جب سڑک پر چاقو سے حملہ کر کے شوہر نے بیوی کا قتل کیا تو راہ گیروں نے کیوں نہیں روکا

دیویا آریہ - بی بی سی نیوز


جنسی تشدد

دلی کے ایک مصروف بازار میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کا قتل کیا ہے

کبھی وہ عاشق ہوتا اور کبھی شوہر، پر جب وہ اس کے پیار کو قبول نہیں کرتی یا اس کی بات نہیں مانتی ہے تو وہ ‘نا’ نہيں سنتا ہے۔ کچھ تو اسے جان سے مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں، اور باقی سب، ان کا کیا؟

انڈیا میں دلی کے ایک بازار میں دن دہاڑے ایک شوہر نے اپنی بیوی پر درجنوں بار چاقو سے حملہ کر کے اس کا قتل کر دیا۔ بازار کی دکانیں کھلی تھیں۔ بازار کی ایک عمارت کی پہلی منزل پر تین آدمیوں نے باہر نکل کر جھانکا بھی لیکن کسی نے کچھ نہیں کہا، آواز لگا کر اس شخص کو بیوی کو قتل کرنے سے روکا بھی نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پیسے لے کر ریپ کیس واپس لینے کے لیے والدین کا لڑکی پر دباؤ

دلی:امریکی ایمبیسی کےاحاطے میں پانچ سالہ بچی کا ’ریپ‘

انڈیا میں 86 سالہ خاتون کے ریپ پر غم و غصہ

’لڑکے کو جانچنے کے لیے لڑکی نے فرضی پروفائل سے ریپ کا منصوبہ بنایا‘

سڑک پر رکنے والے موٹر سائیکل سوار شخص کو مدد کرنے کے لیے نہیں کہا جو حملہ ہوتا دیکھ کر سہم کر رک گیا تھا۔ اس نے دو تین بار اپنے بائیک کی کک لگائی، اور موٹر بائیک دھکیل کے پیچھے لے گیا۔ پہلی منزل والے بھی دروازہ بند کر کے اندر چلے گئے۔

تشدد

انڈیا میں خواتین کے خلاف تشدد عام بات ہے

واٹس ایپ کے ذریعے

اس دن دوپہر کا وقت تھا۔ دو مزدور شاید کھانا کھانے کے لیے باہر نکلے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں تھیلا اور دوسرے کے ہاتھ میں ہتھوڑا تھا۔ وہ بھی جہاں یہ واقعہ ہو رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے خاموشی سے آگے بڑھ گئے جبکہ وہاں قریب سے ایک کار اور اس کے بعد موٹر سائیکل بھی گزری لیکن دونوں نے اپنی رفتار بھی آہستہ نہ کی۔

بمشکل دس قدم دور، دو آدمی اپنی موٹر سایئکل سٹینڈ پر لگائے اس پر آرام سے بیٹھے رہے۔ سب کچھ دیکھتے رہے۔ وہاں سے سب صاف دکھائی دے رہا تھا۔

ایک اور شخص نے سڑک کی دوسری جانب سے موبائل پر ویڈیو بنائی جسے اس نے واٹس ایپ کے ذریعے دوستوں کے ساتھ شئیر کیا ہو گا۔

شاید وہ فارورڈ ہوتے ہوئے آپ کے پاس بھی آیا ہو.

میں نے وہ دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ سی سی ٹی وی میں جو ویڈیو ریکارڈ ہوئی ہے وہ بھی دیکھی۔ اس میں وہ چند منٹ قید ہیں جب ایک درجن آدمی اس قاتل کو روک سکتے تھے۔

ایک کے پاس تو ہتھوڑا بھی تھا۔ وہ دور سے اس سے بحث کر سکتے تھے۔ ان کا دھیان ادھر ادھر کر سکتے تھے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔

सांकेतिक तस्वीर

Science Photo Library

”یہ میری بیوی ہے، ہمارے درمیان کوئی نہ آئے”

ایسا اس لیے ہوا کیونکہ یہ شوہر اور بیوی کا آپس کا معاملہ تھا۔

اس شخص نے چیخ کر کہا تھا ، ’یہ میری بیوی ہے اور ہمارے درمیان کوئی نہ آئے۔ میں اس کو اس لیے مار رہا ہوں کیونکہ یہ بدچلن ہے۔ میری بات نہیں مانتی ہے۔‘

یہ گھریلو تشدد کا وہ خوفناک چہرہ تھا جو گھر سے باہر نکل آیا تھا اور اسے کوئی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (4) کے مطابق انڈیا میں 33 فیصد خواتین کو ان کے شوہر کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنا پڑا یعنی ہر دس میں سے تین خواتین کو۔

ان میں سے تقریبا 80 فیصد نے کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ ہو سکتا کہ انھوں نے ایسا اس لیے کیا ہو کہ انہیں مدد کی امید نہیں تھی۔

صرف 14 فیصد نے مدد طلب کی۔ وہ مدد بھی بیشتر اپنے خاندان، شوہر کے خاندان یا دوستوں سے مانگی۔ محض تین فیصد خواتین پولیس کے پاس گئی۔ یہ سب اس حقیقت کے باوجود ہو رہا ہے کہ انڈیا میں گھریلو تشدد سے تحفظ اور روک تھام کے دو قوانین موجود ہیں۔

ایسا اس لیے بھی ہوا ہو کیونکہ سماج کی سوچ سے متاثر خواتین خود گھریلو تشدد کو جائز مانتی ہیں۔ مردوں سے بھی زیادہ وہ اس کو درست سمجھتی ہیں۔

سروے میں شامل تقریبا 40 فیصد مرد اور 50 فیصد خواتین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بیوی کو شوہر کی بات نہ ماننے، اس کو بغیر بتائے گھر سے باہر جانے، ٹھیک سے کھانا نہ بنانے، جنسی تعلق قائم کرنے سے انکار کرنے اور غیر مرد کے ساتھ رشتے کا شک ہونے پر ان کے شوہر کے ہاتھوں پٹائی ہونا صحیح ہے۔

جب تقریبا نصف آبادی گھریلو تشدد کو صحیح قرار دے تو وہ حقیقت اگر سڑک پر نکل بھی آئے تو اسے روکنے کی شاید ضرورت محسوس نہیں ہو گی۔

बलात्कार पीड़ित

شادی سے انکار کرنے پر قتل

کندھے پر بیگ لٹکائے ہوئے، پیروں جوتے، شلوار کرتا پہنے اور دوپٹا اوڑھے ہسپتال میں اپنی شفٹ پوری کر کے گھر واپس آ رہی دلی کی اس خاتون نے پہلے اپنے شوہر کو روکنے کی کوشش لیکن حملہ لگاتار ہوتا رہا۔

وہ تب بھی اسے مارتا رہا جب شاید اس کی موت ہو چکی تھی۔ اسے تب بھی کسی نے نہیں روکا۔ اس وقت کے ویڈیو کو اپنے دماغ سے نکالنا مشکل ہے۔

بالکل ویسے ہی جیسے پانچ برس قبل ایک عاشق نے 21 سالہ سٹوڈینٹ کو قینچی سے حملہ کر کے قتل کیا تھا اور اس کی ویڈیو سی سی ٹی وی میں قید ہو گئی تھی۔ دلی کی ہی ایک اور سڑک اور اس پر متعدد چشم دید گواہ تھے جنہوں نے دیکھا سب لیکن کیا کچھ نہیں۔

کرونا کے خاندان والوں کے مطابق اس نے اس لڑکے سے شادی سے انکار کر دیا تھا لیکن وہ پھر بھی اس کی پیچھا کرتا رہا۔ کرونا نے پولیس سے اس کی شکایت بھی لیکن وہ باز نہیں آیا۔

تشدد

دلی میں اس نوعیت کے قتل کا یہ پہلہ واقعہ نہیں ہے

قومی جرائم بیورو کے سنہ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں ہر گھنٹے میں ‘سٹاکنگ’ یا پیچھا کرنے کا ایک معاملہ درج ہوتا ہے۔ سٹاکنگ کے ہر معاملے کا اختتام ہلاکت نہیں ہوتا اور نہ ہی بار بار انکار کا سامنا کرنے والے مرد تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

لیکن لڑکی کا پیچھا کرنا یا جبراً دوستی کرنے کی کوشش کے برتاؤ کو بعض لوگ ‘پیار’ کا نام دیتے ہیں جس سے اس برتاؤ کو فروغ ملتا ہے۔

بالی وڈ فلموں میں اکثر ہیروئن کی ‘ نا میں ہاں ہونے’ یا زبردستی ان سے پیار کا اظہار کرنے کو جس طرح پیش کیا جاتا ہے وہ اس رویے کو ”گلوریفائی’ کرتا ہے اور اکثر فلموں میں لڑکی کی مرضی کے کوئی معنی ہی نہیں ہوتے۔

کسی کے ہاتھ میں چاقو ہو، وہ جوش میں ہو اور کسی کا خون تک کرنے پر آمادہ ہو جائے تو اسے روکنا مشکل ہے، ناممکن نہیں ہے۔ لیکن اس کا آغاز تب ہو سکتا ہے جب اس تشدد کو صحیح یا جائز قرار دینے والی سوچ بدلے، نہ صرف جرم کرنے والے کے دل میں بلکہ جرم کو ہوتے ہوئے دیکھ کر آگے بڑھ جانے والوں کے دل میں بھی احساس جاگے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp