توہین مذہب کے سوال پر حکومت اور سماج کیوں ناکام ہیں؟


تحریک لبیک کے احتجاج میں ملک بھر سے متعدد افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ مرنے والوں میں لاہور کا ایک پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہے جسے مظاہرین نے تشدد سے ہلاک کیا۔ ٹی ایل پی کے رہنماؤں کے خلاف لاہور اور کراچی میں قتل کے علاوہ دہشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ حکومتی سطح پر اجلاس منعقد ہونے کی خبریں ضرور سامنے آئی ہیں لیکن کسی سرکاری ترجمان نے امن و امان کی موجودہ صورت حال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

بظاہر حکومت ’ڈٹی‘ ہوئی ہے اور ہر قیمت پر تحریک لبیک کے تازہ ترین احتجاج کو ختم کرنے کےلیے پرعزم ہے لیکن رمضان المبارک کا آغاز ہونے کے باوجود شہریوں کی زندگی معمول پر لانے اور راستے کھولنے کی کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوئی۔ مختلف مقامات پر پولیس نے ضرور کچھ وقت کے لئے بعض جگہوں کو خالی کروایا لیکن تحریک لبیک کی قیادت نے اعلان کیا ہے کہ مظاہرین وہاں دھرنا دینے اور احتجاج کرنے کے لئے پھر پہنچ جائیں گے۔ ایک طرف حکومت وزیر داخلہ شیخ رشید کے لفظوں میں یہ تاثر دے رہی ہے کہ ’سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا‘ تو دوسری طرف تحریک لبیک کے ترجمان یہ اعلان کررہے ہیں کہ دھرنے اور احتجاج اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک فرانس کے سفیر کو ملک بدر نہ کیا جائے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ طاہر اشرفی نے توڑ پھوڑ کرنے اور شہریوں کے لئے دشواریاں پیدا کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام میں ایذا رسانی سے منع کیا گیا ہے۔ تحریک لبیک تشدد استعمال کرنے کی بجائے بات چیت سے مسئلہ حل کرے۔ انہوں نے توہین مذہب اور اسلامو فوبیا کے خلاف وزیر اعظم عمران خان کی خدمات اور مؤقف کا پرچار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس حکومت نے توہین مذہب کے خلاف عالمی جد و جہد میں عالم اسلام کی قیادت کی ہے۔ یہ حکومت ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کی محافظ ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہ بھی کہاکہ وزیر اعظم نے درست طور سے فحاشی کو ریپ جیسے جرم کی اصل وجہ قرار دیا تھا۔ ملک کی مذہبی جماعتوں کو اس مؤقف پر ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنا چاہئے تھا۔ طاہر اشرفی نے متنبہ کیا کہ ملک کی سیکورٹی فورسز کمزور نہیں ہیں۔

مولانا طاہر اشرفی، وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہونے کے علاوہ پاکستان علما کونسل کے چئیرمین بھی ہیں۔ انہوں نے اس حیثیت میں بھی اسلامی شعائر پر عمل کرنے اور تشدد سے گریز کی اپیل کی ہے۔ تاہم ملک میں ایک مذہبی معاملہ پر شروع ہونے والے پر تشدد احتجاج کے دو روز مکمل ہونے کے بعد بھی کسی دوسرے مذہبی یا سیاسی لیڈر نے اس حوالے سے کوئی بیان دینے یا مظاہرین کو احتجاج ختم کرکے مناسب طریقے سے درست پلیٹ فارم پر اپنا مؤقف پیش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کسی دینی رہنما نے دوسرے ملکوں سے پاکستان کے تعلقات کو توہین مذہب کے معاملہ سے منسلک کرنے کے بارے میں کوئی رائے دینا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

 ملک اس وقت کورونا وبا کا شدت سے سامنا کررہا ہے۔ ہزاروں لوگ اس مہلک وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔ کابینہ کے اجلاس کے بعد سائینس و ٹیکنالوجی کے وزیر فواد چوہدری نے واضح کیا ہے کہ اگر ایک دو ہفتے میں وائرس کے پھیلاؤ کو نہ روکا گیا تو حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ حالات شاید پہلے بھی کنٹرول میں نہیں ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں نہ گنجائش ہے اور نہ ہی سہولتیں میسر ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتال کورونا مریضوں کے علاج کی من مانی قیمت وصول کرتے ہیں لیکن کوئی سرکاری ادارہ ان کی نگرانی پر مامور نہیں ہے۔ تحریک لبیک کے احتجاج سے آمد و رفت میں پڑنے والے خلل کی وجہ سے ہسپتالوں کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہورہی ہے۔ آکسیجن کورونا کا شکار کسی مریض کو موت سے بچانے کی واحد امید ہوتی ہے۔ اب ایک غیر اعلانیہ اور کسی حد تک غیر منظم احتجاج کے نتیجہ میں ہسپتالوں کی سپلائی اور مریضوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی متاثر ہونے سے اموات میں تشویشناک اضافہ ہوسکتا ہے۔

کورونا سے بچاؤ کا واحد طریقہ چند بنیادی طریقوں پر عمل درآمد بتایا جاتا ہے۔ یعنی سماجی دوری قائم کی جائے، باہر جاتے ہوئے ماسک استعمال کیا جائے اور اجتماعات سے پرہیز کیا جائے۔ دنیا بھر کے ملکوں میں یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے لاک ڈاؤن کا سہارا لیا گیا ہے اور ہر قسم کا کاروبار زندگی معطل کرکے لوگوں کو گھروں تک محدود ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی گزشتہ کچھ عرصہ سے حفاظتی قواعد پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ روز ہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے ملک کے مذہبی رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ لوگوں کو حفاظتی تدابیر پر عمل کرنے کی ترغیب دیں تاکہ وائرس کی تیسری لہر پر قابو پایا جاسکے۔ اس کے برعکس ملک کی ایک مذہبی جماعت ملک بھر میں دھرنوں اور احتجاجی اجتماعات کے ذریعے سماجی دوری کے ہر ا صول کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ یہ طریقہ اجتماعی ہلاکت کا طریقہ ہے لیکن ایک جذباتی نعرے کی آڑ میں گروہی تعصب عام کیا جارہا ہے اور لوگوں کو احتیاط کی بجائے اشتعال پر آمادہ کرنے کے طریقہ پر عمل ہورہا ہے۔

اس صورت حال میں دو بنیادی باتیں قابل غور ہیں۔ ایک عمومی طور سے سماج اور اس کے پشتیبانوں کے حوالے سے ہے اور دوسرا پہلو حکومت کے رویہ اور حکمت عملی کے بارے میں اٹھنے والے سوالات ہیں۔

تحریک لبیک کا حتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک جو حالات دیکھنے میں آئے ہیں، ان میں مظاہرین بمقابلہ حکومت فریق کے طور پر آمنے سامنے ہیں۔ حالانکہ معاشرے میں امن و امان سے لے کر سماجی اصلاح اور لوگوں کی حفاظت تک کے نقطہ نظر سے حکومت کے علاوہ دیگر طبقوں پر بھی حالات معمول پر لانے کی یکساں ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تحریک لبیک فرانس کے خلاف گزشتہ نومبر سے احتجاج کر رہی ہے۔ حکومت نے دو بار اس گروہ سے نام نہاد ’معاہدہ‘ کر کے احتجاج کو ٹالنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن معاشرے کے کسی دوسرے گروہ نے جن میں خاص طور سے مذہبی رہنما شامل ہیں، اس سوال پر رائے دینے، اشتعال ختم کرانے، مطالبے کی غیر سنجیدگی یا ہلاک خیزی کی نشاندہی کرنے اور توہین مذہب کے بارے میں شروع کئے گئے مباحث، الزام تراشی اور شدت پسندانہ مزاج کو ترک کرنے کی بات نہیں کی۔ بلکہ سب متعلقہ لوگ اپنے اپنے حصار میں بند حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان برپا معرکے کا ’تماشہ ‘ دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان میں توہین مذہب اور حرمت رسولﷺ کو ایسے مسئلے کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے جس کی زد سے کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسا کوئی الزام لگانے کے لئے کسی ’صلاحیت یا جواز‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئے دن کسی نہ کسی پر توہین کا الزام لگا کر ہنگامہ شروع کیا جاتا ہے۔ کوئی خوش قسمت بچ نکلتا ہے۔ جوہ جوم کے ہاتھوں مارا نہ جائے، وہ جیل میں دم گھٹ گھٹ کر جان سے جاتا ہے۔ جن دفعات کے تحت ایسے مقدمے قائم کئے جاتے ہیں، ان میں کوئی عدالت ضمانت لینے کی مجاز نہیں ہے۔ اس معاملہ کو اس قدر حساس اور جذباتی بنا دیا گیا ہے کہ بیشتر جج اور وکیل ایسےمعاملات کو کسی نتیجہ تک پہنچانے سے گریز کرتے ہیں۔ صورت حال اس حد تک سنگین ہے کہ ان قوانین میں کسی ترمیم یا تبدیلی کی بات کو بھی توہین مذہب اور حرمت رسول ﷺ پر حملہ قرار دے کر متعلقہ شخص کا جینا حرام کیا جاسکتا ہے۔ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قتل اسی مزاج کا نتیجہ تھا۔

کیا وجہ ہے کہ کوئی سیاسی پارٹی، مذہبی گروہ یا حکومت اس ناانصافی اور سماج میں پیدا کئے گئے اشتعال و ہیجان کے خاتمہ کے لئے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ دنیا میں ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ مسلمان رہتے ہیں اور پچاس سے زائد ممالک میں مسلمان واضح اکثریت میں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ توہین مذہب کے معاملہ پر تشدد اور خوں ریزی صرف پاکستان میں دیکھنے میں آتی ہے یا اس کا زیادہ تر ارتکاب صرف اسی ایک اسلامی ملک میں ہوتا ہے۔ کیا دوسرے ملکوں کے مسلمان علما توہین مذہب کی حرمت سے نابلد ہیں یا پاکستان کے مذہبی عناصر نے اس ایک نکتہ کو معاشرے میں اپنی طاقت میں اضافہ کے لئے بے دریغ استعمال کیا ہے؟ اس معاملہ پرمعاشرے میں مسلسل تصادم کی کیفیت موجودہ رہتی ہے لیکن خوف و دہشت کی وجہ سے کوئی بھی اس موضوع پر رائے ظاہر کرنے اور اس معاملہ میں قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ حکومت یا طاقت ور مذہبی گروہوں اور علمائے دین کو یہ اہم ذمہ داری پوری کرنی چاہئے تھی لیکن وہ خود کسی نہ کسی صورت اس میں فریق بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ صورت حال حیرت کا سبب نہیں ہے کہ ایک مذہبی گروہ عوام کی زندگی اجیرن کرتا ہے اور رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں تشدد اور ہلاکت خیزی کا سبب بنتا ہے لیکن کسی طرف سے احتجاج کی کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔

دوسرا معاملہ حکومت وقت کے حوالے سے ہے۔ کیا حکومت کا کام صرف لوگوں کے مذہبی جذبات کی بنیاد پر سیاست کرنا ہے یا اس پر سب لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کرنے، معمولات زندگی بحال رکھنے، رائے عامہ کو عقل سلیم کے مطابق ہموار کرنے کے حوالے سے بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وزیر اعظم طاقت ور سیاسی مخالفین اور بڑی سیاسی جماعتوں کو تو للکارتے ہیں یا بڑے تجارتی مافیاز کو ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کسی مذہبی مافیا کے خلاف کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتے۔ توہین مذہب جیسے حساس مگر کسی حد تک سماجی توڑ پھوڑ کا سبب بنے والے معاملہ پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی بجائے یا تو احتجاج کرنے والے گروہ سے مفاہمت کرنے میں عافیت سمجھتے ہیں یا پھر خود اسی کاز کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ اسلامو فوبیا ہو یا توہین مذہب کا معاملہ اسے جذبات اور نعروں کی بجائے احترام اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے رویہ کو فروغ دے کر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

تحریک لبیک کے تازہ احتجاج کے دوران اب تک وزیر اعظم اور حکومتی عہدیداروں کی پر اسرار خاموشی اور انتظامی مشینری کی بے بسی دراصل حکومت کی ناطاقتی اور کمزوری کو ظاہرکرتی ہے۔ یہ طرز عمل سماجی انتشار پیدا کرنے والے گروہوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہاہے۔ حکومت اگر آخری حربے کے طور پر فوج کو تعینات کرکے امن و امان بحال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہئے کہ توہین مذہب جیسے حساس موضوع پر عقلی وعلمی مباحثہ کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ نہ ہی معاشرے میں قوت برداشت اور بقائے باہمی کا طرز عمل عام کئے بغیر مختلف گروہوں کو نعروں اور جذبات کی بنیاد پر عوام کو گمراہ کرنے سے روکا جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments