محبت کا حقیقی اور اصلی چہرہ



آپ نے جے ایم کوئٹزی کی کہانی ’بڑھیا اور بلیاں‘ تو پڑھی ہوگی۔ جس میں ایک بوڑھی عورت جس کے پاس ڈھیروں ڈھیر بلیاں ہیں، وہ اپنے بلیوں سے اکتائے ہوئے بیٹے کو سمجھاتی ہے کہ:

’بلیوں کے چہرے نہیں ہوتے، پرندوں کے بھی نہیں ہوتے اور نہ ہی مچھلیوں کے ہوتے ہیں۔ جس واحد مخلوق کا چہرہ ہوتا ہے وہ انسان ہے۔ یہ ہمارے چہرے ہی ہیں جو ہمیں انسان ثابت کرتے ہیں۔

ہم چہروں کے ساتھ جنم نہیں لیتے، چہرہ ہمارے اپنے اندر سے جنم لیتا ہے، بالکل ایسے جیسے کوئلوں کے اندر سے آگ جنم لیتی ہے۔ ”

گزشتہ سال اگست میں جب سیم (SAM) ہمارے گھر کا حصہ بنا تب وہ ایک چوہے سے زیادہ بڑا نہ تھا۔ خوفزدہ، ڈرا اور سہما ہوا بلونگڑا ساری رات کونے میں دبکا، اپنی نحیف سی آواز میں میاؤں میاؤں کرتا رہا۔ لاکھ کھلانے کے جتن کیے، لیکن سب بے سود، یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے ماحول کی تبدیلی سے کسی قدر ہراساں ہو گیا ہے، اور اب ایک نئے ماحول کا عادی ہونے میں نہ جانے وہ کتنا وقت لے گا۔

لاک ڈاؤن کے دنوں میں یہ سب ہمارے لیے جہاں دلچسپی اور تحیر کا ساماں تھا وہیں ایک ننھی منی بلی کا خیال رکھنا بذات خود ایک امتحان بھی تھا، کہ اس سے قبل ہم نے کبھی کوئی ایسا شوق نہ پالا تھا۔ یہ سب ایک چھوٹے بچے کے لاڈ اٹھانے جیسا تھا۔

شروع شروع میں اس ناراض بچے کو کھلانا، پلانا، صاف رکھنا اور باقاعدگی سے ویٹ کے پاس لے کر جانا، ہمارے لیے کسی آزمائش سے کم نہ تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کے باوجود ہمیں یہ سب ہنگامہ ایک بار محسوس ہونے لگا، شاید ہمیں خود اس سب کا عادی ہونے میں ابھی وقت درکار تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہم نے تنگ آ کر اس ننھے سے شرارتی بلونگڑے کو، ایک عزیز کے بے حد اصرار پر انھیں دے ڈالا۔

اس دن ہمیں احساس ہوا کہ ہم نامعلوم طریقے سے کس طرح کچھ چیزوں اور رشتوں کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اچانک ہی اپنا گھر سونا اور خالی محسوس ہونے لگا، یہ ایک ریشمی اپنائیت بھرے لمس کے کھو جانے کا احساس تھا۔

’کیا ایک ننھی منی سی بلی میرے لیے اتنی اہم ہو سکتی ہے۔‘ یہ سوال جب بھی میں نے خود سے کیا ایک ٹھہری ہوئی اداسی اور خاموشی کو محسوس کیا۔ چند دن جن میں کوئی اودھم اور ہنگامہ نہ تھا، بہت بھاری گزرے۔ یہاں تک کہ ہمیں ان عزیز کی ناراضگی مول لے کر، اس ننھے سے فتنے کو واپس گھر لانا پڑا۔

وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ہمیں نہ تو ان موصوف کا کوئی کام بار لگا اور نہ ہی ان کی کسی شرارت، غل غپاڑے یا اچھل کود سے کوئی الجھن محسوس ہوئی۔ اب یہ پورے بستر، پورے کمرے بلکہ پورے گھر پر ہم سے زیادہ اپنا استحقاق سمجھتے ہیں۔ فرط جذبات میں پیروں میں لوٹنا اور چلتے ہوئے لوگوں کی ٹانگوں سے لپٹ جانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ جس سے گھر میں آنے والے نووارد سہم جاتے ہیں۔

کتابیں، قلم، کاغذ یہ ہر چیز پر ہم سے چھینا جھپٹی کرتے ہیں اور ہم سے زیادہ ہماری کتابوں کے شوقین ہیں۔ اسی لیے ہماری مطالعے کی میز ان کے کھیل کود کی پسندیدہ جگہ ہے، جہاں کتابیں سونگھنے سے اونگھنے تک یہ کافی وقت گزار لیتے ہیں۔ ہمارے تاخیر سے گھر لوٹنے پر اداس ہو جاتے ہیں اور بہت دیر تک اپنا سر گود میں رکھ کر، دم ہلاتے ہوئے پھوں پھوں کرتے رہتے ہیں۔

ایک بے زبان کی ایسی معصوم محبت، مجھے بے ساختہ یہ شکر ادا کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ بلیوں کے انسانوں کی طرح کئی چہرے نہیں ہوتے۔ ان کی شرارت، اپنائیت اور انسیت سے ان کا جو چہرہ متشکل ہوتا ہے، بس وہی محبت کا حقیقی اور اصلی چہرہ ہے۔

اور تو کچھ نہیں بس اب راہ چلتی ہر ایسی ننھی مخلوق پر ہمیں امڈ امڈ کر پیار آتا ہے، جسے لوگ شغل کی خاطر پتھر اٹھا کر مارتے ہیں، ٹھوکروں پر رکھتے ہیں، حقارت سے کھانے کے ٹکڑے پھینک کر دیتے ہیں یا پیروں سے ناپسندیدگی کے ساتھ پرے دھکیل دیتے ہیں۔ بار ہا یہ احساس ہوتا ہے کہ انسان کا حقیقی چہرہ تو کہیں کھو سا گیا ہے، یہ معصوم پرندے اور بے زبان جانور ہم سے کچھ نہیں چاہتے ماسوائے خوراک، خیال اور تحفظ کے۔ آپ اس سب کے بدلے ان کی بے لوث محبت جیت سکتے ہیں۔

آخر خدا کے بنائے اس بڑے سے سیارے پر ان کا بھی تو اتنا ہی حق ہے جتنا ہمارا۔ سانجھ کے اسی رشتے میں اگر خلوص، محبت اور احساس در آئے تو شاید یہی وہ عمل ہے جو انسان کو اس کا حقیقی چہرہ لوٹا سکتا ہے۔

۔ ۔

(نوٹ: جے ایم کوئٹزی کی کہانی ’بڑھیا اور بلیاں‘ کا مطالعہ ’نجم الدین احمد صاحب‘ کے تراجم کی کتاب ’فسانۂ عالم‘ سے کیا جاسکتا ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments