اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طالبہ سے ہراسانی کا معاملہ، پروفیسر کو ملازمت سے برطرف کرنے کی سفارش

عزیز اللہ خان - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور


ہراسانی

خیبر پختونخوا میں محتسب برائے انسدادِ ہراسانی نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طالبہ سے ہراسانی کے الزام میں یونیورسٹی کے پروفیسر امیر اللہ کو ملازمت سے برطرف کرنے کی سفارش کی ہے۔

محتسب کی جانب سے انتظامیہ کو اس معاملے میں مناسب اقدامات نہ کرنے پر غفلت کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طلبا اور طالبات نے گذشتہ سال نومبر میں ہراسانی کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا تھا جس کے بعد یہ کارروائی شروع کی گئی تھی۔

صوبے میں جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تعینات صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے اس مقدمے کی سماعت کی جس میں انھوں نے دونوں جانب سے دلائل سنے اور تمام متعلقہ افراد کے بیانات قلم بند کیے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے نہ صرف جنسی ہراسانی بلکہ طالبہ کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری مہم رکوانے کے لیے بھی کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے۔

طلبا نے کیا الزامات عائد کیے تھے؟

جنسی ہراسانی

iStock

انکوائری کے دوران طلبا اور طالبات کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جنھوں نے یونیورسٹی میں پیش آنے والے واقعات اور اساتذہ کی جانب سے ملنے والے مبینہ احکامات کا ذکر بھی کیا۔

ایک طالبہ نے بتایا کہ انھوں نے جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا تو ان کے سینیئرز نے کہا تھا کہ فلاں استاد (امیر اللہ) سے دور دور رہنا جس پر انھیں تشویش ہوئی تھی۔

اُن کے مطابق اس کے بعد ایک روز وہ اور متاثرہ طالبہ یونیورسٹی میں موجود تھے کہ ایک طالبہ نے بتایا کہ انھیں پروفیسر صاحب بلا رہے ہیں۔ وہ دونوں ان (پروفیسر) کے آفس چلی گئیں جہاں انھوں نے جنرل باتیں کیں اور اس کے بعد ان سے کہا کہ آپ جاؤ انھوں نے طالبہ سے کچھ بات کرنی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی باہر چلی گئیں لیکن وہ دروازے کے ساتھ کھڑی رہیں کہ 15 منٹ کے بعد طالبہ سہمی ہوئی باہر آئی اور تیزی سے وہ وہاں سے چلی گئیں۔

ایک طالبعلم نے بتایا کہ انھیں اپنے ایک سینیئر کا فون آیا تھا کہ متاثرہ طالبہ سے کہوں کہ پروفیسر صاحب بلا رہے ہیں اور انھوں نے یہ پیغام طالبہ تک پہنچا دیا تھا۔

اسی طرح دیگر طلبا اور طالبات نے بھی اپنے اپنے مؤقف بیان کیے جن میں کافی حد تک مطابقت نظر آتی ہے۔

ایک طالب علم نے بتایا کہ اس معاملے پر احتجاج کرنے کے بعد ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا اور یہاں تک کہ انھیں سنے بغیر یونیورسٹی سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس پر انھوں نے اپیل کی تھی۔ طالب علم نے اس پر محتسب کو درخواست دی تھی۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے کسی بھی طالبِ علم کے خلاف انتقامی کارروائی کے الزام کی تصدیق کی ہے۔

فیصلے میں کیا کہا گیا؟

صوبائی محتسب کے 10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ہراسانی کی شکار طالبہ کا مؤقف بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ طالبہ کی بہن نے بھی ای میل پر تفصیل بیان کی تھی جس پر محتسب نے انھیں باقاعدہ درخواست میں تفصیل لکھنے کا حکم دیا تھا۔

محتسب کی کارروائی میں یونیورسٹی کی جانب سے چیف پراکٹر ڈاکٹر فہیم کا بیان بھی قلم بند کیا گیا جس میں انھوں نے کہا کہ مذکورہ طالبہ کے خلاف کسی قسم کی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی تاہم انھوں نے یہ کہا تھا کہ ’طالبہ کا رویہ قدرے بچکانہ ہے۔‘

اس پر طالبہ کے وکیل سنگین ایڈووکیٹ نے ان پر جرح بھی کی اور انھیں تفصیل بتانے کا کہا جس پر چیف پراکٹر نے کہا کہ ان کا مطلب ہرگز طالبہ کے اخلاق پر بات کرنا نہیں۔

پروفیسر امیر اللہ کا موقف

یونیورسٹی انتظامیہ اور جن پروفیسر کے خلاف شکایات سامنے آئی تھیں انھیں بھی طلب کیا گیا تھا۔ متعلقہ پروفیسر نے اپنے دفاع میں خیبر پختونخوا کے محتسب کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھائے اور ان تمام الزامات کی ترید کی۔

متعلقہ پروفیسر کے وکیل امان اللہ مروت ایڈووکیٹ نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی انکوائری کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ ایسا نہیں اور پروفیسر کو ان الزامات سے بری کیا جائے۔

یاد رہے کہ یونیورسٹی کی انکوائری رپورٹ میں اس معاملے کو نمٹا دیا گیا تھا۔

صوبائی محتسب نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلامیہ کالج کے اساتذہ کی تنظیم نے طلبا اور طالبات کے احتجاج کے بعد اجلاس طلب کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایک استاد کا نقصان تمام اساتذہ کا نقصان تصور کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ محتسب کے فیصلے میں ان خواتین اساتذہ کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے ہیں جو اس شعبہ میں پروفیسر کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان اساتذہ نے کہا ہے کہ انھیں متعلقہ پروفیسر کے ساتھ کام کرنے میں کبھی کوئی دشواری یا مشکل پیش نہیں آئی تاہم ایک خاتون نے کہا کہ ’کبھی کبھار پروفیسر کا غصہ بڑھ جاتا ہے جس سے مشکل ضرور ہوتی ہے‘۔

اسلامیہ کالج میں ہراسانی کی شکایت کے بعد کیا کچھ ہوا؟

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں گذشتہ سال طلبا اور طالبات نے جنسی ہراسانی کے خلاف مظاہرہ اور ایک آگاہی واک کی تھی جس کے بعد یہ معاملہ ابھر کر سامنے آیا تھا۔ اس مظاہرے کو ذرائع ابلاغ میں کوریج ملی اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر بحث شروع ہو گئی تھی۔

اس مظاہرے کے بعد جہاں یونیورسٹی کے اندر ان الزامات کی انکوائری کے لیے کہا گیا وہیں گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے بھی گورنر انسپکشن ٹیم کو اس واقعے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔

ان انکوائریوں کے نتائج ابھی سامنے نہیں آئے تھے کہ اس دوران ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ مظاہرے میں شامل بعض طلبا و طالبات نے ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبائی محتسب کو درخواست دی ہے۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طلبا اور طالبات کے حقوق کے لیے ایک فورم تشکیل دیا گیا ہے۔ اس فورم کے رہنما جابر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں طالبات ہراسانی کی شکایت کرتی تھیں لیکن سماجی مسائل اور خوف کی وجہ سے وہ کھل کر سامنے شکایت درج نہیں کروا پاتی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک طالبہ نے بتایا کہ انھوں نے باقاعدہ شکایت یونیورسٹی انتظامیہ کو درج کروا دی ہے جس کے بعد انھوں نے اس بارے میں یونیورسٹی انتطامیہ سے کہا کہ انکوائری غیر جانبداری سے کروائی جائے۔

جابر خان نے بتایا کہ انکوائری کے دوران انھیں یونیورسٹی کی انتظامیہ پر اعتماد نہیں رہا جس وجہ سے انھوں نے صوبائی محتسب کو درخواست دی تاکہ اس کی انکوائری غیر جانبدارانہ ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران ان پر اور ان کے دیگر ساتھیوں پر بے بنیاد الزامات عائد کر کے کارروائیاں کی گئیں جن کا انھوں نے سامنا کیا۔

یونیورسٹی نے کسی بھی سٹوڈنٹ کے خلاف انتقامی کارروائی کے الزامات کی تردید کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp