کرن وقار: والدہ، بھائی کے بعد نوجوان شاعرہ کی کورونا سے موت، ’میری بہن اور بھائی تکلیف سے بار بار چیخ رہے تھے‘

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو لاہور


’میری اور میرے چھوٹے بھائی (روحیل) کی حالت کورونا کی وجہ سے بہت تشویشناک ہے۔ اوکاڑہ ڈی ایچ کیو میں ہم دونوں داخل ہیں لیکن یہاں آکسیجن ہے نہ کیئر۔ مجھے کوئی بتائے کورونا کے علاج کے لیے کس ہسپتال میں جانا بہتر ہے؟‘

یہ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی شاعرہ اور مصنفہ کرن وقار کا وہ پیغام تھا جو انھوں اس وقت سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا جب تقریباً دس روز قبل انھیں کورونا میں علامات بگڑنے کے باعث صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کے ضلعی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اس سے ایک روز قبل کورونا ہی سے کرن کی والدہ کی موت ہوئی تھی اور ان کے چھوٹے بھائے زوہیب علی بھی کورونا میں مبتلا تھے۔ کرن کے والد نثار علی کے مطابق وہ دونوں گھر پر قرنطینہ میں تھے اور اس روز تک ان میں علامات زیادہ شدید نہیں تھیں۔

تاہم گذشتہ ماہ کی 31 تاریخ کی صبح سانس میں تکلیف کے باعث گھر والوں نے انھیں ہسپتال منتقل کرنا بہتر سمجھا تاکہ ان کے جسم میں آکسیجن کا تناسب برقرار رکھا جا سکے۔

کرن وقار کے بھائے حسنین نثار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک روز بعد ہی ڈی ایچ کیو اوکاڑہ میں آکسیجن کی کمی اور مبینہ طور پر ناقابلِ استعمال وینٹیلیٹرز کی وجہ سے کرن وقار اور ان کے چھوٹے بھائی کو لاہور میں ایک نجی ہسپتال منتقل کرنا پڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا بھر کے لوگوں کو کورونا وائرس کی ویکسین کب تک لگ جائے گی؟

کیا پاکستان میں کورونا وائرس کی ’تیسری لہر‘ بچوں کو زیادہ متاثر کر رہی ہے؟

’اگر کوئی عام شخص کورونا میں مبتلا ہو تو اس کا علاقہ تک سیل کر دیا جاتا ہے‘

تاہم اس نجی ہسپتال میں چند ہی روز بعد پہلے روحیل کی موت واقع ہوئی اور اس کے کچھ ہی روز بعد کرن بھی چل بسیں۔ حسنین نثار کے مطابق ’اس سے ایک روز قبل ان کا کورونا کا ٹیسٹ منفی آ چکا تھا اور انھیں میڈیکل وارڈ میں منتقل بھی کر دیا گیا تھا۔‘

روحیل کی عمر 25 برس جبکہ کرن وقار 35 برس کے لگھ بھگ تھیں۔ کرن شادی شدہ تھیں اور ان کی ایک ڈھائی سال کی بیٹی بھی ہے۔

دوسری جانت ڈی ایج کیو اوکاڑہ کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں کورونا کے مریضوں کے لیے تمام تر سہولیات دستیاب تھیں۔

ڈی ایج کیو اوکاڑہ کے سربراہ ڈاکٹر عبدلمجید نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہسپتال میں وافر مقدار میں آکیسجن بھی موجود تھی اور وینٹیلیٹرز بھی موجود ہیں۔ مریضہ اپنی مرضی سے نجی ہسپتال گئی تھیں، ہمارے ہسپتال نے انھیں ایسی تجویز نہیں دی تھی۔‘

تو کرن وقار نے آکیسجن نہ ملنے کا پیغام کیوں چھوڑا تھا؟

کرن وقار کے بھائی حسنین نثار نے بی بی سی کو بتایا کہ جس روز ان کے بہن بھائی کو ڈی ایچ کیو اوکاڑہ منتقل کیا گیا تھا اس شام جب وہ انھیں دیکھنے کے لیے ہسپتال گئے تو ‘میری بہن اور بھائی تکلیف سے بار بار چیخ رہے تھے۔’

’ان کو فراہم کی جانے والی آکسیجن سپلائی ہر چند منٹ بعد بند ہو جاتی تھی اور انھیں ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے ان کا دم گھٹ رہا ہے۔ کئی مرتبہ میں خود آکسیجن کا پائپ لگانے کے لیے بھاگتا تھا۔ وہاں کوئی ہماری سننے والا نہیں تھا۔‘

انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ جتنی مقدار میں آکیسجن کی ان دونوں کو ضرورت تھی وہ انھیں مل بھی نہیں رہی تھی۔

وینٹیلیٹرز تھے، چلانے والا کوئی نہیں تھا

حسنین نثار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی اطلاع کے مطابق اوکاڑہ ہسپتال میں چھ وینٹیلیٹرز موجود تھے۔ ‘لیکن عملے میں کوئی شخص انھیں چلانا نہیں جانتا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ کیو اوکاڑہ کے چند ڈاکٹروں نے انھیں بتایا تھا کہ جس تناسب سے ان کی بہن کرن وقار میں آکیسجن کی کمی ہو رہی تھی انھیں کسی بھی وقت وینٹیلیٹر کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔

’یہی وجہ تھی کہ ہم نے دونوں بہن بھائیوں کو لاہور پرائیویٹ ہسپتال منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آکیسجن کی سپلائی پہلے ہی مناسب نہیں چل رہی تھی۔‘ اس کے بعد انھوں نے چند دوست احباب کے ساتھ مشورے کے بعد دونوں بہن بھائیوں کو لاہور کے اس نجی ہسپتال منتقل کر دیا۔

کتنی آکسیجن لگنی ہے، فیصلہ ڈاکٹر نے کرنا ہے

کووڈ

ڈی ایچ کیو ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکر عبدالمجید نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تردید کی کہ ہسپتال میں آکسیجن کی سپلائی کا مؤثر نظام موجود نہیں تھا۔

’ہمارے پاس ہر وقت آکسیجن کے سلنڈرز موجود ہوتے ہیں جو ہماری ضرورت کے مطابق پورے ہیں۔ کس مریض کو کتنی آکسیجن کی ضرورت ہے، اس کا فیصلہ مریض نے نہیں، ڈاکٹر نے کرنا ہوتا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ ہسپتال میں وینٹیلیٹرز کو چلانے والا تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں تھا ڈاکٹر عبدالمجید کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے۔ لاہور سے ٹیم آئی تھی۔ انھوں نے ہمارے عملے کو تربیت دی تھی۔‘

تو ہمیں کیا ضرورت تھی کہ ہم لاکھوں روپے خرچتے؟

کرن وقار کے بھائی حسنین نثار نے بتایا کہ جب وہ اپنے بھائی اور بہن کو اس نجی ہسپتال لے گئے تو ان کا ارادہ یہ تھا کہ انھیں صرف ایسی سہولیات کی ضرورت تھی جہاں ان دونوں کو آکیسجن کا صحیح تناسب ملتا رہے اور وہ صحتیاب ہو جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نجی ہسپتال جانے پر انھیں لاکھوں روپے پیشگی جمع کروانے کی ہدایت کی گئی۔ کرن وقار کو وینٹیلیٹر جبکہ چھوٹے بھائی زوہیب کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

’وہ روز تقریباً 70 ہزار روپے کی دوائیاں منگواتے تھے۔ ان چند دنوں میں ہمارے 18 لاکھ کے قریب روپے خرچ ہوئے اور ہمارے بہن بھائی بھی نہیں بچے۔‘

حسنین نثار کا کہنا تھا کہ ان کے بہن بھائی کو صرف آکسیجن کی ضرورت تھی۔

’وہ اگر ہمیں ڈی ایچ کیو اوکاڑہ میں مل رہی ہوتی تو ہمیں کیا ضرورت تھی کہ پرائیویٹ ہسپتال میں لاکھوں خرچ کرتے اور اوکاڑہ سے باہر بھی جاتے۔‘

حسنین نثار کا استدلال ہے کہ ان کی بہن کرن وقار اور بھائی زوہیب علی دونوں کی حالت اتنی خراب نہیں تھی کہ انھیں وینٹیلیٹر پر ڈال دیا جاتا یا انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا۔

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ہسپتال نے محض پیسوں کے لیے ایسا کیا۔‘

کووڈ

ان کا کہنا تھا کہ جب لاشیں ان کے حوالے کی گئیں تو دونوں صورتوں میں ان کے بھائی اور بہن کی آنکھوں اور کانوں سے خون رس رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا تھا کہ ان کے بھائی کے گردے فیل ہو گئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی موت کے چند روز بعد کرن وقار کا کورونا ٹیسٹ منفی آ جانے کے بعد وینٹیلیٹر بیڈ سے میڈیکل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم اگلے ہی روز ان کی موت ہو گئی۔

’پہلے ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا دل بند ہو گیا تھا۔ پھر دوسرے نے کہا نہیں ان ڈاکٹر کو سمجھ نہیں آئی۔ ان کے پھیپھڑے میں کلاٹ آ گیا تھا جو پھٹ گیا ہے۔ ابھی وہ زندہ ہیں لیکن ان کی حالت تشویشناک ہے۔ اس کے کچھ دیر بعد انھوں نے کہا وہ زندہ نہیں ہیں۔‘

کوئی بتائے کورونا کے علاج کے لیے کس ہسپتال جانا بہتر ہے؟

کرن وقار کا خاندان زیادہ تر تعلیم یافتہ ہے اور کورونا بیماری کے حوالے سے سمجھ بوجھ اور علم رکھتا ہے۔ تاہم ان کے دیکھتے دیکھتے ان کے خاندان کے تین افراد کورونا کا نشانہ بن گئے۔ کرن وقار کو یہ پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ کورونا کے لیے کون سا ہسپتال بہتر ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں جب ملک میں کورونا کی تیسری لہر کی زد میں آ کر زیادہ تر ہسپتالوں کے وسائل تیزی سے محدود ہوتے جا رہے ہیں، عام لوگوں کا پریشان ہو جانا عین ممکن ہے۔

لاہور کے میو ہسپتال کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق لاہور میں ہائی ڈیپینڈنسی یونٹس میں بستر 72 فیصد جبکہ وینٹیلیٹرز والے بستر 81 فیصد بھر چکے تھے۔ گذشتہ برس کورونا کی آمد سے لے کر اب تک حالات کے ساتھ ساتھ کورونا کے مریضوں کے لیے ایس او پیز میں بھی تبدیلی آئی ہے۔

کورونا کے علاج کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

کووڈ

میو ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر اسد اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر کسی میں کورونا ٹیسٹ مثبت آ جائے تو اس کے بعد انھیں دو چیزیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر تو ان میں علامات نہیں ہیں تو وہ گھر پر رہ کر اپنے جسم میں آکسیجن کی شرح یعنی آکسیجن سیچوریشن کی مسلسل نگرانی کریں۔

’اگر کسی میں علامات ہیں، انھیں بخار ہے اور وہ بخار دو تین روز تک بھی ٹھیک نہیں ہوتا تو ان کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا معائنہ کروائیں۔‘ یہ معائنہ کسی بھی ہسپتال یا کسی بھی ڈاکٹر سے کروایا جا سکتا ہے۔

اگر ان کے خون کے نمونوں میں کوئی زیادہ اتار چڑھاؤ نہ ہو تو ڈاکٹر انھیں کچھ دواؤں کے ساتھ گھر واپس بھیج دے گا جن میں سٹیرائڈز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق تاہم اگر اس شخص کے ایکسرے کی رپورٹ اچھی نہ ہو یعنی پھیپھڑے متاثر ہو چکے ہوں یا ان کے خون کے نمونوں میں ابتری کے حوالے سے نشاندہی موجود ہو اور سانس میں تکلیف محسوس ہو رہی ہو تو انھیں ہسپتال میں داخل کیا جائے گا۔

وینٹیلیٹر پر کون سا مریض جاتا ہے؟

ڈاکٹر اسد اسلم کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے تمام تر سہولیات میسر ہیں اور کوئی ہسپتال کسی مریض کو علاج سے منع نہیں کرے گا۔

انھوں نے بتایا کہ حال ہی میں لاہور کے ہسپتالوں میں میسر وینٹیلیٹرز میں مزید 130 وینٹیلیٹرز شامل کیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق وینٹیلیٹر والے بستر پر دو قسم کے مریضوں کو منتقل کیا جاتا ہے۔

’وہ مریض جس کو آکسیجن کی ایک خاص مقدار کی سپلائی کی مسلسل ضرورت ہو اس کو وینٹیلیٹر والے بستر رکھا جاتا۔ ضروری نہیں ہے کہ وینٹیلیٹر پر جانے والے ہر مریض کے جسم میں سانس کی نالی ڈالی جائے۔‘

جس طریقے میں مریض کے جسم میں سانس کی نالی گھسا کر مصنوعی تنفس قائم کرنا پڑتا ہے، ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق ان کی تعداد تاحال انتہائی کم ہے۔ ’اسے انویسو طریقہ کار کہتے ہیں اور اس میں اب تک کامیابی کا تناسب کم رہا ہے۔‘

نجی ہسپتال کا انتخاب کیسے کیا جائے؟

ڈاکٹر اسد اسلم نے بتایا کہ کوئی سرکاری ہسپتال کسی کورونا کے مریض کو علاج سے منع نہیں کرے گا تاہم اگر مریض چاہے تو وہ اپنی مرضی کی جگہ یا نجی ہسپتال سے علاج کروا سکتا ہے۔ مختلف شہروں میں مختلف نجی ہسپتال یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

تاہم جس سوال کا سامنا کرن وقار کو تھا، وہی سوال دیگر کئی افراد کے سامنے بھی آتا ہے کہ اس بات کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ کون سا نجی ہسپتال بہتر ہے۔

میو ہسپتال کے سی ای او ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق نجی ہسپتال کا انتخاب کرتے ہوئے ‘یہ دیکھ لیں کہ وہ ایسی جگہ ہو جہاں آکسیجن سیچوریشن کی مانیٹرنگ کی سہولت موجود ہو اور کورونا کی باقی علامات کو بھی مسلسل دیکھا جا رہا ہو۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بھی ضروری ہے کہ اس جگہ آکسیجن کی سپلائی موجود ہو اور وینٹیلیٹرز والے بستروں کا انتظام بھی ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر مریض کو ان پر منتقل کیا جا سکے۔‘

ڈاکٹر اسد اسلم کے مطابق اگر صوبہ پنجاب میں کسی بھی شخص کو کورونا کے علاج کے حوالے سے معلومات کی ضرورت ہو تو مندرجہ ذیل ٹیلی فون نمبروں پر ہمہ وقت ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں جو ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔

کوئی بھی شخص کسی بھی شہر سے 042-99211136، 042-99211137 اور 042-99211138 پر کال کر سکتا ہے اور انھیں ان کے شہر میں موجود سہولیات کی طرف ان کی رہنمائی کی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp