افکار علوی کی کوٹ ادو آمد


آج کل کے ’بڑے‘ شاعر نرگسیت کی اس بلندی پہ جا بیٹھتے ہیں کہ ان کے چاہنے والے چاہ کر بھی ان تک رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ ہر شاعر خود پسند ہوتا ہے۔ ظفر اقبال کے بقول ان کے پاس اچھے شعروں کی تعداد غالب سے بھی زیادہ ہے، منصور آفاق کے نزدیک فراز میر سے بڑا شاعر تھا۔

ایک وقت تھا جب لاہور میں بیٹھا شاعر کمرشلائز ہو کر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا جب کہ مظفرگڑھ ، لیہ ، بھکر ، کوٹ ادو ، راجن پور کے شاعر بہت اچھی شاعری کے باوجود گمنام رہتے۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا جس نے یہ مناپلی ختم کی۔ اب کسی کو گروپ کی ضرورت نہیں عوام جس کو چاہے پسندیدگی کی سند عطا کر دے۔ حاسدین بس جلے دل کے پھپھولے ہی پھوڑ سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی وجہ سے اب چاہنے والے بھی چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ شاعر ادیب کے ساتھ ملاقات نہ کر پائیں تو کم از کم سیلفی ہی بنا لیں۔ لیکن آج کل معروف شاعر ملاقات چھوڑیں سیلفی کے لیے بھی میسر نہیں آتے۔ ایسے میں افکار علوی سامنے آتا ہے۔ اللہ پاک نے اسے جس قدر مقبولیت عطا کی ، اسی قدر یہ بندہ عاجزی اختیار کرتا گیا۔ اپنے چاہنے والوں کی قدر کرنے والا ایسا معروف آدمی میری نظر میں کوئی دوسرا نہیں گزرا۔

دو تین سال پہلے کی بات ہے ہمارے دوست زبیر اسلم نے ہمیں سرائیکی نظم ’بھئی گالھ اے ہ‘ سنائی نظم کا اچھوتا خیال اور بے ساختہ مصرعے دل کو خوب بھائے۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ سرائیکی ادب کی تاریخ میں پہلی بار دو نوجوان شعراء نے مشترکہ نظم لکھی ہے۔ یہ دو نوجوان شعرا افکار علوی اور عادل کہاوڑ تھے۔ بس اسی دن سے سے افکار علوی کے ساتھ محبتوں کا جو سلسلہ جڑا وہ آج تک برقرار ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔

میں نے تب افکار علوی کی اس نظم پہ تبصرہ لکھا تھا۔ معروف دانشور رانا محبوب اختر نے بھی اس نظم کو اپنے کالم کا حصہ بنایا۔ اس نظم نے ہی باور کرا دیا تھا کہ آگے چل کر یہ شعراء دھوم مچانے والے ہیں۔ سرائیکی نظم ہونے کی وجہ سے ’بھئی گال اے ہ‘ اس وقت اتنا مقبول نہ ہو سکی جتنا اس کا حق ہے۔ پھر کچھ عرصے بعد افکار علوی نے ’مرشد‘ لکھ کر عالمی شہرت حاصل کر لی۔ ہر طرف مرشد مرشد ہو گئی۔ یوکے سے لے کر بھارت تک دبئی سے لے کر بحرین تک جہاں جہاں اردو ہندی بولنے والے موجود تھے مرشد نے وہاں تک رسائی حاصل کی۔

افکار علوی

اتنی کم عمری میں اس قدر شہرت بڑے بڑوں کا دماغ خراب کر دیتی مگر یہ ہمارا دوست افکار علوی ہے۔ اس نے الٹا شعوری کوششیں شروع کر دیں کہ دوستوں کو کہیں سے یہ محسوس نہ ہو کہ شہرت نے مغرور کر دیا ہے۔

پچھلے دنوں افکار علوی میرے پاس کوٹ ادو تشریف لائے۔ کوٹ ادو ایک چھوٹا سا شہر ہے ۔ افکار میرے ساتھ جہاں جاتا آگے نوجوان افکار علوی کو سامنے پا کر پرجوش ہو جاتے ، ان کو یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ افکار علوی یہاں ان کے شہر میں گھوم رہا ہے۔

ایسا ہی ایک بار افکار کے گاؤں گوہر والا میں بھی ہوا جب لالہ اصغر گورمانی اور میں افکار کے مہمان تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک فیلڈ افسر تھل کے ریت کے ٹبوں میں پھرتا پھراتا گوہر والا میں افکار کے گھر پہنچ گیا۔ پیاس لگی تھی ، پانی مانگنے کے لیے دروازے پہ دستک دی۔ افکار علوی نے دروازہ کھولا، اگلا بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا۔ کہتا میرے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ دروازے کے اس پار سے افکار علوی برآمد ہو گا۔

لاہور کے پاک ٹی ہاؤس کو کون نہیں جانتا۔ بڑے بڑے شاعر اور ادیبوں کی بیٹھک تھی۔ کاشف سوئیٹس اینڈ بیکرز کوٹ ادو کا پاک ٹی ہاؤس ہے ‍۔ کاشف اور ارحم بیکرز کے مالک یوسف بلوچ ادب نواز اور اہل علم آدمی ہیں۔ اسی لیے اصغر گورمانی ، کامران احمد قمر، مخمور قلندری ، شہظل خان اور شہباز مہروی سمیت کتنے ہی شعراء اس کو رونق بخشتے ہیں۔ سو کاشف بیکرز پہ چند مخصوص دوستوں جن میں افکار کی شاعری سے متعارف کرانے والے زبیر اسلم، ڈاکٹر اسامہ بلوچ، ایوب سرائی، یوسف بلوچ و دیگر کے ساتھ ایک بیٹھک رکھی۔ اس بیٹھک میں اتفاقاً بھکر کے ہی ایک بزرگ بھی شامل تھے۔ جب محفل برخواست ہوئی تو بزرگ نے مجھے مخاطب کر کے کہا ”مجھے اس بیٹھک سے پہلے اندازہ ہی نہیں تھا کہ ہماری دھرتی نے کس خوب صورت ہیرے کو جنم دیا ہے۔‘‘ بلاشبہ آج اندازہ ہوا ہے کہ ہم بھکر والے اپنے افکار علوی پہ کتنا فخر کر سکتے ہیں۔

بلاشبہ افکار علوی ایک ہیرا ہے ، جتنا بڑا شاعر ہے ، اس سے کہیں بڑا انسان ہے۔ حساس دل رکھنے والے افکار علوی یار تمہاری تشریف آوری کا شکریہ ۔ سدا سلامت رہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments