’اوئے موٹی‘: زیادہ وزن کے باعث مسائل سے دوچار خواتین کی کہانیاں، سوشل میڈیا پر تعریف سے زیادہ تنقید

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام


گذشتہ کچھ برسوں سے پاکستان میں ٹیلی ویژن ڈراموں کا انداز تفریحی سے زیادہ اصلاحی بن گیا ہے مگر بعض اوقات یہی اصلاحی موضوعات کچھ اس طرح پیش کیے جاتے ہیں کہ ناظرین کے جذبات مجروح کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔

’ایک سال کے اندر اپنا وزن کم کر لو اور اگر نہ کیا تو میں منگنی توڑ دوں گا۔۔۔‘ یہ ڈائیلاگ نجی چینل ’ایکسپریس ٹی وی‘ کے ڈرامہ سیریز ’اوئے موٹی‘ کے ایک کلپ میں سُنا جا سکتا ہے۔

بظاہر اس سیریز میں ایسی کہانیاں دکھائی جا رہی ہیں جس میں زیادہ وزن والی خواتین کو درپیش حالات و مسائل دکھانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس کی نئی کہانی کا ایک 30 سیکنڈ کا کلپ گذشتہ کئی دنوں سے پاکستانی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جنھوں نے ’ثبات‘ ڈرامہ نہیں دیکھا ’کیا وہ واقعی پاکستانی ہیں؟‘

2016 میں پاکستانی ڈرامہ نڈر ہو گیا؟

کیا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ فحش اور غیراخلاقی ہو گیا ہے؟

’کردار کے غیر ذمہ دارانہ انتخاب پر افسوس ہے‘

ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار فرقان قریشی کا کہنا ہے کہ وائرل ہونے والے کلپ میں بولے گئے ڈائیلاگ کے پیچھے اصل کہانی کچھ اور ہے اور یہ الفاظ اُن کے کردار نے اس لڑکی کی جان بچانے کے لیے کہے تھے۔

فرقان قریشی کا کہنا تھا کہ اس ڈرامے سے پہلے ’میں چونکہ زیادہ معروف اداکار نہیں تھا اس لیے کبھی یہ نہیں سوچا کہ لوگ میرے کام کو اتنی اہمیت دیں گے۔ لیکن اب میں سوچ سمجھ کر انتخاب کر رہا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا ’میں نے اس سے پہلے بھی کافی ڈرامے کیے جن کا سکرپٹ اچھا نہیں تھا لیکن کبھی کسی نے نوٹس نہیں کیا۔ اس وقت تو شاید میں قتل کو بھی بڑھا چڑھا کر دکھا دیتا تو کسی نے پرواہ نہیں کرنی تھی۔ اب خوشی ہے کہ لوگوں کو فرق پڑتا ہے۔‘

فرقان قریشی کا کہنا تھا ’لیکن مجھے افسوس ہے کہ میں نے کم عقلی میں ایسا سکرپٹ کیا اور یہ نہیں سمجھا کہ اس سے کوئی فرق پڑ سکتا ہے۔‘

’خواتین کی قابلیت اور ذہانت پر بات نہیں کی جاتی‘

اس ڈرامے کے پروڈیوسر سید مختار احمد کا کہنا ہے کہ تیس سیکنڈ کے کلپ سے پورے ڈرامے کے کہانی نہیں پتا چل سکتی۔

’جس کلپ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس کے پیچھے ایک جامع کہانی ہے۔ لڑکے کو لڑکی اور ڈاکٹر کے درمیان ہونے والی بات چیت کا پتا چل جاتا ہے اور وہ منگنی کے روز پر اسے چیلنج کرتا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر لڑکی نے اپنا وزن کم نہ کیا تو اس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ڈرامہ چار حصوں میں بانٹا گیا ہے جس کے تحت ’ایک طرف تو میں یہ دکھانا چاہتا تھا کہ کس طرح ہمارے معاشرے میں خواتین کے وزن کو دیکھا جاتا ہے، جیسا کہ زیادہ وزن ہونا جرم ہو۔ ہمارے آس پاس یہ باتیں اکثر سننے کو ملتی ہیں۔ جبکہ ان خواتین کی قابلیت اور ذہانت پر بات نہیں کی جاتی۔‘

انھوں نے کہا کہ دوسری جانب کہانی میں اہم پہلو تھا کہ کس طرح اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔

ٹائٹل ٹریک پر ہونے والی تنقید پر سید مختار کا کہنا تھا کہ ’ٹائٹل ٹریک کے بول نہیں سنے گئے اور صرف ایک حصے کو لے کر تنقید کی گئی۔ ٹائٹل ٹریک میں اس لڑکی کو بارہا یہ یاد کرایا جا رہا ہے کہ تم ملکہ ہو، تمہیں لوگوں کے الفاظ سننے کی ضرورت نہیں۔ ’اوئے موٹی‘ ٹائٹل اس لیے رکھا تھا کیونکہ یہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں اب زیادہ تر میلو ڈرامہ پسند کیا جاتا ہے۔ اور موضوعات پر بات نہیں کی جاتی۔ اس لیے ’اوئے موٹی‘ ڈرامہ ان موضوعات کو سامنے لانے کی ایک کوشش ہے۔

موضوعات کا استعمال کیا صرف ریٹنگ کے لیے؟

ایک تشویش یہ بھی پائی جاتی ہے کہ معاشرے میں جس قسم کے مزاج کو ختم کرنے نیت سے آواز اٹھائی جا رہی ہے، جیسا کہ جہیز، گورا رنگ یا پھر وزن گھٹانے کی غلط فرمائشیں، پاکستانی ڈرامے ان کی صحیح معنوں میں عکاسی نہیں کر پاتے۔

اس نئے ڈرامے پر ایک تنقید یہ کی جا رہی ہے کہ اس میں ’باڈی شیمنگ‘ یعنی زیادہ وزن ہونے پر کسی کو شرمندہ کرنے کے موضوع کو ’برائے نام‘ اور ریٹنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

محقق اور ڈرامہ تجزیہ کار رافع محمود نے کہا کہ ’ایک انسان پر اس کے زیادہ وزن کو لے کر تنقید کرنے جیسے معاملے کو اجاگر کر کے اسے لوگوں کے سامنے لانے میں اور زیادہ وزن والے افراد کا مذاق اڑانے میں فرق ہے۔ یہ ایک حسّاس موضوع ہے جس میں نام سے لے کر میوزک تک سب کچھ بہت معنی رکھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس ڈرامے کی چھوٹی سی جھلک سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ زیادہ وزن والی خواتین پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا تیس سیکنڈ کے کلپ سے ہم پورے ڈرامے کی کہانی کا اندازہ لگا سکتے ہیں؟

اس بات پر رافع نے کہا کہ ’ایسا اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ابھی تو یہ بھی نہیں پتا کہ آگے کیا ہو گا۔ تو ایک متبادل رائے کی گنجائش ہمیشہ رکھنی چاہیے۔‘

سوشل میڈیا ردعمل اور ٹائٹل سانگ پر اعتراض

سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ اگر اس موضوع پر ڈرامہ بنانا ہی تھا تو اس کے ٹائٹل ٹریک ’اوئے موٹی‘ کو اتنے ’خوشگوار موسیقی‘ کے ساتھ پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرے میں زیادہ وزن والے افراد اکثر مذاق کا نشانہ بنتے آئے ہیں چاہے وہ کامیڈی پروگرام ہی کیوں نہ ہوں۔

بیشتر سوشل میڈیا صارفین کی ڈرامے کے موضوع سے زیادہ اسے پیش کرنے کے طریقہ کار پر تنقید کر رہے ہیں۔

ٹوئٹر صارف ڈی کمال لکھتی ہیں کہ ’یہ کس قسم کا ڈرامہ ہے اور یہ کیا ہیبت ناک ساؤنڈ ٹریک ہے؟‘

ان کی اس پوسٹ کے نیچے کئی اور صارفین نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان میں سے ایک صارف نے لکھا: ’یہ حقیقت نہیں ہو سکتی، ہم واقعی جہنم میں رہ رہے ہیں؟‘

ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ ’کاش یہ سب مذاق ہوتا۔‘

صحافی عالیہ چغتائی نے بھی اس کلپ کو شیئر کرتے ہوئے ایسا ہی سوال پوچھا: ’یہ کس قسم کا ڈرامہ ہے؟‘

ایک صارف امیر خان کا کہنا تھا ’افسوس، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈرامہ عورتوں کو وزن کم کرنے کے بارے میں بتاتا ہے۔ ہر ڈرامہ ایسے ہی مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔‘

ایک اور صارف فاطمہ خواجہ کا کہنا تھا ’لیکن اس لڑکی کا وزن تو زیادہ نہیں ہے۔ یہ کیا بکواس ہے؟ اگر وہ موٹاپے سے خوف کو اجاگر بھی کرنا چاہیے ہیں تو پھر بھی یہ کیا بکواس ڈرامہ ہے۔ میں حیران ہوں۔‘

جہاں ایک طرف اس ڈرامے پر تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں تھی وہیں ایک صارف نے اگرچہ اسے ایک مسئلہ قرار دیا لیکن ان کا کہنا تھا یہ مسئلہ یکطرفہ نہیں کیونکہ خواتین خود بھی موٹاپے سے اسی قدر خائف ہیں۔

ان کا کہنا تھا میں ایک ایسی لڑکی کو جانتی ہوں جس نے ایسا ہی الٹیمیٹم اپنے منگیتر کو دیا۔۔۔ اور پھر اس نے بڑے فخر کے ساتھ اسے خوش کرنے کے لیے اس کے وزن کم کرنے کی کہانی بھی شیئر کی۔‘

عمیر نامی ایک صارف نے ٹوئٹر پر لکھا: ’میرے ذہن سے یہ سریلا اوئے موٹی ٹائٹل ٹریک نہیں جا رہا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp