جرگے نے سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے نوجوان پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور وڈیرے سے معافی مانگنے کا فیصلہ سنا دیا

ریاض سہیل - بی بی سی کراچی


پاکستان کے صوبہ سندھ میں ایک پنچائتی جرگے نے لڑکی کے قتل کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے نوجوان پر 5 لاکھ روپے جرمانہ اور گھر کی خواتین سمیت وڈیرے سے معافی مانگنے کا فیصلہ سنایا ہے۔

مانجھند کے گاؤں وڈا چھچھر میں 28 جون 2020 کو ایک نوجوان لڑکی وزیراں چھچھر کو قتل کیا گیا تھا، جس کے بارے میں ابتدائی طور پر یہ کہا گیا تھا کہ لڑکی کو سر پر پتھر مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

’ریپ کی ذمہ داری ریپ ہونے والے کے بجائے ریپ کرنے والے پر عائد کرنا ہوگی‘

لڑکیوں کے مبینہ ریپ میں ملوث ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ

انڈیا میں ریپ کے بڑھتے واقعات

سوشل میڈیا پر اس قتل کے خلاف مہم چلائی گئی تھی اور خواتین حقوق کی تنظیموں نے بھی احتجاج کیا تھا۔

حادثہ نہیں ریپ کے بعد قتل

ایک اعلی پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر وزیراں کی موت کو حادثہ قرار دیا گیا تھا اور میڈیکل رپورٹ بھی غیر واضح تھی۔ انہوں نے قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کرایا۔ حالانکہ لاش کی حالت خراب ہو چکی تھی تاہم اس رپورٹ میں جسم میں سپرم کے شواہد ملے ہیں۔ رپورٹ سے تصدیق ہوئی کہ لڑکی کا ریپ کر کے سر میں کوئی نوکدار چیز کا وار کر کے ہلاک کیا گیا۔

مقامی پولیس کے ورثا کی بے اعتمادی کے باعث مقدمے میں دوسرے ضلع کے افسر کو تعینات کیا گیا تھا۔ اس پولیس افسر نے بتایا کہ اس کیس میں پانچ ملزمان گرفتار کیے گئے جبکہ دو نے ضمانت حاصل کر لی تھی اور مقدمے کا چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر مہم چلانے کا جرمانہ

ضلع جامشورو کی تحصیل مانجھند میں منگل کو یہ فیصلہ کیا گیا، جس میں سوشل میڈیا پر سرگرم جاوید چھچھر پر پانچ لاکھ جرمانے اور خواتین سمیت مقامی وڈیرے سے معافی کا فیصلہ سنایا گیا۔

اس فیصلے کے سرپنچ وارث ماچھی نے بی بی سی اردو سے رابطے پر تصدیق کی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تاہم انہوں نے واضح کیا کہ یہ وزیراں کے قتل کا فیصلہ نہیں تھا بلکہ برادری کی سطح پر ناراض فریقین کو منایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فریقین آپس میں رشتے دار ہیں۔ الیاس چھچھر والوں کو شکوہ تھا کہ دوسری فریق نے ان کی مدد نہیں کی اور تنہا چھوڑ دیا تھا اور جاوید چھچھر نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔

وارث ماچھی نے واضح کیا کہ برداریوں کے فیصلے نوجوان نہیں بڑے کرتے ہیں۔ جاوید اور دیگر لڑکوں نے سوشل میڈیا پر غلط بیانی کی، جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیا لکھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ یاد نہیں۔

مقتول لڑکی کے ورثا پر دباؤ

وزیراں کے رشتے دار الھورایو چھچھر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان پر بھی دباؤ ڈالا گیا تھا کہ اس جرگے میں شریک ہوں لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ ’کچھ بھی ہو جائے ہم اس کیس سے دستبردار نہیں ہوں گے، ہمارے حامیوں پر مقدمات دائر کیے گئے، ڈرایا دھمکایا گیا ہے، ہم بھی حکمران جماعت سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مقامی قیادت مخالف فریق کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔‘

ایک اور مقامی رہائشی علی گل چھچھر کا کہنا تھا کہ اس قتل کے خلاف دیگر نوجوانوں کے ساتھ وہ بھی شریک تھے۔ ایک غریب اور معصوم لڑکی کا قتل کیا گیا تھا۔

’مجھے پر دباؤ ڈالا گیا کہ جرگے میں حاضر ہوں میں نے کہا کہ میرا کوئی جرم اور قصور نہیں ہم مظلوموں کے ساتھ ہیں۔ جس کے بعد دھمکیاں بھیجی گئیں۔ میں نے ان دھمکیوں کے اسکرین شاٹس کے ساتھ مقامی عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے کہ اگر مجھے کچھ ہوا تو ذمہ دار یہ لوگ ہوں گے۔‘

پولیس کی لاعلمی اور تحقیقات کا حکم

ایس ایس پی جام شورو جاوید بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈی ایس پی کو تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ بقول ان کے اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جرگہ ہوا ہے تو اس کے مطابق قانونی کارروائی کی جائے گی۔ بقول ان کے وہ نوجوان جاوید سے ٹیلیفون پر رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن رابطہ نہیں ہو پا رہا ہے۔

بی بی سی نے جب سندھ یونیورسٹی کے طالب علم جاوید چھچھر سے رابطہ کیا اور اس جرگے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بھرائی ہوئی آواز میں صرف” نوکمنٹس” کہا۔

سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جرگوں کو انصاف کا متوازی نظام قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر چکی ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا پر مقامی سرداروں، وڈیروں اور سیاست دانوں کے زیر سربراہی جرگوں کی خبریں شائع ہوتی رہی ہیں۔

ان جرگوں کے خلاف وومین ایکشن فورم بھی عدالت میں مدعی رہی ہے۔ تنظیم کی رہنما عرفانہ ملاح وزیراں چھچھر قتل کیس میں تحقیقات کے لیے بھی سرگرم ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالتوں کا جو فیصلہ ہے اس کا احترام کیا جائے اور جنہوں نے یہ جرگہ منعقد کیا ہے ان کے خلاف مقدمہ دائر کرکے کارروائی کی جائے۔

’وزیراں چھچھر کے رشتے داروں اور ہمدردوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے، حکومت انہیں تحفظ فراہم کرے اور تمام ملزمان کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp