خالد ہمایوں : علم و ادب کا کوزہ گر


اک روز ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی معیت میں علم کی وادیوں، سبزہ زاروں اور منطقوں میں گھوم رہا تھا کہ ان کے منہ سے مولانا فیض الحسن سہارنپوری کا نام سنا۔ یہ نام کچھ نیا تھا۔ پہلے کبھی سننے میں نہ آیا مگر تبسم صاحب، مولانا کا ذکر جس عقیدت و مودت سے کر رہے تھے یوں محسوس ہوتا گویا آپ ان کے سامنے زنوائے تلمذ تہہ کر چکے ہوں۔ حسن اور عشق اک دوسرے سے ملتے نظر آ رہے تھے۔ یہ تو بعد ، بہت ہی بعد میں، داؤد رہبر صاحب کے توسط سے معلوم ہوا کہ وہ تبسم صاحب کے استاد نہیں بلکہ نسلوں کے استاد تھے۔

مولانا صاحب، سہارنپور سے اورینٹل کالج لاہور آئے تو اس کی خاک تک کو پارس بنا گئے۔ ذرے ذرے کو علم چٹا گئے۔ بر عظیم میں، عربی ادبیات میں کوئی بھی ان کا ثانی نہ تھا۔ آخر کوئی ہوتا بھی کیوں؟ آخر کون فضل حق خیرآبادی کے شاگرد رشید کا ہم پلہ ہوتا؟ مولانا شبلی نعمانی کو علم کی عجب للک تھی۔ فیض الحسن صاحب کے علم کا جب نقارہ بجا تو اس کی آواز برعظیم کے کونے کونے میں سنائی دی۔ شبلی، اسی طبل سے سر اٹھانے والی علم کی لہروں کے سنگ، سر کے بل چلتے ہوئے، صرف علم کی تشنگی کو کم کرنے کے لیے، مولانا فیض الحسن کے دربار علم میں حاضر ہوئے۔

اگر فیض الحسن، علم کا حسن تھے تو شبلی علم کے عاشق۔ عشق، حسن سے مل جانے کو، یکجا ہو جانے کو، بے تاب تھا اور دوسری طرف عدیم الفرصتی آسن جمائے بیٹھی تھی۔ مولانا نے جب علم کے لیے تڑپ، بے چینی و بے قراری دیکھی تو عدیم الفرصتی کی حدوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے شبلی کو اپنی شاگردی میں لے لیا۔ اورینٹل کالج سے گھر تک پہنچنے میں جو وقت صرف ہوتا اس دوران یہ اکابر، علم کی منازل مکمل جذبے و شوق سے طے کرتے۔ شبلی نعمانی نے مولانا فیض الحسن سہارنپوری کے سنگ لاہور سے سہارن پور تک کا سفر کیا تو شبلی پر، مولانا کے علم کی بارش ٹوٹ کر برسی بلکہ چھاجوں برسی۔ اتنی کہ شبلی علم سے جل تھل ہو گئے۔ مولانا کی شخصیت اب تک فیض رساں کی سی ہے۔ ہمیں کوئی مولانا فیض الحسن تو نہ مل سکا مگر ان سا ضرور مل گیا۔ لیکن ہم تو شبلی نعمانی کی خاک پا سے بھی نہیں۔

روز نامہ پاکستان سے تعلق خاطر بچپن ہی سے ہے۔ یہ سلسلہ، ابا مرحوم کی بدولت تھا اور انہی کی وجہ سے اب تک قائم ہے۔ پاکستان اخبار کے دفتر جب بھی جانا ہوتا تو ہر ماہ کے قومی دائجسٹ کے شمارے کو بادی النظر ضرور دیکھتا۔ اس سرسری جائزے کے دوران نظر ہر دفعہ اداریے پہ آ کر ٹھہر سی جاتی اور اس کے آخر پر خالد ہمایوں رقم ہوتا۔ دفتر میں اس نام کی گونج کئی مرتبہ کانوں میں پڑی۔ ہر اک کو آپ کے لیے رطب اللسان پایا۔ ”خالد ہمایوں صاحب“ کے نام کا کوس لمن الملک بجتا سنا۔

شام و سحر گزرتے رہے، وقت آگے کی جانب لڑھکتا رہا اور ہم بھی وقت کے ساتھ ساتھ قدم بھرتے رہے۔ وقت گزر رہا تھا اور ہم بھی گزر رہے تھے۔ یہ تماشا اب تک جاری ہے۔ اک دن ہوا یوں کہ، لب سڑک، نیچے کو، نشیب کی جانب، سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ زینے اترنے کے بعد ، موٹر سائیکلوں کے پاس سے، جو قطار میں کھڑے تھے، گزر رہے تھے۔ اک شخص، چمڑے کا سیاہ رنگ بستہ کندھوں سے لٹکائے، موٹر سائیکل کے پاس دو تین آدمیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ تھوڑا سا، دفتر میں داخل ہونے کے لیے، آگے کو بڑھا ہی تھا کہ کسی نے پاٹ دار آواز میں، خوش بیانی کے ساتھ یہ شعر پڑھا:

ستائش گر ہے زاہد، اس قدر، جس باغ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بے خودوں کے طاق نسیاں کا

یکلخت توجہ منعطف ہوئی۔ اک نورانی صورت، سفید کپڑوں میں ملبوس شخص اس شعر کو مکرر ارشاد، لہک لہک کر، کر رہے تھے۔ اردگرد کھڑے آدمیوں کے منہ سے واہ واہ کے الفاظ پھوٹے پڑتے تھے۔ سوچ نے اک کروٹ لی، اس بزرگی میں غالب کا اس قدر بے باک اور شوخ شعر۔ اتنے میں کسی نے کہا، جناب بشیر منذر کا ماہ پاروں والا شعر تو عرض کرتے جائیے۔ انھون نے دوسرے ہی لمحے بغیر کسی تردد کے عرض کیا:

موت لے جائے گی ماہ پاروں کو
ہائے! یہ لوگ بھی مر جائیں گے

اس شعر کے بعد انھوں نے موٹر سائیکل کو کک لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے دور، اوجھل ہو گئے۔ دفتر جا کر معلوم ہوا کہ یہی تو خالد ہمایوں تھے، جن کے علم کا شہرہ ہر اک سے سنا تھا۔

اک روز، دن ڈھلے، صدیق گجر صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ اچانک خالد ہمایوں صاحب آ گئے۔ سب سے حال احوال جاننے کے بعد مجھ سے میرے متعلق پوچھا۔ یہ ان سے پہلی با المشافہ ملاقات تھی۔ وہ دن واقعی یاد گار تھا۔ اس دوران جو تعلق قائم ہوا اب تک دائم ہے۔ دفتر جانے کے لیے اٹھے تو ہمیں بھی ساتھ لیتے گئے۔ تنگ سیڑھیوں سے گزرتے ہوئے چھت پر پہنچے اور کونے میں، اک طرف موجود ان کے خلوت خانے کی طرف بڑھے۔ وہ خلوت خانہ ہی تو تھا۔

جس میں صرف کتابیں بسرام کرتی ہیں۔ ہر طرف کتابیں ہی کتابیں پڑی ہیں۔ دیوار کے ساتھ لگی الماری کے خانوں میں، قومی دائجسٹ اپنے پہلے شمارے سے موجودہ شمارے تک پڑا ہوا ہے۔ ہفت روزہ زندگی، لیل و نہار، ادکار کے شمارے بھی بکھرے پڑے ہیں۔ میز پر کلیات شو کمار بٹالوی، بلھے شاہ کا کلام، خواجہ غلام فرید کی کافیاں، اک دو لغات اور تاریخ کی کچھ کتب پڑی ہوئی ہیں۔ کتابوں کی مہک کمرے کے ذرے ذرے میں رچی ہوئی ہے۔ قصہ کوتاہ، دفتر میں کتابوں کی حکمرانی تھی۔

باتوں سے باتیں، درخت کی شاخوں کی مانند، نکلتی چلی جا رہی تھیں۔ کبھی پنجابی میں گفتگو کرتے کبھی اردو میں، کبھی تاریخی مگر ہوش ربا واقعات سناتے۔ کتنے ہی سیاسی اور صحافتی راز ہیں جو آپ کے سینے میں دفن ہیں۔ اک دن کافی ترنگ میں تھے، کہنے لگے، جنگ کشمیر کے دوران، قبائلی لوگوں کی حرکات، جو خود کو مجاہدین کہتے تھے، نعمت عالی خان کی مضحکات سے بڑھ کر مضحکہ اور اخلاق سے بعید اور بے حیاء تھیں۔ قبائلیوں نے اس دوران کشمیریوں کو نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی سے بڑھ کر لوٹا۔

عورتوں کو نہایت سفاکی و درندگی سے نوچا۔ قید کیا اور منڈیوں میں بیچا۔ کسی نے اس بات پہ ان کی سرزنش کرنے کی کوشش تو قبائلی لوگوں نے کہا، ”تم نہیں جانتے ہم مجاہدین ہیں“ ۔ اسی طرح اپنے بچپن کے یگاں یگاں واقعات سنایا کرتے۔ گجرات میں، بچپن میں، جب والد کے ساتھ کے چاک پر بیٹھ کر برتن، کوزے اور آب خورے بناتے تھے، ان دنوں کو کس قدر حسرت سے یاد کرتے۔ وقت گزرنے کے بعد حسرتیں ہی تو رہ جاتی ہیں۔ آسودگی آ جانے کے بعد ناآسودگی سے رومان ہی تو رہ جاتا ہے۔ یہ رومان ہر کوئی کرتا ہے اگر کوئی کامیاب ٹھہرے۔ یہ کوزہ گر بعد میں اورینٹل کالج لاہور میں پنجابی ادبیات کا استاد ہوا۔

جب گجرات، اس کے سیاسی حالات، سیاسی و صحافتی تاریخ، مولانا مودودی کی معیت میں گزرے روز و شب سے نقاب سرکاتے تو ذہن میں خوشی و سرور کے ولولے کروٹیں لیتے۔ گھر جانے کے لیے رخت سفر باندھتے تو مجھے بھی انگلی پکڑ کر ساتھ لے جاتے۔ کبھی پنجاب کی تاریخ پہ روشنی ڈالتے، کبھی پنجابی زبان اور اس کی لسانیت پہ، کبھی اردو شعراء کا ذکر کرتے اور ان کے اشعار سناتے اور کبھی پنجابی کے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ وحدت الوجود اور دوسرے نظریات بھی بتاتے چلے جاتے، کبھی ٹینی سن کی نظم سناتے، اس کی جزئیات و تراکیب بتاتے، کبھی ورڈز ورتھ کی نظمیں زبانی پڑھنے لگتے۔

نسیم حجازی کے ناولوں کے پورے پورے باب ان کو زبانی یاد تھے۔ کہتے ہیں کہ نسیم حجازی نے اک زمانے کو دیوانہ کیا ہے اور اس بات کا اعتراف بھی کرتے کہ نسیم حجازی صاحب نے تاریخ گڈمڈ کی ہے۔ اک خاص نظریے کی ترویج کی ہے۔ اگر کبھی کسی بات پہ ان سے اختلاف کیا جاتا تو اس کو تسلیم کرتے۔ اللہ اللہ کیا کچھ نہیں جانتے آپ! علم انسان کو عاجز بناتا ہے۔ یہ اس سے پہلے سنا تھا اس کا عملی نمونہ خالد صاحب کی صورت میں دیکھ بھی لیا۔

علم کے حصول کے لیے آپ کے پاس جو بھی آیا کبھی خالی نہ گیا۔ کسی کام کے سلسلے میں آپ کے گھر جانا ہوا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ عقل دنگ تھی۔ مرکزی دروازے سے گھر میں داخل ہوئے، اوپر ان کے دار المطالعہ میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنا تھیں۔ مگر چڑھیے تو کیسے؟ نیچے سے اوپر تک سیڑھیاں کتابوں سے لدی ہوئی ہیں۔ کمرے میں اک جانب صوفہ اور چارپائی ہے۔ ان کے اوپر، تلے، آگے، پیچھے کتابیں ہی کتابیں ہیں اور پرانے رسائل و جرائد کے مکمل مکمل فائل بھی۔

جب جب خالد ہمایوں صاحب کا خیال آتا ہے تو مولانا ٖیض الحسن سہارن پوری صاحب بے طرح یاد آتے ہیں۔ دونوں ہی فنا فی العلم۔ یہ مولانا صاحب، حافظ محمود شیرانی، پروفیسر محمد اقبال، مولوی محمد شفیع، علامہ عبدالعزیز میمن، پروفیسر محمد عبدا اللہ اور بے پناہ جبال علم ہی کا فیض ہے کہ اس درس گاہ، اورینٹل کالج لاہور، سے اب تک بے لوث، علم میں ڈوبے ہوئے گوہر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سچ ہے، علم انسانی شخصیت پر کچھ اس طرح اثرانداز ہوتا ہے کہ فکر، بول چال، لفظوں کے در و بست اور معمولات روز مرہ کے ابعاد کو موڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ہر معاشرے میں تحصیل علم کا مزاج اگر اس کی تہذیب و ثقافت و روایات و تمدن کے مطابق ہو تو تعلیمی اداروں سے علم و عمل سے لدی پھندی شخصیات ہی پیدا ہوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments