پاکستان کے گرم سرد سیاسی موسم اور سرسام زدہ حکومت


پاکستان میں کئی قسم کے موسم پائے جاتے ہیں۔ کچھ ماہرین کے خیال میں یہاں چار موسم ہوتے ہیں، گرمی سردی خزاں بہار۔ کچھ کا کہنا ہے کہ پانچ موسم ہوتے ہیں، گرمی سردی برسات خزاں اور بہار۔ کچھ ماہرین اب یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بارہ موسم ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمیں ان کے نام نہیں مل پائے۔ بہرحال ہم نے نوٹ کیا ہے کہ کسی ماہر نے بھی سیاسی موسموں پر تحقیق نہیں کی۔ یہ مضمون اسی تحقیق کی ایک کڑی ہے۔ ان سیاسی موسموں میں وسط اپریل سے لے کر جون تک کے ایام اہم ترین ہوتے ہیں۔

پاکستان میں سال کا آغاز عموماً جنوری سے ہوتا ہے۔ اس مہینے میں سیاسی درجہ حرارت ٹھنڈا پڑا ہوتا ہے۔ نہ حکومت کو کوئی پریشانی ہوتی ہے نہ اپوزیشن کے جذبات میں کچھ ہلچل دکھائی دیتی ہے۔ فروری میں موسم کچھ بدلنے لگتا ہے۔ اس کا آغاز ہلکے پھلکے سیاسی بیانات کی بوندا باندی سے ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں کھانے پینے اور اجلاس کرنے کے لیے اکٹھی ہونے لگتی ہیں اور حکومت کو خبردار کرتی ہیں کہ مارچ آنے والا ہے۔ حکومت جواب میں بیان برساتی ہے کہ وہ مارچ نہیں آنے دے گی۔ پھر مارچ کا مہینہ آ جاتا ہے اور اپوزیشن اگر واقعی سنجیدہ ہو تو ملنے بیٹھنے میں تیزی آ جاتی ہے ورنہ آپسی سر پھٹول شروع ہو جاتی ہے۔

پھر اپریل آ جاتا ہے۔ عموماً اس مہینے کا آغاز یکم اپریل سے ہوتا ہے جسے ساری دنیا میں بے وقوف بنانے کے دن کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں سیاست دان اس عالمی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے عوام اور ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کے عمل کا آغاز ایک نئے جوش اور جذبے سے کرتے ہیں۔

اپریل کے وسط سے ہی موسم تبدیل ہونے لگتا ہے۔ سیاسی درجہ حرارت یکلخت بڑھ جاتا ہے۔ مختلف قسم کی تحریکوں، مارچوں اور دھرنوں سے حکومت کو سرسامی کیفیت میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ مئی جون میں اچھی بھلی گرمی پڑنے لگتی ہے۔ یوں بجٹ بناتے وقت وہ اپنے حواس میں نہیں رہتی اور سوچتی ہے کہ پیسہ ہاتھ کی میل ہے، جان ہے تو جہان ہے، طمع نہیں کرنی چاہیے اور صدقہ سمجھ کر اور کچھ لے دے کر سر پر پڑی مصیبت کو ٹالنا چاہیے۔ حکومت ہی نہ رہی تو بجٹ کا کیا کرنا ہے۔ حکومت اپنی بقا اور ملکی دفاع کے بارے میں نہایت پریشان ہو جاتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ بجٹ میں دفاع کا حصہ زیادہ کرنا ہی دافع مصائب و بلیات ہے۔ یوں ایک عقل مند حکومت اس سوچ کے ساتھ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ بناتی ہے۔

یوں یکم جولائی کو نیا مالی سال چڑھتے ہی موسم بہتر ہو جاتا ہے۔ حکومت سکھ کا سانس لیتی ہے۔ وسط جولائی سے مون سون کے گھنے بادل چھانے لگتے ہیں اور مینہ برسنے لگتا ہے۔ حکومت اگر دفاع کا مناسب بندوبست کر چکی ہو تو وہ ساون کے جھولے ڈال کر آم کھاتی ہے۔ ہاں اگر اس نے وقت پر دفاع پر مناسب توجہ نہ دی ہو تو اس کے نصیب میں بڑی بھاری برسات لکھی ہوتی ہے۔ اس برسات کی شدت بے پناہ ہوتی ہے اور مختلف طرح کے سیلاب حکومت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

اس کے خلاف جولائی اگست سے کاتب تقدیر کے فیصلے آنے شروع ہوتے ہیں اور پھر ستمبر اکتوبر میں ایسی خزاں چھاتی ہے کہ ایک ایک کر کے وہ سارے پتے ٹوٹنے لگتے ہیں جن پر حکومت کا تکیہ ہوتا ہے۔ نومبر دسمبر میں ایسا جاڑا پڑتا ہے کہ سب کچھ منجمد ہو جاتا ہے اور حکومت بری طرح بے دست و پا ہو جاتی ہے۔ ہاں اگر اس نے عقل مند چیونٹی کی طرح مئی جون میں دفاع کا مناسب بندوبست کر لیا ہو تو پھر وہ بے فکر ہو کر یہ سرد موسم گزار لیتی ہے ورنہ بے وقوف جھینگر کی طرح سردی سے کپکپاتی اور بھوک سے بے حال ہو کر یہ سوچتی ہے کہ اس نے وقت پر یہ احساس کیوں نہیں کیا کہ ملک و قوم ایک نہایت نازک مرحلے سے گزر رہے ہیں اور دفاع کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔

بہرحال یہ تحریر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری محبوب حکومت دفاع سے ہرگز بھی غافل نہ ہو۔ مئی جون آیا ہی چاہتے ہیں۔ دفاعی تیاری پوری کرنی چاہیے ورنہ ہر اپریل، مئی اور جون کی طرح الٹی سیدھی تحریکیں حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments