پاکستانی سکھوں کی شادی کیوں رجسٹرڈ نہیں ہو سکتی؟


hasnain tirmazi

سردار کہن سنگھ جی کی نوکری سکھ ہونے کی وجہ سے جنم استھان گوردوارہ ننکانہ صاحب میں بطور گروجی ہو گئی۔ یہ گوردوارہ متروکہ وقف املاک پاکستان جسے عرف عام میں ہندو اوقاف بھی کہا جاتا ہے کہ زیرانتظام ایک سرکاری نوکری تھی اور تمام تر سرکاری پروٹوکول جو اس نوکری کے ساتھ وابستہ تھے، آپ کو دیے گئے جس میں رہائش الیکٹرک سٹی یوٹیلٹی وغیرہ سب شامل تھے اور سب سے بڑی بات کہ یہ نوکری تاحیات تھی یعنی جب تک آپ زندہ رہیں گے اس گوردوارے میں زائرین کی خدمت کریں گے جس کا مشاہرہ سرکار آپ کو دے گی۔

اس دوران جو لوگ بھی یاترا کے لئے جایا کرتے تھے ۔ آپ ان کا بہت خیال رکھتے اور اپنے دھرم کے حساب سے ان کی سیوا کیا کرتے، سب ملکی و غیر ملکی یاتری آپ سے بہت خوش تھے اور آپ بھی اپنی نوکری کو اپنے دھرم کے ساتھ ملا کر کرتے اور اسے ایک مقدس عبادت سمجھتے تھے۔

وقت گزرا سردار جی کی شادی اسی گوردوارہ ننکانہ صاحب میں اپنی مذہبی رسوم کے مطابق دھوم دھام سے سرانجام پا گئی۔ اب اس دھرم کی سیوا میں ان کی بیوی بھی شامل ہو گئی۔ یوں دونوں میاں بیوی جن کی زندگی کا مقصد اب صرف زائرین (یاتریوں) کی سیوا کرنا ہو گیا تھا، بہت خوشی سے اس کام میں مگن تھے مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ اچانک سردار کہن سنگھ جی بیمار ہوئے اور کچھ دنوں میں دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کر گئے۔

یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا جو ان کی دھرم پتنی کو برداشت کرنا تھا۔ گویا ان کی زندگی کی تمام خوشیاں ختم ہو گئیں مگر ابھی اس سے بڑا ایک ستم ہونا باقی تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے کچھ دنوں کے بعد ایک خط موصول ہوا کہ کہن سنگھ جی کا گھر خالی کر دیا جائے۔ اب اس میں کوئی اور صاحب آ کر رہیں گے جن کو سردار کہن سنگھ کی جگہ نوکری دے دی گئی ہے، جس پر ان کی اہلیہ نے کہا کہ میں ان کی بیوی ہوں، مجھے تھوڑا عرصہ دیا جائے تاکہ میں کوئی بندوبست تو کر لوں مگر حکومتی افراد نے صاف انکار کر دیا۔

حکومت پاکستان کے قوانین کے مطابق کسی بھی سرکاری اہلکار کے مر جانے کے بعد اس کے بقایاجات اور پینشن کی مد میں موجود روپے اس کی بیوی یا بچوں کو دیے جاتے ہیں مگر سردار کہن سنگھ کے کیس میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وجہ اس کی یہ بنی کہ ان کے بیوی کے شناختی کارڈ میں شوہر کی بجائے ان کے والد کا نام لکھا ہوا تھا کیونکہ اس وقت تک اقلیتوں کے لئے شادی کے بعد کوئی ایسی شق موجود ہی نہیں تھی (موجود تو اب بھی نہیں ہے) جس میں شوہر کا نام لکھا جا سکے اور نہ ہی نادرا ان لوگوں کو کوئی ایسا شناختی کارڈ یا میرج سرٹیفیکیٹ جاری کرتا تھا جسے کہیں ثبوت کے طور پر دکھایا جا سکتا ہو لہٰذا ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا جس کی بنیاد پر یہ ثابت کیا جا سکتا ہو کہ یہ سردار کہن سنگھ کی بیوہ ہیں۔ یوں کسی قسم کے کوئی واجبات انہیں نہیں مل سکے اور ایک ماہ کے اندر اندر ان سے سرکاری رہائش گاہ بھی واپس لے لی گئی اور تھوڑے عرصے کے بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔

یہ پوری کہانی سنانے کے بعد پروفیسر سردار کلیان سنگھ کلیان ایک لمحے کے لیے خاموش ہوئے اور ایک لمبی آہ بھر کے بولے کہ ایسا تو کوئی ثبوت تو میری بیوی کے پاس بھی نہیں ہے، جس سے وہ یہ ثابت کرسکے کہ وہ میری بیوی ہے۔

سردار کلیان سنگھ کلیان ایک ریسرچ اسکالر ہیں اور جی سی یونیورسٹی میں پنجابی زبان کے پروفیسر ہیں اور مرحوم سردار کہن سنگھ جی کے بھتیجے بھی ہیں۔ ان سے گزشتہ دنوں سیر حاصل گفتگو ہوئی جس میں بہت سے انکشافات بھی ہوئے جو قارئین کی نذر کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پہلے پاکستان کے چند گوردوارے اپنے پاس تمام سکھوں کا سارا ڈیٹا رکھتے تھے، وہی شادی کے بعد دولہا دلہن کا اندراج کیا کرتے تھے اور اسے ننکانہ صاحب کے گوردوارہ جنم استھان میں جمع کروا دیا کرتے تھے، جہاں پورے پاکستان کا سارا ڈیٹا مل جایا کرتا تھا مگر سرکاری طور پر کوئی کاغذ پتر نہیں ہوتا تھا، جس کی بنیاد پر کوئی سرکاری کام ہو سکے اور نہ ہی آج تک کوئی نظام ہے جس سے ثابت ہو سکے کہ فلاں فلاں کی بیوی ہے یا فلاع کسی خاتون کا شوہر ہے۔

کلیان سنگھ نے بتایا کہ سب سے پہلے امریکہ سنگھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے ڈاکٹر پرتپال سنگھ نے 2007 میں تب کے جسٹس افضل حیدر سے اس بارے میں بات کی اور انہیں درخواست دی جس میں اس مسئلے اور اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اور ان کے حل کے حوالے سے تمام تر باتیں تحریر کی گئی تھیں اور اس کے جواب میں جسٹس صاحب نے نہ صرف اسے حل کرنے کا وعدہ کیا بلکہ کچھ عرصے کے بعد اس بارے میں فیصلہ بھی دیا مگر اس پر قانون سازی نہیں ہو سکی اور 90 دن گزر جانے کے بعد وہ ختم ہو گیا۔

بعدازاں پشاور کے ایک چرچ پر حملے میں 81 افراد کے شہید ہو جانے اور مختلف اقلیتوں کی جانب سے ہراساں کیے جانے، اپنے مذہب کو جبری طور پر چھوڑ دینے اور شادیوں کی رجسٹریشن نہ کیے جانے کی بے حد شکایات کے جواب میں تب کے چیف جسٹس جناب تصدق حسین جیلانی نے اپنے ایک از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے 19 جون 2014 کو ایک فیصلہ دیا۔ اس از خود نوٹس کی سماعت میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس منیرعالم بھی ان کے ساتھ شریک تھے۔

اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وہ انسانی حقوق جن کی ضمانت اس ملک کے شہریوں کو دی گئی ہے، وہ ہر ایک کا بنیادی حق ہے اور ایسا نہ ہونا آئین میں مروجہ پالیسیوں کے خلاف شمار کیا جائے اور ایک ایسا ہدایت نامہ ترتیب دیا جائے جس میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے مؤثر کردار ادا کیا جا سکے مگر اس پر کام نہیں ہو سکا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی قانون سازی کی گئی۔

اس فیصلے کے تقریباً چار سال کے بعد پنجاب اسمبلی نے شادیوں کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل پاس کیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ اب سکھوں کی شادی کے بعد انہیں میرج سرٹیفیکیٹ ان کی یونین کونسل سے مل جائے گا، طلاق یا علیحدگی کی صورت میں یا دوبارہ رجوع کرنے کی صورت میں انہیں مکمل آزادی ہو گی۔ وراثت میں مرد اور عورت کا حصہ ان کے مذہب کے مطابق برابر تسلیم کیا جائے گا۔ یہ بل صوبائی اسمبلی سے پاس ہو جانے کے بعد قانون بننے کے عمل میں جا چکا ہے مگر کب سے نافذ العمل ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

پاکستان میں مسیحی افراد کے حقوق کے لئے ایک طویل عرصے سے جدوجہد کرنے والے خالد شہزاد صاحب نے اس حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں مسیحی افراد کے شادی کرنے کے رواج کے مطابق چرچ میں متواتر تین اتواروں کو ہفتہ وار عبادات کے بعد اعلان ہوا کرتے ہیں کہ فلاں شخص کی شادی فلاں شخص کی بیٹی سے ہونا سرانجام پائی ہے، جو فلاں چرچ کے ساتھ منسلک ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اعتراضی نقطہ اٹھانا ہو تو وہ پادری صاحب سے مل سکتا ہے، پھر تین اتواروں کے بعد دولہا دلہن کے خاندان والے اپنے اپنے چرچ ( جس سے ان کا الحاق ہوا ہوتا ہے ) سے ایک این او سی لے کر آ جاتے ہیں جس میں ان کے بارے میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ پیدائشی مسیحی ہیں اور اس سے پہلے انہوں نے کوئی شادی نہیں کی وغیرہ وغیرہ۔ پھر ان کی شادی ہو جاتی ہے اور اس چرچ میں جہاں شادی کی رسومات ادا کی جاتی ہیں، اسی چرچ میں ان کی شادی کا اندراج ہو جاتا ہے اور ایک سرٹیفیکیٹ کا اجراء اسی چرچ سے کر دیا جاتا ہے جس میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ اب یہ دونوں میاں بیوی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان بننے کے باوجود یہاں 1872 کا انڈین میرج ایکٹ ہی نافذ العمل تھا جس کے تحت تمام شادیاں ہوا کرتی تھیں مگر 2016 سے کرسچن پرسنل لاء کے بن جانے کے بعد اب ڈسٹرکٹ ٹاؤن اور جہاں ہماری آبادی زیادہ ہے، ان یونین کونسلز میں ہمارے نکاح خواں مقرر کر دیے گئے ہیں جن کے پاس ہماری کمیونٹی کا ڈیٹا بھی ہے اور شادی ہو جانے کے بعد ان ہی کے پاس سے میرج سرٹیفیکیٹ کا اجراء بھی ہوتا ہے جس سے اب ہماری مشکلات میں خاصی کمی آ گئی ہے۔

اسی سوال کا جواب ہمیں ہندو کمیونٹی کے سرکردہ رہنما اور ایک سندھی زبان کے بڑے اخبار کے ایڈیٹر جناب جے پرکاش جی نے یوں دیا کہ ہم پاکستان کی سب سے بڑی اقلیت شمار کیے جاتے ہیں۔ ہماری تعداد لاکھوں میں ہے اور ہم پاکستان کے ہر شہر میں آباد ہیں مگر ہمارے مسائل پر کسی نے توجہ نہیں دی اور نہ ہی انھیں سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ صرف شادی کا مسئلہ ہی نہیں ہے، اور بہت سے مسائل ہیں جن کی بار بار نشاندہی کرائی گئی مگر کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

انھوں نے مسئلے کی سنجیدگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ رانا بھگوان داس سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ وہ سابق صدر جنرل مشرف کی طرف سے ملک میں لگائی گئی ایمرجنسی کو تو ثابت کر سکتے تھے مگر اس دور میں وہ اپنی دھرم پتنی کو اپنی بیوی ثابت نہیں کر سکتے تھے، یہ قانون کا وہ خلاء تھا جسے وہ خود ملک کے سب سے بڑے قانون دان ہونے کے باوجود پر نہیں کر سکتے تھے۔

صوبہ سندھ کی اسمبلی میں پاس کیے گئے ہندو میرج بل کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ بل اسمبلی سے پاس ہو گیا ہے مگر اسے ابھی نافذ نہیں کیا گیا اور جب تک اسے نافذ نہیں کیا جائے گا،  یہ سب باتیں ہوا میں ہی رہیں گی۔

بطور مسلمان ہمارے لئے کتنا آسان ہے کہ ہم کسی بھی سٹیشنری کی دکان سے 10 روپے کا نکاح نامے کا فارم لیں اسے پر کریں اور کسی بھی مسجد کے مولوی کو دے دیں، جس کا اندراج وہ اپنے رجسٹر میں کرے مہر لگائے اور اسے ہمارے حوالے کر دے پھر ہم اسے نادرا کے کسی بھی دفتر میں جمع کروا دیں اور سرکاری میرج سرٹیفیکیٹ حاصل کر لیں اور پھر اس کاغذ کے بھروسے میاں بیوی کا شناختی کارڈ اور تمام تر چیزیں ہماری دسترس میں آ جائیں گی،  جو یہ ثابت کر دیں گی کہ ہم دونوں میاں بیوی ہیں مگر اسی مملکت میں غیر مسلم افراد کے مسائل کو کون حل کرے گا؟

ریاست کے سامنے کیا ہر شہری کا بنیادی حق اس کے مذہب کے مطابق ہو گا کہ اسے پورا حق حاصل ہے اور اسے پچاس فیصد حق حاصل نہیں ہے۔ کیا ایسا ہونا قانون کی شکست نہیں تصور کی جائے گی؟ ملکی اور صوبائی دستور ساز اداروں نے جن قوانین کی منظوری دے دی ہے، کیا اب وقت نہں آ گیا ہے کہ ان کو نافذ بھی کر دیا جائے تاکہ غیر مسلم اقلیتوں کا اعتماد بھی ہم مسلمانوں اور ریاست پر بحال ہو سکے، کیا ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں ریاست کوئی اقدامات کرنے میں سنجیدگی دکھا سکتی ہے، یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب تاحال نہیں مل سکا۔

1947ء میں قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کے کل 53 ارکان تھے، ان میں سے 13 غیر مسلم تھے، یہ لوگ شرح میں 25 فیصد بنتے تھے۔  گویا پاکستان بنانے والوں نے 25 فیصد غیر مسلموں کو مملکت خداداد کا حصہ تسلیم کیا تھا، پاکستان میں 1951ء تک کل آبادی کا 24 فیصد غیر مسلمانوں پر مشتمل تھا، ہم مسلمان 70 برسوں میں پھیل کر ساڑھے تین کروڑ سے 20 کروڑ ہو گئے لیکن غیر مسلموں کی شرح 24 فیصد سے 5 فیصد پر آ گئی، باقی 19 فیصد کہاں گئے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں پوری ایمانداری سے ان سوالوں کے جواب ضرور تلاش کرنا چاہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments