تحریکِ لبیک کے مظاہروں میں پولیس کانسٹیبل محمد افضل اور علی عمران کی ہلاکت: 'جب بچے پوچھیں بابا کہاں ہیں تو بول دینا ہم ہار آئے جان فرض ادا کرتے کرتے'


‘آپ کو یہ مناظر پاکستانی میڈیا پر نظر نہیں آئیں گے لیکن پولیس کانسٹیبل افضل کی موت اس طرح ہوئی ہے۔ سب کی زبانوں کو تالے لگ گئے ہیں۔’

یہ تبصرہ لکھا سماجی کارکن اور وکیل نگہت داد نے ایک ویڈیو کے ساتھ جس میں نظر آتا ہے کہ دس سے بارہ ڈنڈا بردار افراد ایک پولیس والے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جو زمین پر گر جاتا ہے اور وہ تمام لوگ اس پر ڈنڈے برسانا شروع کر دیتے ہیں۔’

اس بات کی تصدیق تو نہیں ہو سکی کہ یہ ویڈیو پنجاب پولیس کے کانسٹیبل افضل کی ہے، لیکن کیپٹل سٹی پولیس لاہور کی جانب سے اس بات کی ضرور تصدیق کی گئی ہے کہ ‘مظاہرین کے تشدد سے کانسٹیبل محمد افضل اور کانسٹیبل علی عمران’ کی موت ہو گئی ہے جبکہ اس کے علاوہ مجموعی طور پر 97 افسران و اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

https://twitter.com/DIGOpsLahore/status/1382002696811597824

پرتشدد مناظر پر مبنی ویڈیوز گذشتہ دو روز سے پاکستان میں جاری ان مظاہروں کی ہیں جس میں انتہائی دائیں بازو کی مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان اپنے رہنما سعد رضوی کی حراست پر ریاست کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

تاحال سعد رضوی پولیس کی حراست میں ہیں اور ان پر دہشت گردی کے الزام سمیت مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تحریک لبیک کی وائرل ویڈیو اور فوجی اہلکار: مشتعل ہجوم کے سامنے کیسا رویہ رکھنا چاہیے؟

سعد حسین رضوی، دیگر ٹی ایل پی رہنماؤں کے خلاف دہشتگردی، قتل کے مقدمے درج

حکومت جیتے گی یا تحریک لبیک کے سعد رضوی؟

لیکن سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں صارفین نے محمد افضل کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خراج تحسین پیش کیا اور ساتھ ساتھ میں یہ سوال اٹھایا کہ ان اہلکاروں کی موت کا ذمہ دار کون ہوگا۔

ایک صارف ایلیا حارث نے کانسٹیبل محمد افضل کے جنازے کی ویڈیو ٹویٹ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ‘جب بچے پوچھیں بابا کہاں ہیں تو بول دینا ہم ہار آئے جان فرض ادا کرتے کرتے۔’

صارف سحر طارق محمد افضل کی موت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ‘آج رات دل بہت بھاری ہے۔ کانسٹیبل افضل کی موت کے مناظر نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم کس قدر بے رحم اور پرتشدد بن گئے ہیں جہاں لوگوں کو صرف ان کا کام کرنے پر ہلاک کر دیا جاتا ہے۔’

کالم نویس علی معین نوازش لکھتے ہیں کہ ‘اگر ایک پولیس کانسٹیبل کی موت کے باوجود اس کے ذمہ دار بچ نکلتے ہیں اور ریاست اپنی پوری قوت کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف نہیں قدم اٹھاتی جو اس موت کے ذمہ دار ہیں، تو ہم بحیثیت ایک قوم ناکام ہیں۔’

ایک اور صارف لکھتی ہیں کہ ‘مجھے ایک نظم لکھنی تھی لیکن اب لکھنے کو بچا ہی کیا ہے، مجھ سے رونا ہی نہیں ختم ہو رہا۔’

دوسری جانب ٹی ایل پی کے حمایت میں بھی کئی صارفین ٹویٹ کرتے نظر آئے جس میں سے ایک محمد معاذ لکھتے ہیں کہ صرف پولیس کانسٹیبل کی تصاویر ٹویٹ نہ کریں بلکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھائیں۔

وہ لکھتے ہیں: ‘جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ اگر ریاست اشتعال نہ پھیلاتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔’

وائرل ہونے والے ویڈیوز میں کیا ہے؟

ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے علاوہ سوشل میڈیا صارفین میں پولیس پر کیے جانے والے تشدد پر بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

ملک کے مختلف حصوں سے سامنے آنے والی بیشتر ویڈیوز میں سے ایک کے آغاز میں آواز سنائی دیتی ہے ‘مارو مارو مارو پتھر مارو۔۔۔ اٹھاؤ اٹھاؤ پتھر اٹھاؤ۔’

یہ الفاظ شلوار قمیض پہنے، ہاتھوں میں ڈنڈے یا پتھر لیے افراد کے ہیں جنھوں نے پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکار کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح کی کچھ اور ویڈیوز میں نظر آتا ہے کہ نڈھال پولیس اہلکار ڈنڈا برادر افراد کے نرغے میں ہیں۔ کسی کے منھ سے خون بہہ رہا ہے تو کسی کے سر سے۔

https://www.youtube.com/watch?v=CFZHY6mErfU

ایک اور ویڈیو میں زمین پر گرے ہوئے پولیس اہلکاروں کو چند افراد بوتل سے پانی پلا کر بےہوش ہونے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی نوعیت کی ایک اور ویڈیو میں آوازیں سنائی دیتی ہیں جس میں پولیس اہلکار کہہ رہے ہیں کہ ‘میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، یہ درندے ہیں لوگ ہمارے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم نے ان کو ایک سٹک بھی نہیں ماری اور ان لوگوں نے ہمارا کیا حال کیا ہے۔’

یہ یونیفارم شاید اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا

ان پرتشدد مناظر والی ویڈیوز کے سامنے آنے پر پاکستانی سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں بحث جاری ہے جہاں بیشتر صارفین یہ سوال پوچھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان میں پولیس اہلکاروں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے، تو چند ایسے صارفین بھی ہیں جو ٹی ایل پی کی حمایت میں بھی تبصرے کر رہے ہیں۔

لندن میں مقیم محقق اور پاکستان میں پولیس پر تحقیق کرنے والی زوہا وسیم نے اس حوالے سے متعدد سلسلہ وار ٹویٹس میں سوال کیا ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ دو کم رینک والے پولیس اہلکاروں کی موت کے بعد ہی ہمیں احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کو اپنے ادارے اور معاشرے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ ‘اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پولیس کی جانب سے پاکستان کے شہریوں پر کیے جانے والے تشدد کو نظر انداز کر دیں، جس کی بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ لیکن یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر پولیس تشدد کرتی ہے، تو ان پر خود بھی تشدد ہوتا ہے۔’

https://twitter.com/ZohaWaseem/status/1382057303516536835

ایک اور ٹویٹ میں وہ یہ پوچھتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ کیا پولیس کی قیادت نے اپنے اہلکاروں پر دو روز میں ہونے والے تشدد کی مذمت کی ہے یا نہیں۔

جیو سے وابستہ صحافی بینظر شاہ ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ‘ریاست کو پولیس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ یونیفارم شاید اتنا اہم نہیں سمجھا جاتا۔’

بینش عزیر نامی ایک صارف جو ٹوئٹر پر خود کو پاکستانی پولیس سے منسلک ظاہر کرتی ہیں، کا ایک ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ‘یہ پولیس انسپکٹر ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے وہاں پر موجود ہے۔ ہماری حکومت کیسے یہ برداشت کر سکتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ پولیس ہی ہمارے گھروں اور ان غنڈوں کے درمیان ہے۔’

بینش عزیز اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہتی ہیں کہ ‘ٹی ایل پی ایک ریاست مخالف جماعت ہے اور وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرتی ہح کہ ملک کو یرغمال بنا لے۔ یہ دہشت گردی ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے دہشت گردی ہی قرار دیا جائے۔’

ان کی اس ٹویٹ پر ڈان اخبار سے منسلک صحافی قراۃ العین لکھتی ہیں کہ ‘حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ پولیس والے سر عام اپنے خیالات سب کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔’

ان واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس سے وابستہ آمنہ بیگ نے ٹویٹ کیا کہ اس وقت مجھے اس فورس کا حصہ ہونے پر فخر محسوس ہو رہا ہے جو ملک میں امن بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

البتہ دوسری جانب ایک صارف جنید حیات نے بینش عزیر اسی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسی لیے پولیس اور فوج میں عورتوں کا شامل کرنا حماقت ہے۔

انھوں نے لکھا: ‘فرانسیسی سفیر کی ملک سے بے دخلی صرف ٹی ایل پی کا مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ پورے ملک کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp