انانیت اور انحصاری کی کشمکش


یاد نے اپنا عنکبوت میرے اندر پہلی بار کب بنا۔ کچھ کہنا بہت مشکل ہے میرے لئے۔ پہلی سب سے پرانی بات۔ یہ ہے کہ ایک لجلجی تھیلی میں مجھے کسی نے رکھ دیا یا ڈال دیا اور اسی تھیلی میں کوئی مجھے بناتا گیا۔ کون؟ اتنی مشکل بات ابھی تک نہیں سمجھا ہوں۔

دوسری مدہم سی لو، یاد کا سرا تھماتی ہے۔ ماں کا لہو پی رہا تھا میں۔ اس کے اندر کی توانائی اپنے دونوں ہاتھوں سے نچوڑ کر خود کو دنیا میں لانے کے لیے تیار کر رہا تھا اور وہ مجھے اپنا آپ دیے چلی جا رہی تھی۔ ایسے جیسے میں اس پر کوئی احسان کر رہا تھا۔ اس کے وجود کی ساری طاقت، توانائی اور جرأت میں اوک بھر بھر پی رہا تھا اور وہ تھکی ماندی سیراب ہو رہی تھی۔ شاید دینا اس کی خصلت اور سرشت میں تحریر تھا۔ لیکن یہ کیا؟

اس نے میرے اندر مداخلت کرنا شروع کر دی۔ یہ اچھا، یہ برا۔ یہ خوب۔ والا پرانا چکر۔ مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتی۔ مگر دوست بن کر نہیں۔ ناصح بن کر۔ میں اندر ہی اندر تلملا جاتا۔ کیا کر رہی ہے یہ عورت! مجھے اپنی شبیہہ بنانا چاہتی ہے ، اپنے وجود کو میرے وجود میں سمو دینا چاہتی ہے۔

اور تصویریں چپکا رہے دیوار پر۔ یہ۔ یہ ارسطو، یہ ڈیکارٹ، یہ اسپینوزایہ مارکس، یہ آئن سٹائن، یہ شیکسپیئر، یہ نطشے اور یہ نیلسن منڈیلا۔ اور یہ میں۔

میں اپنے بالشت بھر نامکمل وجود کو اپنے انگوٹھے کی مدد سے جانچتا۔ مگر اسے کہاں غرض تھی میری قامت اور ذہنی قد کی؟

جان بوجھ کر سچی بنتی۔ ضروری بات پہ بھی جھوٹ نہیں بولتی کہ کہیں میں جھوٹ بولنا نہ سیکھ جاؤں اور میں جھوٹ کی خوبیوں اور فوائد پر سوچنے لگ جاتا کہ ماں کی چھاپ لگ گئی تو جیوں گا کیسے؟

چلو ستم بالائے ستم۔

کتابیں خرید کر لائی ہیں محترمہ۔ قدرت کو بھی ان نو ماہ کو گزارنے کے لیے اسی ماں کی کوکھ مجھے دینی تھی۔ مگر میری رضا پوچھی ہی کب کسی نے؟ بس میری آنکھ جب کھلی تو اس تھیلی میں بند تھا میں۔

اب کتابیں دیکھیں تو ہنسی بھی آئی اور ڈر بھی لگا۔

ہنسی یوں آئی کہ یہ احمقانہ جھوٹ پر مبنی کتابیں۔ میں پڑھوں گا۔ بے وقوف بنانا چاہتی ہے شاید میری ماں مجھے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی لغت میں معصومیت بے وقوفی کا نام نہیں ہے جب کہ میرے پاس تو کچھ ایسا ہی ہے۔

ان کتابوں میں بچوں کو دنیا جہاں کا احمق گردانتے ہوئے جادوئی طلسماتی پرندوں اور جنوں پریوں کی، بھوتوں اور چڑیلوں کی بے معنی قسم کی داستانیں بیان کی گئی تھیں اور دوسری قسم کی کتابوں کو دیکھ کر ڈر لگا۔ وہ ایسے کہ یہ کتابیں نصاب سے متعلق تھیں۔

کیا مجھے اس دنیا میں پہنچتے ہی اسکول تو نہیں بھیج دیا جائے گا؟ اسکول کا ڈراؤنا سا تصور میرے ذہن میں کب اور کیسے آیا۔ پھر لاعلمی؟ میں تو بالکل ننھا سا ہوں۔ اسکول بھیجا تو گرپڑوں گا۔ مگر اس بوسیدہ نصاب کو پڑھانے والی ماں اس بابت بالکل ہی ظالم ہے کہ اسکول کا نام تو اس کے پاس سختی سے جڑا ہوا ہے۔

موسیقی سنواتی ہیں۔ اس حالت میں ٹھیک سے بیٹھ نہیں سکتی، مگر بڑے بڑے نامور گلوکاروں کے سامنے سج بن کر بیٹھ جاتی ہیں ، کراہتی رہتی ہیں مگر ٹھانی ہوتی ہے کہ موسیقی سے میرا عشق مشہور کروائیں گی۔ یہ بہت ہی عجیب ماں ہے۔

اب دکھایا آسمان۔ کھلا شفاف نیلا اور اس پر چمکتے ڈھیروں ستارے اور گول تھالی ایسا چاند اور شاعرانہ باتیں۔

میں فلکیات کے بارے میں اتنا لاعلم ہرگز نہیں ہوں جتنا کہ وہ مجھے سمجھی بیٹھی ہے۔ مگر مجبوراً سننا پڑا۔

اب میری ماں نے جب دیکھا کہ میں قریب قریب اس دنیا میں وارد ہوا ہی چاہتا ہوں تو اس نے مجھے میرے دوستوں سے متعارف کروانا شروع کیا۔ ”یہ جگنو، یہ پرندے، یہ پھول، یہ زمین، یہ فلاں یہ فلاں، سنڈریلا، علی بابا اور الٰہ دین وغیرہ۔ چھوٹے چھوٹے کارٹون ایک خانے میں سجائے ہوئے تھے۔ یہ مکی ماؤس، یہ چنکی منکی، یہ چھنگو منگلو، یہ سانتا کلاز، یہ ڈان کہوٹے ، یہ سانچو پانزا اور ادھر جمائے ہوئے سارے جنگل کے جانور۔ بلیاں، طوطے اور باقی پرندے، لمبی اور چھوٹی چونچیں، بیٹ بال، الم غلم۔ یہ وہ۔

اور لو میں آ گیا۔ ماں کو بہت سی تکلیفیں دینے کے بعد ، اسے ادھ موا سا دیکھ کر تھوڑا سا رحم آیا۔ مگر اس پر غصہ زیادہ تھا۔ بھلا اسے کیا ضرورت پڑی تھی یہ سب کرنے کی؟ کیا ضرورت تھی میری؟ یہاں کیا اربوں کھربوں کم ہیں؟

میں ماں کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ مگر یہ اس کے مقدر میں درج ہے۔ میں نے اس کی کوکھ میں آنکھ کھولتے ہی اسے احساس دلایا تھا کہ میرا وجود درد کا باعث ہے۔ مجھ سے اسے کبھی راحت نہ مل پائے گی۔ اس کے بے شکن پیٹ کو ادھر ادھر پھیلاتے ہوئے میں نے اسے درد و اذیت کی کئی شکلیں دکھائیں۔ پر وہ نہ مانی۔ میں بار بار اسے مجبور کرتا رہا کہ وہ مجھ سے جان چھڑا لے۔ مگر وہ نہ مانی۔ بلکہ الٹا ضد میں آ گئی۔ بستر پہ ہائے ہائے کرتی رہتی۔ میں اندر ہی اندر تنگیٔ جگہ کی شکایت کرتا اور اس دنیا میں آنے کی جلد بازی میں ہاتھ پاؤں ادھر ادھر چلاتا۔ مگر ماں بہت ضدی اور خود سر تھی۔

میرے اس دنیا میں وارد ہونے کے بعد تو میں نے اور بھی احمقانہ حرکتیں دیکھیں۔ مثلاً۔ وہ اپنا گھر بانٹنے اور اسباب لٹانے پر آ گئی جو چاہتا اسے بے وقوف بنا لیتا اور وہ جان بوجھ کر بے وقوف بنتی چلی جاتی۔ سب اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے تھے اور وہ تھی کہ خوشی خوشی گھر بار لٹا رہی تھی۔ سب اسے پاگل سمجھ رہے تھے۔ وہ خود کو صوفی یا درویش، کہ اسے مجھ میں ہفت اقلیم کی دولت نظر آ رہی تھی۔ گویا مجھے جینے کے لیے کچھ گر درکار تھا تو وہ ماں کی جذباتی، غیر ضروری حد تک جذباتی محبت۔

لنگر تقسیم کرنے کے بعد کا مرحلہ اس کی توہم پرستی کا ثبوت تھا۔ میرے سر سے اتارے گئے پہلے بال، میری نال کا وہ چھوٹا سا سوکھا ہوا ٹکڑا۔ میرے پہلے تراشے ہوئے ناخن، سب ایک کپڑے میں باندھ کر سینت سینت کر رکھ رہی تھی۔ کبھی دریا میں بہانے کا سوچتی تو کبھی کہیں دفن کرنے کا اور بالآخر ایک رات جب اس کے خیال کے مطابق میں گہری نیند سو چکا تھا۔ وہ اٹھی اور ان Useless چیزوں والی پوٹلی اٹھائی اور لان کے سب سے آخری کونے پر چاقو سے گڑھا کرنے لگی۔ پھر احتیاط سے تینوں چیزیں اس میں اتار کر مٹی برابر کر دی اور منہ ہی منہ میں پتا نہیں آیتیں یا کچھ اور پڑھ پڑھ کر مٹی پر پھونکتی رہی اور اس دن تو مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے غلط ماں ملی ہے۔ یہ ویسی ماں نہیں تھی جیسی کہ میری ہونی چاہیے تھی۔ یہ تو کوئی پرانے خیالات رکھنے والی جدت سے خوفزدہ عورت تھی۔

میرے ایسے ایسے چاؤ چونچلے شروع کیے کہ مجھے ایسا لگا کہ جس کام کے لیے میری تخلیق ہوئی ہے وہ میں بھول کر ماں کے بنائے ہوئے آکسیجن ٹینٹ میں ہمیشہ کے لیے بند ہو جاؤں گا۔

گرمی شدید ہوتی تو مجھے ہلکی سردی کا ماحول دیتی۔ سردی میں مجھے گرمی گرمی سی لگتی۔ سارا دن کھلانے پلانے کی سازشیں کرتی رہتیں۔ جوس، جوس دودھ دودھ۔ میں نارمل آدمی بن پاؤں گا یا نہیں۔ یہ عورت مجھے کھانے پینے سے آگے شاید بڑھنے نہیں دے گی۔ میری ذہنی اور روحانی غذا کا کیا ہو گا؟ اس کا اسے خیال ہی نہیں آتا۔

اب میرا احتجاج رونے کی حد تک محدود ہے۔ ماں کی ان عجیب وغریب، محبت اور پیار کے نام پر کی گئی حرکتوں کی وجہ سے مجھے ہمیشہ ایسا لگا ہے کہ ماں نے ایک گول سا مصنوعی غبارہ میرے لیے اپنی مرضی کے مطابق تیار کروایا ہے، جس میں نہ تو باہر سے آنے والی ہوا کا گزر ہو سکتا ہے نہ ہی کسی نئے خیال کا۔ وہ چاہتی ہے کہ جیسا کہ اس نے میرے لیے سوچ رکھا ہے وہ سب سے زیادہ اہم ضروری اور لازمی ہے۔ ماں کی اس مطلق العنانی کے خلاف میں نے کافی پہلے شدت سے احتجاج کیا تھا۔ میں اس کے پیٹ کے اندر والی جھلی میں منہ سر لپیٹ کر، سانس بھینچ کر سکڑ سمٹ کر لیٹ گیا اور اس کی کسی بھی سازش میں حصہ دار نہ بننے کا عہد کر لیا۔ ماں پاگلوں کی طرح فون پر مختلف نمبر ڈائل کرتی رہی۔ ”ڈاکٹر، ڈاکٹر۔ دیکھیں۔ میرا بچہ حرکت نہیں کر رہا۔ بالکل خاموش ہے۔“

ایک لحظے کے لیے ماں پر ترس بھی آیا۔ پھر غصہ سوار ہو گیا۔ اچھا ہے۔ میں کہہ رہا تھا۔ ”کیسی سزا ملی؟ مزہ آیا؟“

پھر بڑی دیر بعد جب ماں لاچار سی مختلف مشینوں پر میری شبیہہ دیکھتی تھی تب میں ذرا سا کروٹ بدلتا تھا اور وہ اپنے اندر بند ڈھیروں آکسیجن باہر اچھالتی تھی۔ مگر سمجھتی نہیں تھی کہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔

اور اب تک اس کی یہی حرکتیں ہیں کہ یوں مت کرو۔ یوں مت اٹھاؤ۔ یوں مت گدگداؤ۔ بچوں کو کچھ ہو جاتا ہے ۔ بچے ایسے، بچے ویسے ، بچے اتنے نازک، بچے اتنے کمزور۔ حد ہو گئی۔

میرا باپ بہت سمجھ دار انسان ہے۔ مگر اسے ایک بھی فیصلہ کرنے کا حق نہیں دیا گیا کہ وہ مجھے انسانوں کی طرح ٹریٹ کرے۔ یعنی نہ تو وہ میری ذہنی نشوونما چاہتی ہے اور نہ ہی روحانی۔ بس جسمانی طور پر طاقت ور اور فٹ بنانے کے لیے بے مزہ پھیکی چیزیں کھلاتی رہتی ہے۔

ایسے ہی وقت گزر رہا تھا۔ میں خود کو ایسے گھر میں محسوس کر رہا تھا کہ جہاں مجھے آزادی نہیں دی گئی ہے، نامکمل حقوق دے کر پابند کیا گیا ہے اور میں تجزیہ کرنے کے لیے بھی وقت نہیں نکال سکتا کہ میں کیا ہوں؟ مجھے کون کون سے کام کرنے ہیں لیکن مجھے ان سارے سوالوں کے جواب پانے کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑا۔ ایک رات ایسی آئی جب مجھے اپنا پورا جسم لرزتا ہوا محسوس ہوا۔ میں زبان ہلانے لگا تو وہ میرے قابو میں نہ تھی۔ رونے لگا تو بہت بری بری آوازیں نکلنے لگیں۔ ماں لپک کر آئی مگر تب تو میں حواس کھو چکا تھا۔

جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ ماں روئے چلی جا رہی ہے۔ ہچکیوں اور ٹوٹے ٹوٹے لفظوں کے درمیان وہ ڈاکٹرز کو کچھ کہے چلی جا رہی تھی۔ میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ میں نے اسے اتنا دکھی، ٹوٹا ہوا، ہمت ہارے ہوئے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ چاروں طرف سے بے خبر مجھے بازوؤں میں لیے چومے چلی جا رہی تھی۔ مجھے ہوش آ گیا تھا۔ سارے ڈاکٹرز اسے چپ کرانے کے لیے تسلی دے رہے تھے۔ مگر ایک لمبے تڑنگے ڈاکٹر نے نہ جانے میری بے ہوشی میں اس سے کیا کہہ دیا تھا کہ وہ ٹپ ٹپ آنسو بہائے جا رہی تھی۔ کبھی میرے ہاتھ چومتی، کبھی پیر اور اپنے سینے سے مجھے سختی سے بھینچ لیتی۔

میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آ گئی۔ بخار ہی تو ہوا ہے۔ کیا کسی کو نہیں ہوتا؟ سب ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ ہاں بے ہوش ضرور ہوا تھا مگر کیا یہ بھی کوئی انوکھی بات ہے۔ کسی دورے دورے کی بات کر رہے تھے سب ڈاکٹر۔ شاید ماں بے چاری اسی چیز سے زیادہ گھبرائی ہوئی ہے کہہ رہے تھے کہ ایک سو پانچ ٹمپریچر بہت ہوتا ہے۔ اس پر بچے کو۔ خدانخواستہ، ماں اس سے آگے کچھ بھی نہ سنتی۔ حالانکہ دو ڈاکٹرز ایک ہی بات اسے بار بار کہنا چاہ رہے تھے اور وہ ہے کہ اپنی سماعت کو مقفل کیے بیٹھی ہے۔

”ٹیسٹ۔ ٹیسٹ۔ لیبارٹری سے۔“ ڈاکٹرز اسے پرچے تھما دیتے ہیں۔
میں نے پوری کوشش کی ان پرچوں کو چھین کر پھاڑ دوں مگر ماں  نے بڑی احتیاط سے سارے پرچے سنبھالے ہوئے تھے۔

ماں ایک حصار بن گئی۔ دھوپ اور ہوا بھی ۔ مجھے اپنی آنکھوں سے دکھانے لگی۔ مجھے مزید قید کر دیا گیا۔ اپنے آکسیجن ٹینٹ میں مجھے لاک کر کے چابی اپنے دوپٹے کے پلو میں باندھ لی۔

میں ہنس رہا ہوں۔ حالانکہ میرا سارا جسم انگارے کی طرح گرم ہے۔ مجھے سانس لینے میں بہت دقت ہو رہی ہے۔ مگر ماں کی حالت و اضطراب دیکھ کر مجھے ہنسی آ رہی ہے۔ ماں کا تو دماغ خراب ہے۔ ٹھیک ہے میں بہت تکلیف میں ہوں۔ ڈاکٹر کہہ رہے ہیں میرے جسم کا خون سوکھ رہا ہے اور جب ٹیسٹ کروانے کے لیے مجھے لے کر گئے تو ایک قطرہ بھی خون کا نہیں نکلا۔ ماں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں ڈاکٹرز کے ہاتھوں کی گرفت سے بچنے کے لیے چیخ چیخ کر رونے لگا کہ ماں کو سنبھال سکوں۔ ماں کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ وہ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی سے بے نیاز پاگلوں کی طرح جھپٹ کر مجھے اٹھانے لگی۔

مگر ایک ڈاکٹر نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے اس کے پھول سے ہاتھوں سے نوچا اور جا کر برف سے بھرے ٹب میں لٹا دیا۔ پورے جسم میں میخیں سی کھب گئیں۔ برف سے دھویں اٹھنے لگے۔ یہ کیا؟

میں پھولوں سے جدا کر کے کانٹوں میں پٹخ دیا گیا۔ پہلی بار زندگی مجھے سفاک محسوس ہوئی۔ اتنی سختی کا تو میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ایک خوشبو ایسی ہلکی پھلکی زندگی سے اتنی شدت والی تکلیف دہ زندگی کی طرف پھینکا گیا تھا۔ ”

دفعتاً۔ میرے اندر اطمینان اور گہرے سکون کی ایک لو روشن ہو گئی۔
یہی حقیقت ہے۔
یہی سچ ہے۔
یہ تلخی ہی زندگی ہے۔ جواز ہے جینے کا۔
ماں تو پھول ہے۔ جھوٹ ہے۔ دھوکا اور سایہ ہے۔
ماں مجھے جھوٹی زندگی کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔

جینے کے لیے سراب دے رہی ہے مجھے اور صحرا کی چمک دار ریگزار پہ بچھی اور پھیلی پیاس مجھ سے اوجھل رکھنا چاہتی ہے۔ جبکہ وہ پیاس میں خود ہوں۔ مجھے کچھ ہوش سا آتا جا رہا تھا۔ مجھے کچھ سنائی کچھ دکھائی اور کچھ محسوس سا ہو رہا تھا۔

مجھے راستہ نظر آنے لگا۔ آگے، بہت دور، بہت بڑا، بہت کھلا آسمان۔ میں مشرق، مغرب، شمال و جنوب کی قید میں گرفتار ہونے والا نہیں۔ اتنی تنگ جگہ پر میرا گزارا ممکن نہیں۔ ہمالیہ کو روندتے ہوئے، آسمان کی سطح سے کہیں اوپر مجھے ایک جزیرہ ڈھونڈتا ہے۔ جہاں روشنی قید ہے۔ مجھے ساری روشنی لانی ہے۔ مجھے بادلوں میں بھرے پانی کو اوک اوک بھر کے، ان بیماروں کو پلانا ہے شفا جن سے میلوں کے فاصلے پر ہے۔

مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ خوشیاں کس دیو کی گرفت میں ہیں اور انسان پہ نازل فتنے کا باب کس صندوق سے نکلا ہے۔ مجھے خرد و جنوں کی ساری مسافتیں تنہا طے کرنی ہے۔ مجھے آسمانوں سے انسان کی تباہی و بربادی کے لیے چھپے ہتھیار چھین کے انہیں نہتا کرنا ہے۔ مجھے انسان کی ظاہری، نفسی اور باطنی آزادی کا راز دریافت کرنا ہے۔

مجھے خدا سے ایک نیا عہد نامہ لکھوانا ہے جس میں حیات کے باب میں کوئی آلائش کوئی قدغن نہیں ہو گی۔ میں ان بوسیدہ عہدناموں کو جلانے کے لیے پیدا ہوا ہوں جن نے لوگوں کی زندگیاں چھوٹے چھوٹے دائروں میں مقید کر رکھی ہیں  ، مجھے اس غار کو دریافت کرنا ہے جس نے تمام رسیلے پھلوں کا ذائقہ پتھروں کی گود میں چھپا رکھا ہے۔ اور میں اس صلیب کو توڑنے کے لیے اتارا گیا ہوں جس نے یگوں اور زمانوں سے سچ کو مصلوب کر رکھا ہے۔ مجھے من و تو کے جھگڑے نپٹانے ہیں۔

میں ابھی شمار کر رہا ہوں۔ کتنے کام مجھے سونپے گئے ہیں اور کتنی عمریں مجھے دی گئی ہیں ان کا حساب باقی تھا کہ ڈاکٹر کی کرخت آواز سے ڈری سہمی ماں کو فنا کے دروازے پر پہنچا دیا۔

اسے لے جائیں، اس کا بخار ٹوٹنے کی دعا مانگیں۔

میں نے ماں کے چہرے کی طرف دیکھا۔ وہ زرد گلاب تھا۔ اس کا سارا جسم لرز اٹھا۔ اس کے ہونٹوں پر دعاؤں کا ایک طویل سلسلہ تھا۔

اس رات وہ کسی آفاقی ہول میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی تھی کہ جو ایک دفعہ ذرا پاس سے گزرا بس اس کو اندر کھینچ لیا۔ پھر وہ کبھی باہر نہ نکلنے پایا۔ ساری زندگی اس آسیب گھر میں چک پھیریاں لیتا رہا۔

مجھے کہاں یہ طلسماتی ہول منظور ہوتا۔

وہ زندگی کو پریوں کی کہانی ایسا دیکھنا چاہتی تھی۔ جہاں سبزہ اور سایہ میرے قدموں اور سر پہ بچھا ہو۔ مگر مجھے ان دونوں چیزوں کی حقیقت معلوم ہو چکی تھی۔ اس رات میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ مجھ پہ میری ذمہ داریاں منکشف ہو رہی تھیں۔ میں جہان کشف میں، دنیاوی کثافت سے ایک جہان کے فاصلے پر تھا۔ جہاں سے میرے لیے واپسی ممکن نہ تھی۔ بس ماں کا تصور ایک رابطہ تھا اس دنیا کے ساتھ۔ یہ دنیا والے۔ ماں اور ڈاکٹرز۔ خوف کی پیداوار ہیں، جسے یہ لاعلاج مرض سمجھے بیٹھے ہیں۔ وہ صرف میری ہدایت کا ایک سلسلہ ہے۔ مجھ پر اسرار کے در وا ہو رہے ہیں۔ ایک عالم وجدان میرے فکر و خیال پہ سایہ فگن ہے۔

مگر میں بول نہیں پاتا کہ تسلی و تشفی کے چند حروف ماں کو دے دوں۔ صبح ہوئی، ماں پوری رات مجھ دعاؤں کے پھول نچھاور کرتی رہی تھی۔ میں اسی حدت، اسی تڑپ اور اسی لگن میں ہوں۔ وہ کمزور لڑکھڑاتے قدموں سے ڈاکٹر کے پاس مجھے لے کر پہنچی تھی۔

ڈاکٹر نے لاتعلقی سے مجھے چھوا اور پھر برف سے بھرے ٹب میں ڈالنا چاہا۔
ماں تڑپ کر رہی گئی۔ اور اس نے مجھے ان سخت ہاتھوں سے کھینچ لیا۔

میرے اندر ایک نامعلوم سا جذبہ بیدار ہوا۔ ماں زمین پر ڈھے گئی تھی۔ میں ایک طرف دم بخود تھا۔ ڈاکٹر نے نرس کو بلایا۔ ماں کو ماسک لگایا۔ انجکشن اس کے بازو میں اتارا گیا۔ مگر ماں۔ ٹھنڈی برف، زمین پہ چت لیٹی ہوئی ہے۔ بالکل بے حس و حرکت۔

ڈاکٹر نے کہا۔ ”نروس بریک ڈاؤن ہو گیا ہے۔“
میرا باپ رزق کمانے دور گیا ہوا ہے۔

اور۔ ماں مر گئی۔ وہ مکتی پا گئی۔ و ہ اکیلی تھی اور بہت خوفزدہ عورت تھی۔ میں اب آزاد ہوں۔ میں بچ گیا۔ ماں مر گئی۔ وہ بھی نہ مرتی اگر موت سے اس قدر نہ ڈرتی۔

میں خوش ہوا ہوں، مگر میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ ماں پابندی تھی۔ ماں خوف تھی۔ ماں پر چھائیں تھی میری۔ اس کے جاتے ہی میرے دائیں بائیں پرواز کے لیے پر اگ آئے۔ اس کے جانے سے پہلے میں خود آگہی سے متعارف ہو چکا ہوں۔ میں خود کو بھی جان چکا ہوں۔ میں ہوا ہوں۔ آگ ہوں۔ مٹی ہوں اور پانی ہوں۔ میں ہر رنگ میں مدغم ہوں۔ میں کسی بھی وقت، کہیں بھی، کسی بھی مقام پر، کسی روپ میں ظاہر ہو جاؤں گا۔ ماں کا مر جانا بہتر تھا۔ ورنہ میں اسے کیوں کر بتا پاتا۔

میں اسے کیا بتاتا کہ میں جب سورج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی لپکتی لپٹوں سے زمین کے ڈھیروں ڈھیر بجھے چراغ روشن کرنے جاؤں گا۔ تب وہ مجھے نگلنے کے لیے آمادہ ہو گا، مجھے جھلسانے کے لیے اس نے اپنے بدن پر انگارے لپیٹے ہوئے ہیں۔ وہ یہ کیسے برداشت کر پاتی، جو مجھے دھوپ کی شدت سے بھی بچائے رکھتی ہے۔

میں اسے یہ بتانے کی ہمت نہیں کر پاتا کہ مجھے زمینوں کی گہرائی میں اتر کر ان راستوں کو دریافت کرنا ہے۔ جہاں مدھر سر قید ہیں ، جہاں تخلیق کے نازک اور نفیس آئینے دفن ہیں اور ان آئینوں پہ زہریلے ناگوں کا پہرا ہے۔

کیا وہ مجھے اس سفر کی اجازت دیتی؟

مجھے معلوم تھا۔ وہ کبھی سہہ نہ پاتی کہ مجھے سمندر کی تہوں میں اتر کر ان سیپیوں کا پتا ڈھونڈتا ہے جن میں انسان کی مسکراہٹیں قید ہیں اور۔ ان راستوں پر۔ ان راہوں پر کیا میرے بدن کی یہ سجیلی، لطیف کومل جلد جھلس نہ جائے گی اور میری پیشانی پہ لکھی اس کے ہونٹوں کی نفیس تحریریں بجھ نہ جائیں گی اور میری آنکھوں کے روشن چراغ۔

اور میرے ہاتھوں کی دمکتی ریکھائیں۔
میرے ہونٹوں کی ریشمی صداقت۔
سب کچھ زد میں ہو گا۔

میں اسے کبھی نہیں بتا پاتا۔ میں جانتا ہوں۔ اس کا مرنا ضروری تھا۔ ورنہ وہ بار بار مرتی اور میں بار بار اپنے منصب سے بھٹک جاتا۔

میں توانا ہوں۔ میں طاقت ور ہوں۔ مگر میں پھولوں کے لمس سے بچھڑ چکا ہوں ہمیشہ کے لئے۔ میں دعاؤں کے سارے پھول ہوا میں تحلیل ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور رخت سفر باندھنے سے پہلے۔ میں نے یہ بھی دیکھا۔ میں اپنے سائے سے بھی محروم ہوں۔

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments