سلیم کی فرہنگ….


\"salimایک ٹی وی چینل کے مشہور پروگرام کا ایک سگمنٹ ”فرہنگ آصفیہ“ کے نام سے ہوتا ہے جس میں میزبان، اردو الفاظ کے اصل اور مستعمل معانی کا فرق بتاتے ہیں۔

بغیر کسی تمہید کے عرض ہے کہ سیکولرازم، سوشلزم، ڈیموکریسی وغیرہ چند ایسے انگریزی الفاظ ہیں جن کی اصطلاحی تعریف، لغوی معانی اورعوامی استعمال۔غرض ہر پہلو سے لوگ مخمصہ کا شکار ہیں۔

اس بحث میں پڑے بغیر کہ آکسفورڈ ڈکشنری کیا کہتی ہے، خاکسار اپنے فہم کی بنا پر ان الفاظ کے جو معانی لیتا ہے، اسے آپ کے سامنے رکھ رہا ہے۔ آپ چاہیں تو اسے میری ذاتی فرہنگ کہہ لیں۔

اگر آپ میری طرح سیکولر ہونے کے دعویدار ہیں تو مجھ سے اتفاق کریں گے، اگر نہیں کرتے، تب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ آپ مجھے سیکولرزکا \”فرقہ سلیمیہ\” کہہ لیں ۔ (دیگرمذہبی تشریحات پہ فرقے بن سکتے ہیں تو سیکولرازم پہ بھی کسی کا کیا اجارہ ہے؟ )۔

اپنی بات واضح کرنے کے لئے ایک گاوں کی مثال لیتا ہوں۔

ایک ہزار گھرانوں پہ مشتمل ایک گاؤں ہے جس کے لوگوں نے اپنے مسائل کے حل کے لئے ایک نظام وضع کیا ہے کہ گاؤں میں دس نمائندوں پہ مشتمل، ایک پنچایئت بنا دی جائے جو گاو ¿ں کی ترقی اور امن کی ذمہ دار ہو۔ گاو ¿ں کے جو لوگ، اس ذمہ داری کے لئے فرصت اور توانائی رکھتے ہیں، وہ اپنا نام پیش کریں اور گاؤں والے، خفیہ رائے شماری سے ان دس نمایندوں کو پنچا ئت میں چن لیں جن پر لوگ، دوسروں کی نسبت زیادہ اعتماد کا مظاہرہ کریں اور پھر یہ دس نمایندے، گاو ں کا ایک مکھیا چن لیں۔ اس کو جمہوری نظام کہتے ہیں۔ کوئی مفتی صاحب، براہ کرم ہمیں بتائیں کہ اس نظام میں غیر اسلامی بات کیا ہے؟ (غیر اسلامی بات وہ ہوتی ہے جس سے قرآن و حدیث صریح طور پر منع کرے)۔

اب میں آپ کو گاؤں کے دس کرداروں سے ملواتا ہوں جن میں سے، دو سوشلسٹ ہیں، دو سیکولر ہیں، ایک لبرل ہے، ایک کمیونسٹ ہے، ایک فاشسٹ (انتہا پسند) ہے، ایک ملحد ہے، ایک نظریاتی ہے، اور ایک بنیاد پرست ہے۔

سوشلسٹ:

گاؤں میں مسٹر طاہر رہتے ہیں جو گاؤں والوں کی غربت پہ کڑھتے ہیں۔ پس انہوں نے ایک بینک بنا دیا ہے جو سود پہ قرض دیتا ہے تاکہ لوگ اپنا روزگار پیدا کرسکیں۔ اسی گاو ں میں حاجی ابرار نامی ایک صاحبِ ثروت تبلیغی آدمی بھی ہیں۔ سود کو برا خیال کرتے ہیں تاہم لوگوں کی بیے چارگی بھی کھٹکتی ہے۔ انہوں نے صدقات اکٹھے کرکے، بلا سودی قرض دینے شروع کر دئے۔

مسٹر طاہر اور حاجی ابرار، دونوں سوشلسٹ ہیں۔

سوشلزم، دراصل سوسائٹی کی فکرکرنے کا نام ہے۔ پس ہر وہ شخص جو اپنی ذات سے ماورا، دوسرے بندوں کے بارے سوچ رکھتا ہے ، وہ سوشلسٹ ہے۔ سوشلسٹ، وہ آدمی ہے جو سوسائٹی کی بہتری کی خاطر جدو جہد کرتا ہو، اپنے معاشرے کے لئے سوچتا ہو،یا حیاتِ اجتماعی کی فکر رکھتا ہو۔ اس جدوجہد، سوچ اور فکر میں ،وہ غلط یا درست ہوسکتا ہے۔ سوشلزم ایک انسانی صفت ہے،یوں تو کسی انسان کو بھی درد کی یہ دولت میسر آسکتی ہے پرمیرا دعوی ہے کہ مسلمان سے بڑا سوشلسٹ کوئی نہیں ہوسکتا۔

دردِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو!

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں۔

چینی سوشلزم یا کوئی اور سوشلزم ایسے ہی ہیں جیسے سعودی اسلام یا ایرانی اسلام۔ یعنی اسلام،الگ چیز ہے اور اسکی تفہیم کی بنیاد پر کوئی نظام بنانا الگ چیز ہے۔ ایسے ہی سوشلزم، انسانی کردار کا خاصہ ہے۔ پھر اپنے فہم مطابق اس کا نظام بنانا الگ چیز ہے۔

لبرل اور نظریاتی:

گاؤں میں حکیم طارق ہیں۔ ان کا نظریہ ہے مسلمانوں کے لئے بنک سے کاروبار کرنا حرام ہے۔ خدا سے دشمنی ہے۔ پس وہ بنک سے رابطہ نہیں رکھتے۔ حکیم طارق، نظریاتی آدمی ہیں۔

گاؤں میں نعیم رہتا ہے۔ آزاد روش آدمی ہے۔ اس کو بنک پہ کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ خود کو مسلمان کہتا ہے لیکن دین کے کسی حکم سے اس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ نعیم ایک لبرل نوجوان ہے۔

حکیم طارق اور نعیم کو اپنی زندگی، اپنے انداز میں گذارنے کا پورا حق حاصل ہے جب تک یہ فاشزم کی راہ نہیں اپناتے۔

لبرلزم، صرف آزاد روی کا نام ہے۔ (جس کے حامی اسے\” روشن خیالی\” اور مخالفین،اسے \”مادرپدر آزادی\”کا نام دیتے ہیں۔ دونوں غلط ہیں)۔ کسی فرد کا لبرل ہونا، اسلامی نکتہ نگاہ سے مستحسن نہیں لیکن کوئی لبرل، کسی دوسرے کیلئے تکلیف کا سبب نہیں تواسلام کو بھی اس سے تکلیف نہیں۔

ہمارے نظریاتی شخص یعنی حکیم طارق کو پورا حق ہے کہ ہر معقول طریقے سے نعیم کو اپنے نظریے پر لائے۔ اورچاہے تو حکومت کو بھی نظریاتی بنانے کی کوشش کرے۔ (معقول طریقہ وہ ہے جسے اسکے زمانے اور منطقے کی سوسائٹی، کثرت رائے یعنی جمہوری طور پر قبول کرتی ہو)۔

فاشسٹ( تنگ نظر یا انتہا پسند):

گاؤں کی مسجد میں ملاّ ممتاز قادری ہیں۔ وہ سود کو خدا کے خلاف جنگ کہتے ہیں اور نوجوانوں کو ابھارتے ہیں کہ بینک کو آگ لگا دو۔

گاؤں میں پرویز بٹ صاحب ہیں۔ ان کو ممتاز قادری اور مذہب سے بیزاری ہے۔ وہ پرچار کرتے ہیں کہ مسجد کو گرا کر، یہاں بچوں کا پارک بنائیں۔ یہ زیادہ فائدہ مند ہیں۔

قادری اور پرویز، دونوں فاشسٹ، تنگ نظر یا انتہا پسند ہیں۔

سیکولرازم:

گاؤں میں ہیڈ ماسٹر ریاض کا بڑا رسوخ ہے۔ بنک کے بارے وہ کہتے ہیں کہ کسی کوسود سے تکلیف ہے تو بینک نہ جائے۔ماسٹر صاحب امن کے داعی ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ بنک، آج کل کی ضرورت ہے۔ جن لوگوں کو بنک سے تکلیف ہے، وہ اسکا متبادل مہیا کرکے دکھائیں۔

گاؤں میں بشیر چشتی صاحب ہیں۔نوجوانوں کودین کی تعلیم دیتے ہیں۔ سود کے نقصانات بتاتے ہیں مگر مرنجاں مرنج آدمی ہیں۔ ان کی محفل میں، خود بنک والے مسٹر طاہر بھی بے خوف شرکت کرتے ہیں۔

ماسٹر ریاض اورچشتی صاحب دونوں ، سیکولر ہیں۔

سیکولرزم، تھیوکریسی کی ضد ہے۔

پہلے تھیوکریسی کو سمجھیں۔ فرض کریں، ایک آدمی کے خیال میں پینٹ شرٹ پہننا حرام ہے اور تہہ بند باندھنا، ہر مسلمان کی شرعی ضرورت ہے جس میں اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ آدمی چاہتا ہے کہ پاکستان آرمی میں پتلون کی بجائے، شرعی لباس جو کہ اسکے خیال میں تہہ بند ہے، وہ رائج کیا جائے تو غیبی امداد ہوگی۔ اس آدمی کو بنیاد پرست کہیں گے۔ اس آدمی کی سوچ کے مطابق حکومت چلائی جائے تو اس کا نام تھیوکریسی ہے۔

اس بنیاد پرست آدمی کو اپنی ذاتی زندگی اپنے خیال کے مطابق گزارنے کا پورا حق حاصل ہے،اگر حکومت یا معاشرہ، بلاوجہ اسکی زبان بندی نہیں کررہا تو اسکا نام سیکولرازم ہے۔

خاکسار کا دعوی ہے کہ اسلام سے زیادہ کوئی دین، سیکولر نہیں۔ یہ دین \” لا اکراہ فی الدین \” کا اصول دیتا ہے۔ دلیل کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کے جنگی رولز میں، اسلام کے مقابل اصل نظریاتی کرداروں مثلاً پادری اور چرچ کوامان دی گئی ہے، اس لئے کہ اسلام، دلیل کا سامنا کرنے سے نہیں گھبراتا۔

سیکولرازم کیا ہے؟ یہ تصوف کی ہی شکل ہے کہ اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں، کسی اور کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔ اس میں یہ اضافہ کرلیجئے کہ اپنے عقیدے یا نظریئے کا، دلیل اور قولِ احسن ( منطقی اور میٹھی بات) سے پرچار کرسکتے ہو۔

کمیونزم:

یہ کسی عقیدے کا نام نہیں، ایک اجتماعی معاشی نظام کا نام ہے۔ کمیونسٹ، وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ افراد کی آمدنی، ریاست کی اجتماعی ملکیت یا مشترکہ وراثت ہے۔ انفردی دولت جمع کرنے کی گنجائش نہیں۔ کام سارے لوگ مل کر کریں لیکن آمدن، ریاست کے پاس جمع ہو،جو اس کو سب لوگوں کی فلاح میں خرچ کرے۔ کمیونزم، سرمایہ داری نظام(کیپٹلزم) کا رد ہے۔

ایک کمیونسٹ ، مسلمان یا عیسائی یا لامذہب وغیرہ ہوسکتا ہے۔ اسکا عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں۔ بحیثیت مسلمان، ہم کمیونزم کے معاشی نظام کوناقص سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سرمایہ داری نظام پر بھی ہمیں تحفظات ہیں۔ اسلام کے پاس، ان دونوں سے بہتر معاشی نظام موجود ہے۔

دہریہ یا ملحد:

گاؤں میں ایک چوہدری یوسف بھی ہے جو مذہب اور خدا کو بالکل نہیں مانتا پس چوہدری ایک دہریہ ہے۔ سیکولر اور اسلامی حکومت میں دہریے کی سارے انسانی حقوق محفوظ ہیں مگر تھیوکریسی میں وہ قابل موت ہے۔

(امام ابوحنیفہ کا دہریے سے برسرعام مناظرہ، بغداد کی مسجد میں دہریے سے مناظرہ بتاتا ہے کہ اس زمانے میں بھی ملحدین کو اپنے قتل کو خوف نہ تھا اور دلیل کی بنیاد پر، وقت کے اکابر علما کو چوک میں چینلج دے سکتے تھے)۔

ہمارے ہاں کمیونسٹ ، سوشلسٹ، لبرل، سیکولر، سب کو دہریہ سمجھا جاتا ہے، سو غلط ہے۔

جمہوریت:

گاؤں کا نظام چلانے، پنچا یت کے دس ارکان کا انتخاب ہونا ہے۔ گاو ں میں تیس امیدوار اس کے لئے میدان میں آ گئے ہیں۔

اس الکشن میں قادری، حکیم طارق اور حاجی ابرار نے حصہ نہیں لیا۔ کیوں؟ قادری، اس عمل کو غیر اسلامی سمجھتا ہے۔ حکیم طارق اور حاجی ابرار، اسے فضول اور وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ (ان دونوں کی اتباع میں، ان کے چند ہم خیال بھی الیکشن سے دور رہے)۔

پرویز،فاشسٹ ہونے کی بنا پر، قادری کی ہی طرح،محدود حلقہ اثر رکھتا ہے، پس وہ بری طرح ہار گیا۔

نتائج کچھ یوں آئے۔

چشتی، نعیم اور چوہدری ممبر بن گئے۔ مسٹر طاہر گروپ کے دو آدمی جبکہ ماسٹر ریاض کے 5 آدمی ممبر بن گئے۔ یوں گاؤں کی 10 آدمیوں کی پنچایت کا مکھیا ، ماسٹر ریاض کو منتخب کرلیا گیا جو سیکولر آدمی ہیں۔

اس وقت گاؤں میں بڑا مسئلہ امن کا ہے جس کی بنیاد بنک ہے۔ بنک، پنچاہیت کی رکن کی ملکیت ہے۔ ملاّقادری، رکن نہ ہونے کے باوجود، گاؤں میں ایک اثر تو بہرحال رکھتا ہے۔ ماسٹر ریاض، بنک گاو ں کی ترقی کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

معزز رکن، چشتی صاحب بھی چاہتے ہیں کہ بنک ختم ہوجائے مگران کو بھی احساس ہے کہ بنک، عوام کی سہولت بھی ہے اور طاہر صاحب کا بزنس بھی ہے۔ وہ بھی حکیم طارق اور حاجی ابرار کی طرح نظریاتی اور سوشلسٹ ہیں مگر جمہوری آدمی بھی ہیں۔ پس، چشتی صاحب نے اہل علم کی مشاورت سے، پنچایت میں ایک تجویز پیش کی کہ بینک کی بجائے، مضاربہ سکیم کھول دی جائے جس کا سربراہ طاہر صاحب کو بنا دیا جائے۔

فرمائیے، اس تجویز پہ مکھیا ریاض صاحب، ان کے مد مقابل طاہر صاحب اور انتہا پسند ملّا صاحب، ان تینوں کو کیا مسئلہ ہوسکتا ہے؟ ریاض صاحب کو تو چشتی صاحب یا طاہر صاحب کی بجائے،گاو ں کا امن عزیز ہے جس کو ملّا قادری خراب کرنے پہ تلا ہے۔ ان کی ترجیح یہ ہے کہ ملّا، بدامنی سے باز آجائے۔

مگر چوہدری یوسف اور نعیم، اسکی بھی مخالفت کریں گے کیونکہ ان کو چشتی صاحب سمیت ہر مذہبی آدمی سے بغض ہے۔

مگر اکثریت کی بنیاد پہ فیصلہ چشتی صاحب کے حق میں آیا اگرچہ ان کا اپنا ایک ہی ووٹ تھا۔ یوں پر امن طریقے سے مسئلہ کا حل نکل آیا۔ اسکو جمہوریت کہتے ہیں۔ اس میں چشتی صاحب کے ارکان کا زیادہ ہونا، اچھی بات سہی مگر ضروری نہیں۔ اہم بات، خود چشتی صاحب کی سوچ، دلیل کی طاقت اور بیشتر ارکان میں ان کی وقعت ومحبت کا ہونا ہے۔

جمہوری نظام یعنی ڈیموکریسی بارے بھی عوام میں بڑی الجھن پائی جاتی ہے۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک عالم دین اور ایک جاہل کا ووٹ کیسے برابر ہے؟ یا ایک چھابڑی فروش،ملک کے نیوکلئر سٹیٹس کے بارے میں کیا رائے دے سکتا ہے؟ وغیرہ….

یہ طویل موضوع ہے۔ خاکسار ایک الگ مضمون میں واضح کرے گا کہ جمہوری نظام، اہل پاکستان، خاص طور پر دینی طبقے کے لئے کتنی بڑی نعمت ہے۔

مگر فی الحال یہ ذہن میں رکھا جائے کہ پاکستان میں، اوسطاً 3 لاکھ عوام پہ مشتمل قومی اسمبلی کا حلقہ، اپنا ایک باعتماد نمایندہ منتخب کرتا ہے۔ عوام اس نمایندے کو دین یا فزکس کی بنیاد پہ نہیں بلکہ صرف اپنے روزگار اورعلاقے کی ترقی کی بنیاد پر منتخب کرتے ہیں۔

یہ نمایندہ، جو علاقے کے لوگوں پہ اثر رکھتا ہے، خود بھی سائنس و فقہ یا عالمی امور کا ماہر نہیں ہوتا(چاہے ان پڑھ ہی ہو)۔

جب پارلیمنٹ میں کوئی ٹیکنکل مسئلہ پیش ہوتا ہے تو ماہرین کی آئینی کمیٹیاں، ان نمائیندوں کی راہنمائی کرتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں دلیل اور جوڑ توڑ کے ذریعے اس مسئلہ پر متفقہ رائے لی جاتی ہے۔ یہ نمایندے راضی ہوجائیں تو اپنے علاقے کی عوام کو مطمئن کرسکتے ہیں۔ اور یوں گویا پاکستان کا ہر شہری، اپنی داخلہ و خارجہ پالیسی میں، اپنے باعتماد نمائندے کے ذریعے شریک ہوتا ہے۔

اس لئے پارلیمنٹ میں کسی نظریاتی آدمی کو اپنی بات منوانے کے لئے اکثریت کی نہیں بلکہ دلیل اور باہمی تعلق کی ضرورت ہے۔اکثر نظریاتی ارکان پارلیمنٹ کا مسئلہ، ان میں خوئے دلجوئی کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے باقی ارکان پارلمنٹ، ان کی دلیل بھی سننا گوارا نہیں کرتے۔ پھر وہ جمہوریت کا گلہ کرتے ہیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ مولانا فضل رحمان جیسا اکیلا رکن اسمبلی بھی ہو تو اپنی منطق اور رکھ رکھاو  کی وجہ سے، اپنا موقف سب سے منوا سکتا ہے۔

اسلام میں حکومت کے چناو  کا طریقہ کار، اس لئے مبہم رکھا گیا تاکہ زمان و مکان کے لحاظ سے، لوگ خود ایک بہتر طریقہ سوچ لیں۔ اسلام کے مدنظر، کسی ملک کو چلانے کی پہلی جو دو ترجیہات ہیں اور وہ ہیں، امن اور معاش –

وہ جو ابراہیم (علیہ سلام) نے مکہ میں، خدا کا گھر بنا کر، یہاں ایک شہر آباد ہونے کی نوید سناتے ہوئے،خدا سے مانگا تھا”اے خدا، اس بستی کو امن کی نعمت دے اوریہاں بہترین معاش عطا فرما“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments