف ہوچکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’فیس بک کے گروپس میں خاص کر نوجوان ماؤں کو ہدف بنایا جاتا ہے، جہاں پوسٹوں کو اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی ویکسینیشن کے لیے راضی نہ ہوں۔‘

ان حالات میں لیزا ایکشن میں آتی ہے۔ وہ فیس بک میں اپنے اِن باکس کو کھلا رکھتی ہے اور یقین کرتی ہے کہ مہذب انداز کی بات چیت زیادہ موثر ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگوں کے خدشات کے بارے میں ان سے ان کی معلومات کے بارے میں اعداد و شمار کی بوچھاڑ کرنے کے بجائے اچھے طریقے سے سوالات کرنا زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔

خوف دور کرنا

مگر سارہ، لیزا اور دیگر رضاکار جن سے ہم نے بات کی، انھوں نے آن لائن پر ہونے والی بدتمیزیوں اور بدسلوکیوں کا خطرہ مول لیا، ان کے لیے لوگوں کو قائل کرنا کافی مشکل ہوتا ہے۔

صحت کے بارے میں اچھی معلومات دینا کافی مشکل کام ہے، اس کی کوئی اُجرت بھی نہیں دیتا ہے۔ تو کیا انھہیں کوئی کامیابی ہوئی ہے؟

سارہ کہتی ہیں کہ ‘میرا خیال ہے کہ اگر میں کسی انسان کی تھوڑی سی مدد کر سکوں جو تھوڑا سا بھی خوفزدہ ہے۔۔۔ یہ وہ خوف ہے جسے میں دور کرنے نکلی ہوں۔ اور اگر وہ ویکسین لگوانے کے لیے رضامند ہو جاتا ہے تو مجھے اور کیا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp