اسٹیٹ بینک کی خود مختاری؟


پاکستان کا اقتدار کانٹوں کی سیج ہے۔ اس کا اندازہ برسراقتدار آنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ حاصل کرنے اور کئی تعلیمی و فلاحی ادارے قائم کرنے کے بعد ان کی زندگی آرام اور اطمینان کے ساتھ گزر رہی تھی کہ وزیراعظم بننے کا شوق چرایا۔ پاکستان تحریک انصاف تشکیل دی اور 22 سال جدوجہد کر کے، بڑے جتن کر کے، بڑے جوڑ توڑ کر کے اپنا مقصد پا لیا۔ اب گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک جانب اپوزیشن جماعتوں کا کبھی امنڈتا اور کبھی ماند پڑتا طوفان ہے تو دوسری طرف عالمی وبائی مرض کورونا کی تیسری لہر نے خود انہیں بھی اہلیہ سمیت اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

خراب معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی شکل میں عوام الناس پر جو افتاد پڑی ہے، ان کی موجودگی میں دعائے خیر کے لئے کم ہی ہاتھ اٹھتے ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے انتخابی وعدے بھی ہوا ہو گئے۔ اپنے گھر کا خواب اتنی سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے کہ صبر اور انتظار کا دامن ہاتھ سے چھوٹ رہا ہے۔ حکومت کا ہر سفید بھی کالا نظر آتا ہے اور سچ بھی سفید جھوٹ نظر آتا ہے۔

حکومت نے اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دینے کے لئے ایک بل تیار کیا جس پر پارلیمنٹ میں پیش ہونے سے قبل ہی میڈیا پر بحث شروع ہو گئی۔ ڈاکٹر اشفاق حسن، فرخ سلیم، قیصر بنگالی، عبدالحفیظ پاشا اور شاہدہ وزارت وغیرہ تلوار سونت کر میڈیا پر آ گئے اور بل پارلیمنٹ میں پیش ہوئے بغیر ہی اس پر دھواں دھار بحث شروع کر دی۔ ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ قانون پاس ہونے سے اسٹیٹ بینک اور پاکستان، عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے غلام بن جائیں گے۔ حکومت کے پاس فوج، پولیس اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں ادا کرنے کے پیسے بھی نہیں ہوں گے۔

اسٹیٹ بینک 1956ء کے ایکٹ کے تحت چل رہا ہے۔ اس قانون کے مطابق بینک حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہیے لیکن حقیقت اس پر صرف ایک فرد وزیر خزانہ کا تسلط رہا ہے جو اسٹیٹ بینک کے جملہ امور کا مالک و مختار ہوتا ہے۔ شوکت عزیز سے لے کر عبدالحفیظ شیخ تک کم و بیش تمام وزرائے خزانہ تقرری سے قبل آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے تنخواہ دار رہے ہیں۔ اس طرح بالواسطہ طریقے سے اسٹیٹ بینک پر آئی ایم ایف اور عالمی بینک کا کنٹرول یا دباؤ ہمیشہ رہا ہے۔

نئے قانون میں اسٹیٹ بینک کو فرد واحد کے تسلط سے آزاد کر کے پارلیمنٹ کے ماتحت کیا جا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا گورنر پہلے وزیر خزانہ کی ایک کمیٹی نامزد کرتی تھی لیکن اب یہ اختیار وفاقی کابینہ کے پاس ہو گا اور وہ تقرری کی منظوری دے گی۔ صدر پاکستان اس کی سمری منظور کریں گے۔ اس پورے عمل میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک صرف اتنے ہی دخیل رہیں گے، جتنے پہلے تھے۔ ماضی کے مقابلے میں نیا قانون قدرے شفافیت کا حامل نظر آتا ہے۔

غالباً اسی لئے اپوزیشن نے اس مسئلے پر لب کشائی نہیں کی ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے جو دباؤ براہ راست ہوتا تھا، اب ”بہ راستہ“ کابینہ ہو گا اور اگر کابینہ پہلے ہی ”سعادت مند‘‘ ہو گی تو آئی ایم ایف کو کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ تمام معاملات حسب سابق طے پاتے رہیں گے بلکہ اب تو“ سمن ”کی تعمیل“ پر ”سرکاری ٹھپا“ بھی لگا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments