نسوانی جنسی سرد مہری (frigidity)


کمرے میں گلاب اور مہندی کی ملی جلی مہک رچی تھی۔ پردوں کے بیچ سے سورج کی کرن اندر گھس آئی تھی اور فضا میں موجود غیر مرئی ذرات کو ایک دمکتی مخروط میں بدل دیا تھا۔ سیماب نے دمکتے ذروں سے نظر ہٹا کر پہلو میں بے خبر سوتے ہوئے ارسلان کو دیکھا۔

”تو یہ تھی سہاگ رات جس کا چرچا تھا زمانے میں“

”مایوس کن۔“ اس نے ایک گہری سانس لی۔ اسے تو کسی لطف اور سرشاری کا احساس نہیں ہوا۔ بس ایک درد اور جلن بھرا تجربہ تھا۔

دروازے پر دستک نے اس کے خیالات کی ڈور کاٹ دی۔ سیماب کی نند جگانے آئی تھی۔ اس نے سیماب کو جلدی سے تیار ہونے کو کہا۔ اس کے گھر والے ناشتہ لے کر پہنچنے والے تھے۔ ایک مشینی انداز میں اس نے زرق برق جوڑا پہنا اور میک اپ کیا۔ نند نے بالوں کا اسٹائل بنایا اور ہلکا پھلکا سونے کا سیٹ پہنا دیا۔ ناشتے کے بعد رسم کے مطابق وہ گھر والوں کے ساتھ میکے آ گئی۔ وہ امید کر رہی تھی کہ رواج کے مطابق امی، آپا یا بھابھی اس سے رات کا احوال پوچھیں گی، مگر ایسا لگتا تھا کہ اکتیس سالہ ورکنگ وومن ہونے کے ناتے یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ اس سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں۔

اب وہ خود سے کیا کہتی اور کیسے کہتی۔ دوشیزگی کے اکتیس سالوں میں جنس اور جنسی ملاپ موضوعِ ممنوع تھے۔ فطری جذبات کو سختی سے دبا کر، جھٹک کر بلکہ نفرین بھیج کر عصمت کی رکھوالی کی تھی اور اب جبکہ اجازت مرحمت کی گئی تو سب ٹھس۔

بے لذتی پہلی رات تک محدود نہیں رہی بلکہ ہنی مون کے دوران ہر تجربہ ایک تکلیف دہ میکانکی عمل سے زیادہ نہیں تھا۔ نتیجتاً وہ بیزار ہوتی گئی۔ ارسلان کی پیش قدمی کو ٹالنا معمول بنتا گیا۔ ارسلان ایک تعلیم یافتہ روشن خیال آدمی تھا۔ بیرونی ممالک میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے وہ مقامی بندشوں کا قائل نہیں تھا۔ اس نے بہت نرمی سے سیماب سے بات کی کہ کہیں وہ اسے ناپسند تو نہیں کرتی۔ سیماب نے اقرار کیا کہ اسے ارسلان پسند ہے لیکن۔

”لیکن کیا؟“ ارسلان نے پوچھا
سیماب کی نظریں جھک گئیں۔ کیا کہے؟ کیسے کہے؟

اس ”لیکن کیا“ کا جواب سیماب نہیں دے پائی کیونکہ ہمارے ہاں عورت سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ اپنے جنسی احساسات کو زبان پر لائے۔

اس ”لیکن کیا“ کا جواب ہی ہمارا آج کا موضوع ہے اور وہ جواب ہے نسوانی جنسی سرد مہری یا فریجیڈٹی (frigidity)۔ فریجیڈٹی لاطینی زبان کا لفظ ہے frigid= cold، ity =condition۔

نسوانی سرد مہری جنسی عمل کے کسی بھی مرحلے کو متاثر کر سکتی ہے۔ عورت ازدواجی تعلق کی طرف رغبت ہی محسوس نہ کرے یا پھر شہوت تو بیدار ہو مگر مباشرت کے لئے شدید مزاحمت کرے یا پھر ان سارے مراحل سے گزر جائے مگر اوج لذت (orgasm) کو نہ پا سکے۔

چونکہ جنسی سرد مہری کے لفظ سے کجی اور تحقیر کا تأثر ابھرتا ہے اس لئے جنسی امراض کے ماہر اس لفظ سے گریز کرتے ہوئے جدید اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ ہمارے خیال میں تو وہ بھی کوئی روح افزا اصطلاحات نہیں۔ مثلاً Hypogyneismus (قلت نسوانیت) یا hyposexual کی اصطلاح شہوت کی کمی یا مباشرت کی طرف سے بیزاری یا مزاحمت کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اوج لذت حاصل نہ کر سکنے کو Anorgasmia یا بے لذتی کا نام دیا گیا ہے۔

جنسی سرد مہری ایک بہت عام مسئلہ ہے جسے سماجی رویوں تلے دبا دیا گیا ہے۔ مغرب کے لئے تو ان کی آزادانہ معاشرت کو الزام دیا جا سکتا ہے مگر 2018۔ 2019 میں قاہرہ اور منیفا میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق 69.5 فیصد خواتین میں کسی نہ کسی درجے کی جنسی سرد مہری پائی گئی۔ مشرقی خواتین اس کے لیے کسی معالج سے رجوع نہیں کرتیں حالانکہ بہت سی وجوہات قابل علاج ہیں اور علاج کے بعد ازدواجی مسرتوں کا حصول ممکن ہے۔

جنسی سرد مہری پرائمری یا سیکنڈری ہو سکتی ہے۔ پرائمری فریجیڈٹی ایسی عورت کے لئے کہا جائے گا جو سدا سے روکھی ہو اور سیکنڈری فریجیڈٹی ایسی عورت کے لئے جو پہلے تو ازدواجی تعلقات میں بھلی چنگی ہو پھر نہ جانے کیا ہو جائے۔ دونوں کی وجوہات مختلف ہوتی ہیں۔

جنسی سرد مہری کے اسباب جسمانی یا نفسیاتی ہو سکتے ہیں۔ جسمانی عوارض میں بے قابو ذیابیطس، اعصابی یا دماغی امراض، گردے اور جگر کی بیماریاں شامل ہیں۔ امراض نسواں میں انفیکشن، اینڈومیٹریوسس، (endometriosis)، حمل، ولادت اور سن یاس میں ہارمونز کی بے قاعدگی بھی جنسی رجحان کو متاثر کرتی ہے۔ اعضائے مخصوصہ کی بناوٹ میں کوئی پیچیدگی یا پھر قربت کے لمحات میں رطوبت کی کمی مجامعت کو تکلیف دہ بنا سکتی ہے۔ جسے ڈسپیرونیا (dyspereunia) کہا جاتا ہے۔

مہبل (vagina) اور اس کے گرد کے عضلات کا غیر اختیاری شدید کھنچاؤ مہبل کے منہ کو تنگ کر دیتا ہے جس سے آلۂ تناسل کا دخول تکلیف دہ یا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو ویجینسمس۔ (vaginismus) کہتے ہیں۔ الکوحل اور منشیات بھی جنسی استعداد کو متاثر کرتی ہیں۔ نفسیاتی مسائل بھی اس عارضے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈپریشن، اسٹریس، شوہر اور اردگرد کے لوگوں سے تعلقات، لائف اسٹائل جاب کے مسائل وغیرہ جنسی سرد مہری کا سبب بن سکتے ہیں۔

بہت شدید روک ٹوک اور پابند ماحول میں پرورش لاشعوری طور پر جنسی اختلاط کے لئے ناپسندیدگی کو جنم دیتی ہے۔ ماضی میں جنسی بے راہ روی کا کوئی تجربہ یا مشاہدہ جنسی ملاپ کے ساتھ منفی تأثر کو نتھی کر لیتا ہے اور ازدواجی تعلق میں شعوری یا لاشعوری طور پر رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔

چونکہ ہمارے معاشرے میں عورت کے لئے دستور زباں بندی رائج ہے، چنانچہ یہ شوہر کا فرض ہے کہ ایسی کسی صورتحال کی موجودگی میں بیوی کو اعتماد میں لے اور ڈاکٹر سے رجوع کرے۔

اس مسئلے کے کثیر جہتی پہلو ہیں اس لئے فزیشن، گائناکالوجسٹ اور نفسیاتی ماہرین کو مل کر علاج کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر اولین معائنے میں کوئی جسمانی نقص یا مرض نہیں ثابت ہو تو پھر نفسیات دان کی مدد درکار ہو گی۔ لیکن کوئی بھی نفسیات دان تب ہی علاج کر سکتا ہے جب شوہر کو اس کا صحیح ادراک ہو، وہ بیوی کے جذبات کا اتنا ہی احترام کرتا ہو جتنا اپنے جسم میں دوڑنے والی برقیات کا۔ جنسی تسکین کو عورت کے لئے بھی اتنا ہی اہم سمجھے جتنا ایک مرد کے لئے ضروری ہے۔ اگر شوہر کا محبت بھرا تعاون حاصل ہو تو قربت اور یکجائی میں حائل سارے کانٹے دور ہو سکتے ہیں۔ ہر مرد کو اپنی شریک حیات کے لئے واقعی نصف بہتر ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کی رو سے مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments