دادی پھر سو گئیں


نانی تیری مورنی کو مور لے گئے۔
باقی جو بچا تھا کالے چور لے گئے۔

وہ کھانسنے لگیں، کھانستے کھانستے ان کی آنکھوں میں پانی بھر آیا، وہ دوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کرنے لگیں۔

زین ان کی کمر پر ہاتھ مارنے لگا۔ ”دادی سناؤ، دادی سناؤ“
کھاتے پیتے موٹے ہو کے چور بیٹھے ریل میں
ان چوروں کی خوب خبر لی موٹے تھانے دار نے
”نئیں نہیں، وہ وہ لکڑی کی کاتی“ ۔

وہ پھر شروع ہو گئیں
لکڑی کی کاٹھی، کاٹھی پہ گھوڑا
گھوڑے کی دم پہ جو مارا ہتھوڑا۔ زین بھاگ کر کمرے میں چلا گیا۔
وہ اٹھیں کہ چائے چولھے پر چڑھا دیں۔

زین پھر بھاگتا ہوا آیا، ”دادی سناؤ دادی سناؤ“ ۔
دوڑا دوڑا دوڑا دوڑا دم دبا کے دوڑا۔ وہ جھک کر آہستہ آہستہ قدموں سے زین کے پیچھے بھاگنے کی ایکٹنگ کرنے لگیں۔
زین ہنستے ہوئے بھاگا۔

وہ پھر چولھے کے پاس آ گئیں۔ انہیں بھوک لگ رہی تھی۔
”داددی، دادی“ ۔ زین یہ کہہ کر پھر بھاگنے لگا۔
وہ چائے کی پتیلی رکھ کر اس کے پیچھے بھاگنے لگیں۔ زین کے ہاتھ کھیل آ گیا تھا۔

”بس بیٹا اب دادی تھک گئی“ ۔ زین ان کی قمیص پیچھے سے مسلسل کھینچتا رہا، لیکن انہوں نے چائے چولھے پر چڑھا ہی دی۔

آمنہ نثار دو سال قبل ہی ریٹائر ہوئی تھیں۔ وہ کیمبرج سسٹم کے ایک نجی کالج میں بچوں کو کیمسٹری پڑھاتی تھیں۔ ان کی جسمانی اور دماغی توانائی اب بھی برقرار تھی۔ ہر دل عزیز، بڑی زندہ، دل ہنس مکھ اور سوشل خاتون تھیں۔ چار سال قبل انہوں نے بیٹے کی شادی کی تھی۔ عارض ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ ایک سافٹ وئیر ہاؤس میں کریٹو ہیڈ تھا۔ وہ رات کو آفس جاتا اور صبح سات آٹھ بجے آ کر سو جا تا۔ چھ سال قبل ہی ان کے شوہر کا انتقال ہوا تھا۔ بہو ڈاکٹر تھی۔ ایک سال بعد زین ہوا۔ تو رومیسہ ڈاکٹری چھوڑ چھاڑ گھر بیٹھ گئی، لیکن جب آمنہ نے اپنی ریٹائر منٹ کی خبر سے آگاہ کیا۔ تو رومیسہ نے دوبارہ جوائننگ کی درخواست دے دی۔

آمنہ کی ساری زندگی لگے بندھے انداز میں گزری تھی۔ لیکن اب ان کے سونے جاگنے کا کوئی وقت نہ رہا تھا۔ جس روز رومیسہ کی نائٹ ہوتی، زین کو سلانے کی کوشش میں دو بج جاتے۔ اور پھر آمنہ ساری رات جاگتی رہتی۔ رومیسہ دوسرے روز کبھی دس بجے، تو کبھی دو بجے تک آتی۔ کچھ وقت زین کے ساتھ گزارنے کے بعد سو جاتی۔ دن پھر آمنہ نیند کے جھونکوں کو آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار مار کر بھگاتی رہتیں۔

مسلسل جاگتے رہنے سے ان کے دل کی دھڑکنیں تیز رہنے لگی تھیں۔ ایک روز وہ اسی حالت میں لیٹیں تو جیسے دم سادھ لیا۔ بہت دیر ان کے کانوں میں زین کی آواز گونجتی رہی ”دادی دادی“ ۔

شاید وہ مر گئی تھیں۔ پھر انہیں عارض کی آواز سنائی دی ”امی امی“ ۔

وہ ماں ہیں، بچوں کو ان کی ضرورت ہے۔ اس لیے انہیں ابھی مرنا نہیں چاہیے۔ انہیں زندہ رہنا ہے۔ دل نے فوراً دماغ کی بات مان لی۔

انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔

عارض سامنے کھڑا تھا۔ ”شکر ہے امی میں تو ڈر گیا تھا۔ پانی والا اتنی دیر سے بیل بجا رہا تھا۔ مجھے زین نے بتایا کہ آپ سو رہی ہیں۔ دیکھیے، زین نے کیسے پورے گھر میں ماچس کی تیلیاں پھیلا رکھی ہیں۔ “ یہ کہتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔

آمنہ کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ انہوں نے بے قابو دھڑکنوں کو سنبھالنے کے لیے فرج سے پانی نکالا، اور غٹاغٹ حلق کے اندر اتار لیا۔ اس کے بعد وہ الرٹ رہنے لگیں۔

وہ زین کے ساتھ سائے کی طرح رہتی تھیں۔

اکثر وہ اس کی ضد پر فلیٹ کے بیرونی حصے میں آ کر اس کے ساتھ کھیلتیں، زین میں وہ اس طرح گم ہوئی تھیں کہ اپنا آپ بھلا دیا تھا۔ وہ بڑی خوش لباس اور فیشن سینس رکھتی تھیں۔ لیکن اب زیادہ تر دھیمے رنگوں کے ڈھیلے ڈھالے لباس، اور سر پر نماز کی طرح دوپٹہ اوڑھے رہتیں۔

رات کو تین بجے زین سویا تھا۔ وہ کروٹیں بدلتی رہیں۔ صبح کے چھ بجے نیند کا غلبہ ہوا، تو رومیسہ کا فون آ گیا، کہ آج اس کی ڈیوٹی ایکس چینج ہو گئی ہے، وہ شام تک آئے گی۔ اسی وقت زین اٹھ گیا۔ انہوں نے اسے فیڈر بنا کر دی، پھر انہیں لگا کہ دروازے پر دستک ہوئی ہے۔ انہوں نے اٹھ کر دروازہ کھولا، باہر دیکھا کوئی نہیں تھا۔ دروازہ بند کر کے وہ اپنے بستر پر آ گئیں اور پھر سونے کی کوشش کرنے لگیں، دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو رہی تھیں، انہوں نے آنکھیں موند لیں۔ اب ان کی دھڑکنیں ساکت ہو گئی تھیں۔ وہ گہوارے میں دم سادھے لیٹی تھیں۔ کلمۂ شہادت کی آوازیں ان کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ قبر کے پاس ان کے گہوارے کو رکھ دیا گیا۔ ان کے کانوں میں لوگوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ ماں کو اتارو بیٹا۔

عارض چیخ رہا تھا، ان کے گہوارے پر مسلسل ہاتھ مار رہا تھا۔
”امی امی امی“ ۔
”عارض مجھے آواز دے رہا ہے۔ ابھی بچوں کو میری ضرورت ہے“ ۔ انہوں نے آنکھیں کھول دیں۔

دروازے کے ساتھ بیل بھی مسلسل بج رہی تھی۔ وہ گہوارے میں نہیں اپنے بیڈ پر تھیں۔
وہ ننگے پیر دوڑتی ہوئی دروازے پر پہنچیں اور دروازہ کھول دیا۔ زین، عارض کے ساتھ کھڑا تھا۔
”آپ زین کو گھر سے نکال کر، کنڈی لگا کر، بڑے آرام سے سو رہی تھیں“ ۔ عارض چیخنے لگا۔

”مگر زین تو میرے پاس سویا ہوا تھا“ ۔ خجل سی ہو گئیں۔
”تو یہ کون ہے، معلوم ہے میں کہاں سے لا یا ہوں۔ یہ نیچے کھڑے ٹرک کی زنجیر سے کھیل رہا تھا۔ ٹرک ڈرائیور ٹرک اسٹارٹ کر کے اسے بیک کرنے ہی والا تھا، کہ بیکری والے نے اسے دیکھ لیا۔ اسی وقت میں پہنچ گیا“ ۔

” جانتی ہیں کچھ بھی ہو سکتا تھا“ ۔
”اچھا اچھا اندر آؤ“ وہ کانپتی ہوئی میں بولیں۔

اس واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا۔ اب وہ گیٹ پر بھی نہ آتی تھیں، اس واقعے سے پہلے وہ روزانہ، دروازے پر کھڑی ہو کر زین کو کھیلتا دیکھتی تھیں، جب وہ تھک جاتا تو اسے گھر کے اندر لے جاتیں۔

گھر کے قریب ہی ایک گلی چھوڑ کر ایک مونٹیسوری اسکول تھا۔ عارض نے اچھی طرح معلومات حاصل کرنے کے بعد اسے اسکول داخل کرا دیا۔

آمنہ نے اسے اسکول لے جانے اور لانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔

انہیں اپنی نیند سے ڈر لگتا تھا کہ سوتی رہ گئیں، تو اسے کون اسکول سے لائے گا۔ اس لیے اس کی چھٹی تک تین گھنٹے اسکول کے اندر ہی بینچ پر بیٹھی رہتیں، اور اپنے ساتھ ہی گھر لے کر آتیں۔

اس قدر ایکٹو، ذہین، بہادر، با اعتماد، زندہ دل خاتون، کیسی پژمردہ، وہمی اور ڈرپوک ہو گئی تھیں، اور کتنی عجیب بات کہ خود پر سے اعتماد کھو بیٹھی تھیں۔ خود سے خوف زدہ رہنے لگیں تھیں۔ خود کو اپنی ذات سے اذیت پہنچا رہی تھیں۔

ایک روز دوپہر میں زین کو سلانے کے بعد انہوں نے اسے سوئی ہوئی رومیسہ کے برابر میں لٹایا، اور پھل لینے نیچے اتریں۔ پھل لے کر جب واپس اپنے گیٹ کے پاس پہنچیں، تو پھلوں کا تھیلا زمین پر رکھ کر پرس میں چابی ٹٹولنے لگیں۔ ہاتھ پیر پھول گئے۔ شاید چابی گھر پر ہی بھول گئی تھیں۔

سالن بھی ہلکی آنچ پر چڑھا کر اتری تھیں۔

انہیں ڈر تھا کہ بیل کی آواز پرزین کچی نیند اٹھ جائے گا تو ہنگامہ کرے گا، عارض بھی غصہ کرے گا۔ بے چاری بہو کی نیند بھی برباد ہو جائے گی۔

ڈرتے ڈرتے انہوں نے بیل پر انگلی رکھی، بیل ذرا سی دیر کو بجی۔ دو منٹ بعد انہوں نے پھر بیل اسی انداز سے بجائی۔

بیل ایک سیکنڈ تک بجتی رہی۔
”اچھا اچھا“ ! اندر سے آواز آئی۔

دروازہ کھلا۔ ”ارے! آپ، میں سمجھا آپ گھر پر ہیں، دروازہ کھول دیں گی۔ چابی کیوں نہیں لے کر گئی تھیں“ ۔

”سوری بیٹا“ وہ تیزی سے چولھے کی جانب بڑھیں۔ سالن جلنے کی بو آ رہی تھی۔ انہوں نے چولھا بند کر دیا۔
کمال ہے امی آپ چولھا بند کر کے بھی نہیں گئیں۔ اندر سے زین کے رونے کی آواز آ رہی تھی۔

وہ کمرے میں گئیں، تو رومیسہ زین کو کندھے سے لگائے سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اپنی نا اہلی پر خجل ہو گئیں۔

وہ پلٹیں اور باتھ روم میں داخل ہو کر لاک لگا دیا۔ واش بیسن کے آئینے میں اپنی شکل دیکھی۔ وہ رونا چاہتی تھیں مگر لگتا تھا نیند اور آنسو ان کے پپوٹوں میں سما گئے تھے۔ اس قدر پھولے ہوئے۔ کیسی عجیب شکل ہو گئی تھی ان کی۔
آنکھوں میں آنسو ہونے کی کوئی وجہ بھی تو ہوتی۔ وہ خود ترسی سے نفرت کرتی تھیں۔

ایک روز زین کی انگلی پکڑے اسکول سے گھر لا رہی تھیں کہ ایک ٹھیلے والے کے پاس کھلونے دیکھ کر زین ضد کرنے لگا۔ پتہ نہیں کتنی دیر گزری ہو گی۔ دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا۔ انہوں نے خود کو بنک کے سامنے اے ٹی ایم مشین کے پاس کھڑا پایا۔ انہیں خیال آیا وہ زین کو کھلونے دلانے کے لیے پرس میں سے پیسے تلاش کر رہی تھیں۔

زین! زین کہاں ہے؟ وہ گھبرا گئیں۔ بھاگتے ہوئے اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئیں۔ تیز تیز قدموں سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر پہنچیں۔ فلیٹ کے گیٹ پر ان کی پڑوسی خاتون زین کو لیے کھڑی تھیں۔

عارض ان کا شکریہ ادا کر رہا تھا۔ آمنہ چور بنی اندر داخل ہو گئیں۔ عارض نے ماں کو خشمگیں نظروں سے دیکھا، اور زین کا ہاتھ پکڑے اسے اندر لے گیا۔ زین دادی، دادی کہہ کر چلانے لگا۔ عارض نے اسے کمرے کے اندر بند کر کے کنڈی لگا دی۔

دو دن تک زین کو اسکول نہیں بھیجا گیا۔ گھر کے ماحول میں عجیب کھچاؤ سا تھا۔

انہیں تھیراپی کی ضرورت تھی۔ وہ اپنی دماغی حالت پر عارض سے بات کرنا چاہتی تھیں۔ رات کے دو بجے انہوں نے عارض کو اس وقت فون کیا جب کہ وہ آفس میں تھا۔

جی امی!

”بیٹا سوری، تم سے بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ بیٹا میری بے پروائی کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ میں شرمندہ۔ ۔ ۔“

”امی آپ گنہگار مت کریں، کوئی بات نہیں امی۔ سوری امی، بس میں بھی زیادہ پریشان ہو گیا تھا۔ میرے ردّعمل سے آپ کو بھی تکلیف پہنچی ہو گی“ ۔ عارض ان کی بات کاٹ کر تیزی سے بولا۔

”نہیں میرا بچہ تم نے تو کچھ بھی نہیں کہا۔ آئندہ میں خیال رکھوں گی۔ مجھے لگتا ہے مجھے تھیراپی کی ضرورت ہے۔ میں نے سائیکاٹرسٹ سے اپائنٹمنٹ لے لیا ہے۔ کل شام کو جاؤں گی“ ۔

”ٹھیک کیا امی۔ گھر آ کر آپ سے بات کرتا ہوں“ ۔ آج بیٹے نے کتنے پیار بھرے انداز سے بات کی۔ بات کرنے سے بات بنتی ہے۔ وہ دل ہی دل میں بیٹے کے اس محبت آمیز روئیے سے بہت خوش تھیں۔

دوسرے دن ادھیڑ عمر کی چار پانچ خواتین گھر میں آئیں۔ رومیسہ سب سے باری باری سوالات کرتی رہی۔
شام کو آفس جانے سے پہلے عارض، آمنہ کے کمرے میں آیا۔

”امی آپ بالکل پریشان نہ ہوں، ہم نے ایک فل ٹائم آیا رکھ لی ہے۔ وہ آپ کی اور زین کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ کھانا بھی پکائیں گی۔ آپ کو اب آرام کی ضرورت ہے، اور ہاں اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کو تھیراپی کی ضرورت ہے تو ضرور لیں۔ امی بس آپ اب آرام کریں“ ۔

دوسرے روز صبح سات بجے آیا آ گئیں۔ صاف ستھری کسی اچھے گھرانے کی خاتون تھیں۔ عارض، زین اور انہیں لے کر اسکول پہنچا، اور آیا کا تعارف کرا دیا گیا کہ اب زین کو وہی لینے اور چھوڑنے آیا کریں گی۔

آفس جانے سے پہلے عارض ان کے کمرے میں آیا اور پیار سے کہا
”امی آپ سائکاٹرسٹ کے پاس ضرور چلی جائیے گا۔ آپ نے اپائنٹمنٹ تو لے لیا ہے نا؟“ ۔
”جی بیٹا، کل دو بجے جاؤں گی“ ۔
”مجھے اٹھا دیجیے گا، میں لے چلوں گا آپ کو“ ۔
”ارے بیٹا! کیوں تکلیف کرو گے میں خود چلی جاؤں گی۔ تم پریشان مت ہو“ ۔

دوسرے روز صبح کو آیا نے زین کو تیار کیا، اور اسے ساتھ چلنے کے لیے انگلی پکڑنا چاہی تو اس نے شور مچا دیا۔

دادی ساتھ، دادی ساتھ۔
اچھا ٹھیک ہے، لیکن آپ بھی ساتھ جائیے گا۔ عارض نے آیا سے کہا۔
”جاؤ دادی کو بلاؤ“ ۔
آمنہ کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہو رہی تھیں، زین اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔
اس نے آنکھیں کھولیں۔ دل کے اندر دھڑکنیں شور مچا رہی تھیں۔
ناکارہ، بے مصرف، بے فیض، نقصان دہ، خطرہ، ضرر رساں
آمنہ نے دل کی دھڑکنوں کو قا بو کرنے کی کوشش کی، جو زین کی طرح ضدی ہو رہی تھیں۔

’دماغ نے اسے سمجھایا ”آج سائکاٹرسٹ کے پاس جانا ہے، تھیراپی ہو گی، تو وہ دوبارہ سے مصرف میں آ جاؤ گی“ ۔

اسے زین کی آواز آئی۔
”دادی دادی“ ۔
اس نے بے قابو ہوتے دل کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ آنکھیں کھولیں۔
”زین کو ان کی ضرورت ہے“ ۔ دماغ نے دل سے کہا۔

مگر اب رسک کون لے گا۔ تھیراپی سے بھی کچھ نہیں ہو گا۔ دھک دھک دھک دھک، دھڑکنوں نے پھر شور مچایا آمنہ نے آنکھیں بند کر لیں۔

روزانہ بیٹے سے بات کریں گی، تو کسی تھیراپی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دماغ نے دل کو سمجھایا۔
”دادی اٹھیں، دادی اٹھیں“ ۔
”مگر اب ان کی ضرورت کیا ہے۔ آیا نے ان کی ضرورت پوری کر دی ہے دھک دھک دھک دھک“ ۔
”انسان کو اپنے لیے زندہ رہنا چاہیے“ ۔ دماغ نے دل کو ڈانٹا۔
”اپنے کو ضرورت نہ ہو تو ۔ ۔ ۔“ دل نے دھڑکنوں کو خاموش کر دیا۔
زین بھاگتا ہوا باہر آیا۔
دادی پھر سو گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments