پاکستان نیوی میں گزارے سنہرے دن: یونٹ میں


کیماڑی جیٹی سے اپنے سامان کے ساتھ بوٹس پر سوار ہو کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے جو ہمارا ٹریننگ سکول پی این ایس ہمالیہ تھا۔ سمندر میں ہچکولے کھاتی بوٹس چلیں تو سمندر کی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے دل و دماغ کو مسحور کرنا شروع کر دیا۔ چلتے ہوئے کوئی دوسری بوٹ ہماری بوٹ کو کراس کرتی تو پانی کی لہریں جوش میں آتیں اور آپس میں ٹکراتیں جس سے دونوں بوٹس ہچکولے کھانے لگ جاتیں۔ تھوڑی دیر کے بعد جھٹکے تھم جاتے اور بوٹ اپنے راستے پر رواں دواں ہو جاتی۔

راستے میں ہماری دائیں اور بائیں جانب گھنی جھاڑیاں اور کچے مکانات نظر آئے اور ان کے بارے اپنے ساتھ بیٹھے سینئر سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے بتایا یہ دو جزیرے ہیں اور ان میں لوگ آباد ہیں اور مچھلیاں پکڑنا ان کا کاروبار ہے۔ ان کو گاؤں یا بھٹ کہتے ہیں۔ ایک گاؤں کا نام بابا بھٹ اور دوسرے کا نام شاہ بھٹ ہے، ان دونوں کے درمیانی راستہ سے بوٹس گزر کر پی این ایس ہمالیہ کی جیٹی پر جا لگیں۔

اپنا سامان اٹھایا اور بوٹ سے باہر آ گئے۔ جیٹی سے یونٹ پی این ایس ہمالیہ کا فاصلہ دو کلومیٹرہے۔ اب اپنا سامان اٹھا کر سر پر رکھا اور یونٹ کی طرف چل دیے۔ اب حکم ہے کہ سامان بھی خود اٹھانا ہے اور چلنا بھی فارمیشن میں ہے۔ تھکے ہارے تو پہلے ہی تھے اب فارمیشن کا سن کر بوکھلا گئے کہ کیا مصیبت آن پڑی۔ جو سینئر ساتھ تھے جنہوں نے ہمیں ہمالیہ جیٹی پر ریسیو کیا تھا ان کی ذمہ داری تھی کہ ہمیں یونٹ کے اندر ڈسپلن کے ساتھ لے کر جائیں۔ پہلے انہوں نے ہمیں فارمیشن میں کھڑا ہونا اور چلنا سمجھایا ، فارمیشن میں کھڑا کیا اور پیدل چلاتے ہوئے یونٹ کی طرف چل پڑے۔

دو کلومیٹر چلنے کے بعد سامنے گیٹ نظر آیا جس کے اوپر جلی حروف میں لکھا نظر آیا۔ یہ ہماری منزل پہلی یونٹ ٹریننگ سنٹر ہے۔ PNS HIMALYA

وہاں پہنچ کر یہ دیکھا کہ دو عدد آفس باہم ملے ہوئے ہیں۔ دائیں طرف پہلا آفس ڈیوٹی پیٹی افسر کا تھا جو کہ ہمارے آنے کے شور کی وجہ سے باہر آ گئے تھے۔ ان کے ساتھ ڈیوٹی پر گارڈز بھی تھے۔ وہیں پر ساتھ ایک دوسرا آفس بھی تھا جو کہ افسر آف دی ڈے کا تھا۔ وہاں پہنچ کر گیٹ سے پہلے ہمیں روک دیا گیا اور سخت ہدایت کی گئی کہ یہاں خاموش رہنا ہے اور بالکل بھی کسی قسم کی آواز نہ آئے۔ جب چلنے کا حکم دیا جائے تو خاموشی سے چلنا ہے۔

ایک سینئر ہماری سب سے اگلی لائن کے ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے اور چلنے کا حکم دیا اور جب چلتے ہوئے افسر آف دی ڈے کے آفس سے تین قدم پہلے پہنچے تو ان صاحب نے اونچی آواز میں آواز لگائی۔ ’داہنے دیکھ‘ کہہ کر دائیں طرف دیکھتے ہوئے سیلوٹ کیا اور جب سارے لڑکے اس آفس کے سامنے سے گزر گئے تو دوبارہ اونچی آواز میں ’سامنے دیکھ‘ کہا۔ اسی آفس کے متصل سامنے گراؤنڈ شروع ہوتی ہے وہاں سب لڑکوں کو کھڑا کر دیا گیا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments