کراچی کے مسائل اور چیف جسٹس سپریم کورٹ



اپنے ملک یا شہر سے محبت ہونا فطری امر ہے۔ ہر شخص کو اپنے ملک اور اپنے شہر سے محبت ہوتی ہے۔ دیگر لوگوں کی طرح مجھے بھی کراچی سے محبت ہے کیونکہ یہ میرا شہر ہے، یہ میری جائے پیدائش ہے۔ جب میں دیکھتی ہوں کہ ساری قومیتوں کے لوگوں کو اپنے دامن میں محبت سے بسانے والا میرا شہر کراچی تیزی سے برباد ہو رہا ہے تو میرا دل کڑھتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کسی کو کراچی کی پروا نہیں ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار اپنی ہی سرمستیوں میں مگن ہیں۔ انہیں کراچی یا کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کراچی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور اگر ہے تو شاید سب سے آخری درجے میں۔

اس ناامیدی اور مایوسی کی صورتحال میں کراچی والوں کے لئے آخری امید عدلیہ ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کراچی والوں کے لئے ”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“ کے مترادف ہیں ۔ شروع سے دیکھا ہے کہ وہ شہری مسائل کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اسلام آباد میں بھی وہ شہری انتظامیہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہتے ہیں۔ یہ کراچی والوں کی خوش قسمتی ہے کہ ملک کے موجودہ چیف جسٹس صاحب کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نہ صرف تعلق رکھتے ہیں بلکہ کراچی والوں کا درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ جب مسند منصفی پہ بیٹھ کر صوبائی اور بلدیاتی اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے سخت ریمارکس دیتے ہیں تو کراچی کے شہریوں کو یہ محسوس ہوتا ہے یہ ان کے دل کی آواز ہے۔ دل کو ایک گونہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ کوئی تو ہے جس کا دل ہماری حالت زار پہ کڑھتا ہے۔

کراچی کے تقریباً ہر مسئلے سے متعلق کیسز سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر، غیر قانونی تجاوزات، ٹرانسپورٹ کا مسئلہ (سرکلر ریلوے کیس) اور حتیٰ کہ آوارہ کتوں کے کاٹنے کا مسئلہ بھی عدالت میں زیر سماعت ہے، اسی سے اندازہ لگا لیں کہ کراچی کی انتظامیہ کتنا کام کر رہی ہے۔

اگر ہر مسئلہ عدالت نے ہی حل کرنا ہے تو انتظامیہ نے کیا کرنا ہے؟ یہ کس بات کے پیسے سرکار سے لے رہے ہیں؟ آئے روز کبھی سندھ ہائیکورٹ کے ججز اور کبھی سپریم کورٹ کے ججز (خاص طور سے جسٹس گلزار احمد) انتظامیہ کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں ، سخت ریمارکس بھی دیتے ہیں مگر انتظامیہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتی۔

گزشتہ دنوں آپ نے اخبار میں ایک خبر پڑھی ہو گی کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے غیر قانونی/ناجائز تعمیرات کیس میں دوران سماعت وزیراعلیٰ سندھ، کمشنر کراچی اور ڈی جی ایس بی سی اے پہ برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ ”کل کو آپ سپریم کورٹ کی عمارت بھی کسی کو دے دیں گے“ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ”کمشنر کراچی اور ڈی جی ایس بی سی اے ربڑ اسٹیمپ ہیں ، انہیں کراچی کا کچھ معلوم نہیں، انہیں ہٹا دیا جائے“ چیف جسٹس صاحب نے جب کمشنر کراچی سے شاہراہ قائدین کے نالے پر موجود عمارت بارے سوال کیا تو کمشنر کراچی نوید شیخ نے کہا کہ ایس بی سی اے نے کہا ہے نالے پہ عمارت نہیں ہے ”

اس پر چیف جسٹس صاحب نے عدالت میں یہ ریمارکس دیے کہ ”ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں ، اچانک سے ایک پلاٹ نکلتا ہے اور کثیر المنزلہ عمارت بن جاتی ہے ، پوری عمارت نالے پہ کھڑی ہے“

دراصل کراچی کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ غیر قانونی اور ناجائز تعمیرات کے پیچھے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے ) کا ہاتھ ہے ۔ گراؤنڈ پلس ون کی اجازت ہے مگر گراؤنڈ پلس ون کو گراؤنڈ پلس 2,3,4,6 بنانے کے پیچھے بھی ایس بی سی اے ہے اور نالوں پہ پوری پوری عمارتیں، شاپنگ مالز اور شادی ہالز کھڑے کرنا بھی ایس بی سی اے کا ”کمال“ ہے ، یہ سب معلوم ہوتے ہوئے بھی ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی ، انہیں سخت سزائیں دیتے ہوئے جیل میں بند نہیں کیا جاتا۔

عدالت اگر چاہے بھی کہ ان افسران کو سزا دے تو انتظامیہ عدالت کے ساتھ تعاون نہیں کرتی جس کے بعد عدالت بھی بے بس ہو جاتی ہے۔ عدالت میں ہر دوسرے تیسرے دن جس طرح سرکاری افسران کے بارے سخت ریمارکس دیے جاتے ہیں ، برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے ، اس کے بعد تو ان افسران کو خود ہی شرم آجانی چاہیے مگر نہیں آتی۔ خود ہمارے صوبہ کے سب سے اعلیٰ عہدیدار یعنی کہ وزیراعلیٰ صاحب کو عدالت بلاتی ہے، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہے مگر مجال ہے جو کسی کو کوئی فرق پڑے۔

یہ بے حسی اور لاپروائی اسی لئے ہے کہ کیونکہ ذمہ داران کو سزائیں نہیں ملتیں۔  جب تک دو چار اعلیٰ سرکاری افسران جیلوں کی ہوا نہیں کھائیں گے تب تک کراچی کے مسائل کا نہ انہیں ادراک ہو گا نہ یہ مسائل حل کریں گے۔ امید کرتی ہوں کہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کراچی کو بربادی کے دہانے پہ پہنچانے والوں کے خلاف نہ صرف سخت ریمارکس دیں گے بلکہ ان کے خلاف سخت کارروائی بھی کریں گے کیونکہ ہماری آخری امید چیف جسٹس گلزار احمد ہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments