ایران جوہری معاہدہ: کیا ایران اور اسرائیل کی خفیہ لڑائی خطرناک موڑ پر آن پہنچی ہے؟

فرینک گارڈنر - بی بی سی، سکیورٹی نامہ نگار


ایران

مشرق وسطیٰ میں دو ملکوں، ایران اور اسرائیل، کی بدترین آپسی دشمنی طویل عرصے سے چلی آ رہی ہے لیکن اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے یہ خفیہ لڑائی اب ایک خطرناک موڑ پر آن پہنچی ہے۔

ایران نے اسرائیل پر ایک پُراسرار دھماکے کا الزام لگایا ہے جس کی وجہ سے نطنز میں واقع یورینیم کی افزودگی کے جوہری مرکز میں بجلی کے نظام میں خرابی پیدا ہوئی تھی۔

اسرائیل نے کھلے عام تسلیم نہیں کیا کہ وہ اس حملے میں ملوث تھا۔ ایران نے اسے ’سبوتاژ کا منصوبہ‘ قرار دیا ہے۔

تاہم امریکی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی خبروں میں کئی اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس واقعے کے پیچھے اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد ہو سکتی ہے۔ ایران نے ’اپنے وقت پر اس (حملے) کا انتقام لینے‘ کا عہد کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نطنز کی اہم جوہری تنصیب پر ’اسرائیلی حملے‘ کا انتقام لیا جائے گا: ایران

امریکہ کا ایرانی جوہری معاہدے پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کا اعلان

ایران کی جوہری تنصیبات کو حملوں کا خطرہ کیوں اور یہ حملے کیسے ہو سکتے ہیں؟

یہ اس نوعیت کا ایک اور واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک باقاعدہ رجحان ہے جس میں دیکھا گیا ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں۔ وہ اب تک بہت دھیان سے اپنی اس خفیہ جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے براہ راست جنگ کے امکانات کو کم کیا جاتا ہے جو کہ اسرائیل اور ایران دونوں ہی کے لیے کافی تباہ کن ہو سکتا ہے۔ تو یہاں کیا خطرات ہیں اور اس خفیہ لڑائی کا اختتام کیسے ہو گا؟

بڑے پیمانے پر کہا جا سکتا ہے اس خفیہ جنگ کو تین محاذوں پر لڑا جا رہا ہے۔

ایران کا جوہری منصوبہ

Scinetists at Natanz nuclear facility (file photo)

اسرائیل ایران کے اس مسلسل بیانیے کو مسترد کرتا ہے کہ ان کا جوہری منصوبہ پُرامن ہے۔ اسرائیل بارہا دعویٰ کر چکا ہے کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار اور بلیسٹک میزائل بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔

پیر کو امریکی وزیر دفاع لوئڈ آسٹن کے دورے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بن یامن نتن یاہو نے کہا کہ ’مشرق وسطیٰ میں ایسا کوئی خدشہ نہیں جو ایران کی جنونی حکومت سے زیادہ سنگین اور خطرناک ہو اور یہ کہ اس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔‘

لندن میں اسرائیلی سفیر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایران نے جوہری ہتھیار بنانے کا کام کبھی روکا ہی نہیں تھا اور ایسے میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل کی جا رہی ہے جو ان ہتھیاروں کے حملوں میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ جوہری ہتھیار بنانے کی جدوجہد اسے پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بناتی ہے۔‘

یہ ذہن میں رکھتے ہوئے اسرائیل ایران کے جوہری منصوبے کو کمزور یا اس کی ترقی کی رفتار کم کرنے کے لیے خفیہ، آزادانہ اور غیر اعلان شدہ کارروائیاں کرتا ہے۔

ان کارروائیوں میں ایک کمپیوٹر وائرس بھی شامل ہے جسے پہلی بار سنہ 2010 میں دریافت کیا گیا اور اس کا نام ’سٹکس نیٹ‘ ہے۔ یہ ایران کے سینٹری فیوجز (یورینیم کی افزودگی کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی) کو نقصان پہنچاتا ہے۔

رواں صدی کے اوائل میں ایران کے کئی جوہری سائنسدان پُراسرار حالات میں ہلاک ہوئے۔

نومبر 2020 کے دوران تہران کے قریب محسن فخری زادہ کا قتل ہوا۔ وہ نہ صرف جوہری ٹیکنالوجی میں ایران کے بہترین تکنیکی ماہرین میں سے ایک تھے بلکہ انھیں ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارانِ انقلاب میں سینیئر عہدہ حاصل تھا۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ یہی شخص جوہری منصوبے کو ’فوجی‘ اعتبار سے آگے لے کر چل رہا تھا۔

یہ منصوبہ اب ممکنہ طور پر ایک خطرناک مرحلے میں ہے۔

ایران

سنہ 2015 میں ایران نے عالمی سطح پر جوہری معاہدہ طے کیا اور تجارتی پابندیوں کے خاتمے کے لیے اپنے جوہری پروگرام کی جانچ پڑتال کی حامی بھری۔ لیکن 2018 میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کی طرف سے اسے ختم کر دیا اور ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں۔

ایران نے اس کے جواب میں معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزیاں کیں، جیسا کہ یورینیم کی افزودگی میں اضافہ۔ یورینیم ایسا کیمیکل ہے جس سے جوہری توانائی کے لیے ممکنہ طور پر ہتھیار بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ ایران نے یورینیم کی افزودگی میں طے شدہ حد سے تجاوز کیا ہے۔

صدر جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ امریکہ دوبارہ ایران سے جوہری معاہدہ کرے لیکن اس کے لیے ایران تمام شرائط پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ جبکہ ایران کہتا ہے کہ ’نہیں، ہمیں آپ پر اعتماد نہیں۔ آپ پہل کریں۔ ہم تمام شرائط پر عمل کریں گے جب پابندیاں ختم ہوں گی۔‘

اس ڈیڈ لاک کو ختم کرنے اور مذاکرات کے لیے کئی ممالک کے نمائندے ویانا میں ملیں گے۔ لیکن اسرائیل کا خیال ہے کہ جوہری معاہدہ اپنی موجودہ شکل میں دوبارہ کرنا غیر ضروری ہے۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک رائیل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار ڈاکٹر مائیکل سٹیفنز کہتے ہیں کہ حالیہ اسرائیلی کارروائی درحقیقت جوہری معاہدے پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے۔

’اسرائیل آزادانہ طور پر ایرانی جوہری پروگرام کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ تکنیکی صلاحیت کے اعتبار سے متاثرکن مگر ایک خطرناک گیم ہے۔ اسرائیل کی ان کوششوں سے پہلے تو امریکہ کی مذاکراتی پوزیشن خراب ہو گی کیونکہ وہ دوبارہ ایران سے جوہری معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔‘

’دوسری بات یہ کہ ایران اس کا جواب غیر متناسب طریقے سے دے سکتا ہے جس سے عالمی سطح پر اسرائیلی مفاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایران کا منصوبہ روک سکتا ہے، مگر اب اس کی کیا قیمت ادا کرنا ہو گی؟‘

بحری جہاز اور شپنگ

حالیہ وقتوں میں سمندری سفر اور بحری جہازوں کے ساتھ عجیب واقعات پیش آ رہے ہیں۔

رواں سال کے اوائل میں اسرائیلی کارگو جہاز، ایم وی ہیلیوس، کو خلیج عمان میں بُری طرح نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے نچلے حصے میں دو بڑے سوراخ ہوئے اور اسرائیل نے اس کا الزام ایران کے پاسدارانِ انقلاب پر عائد کیا، مگر ایران نے الزام کی تردید کی۔

اپریل میں جنوبی بحیرۂ احمر کی طرف ایک ایرانی جہاز کو نقصان پہنچا اور اس کی ممکنہ وجہ لمپیٹ مائنز بتائی گئیں۔

اسرائیل اور یمن میں سعودی قیادت میں اتحاد کا خیال ہے کہ یہ جہاز حوثی باغیوں کے لیے سامان لے جا رہا تھا۔ اس پر تیز رفتار کشتیاں، مشین گنز اور ہوا کے اعلیٰ مواصلاتی آلات ہونے کا دعویٰ کیا گیا تاہم ایران کا کہنا ہے کہ یمن میں اس کی موجودگی امن قائم کرنے کے لیے ہے۔ اس نے اسرائیل کو حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

امریکی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق اسرائیلی فورسز نے گذشتہ 18 ماہ کے دوران کم از کم 12 جہازوں کو نشانہ بنایا جن پر ایرانی تیل اور فوجی سامان لے جایا جا رہا تھا۔

شام اور لبنان

ایران

شام میں اس کی سرحدوں کے اندر گذشتہ 10 سال سے جنگ جاری ہے مگر اس سے وہاں اسرائیلی فوجی کارروائیاں چھپ جاتی ہیں۔ ملک میں خانہ جنگی کے دوران ایران کے پاسداران انقلاب کے کئی فوجی ’مشیر‘ موجود ہیں اور ایران کے اتحادی حزب اللہ گروہ کے ساتھ مل کر شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کرتے ہیں۔

پاسداران انقلاب کے دستوں نے بعض اوقات اسرائیل کے قبضے میں گولان ہائٹس کی سرحدوں کو عبور کر کے یہاں کارروائیاں کی ہیں۔

ایران کی جانب سے اپنے پراکسی گروہوں کو ہدف کا تعاقب کرنے والے راکٹ اور میزائل دینے پر اسرائیل کو خاصی تشویش ہے۔ اس سے اسرائیلی شہر ان گروہوں کے نشانے پر آ جاتے ہیں اور اسی بدولت اسرائیل نے شام میں موجود ایسے کئی میزائل اڈوں اور سپلائی لائنز پر فضائی حملے کیے ہیں۔ ایران اس پر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکا۔

نتیجہ

دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ یہ خفیہ جنگ اس وقت تک جاری رکھی جا سکتی ہے اور تمام خطرے مول لیے جا سکتے ہیں جب تک ان کا مخالف گھٹنے نہ ٹیک دے۔ دونوں ملک کمزور دکھنا نہیں چاہتے۔ اسی دوران انھیں اپنی کارروائیاں دیکھ بھال سے کرنی ہوتی ہیں تاکہ براہ راست جنگ کا آغاز نہ ہو۔

جوہری منصوبے کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اسرائیل کی انٹیلیجنس نے کافی حد تک ایران کی سکیورٹی حدود عبور کی ہیں۔ اسرائیل نے ایران کی سخت سکیورٹی اور جوابی اقدامات سے بچنے کے لیے جاسوسوں سے لے کر سائبر ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔

سمندری لحاظ سے اسرائیل کو اپنی علاقائی پوزیشن کی وجہ سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ اسے ایلت شہر میں قائم بندرگاہ سے بحیرۂ احمر تک رسائی حاصل ہے مگر اس کے بعد ایران کو سبقت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس کے ساتھ خلیجی ساحل لگتا ہے اور یمن میں اس کے حمایت یافتہ حوثی پراکسی گروہ موجود ہیں۔

شام اور لبنان میں ایران کے پاس ہمیشہ ایک راستہ ہوتا ہے کہ اپنے پراکسی گروہ کی مدد سے اسرائیل کے خلاف میزائل حملے کر سکے لیکن یہ کافی خطرناک ہے۔ اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ اس کا ردعمل کس نوعیت کا ہو گا اور اس کا نشانہ ایران ہی ہو گا۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز میں سرحد پار انسداد دہشتگردی کے ماہر جون رین کہتے ہیں کہ اسرائیل کی انٹیلیجنس صلاحیت کہیں بہتر ہے جس کی وجہ سے ایران کو ’دو ٹوک‘ ردعمل دینا پڑتا ہے۔

’ایران کے لیے مایوس کُن یہ ہے کہ حملے کے لیے اس کا بہترین شراکت دار حزب الله ہے لیکن اس طرح معاملات زیادہ خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔ اس سے حزب اللہ اس جنگ میں شریک ہو جائے گا جسے ایران روکنا چاہتا ہے۔

’ایران کو عام طور پر غیر متناسب فائدہ ہوتا ہے لیکن اسرائیل کو سبقت حاصل رہتی ہے۔ ان کے پاس تیز رفتار حکمت عملی ہوتی ہے اور جب انھیں دو ٹوک جواب دینا ہوتا ہے، جیسے وہ شام میں کر رہے ہیں، وہ زور دار حملہ کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp