سیکس کی ترغیب دینے والے روبوٹ: کم عمری میں سیکس ویب سائیٹ اومیگل سے جڑی ایک ناخوشگوار یاد

جوئے ٹڈی - سائبر رپورٹر


man sees himself on screen

kbeis/ BBC

*وارننگ اس سٹوری میں تکلیف دہ مواد ہو سکتا ہے

مائیکل اس وقت محض 14 برس کے تھے جب انھوں نے پہلی مرتبہ ویڈیو چیٹ سائیٹ ’اومیگل‘ کا استعمال شروع کیا۔

انھوں نے سکول کے زمانے ہی سے اس ویب سائیٹ کے بارے میں بہت کچھ سُن رکھا تھا کہ اس ویب سائٹ پر ناقابل یقین اور عجیب و غریب قسم کے تجربات ہوتے ہیں۔

مائیکل کے مطابق چند گھنٹوں کے اندر ہی اس کا سامنا ایک بڑی عمر کی خاتون سے ہو گیا۔ اس بڑی عمر کی خاتون نے مائیکل کو برہنہ ہونے کے لیے کہا۔

مائیکل کے مطابق ’اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ آیا وہ خاتون بالغ بھی ہیں یا نہیں مگر یہ بات یقینی تھی کہ وہ مجھ سے عمر میں بڑی تھیں۔‘

’مجھے یاد ہے کہ اس خاتون نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اسے برہنہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھے کچھ حرکتیں کرنے کا کہا۔ میں نے ایسا ہی کیا کیونکہ میں بیوقوف تھا۔ اگر میں وقت کو واپس لا سکتا ہوتا تو شاید میں اپنے آپ کو یہ حرکت کرنے سے باز رکھتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ذومعنی جملوں‘ کے استعمال پر مفت کنڈومز کی تقسیم بند

بولیویا: سیکس ورکرز کا کورونا سے تحفظ کے لیے برساتی کا استعمال

انگلینڈ میں سیکس کے ذریعے منتقل ہونے والے گونوریا انفیکشن کے کیسز میں اضافہ

مائیکل اس کے فوراً بعد اس سائیٹ سے لاگ آؤٹ ہو گئے اور اس واقعے کے بارے میں پریشان رہے۔ اس واقعے کے بعد بھی تجسس نے اُن کا پیچھا نہیں چھوڑا اور پھر 18 سال کی عمر وہ دوبارہ اس سائیٹ پر واپس آئے۔

پہلی بار اس سائیٹ پر آنے کے بعد چند ایسے واقعات رونما ہوئے جس نے مائیکل کے ذہن میں ان خدشات کو جنم دیا کہ آیا جس خاتون سے ان کی اس سائیٹ پر ملاقات ہوئی تھی کیا وہ حقیقت میں بھی کوئی انسان تھا یا پھر محض ایک سیکس کی ترغیب دینے والا روبوٹ؟

’پھر مجھے اس کی لت پڑ گئی

مائیکل کے مطابق وہ اس کے بعد اس سائیٹ پر باقاعدگی سے جانا شروع ہو گئے اور وہ کیمرے پر مختلف لوگوں کے سامنے ویڈیو سیکس کرتے رہے۔ مائیکل کے مطابق انھیں یہ سائیٹ استعمال کرنے کی لت پڑ گئی اور پھر بہت سی ایسی حرکتوں (ویڈیو سیکس) کے بعد انھوں نے ایک مرتبہ پھر اس سائیٹ کا استعمال ترک کر دیا۔

مائیکل کی زندگی آگے بڑھتی گئی اور انھوں نے اومیگل کے بارے میں سب کچھ بھلا دیا۔ مگر اس سائیٹ کی یاد گذشتہ برس لاک ڈاؤن کے دنوں میں پھر واپس لوٹ آئی۔

مائیکل کے مطابق انھوں نے لاک ڈاؤن کے دوران ایک بار پھر اس ویب سائیٹ کا استعمال شروع کر دیا۔ اسی طرح ایک سہ پہر کو اس ویب سائٹ پر ان کا آمنا سامنا ان کی اپنی ایک پرانی ویڈیو سے ہوا جس میں وہ سیکس کرتے نظر آ رہے تھے۔ کسی نے ان کی ویڈیو اور لائیو چیٹ ریکارڈ کر لی تھی اور ریکارڈنگ کرنے والا اس کا استعمال گذشتہ ایک برس سے کر رہا تھا۔

مائیکل کے مطابق انھوں نے فی الفور اس ویڈیو میں اپنے آپ کو پہچان لیا اور وہ یہ جانتے تھے کہ یہ ’لائیو چیٹ‘ ایک طرح کا دھوکہ تھا۔

مائیکل یہ دیکھ کر ڈر گئے مگر یہ جاننے کے لیے کہ درحقیقت چل کیا رہا ہے انھوں نے ٹیکسٹ چیٹ کے ذریعے بات چیت شروع کر دی۔

اس کے فوراً بعد اس پُراسرار شخص نے جس کے پاس ویڈیو تھی مائیکل کو جنسی سرگرمی میں ملوث کرنے کی کوشش کی۔

یہ ایک جدید سسٹم تھا جس میں مختلف طرح کی ویڈیوز چلائی جا رہی تھیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص ’چیٹ‘ میں کچھ لکھ رہا ہے تو وہ مجھے برہنہ ہونے پر آمادہ کرے گا پھر وہ اپنی ویڈیو کی کچھ اس انداز سے ایڈیٹنگ کرے گا کہ جس میں لگے گا یہ کہ جیسے میں اپنے پاجامے کو اتار رہا ہوں۔ اس نے تمام ویڈیو اس انداز سے ہی تیار کی اور پھر مجھے میری ویڈیو دکھائی۔‘

’لوگوں کو سیکس پر مجبور کرنا‘

مائیکل، جو اپنا صیحح نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ سب دل بہلانے والا عمل تھا۔

مائیکل کو یہ ڈر ہے کہ دوسرے لوگوں کو بھی اومیگل نے اسی طرح دھوکے سے سیکس پر مجبور کیا ہوگا، جس میں وہ دوسرے فریق کے ساتھ اس طرح کے جنسی عمل میں مگن ہو گئے ہوں گے۔

بی بی سی پر اومیگل پر بچوں کو جنسی عمل میں ملوث کرنے سے متعلق رپورٹ نشر ہونے کے بعد مائیکل نے بی بی سی سے خود رابطہ کیا۔

اومیگل کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ مائیکل کی رودار سن کر بہت صدمے میں ہیں اور اس طرح کے عمل اور روپے کے خاتمے کے لیے جس حد تک ممکن ہے ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔

یہ امریکی سائیٹ جو 2009 میں شروع کی گئی تھی اس وقت درجنوں زبانوں میں چلائی جا رہی ہے۔ مگر اس سائیٹ کی شہرت کورونا وائرس کی وبا کے دوران ہی بڑھی جب ایک دن میں 20 لاکھ تک لوگ اس سائیٹ کا رخ کرتے ہیں۔

ٹک ٹاک اور یوٹیوب پر وائرل ویڈیوز کی وجہ سے اب یہ ویب سائیٹ نوجوانوں میں خاصی مقبول ہو رہی ہے۔

اس سائیٹ کا پیغام ہی یہ ہے کہ اجنبی لوگوں سے بات کریں اور ویب سائیٹ پر لائیو کاؤنٹر کے مطابق ایک ہی وقت میں لاکھوں لوگ اس ویب سائیٹ پر ہوتے ہیں۔

اگرچہ اس ویب سائیٹ پر یہ وارننگ موجود ہے کہ یہ صرف بالغ افراد کے لیے ہے اور 18 سال سے کم عمر والے افراد اسے استعمال نہیں کر سکتے مگر اس سائیٹ پر عمر کی تصدیق کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

اور کمپنی کو سائیٹ پر کسی بھی طرح کے ناخوشگوار واقعات کی اطلاع دینے کے لیے کوئی آن لائن یا میل کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔

Omegle videos on TikTok

TikTok

21 سالہ مائیکل کا کہنا ہے کہ وہ یورپ سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنا تجربہ سب کو بتانے کا مقصد آگاہی پیدا کرنا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق کرلیں کہ دوسری طرف ان کے ساتھ ویڈیو کال پر کون شخص ہے۔

میں اس بارے میں مسلسل کرب میں رہا۔ مگر پھر مجھے اس وقت سکون ملا جب مجھے یہ پتا چلا کہ اس میں کم از کم میرا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔

مگر یہ بات مجھے ابھی بھی تکلیف دیتی ہے کہ میں اس طرح دوسرے لوگوں کو تکلیف پہنچا رہا ہوں۔ تاہم میں ابھی یہ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ پہلی بار جس شخص سے ویڈیو پر ان کی بات ہوئی تھی کیا وہ جعلی تھا۔

سارا سمتھ انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق ایک خیراتی ادارے دی انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن (آئی ڈبلیو ایف) سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا اس طرح کے سافٹ ویئر کے ذریعے دھوکہ دہی کو ’ورچوئل کیم وورز‘ کہا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہیں کہ یہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ کوئی اس طرح آپ کی ان ویڈیوز کو استعمال کرے۔ ان کے مطابق اس طرح کے ’ورچوئل کیم بوٹس‘ کو بچوں کو سیکس پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس میں بچوں کو دوسرے بچوں کی ویڈیوز دکھائی گئی ہیں، جن کے بارے ہم جانتے ہیں کہ وہ حقیقت میں ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم نے اس طرح کی ویڈیو پہلے بھی کہیں دیکھی ہے۔

ہم نے کئی ویب سائیٹس پر دیکھا ہے جہاں بچے آمنے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ آن لائن بات چیت میں مگن ہوتے ہیں۔

Collage of explicit material on Omegle

آئی ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ وہ اس طرح کے ناخوشگوار واقعات سے نمٹنے کے لیے ان ویب سائیٹس کی انتظامیہ سے زیادہ بہتر اقدامات کی توقع رکھتے ہیں اور وہ بچوں کے تحفظ کے لیے اور اس صارفین کو اس طرح کے رویے سے بچانے کے لیے عمر کی تصدیق کا ایک بہترین نظام متعارف کرائیں۔

تنظیم کے مطابق ہم صارفین سے بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح کی دھوکہ دہی سے باخبر رہیں۔ ہم یہ تو کہتے ہیں دیکھنا ہی ایمان ہے۔ مگر بدقسمتی سے جعلی کیمرا سافٹ وئیر کے معاملے میں یہ بات اس قدر سچ نہیں ہے۔

سائبر سیکورٹی کمپنی ایک سیکور کے اینڈی پیٹیل کا کہنا ہے کہ اومگیل پر ’بوٹ میکرز‘ کی ایک فعال کمیونٹی ہے جو یوٹیوب ویڈیوز سمیت دیگر پلیٹ فارمز کی ویڈیوز کو اس طرح کی دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرتی ہے۔

اومیگل پر سیکس کی ترغیب دینے والے متعدد روبوٹس بڑے ہی عام انداز سے ڈیزائن کیے ہوتے ہیں کہ وہ جتنے زیادہ لوگوں سے ہو سکے بات کر سکیں۔ ان میں سے کئی ربورٹس ٹیکسٹ چیٹ میں لوگوں کو ایسے لنک شیئر کرتے ہیں اور پھر انھیں کسی دوسرے پلیٹ فارمز پر لے چلتے ہیں جہاں پر کوئی انسان پھر اس سارے عمل کی نگرانی کرتا ہے۔

ان کے خیال میں مائیکل کے کیس میں یہ ممکن ہے کہ روبوٹس کے بجائے کوئی انسان ہی ہو جو اس طرح اومیگل پر معاملات آگے بڑھا رہا ہو کہ پورا یقین ہو جائے کہ سامنے والا شخص جعلی نہیں ہے۔

آئی ڈبلیو ایف سمیت اومیگل کے صارفین اور دوسرے لوگ بھی اس سائیٹ پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ یہ ویب سائیٹ بچوں کو اس سائیٹ پر آنے سے روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی ہے اور نہ ہی کوئی ماڈریشن جیسے اقدامات لیے جاتے ہیں۔

بی بی سی پر اس سے قبل اومیگل سے متعلق خبر شائع ہونے کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے ایک ماہر تفتیش کار نے بی بی سی سے رابطہ کیا۔ اس افسر کا کام بچوں کی فروخت اور استحصال سے متعلق تحقیقات کرنا ہے۔

Leif K Brooks picture

Twitter

بی بی سی کو یہ علم ہے کہ اقوام متحدہ نے اومیگل سے بھی رابطہ کیا مگر اس حوالے سے تفصیلات ابھی ظاہر نہیں کی جا سکتی ہیں۔

لیف کے بروکس اس ویب سائیٹ کو بنانے والے ہیں اور وہ ابھی بھی اسے چلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس ویب سائٹ کی نگرانی کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ایک تیسرا فریق بھی اس کمپنی کی نگرانی کرتی ہے جس میں 24 گھنٹے کام کرنے والی ٹیمیں موجود ہیں۔

ان کے مطابق اگرچہ ایسے رویے کئی لاکھ لوگوں میں سے چند لوگوں کی طرف سے ہی سامنے آتے ہیں مگر اس طرح پیش آنے والے نامناسب رویے میرے لیے بہت صدمے کا باعث ہیں اور یہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔

ان کے مطابق جس طرح کے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اومیگل پوری طرح ان تحفظات کے ازالے سے متعلق پُرعزم ہے تا کہ چند بُرے عناصر کروڑوں لوگوں کے اچھے تجربات کو تباہ نہ کر سکیں۔

ان کے مطابق ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت تو موجود نہیں ہے کہ مائیکل کے لیے ان کی سائٹ پر روبوٹ استعمال کیا گیا اور اب نیا نظام اس طرح کے روبوٹ کو نشاندہی کر سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32553 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp