داردستان کا ترجمان: سر بلند


ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کے بلند برف پوش پہاڑوں، وسیع جنگلات اور خوبصورت سرسبز و زرخیز وادیوں کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ سوات، دیر، چترال کدھر ہے اور یہاں کے خوبصورت علاقے کون کون سے ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان کی بلند و بالا چوٹیوں اور خوبصورت دروں کے بارے میں بھی ایک دنیا جانتی ہے۔ پوری دنیا سے ہر سال لاکھوں لوگ شمال کے ان خوبصورت علاقوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ لیکن یہاں کے مقامی لوگوں کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

جو جانتے ہیں ان کی معلومات بھی نامکمل اور غلط ہوتی ہے کیونکہ مقامی اقوام پر کام کرنے والے محققین سب کے سب باہر کے تھے اور انہیں جو کچھ ان کے معاونین یا مترجمین نے بتایا انہوں نے وہی لکھا۔ یہ ترجمان وغیرہ اکثر پشتون، مغل ہوتے تھے جو مقامی زبان نہیں جانتے تھے۔ یہ تحقیق وغیرہ بھی زیادہ تر انگریزی، روسی فارسی، اور جرمن وغیرہ زبانوں میں ہوئی ہے، اس لئے عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شمال جتنا مشہور ہیں، یہاں کے رہنے والے اتنے ہی گمنام ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مقامی اقوام کے بارے میں لکھنے والوں نے جو کچھ لکھا ، اسے درست سمجھ کر آگے پڑھایا گیا۔ یوں مقامی اقوام کی تاریخ اور نسل کے بارے میں اور بھی غلط فہمی پیدا ہوئی۔ مثال کے طور پر چترال میں آباد کالاش قوم کو ایک دنیا یونانی النسل اور ان کی ثقافت یا مذہب کو یونانی مذہب کہتے ہیں۔ عام بندے سے لے کر اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اس پر یقین کرتے ہیں۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ قدیم تاریخ سے لے کر جدید تحقیق تک یعنی ڈی این اے ٹیسٹ تک سب یہی کہتے ہیں کہ کالاش داردی ہے۔

یہ ان داردی قبائل کے بچے کھچے لوگوں کا گروپ ہے جو آس پاس آباد دوسرے قبائل کے برعکس تبدیلی مذہب سے بچ گئے۔ اسی طرح کالاش مذہب کا یونان سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آج کا کالاش مذہب اٹھارہویں صدی میں بنایا گیا اور یہ دستور کہلاتا ہے۔ قبل از اسلام ہمارے ہاں دیر سوات میں بھی آج کے کالاشہ دستور سے ملتے جلتے مذاہب ہوا کرتے تھے۔ دستور کا مطلب مقامی قانون جس پر سب نے چلنا ہوتا ہے۔ ہم لوگ آج بھی اپنے دستور پر عمل کرتے ہیں فرق بس اتنا ہے کہ اب عقائد مختلف ہے۔

کسی دیوی دیوتا کی جگہ گھین خدائی ( اللہ تعالٰی ) کو اختیار حاصل ہے، باقی وہی دستور رواج ہے۔ آج کا کالاش مذہب یا دستور قدیم داردی مذاہب کی آخری نشانی ہے اور یہ لوگ آخری داردی لوگ جو اب تک اپنے قدیم داردی مذاہب پر عمل کر رہے ہیں۔ کالاش یونانی ہے یا گاؤری عرب ہے وغیرہ اس طرح کہ سینکڑوں کہانیاں یہاں پڑھائی جاتی ہے لیکن یہ صرف کہانیاں ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مقامی اقوام میں ایسے لوگ نہیں تھے کہ وہ اپنے قدیم تاریخ اور اصل النسل کے بارے میں دنیا کو بتاتے اور باہر کے لوگوں نے جو کچھ دل میں آیا وہ لکھا۔

یوں مقامی اقوام کے بارے میں کئی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں۔ ’سربلند‘ مجلے کا مقصد دنیا کو یہاں آباد اقوام اور ان کے خوبصورت وطن کے بارے میں مختصر بتانا ہے۔ مجلے میں لکھی گئی تحاریر مقامی اقوام سے تعلق رکھنے والے محققین اور دانشوروں نے لکھیں ہیں تاکہ ان قوموں کی صحیح اور درست تاریخ دنیا کے سامنے آئے۔ مجلے کا نام سربلند یہاں موجود دنیا کی بلند چوٹیوں کے نسبت سے رکھا گیا ہے۔ سربلند دراصل سوات بحرین میں مقیم سماجی، تحقیقی و تعلیمی ادارے ’ادارہ برائے تعلیم و ترقی ”کے آن لائن میگزین WeMountains کی کتابی صورت ہیں۔

ادارے نے تین سال پہلے مذکورہ آنلائن میگزین کی اشاعت شروع کی اور ساتھ میں تحقیقی مقالوں پر مشتمل مجلے کو کتابی صورت میں چھاپنے کا فیصلہ بھی ہوا۔ سربلند دراصل اس وعدے کے تکمیل کی طرف پہلا قدم ہے۔ سربلند کو زبیر توروالی نے ایڈیٹ کیا ہے۔ انہوں نے انتھک محنت کر کے سب لکھاریوں کی مدد کی ہے اور اس جریدے کو صحیح معنوں میں اکیڈیمک بنایا ہے۔ 324 صفحوں پر مشتمل سربلند جریدے کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا حصہ عمومی ہے جہاں پورے علاقے کے بارے میں عمومی مقالے شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں سوات اور دیر پر مقالے شامل ہیں جن میں دو مقالے میرے ہیں۔ تیسرے حصے میں ہزارہ کوہستان کے بارے میں چوتھا حصہ چترال کا ہے، پانچواں گلگت بلتستان اور چھٹے حصے میں کشمیر، لداخ، اور مشرقی افغانستان پر لکھے گئے مقالے شامل ہیں۔ کل 40 مقالے ہیں جنہیں مقامی اقوام سے تعلق رکھنے والے 33 محققین نے لکھا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا جریدہ ہے جس میں شمال کے خوبصورت علاقوں اور یہاں آباد اقوام کی تاریخ، زبان، کلچر وغیرہ پر تحقیقی مضامین شامل ہیں۔

سربلند کا مقصد مقامی اقوام کا دنیا کے ساتھ ساتھ ان کا ایک دوسرے سے تعارف اور مقامی باشندوں کو تحقیق و تحریر کے طرف راغب کرانا ہے۔ سیاح دوستوں کے خدمت میں عرض ہے کہ اس شمارے میں شمال کے خوبصورت مقامات پر بھی مضامین شامل ہیں۔

اگر کسی کو چاہیے تو سوات میں شعیب سنز سوات مارکیٹ منگورہ اور معاذ فوٹو سٹیٹ بحرین سوات؛ چترال میں فیض کتاب گھر اور افضل نیوز چترال بازار جبکہ گلگت میں نارتھ بک مدینہ مارکیٹ گلگت پر دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جریدہ اسلام آباد میں سعید بک بینک اور پشاور میں یونیورسٹی بک ایجنسی پر بھی دستیاب ہے ، قیمت بہت مناسب ہے۔ ہارڈ کور سمیت اچھے کاغذ پر 324 صفحوں کی کتاب صرف مبلغ 500 روپے میں دستیاب ہے۔ مذکورہ بک سیلرز آپ کے لئے مزید رعایت بھی کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments