پابندی سے پہلے معافی مانگیں


ملک کے گلی کوچے، بازار، سڑکیں، چوک، چوراہے اور کونے گوشے دو دن سے فسادات کی آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ گستاخانہ خاکوں کا معاملہ سمندر پار فرانس میں ہوا اور فتنہ انگیزی اور خون ریزی کا بازار یہاں گرم ہوا۔ مسافر رل گئے۔ مریض ایمبولینسوں میں دم توڑ گئے۔ جاں باز پولیس والے بلوائیوں کے ہاتھوں شہید و زخمی ہو گئے۔ سرکاری اور پرائیویٹ گاڑیاں نذر آتش کی گئیں۔ اربوں کی املاک برباد ہو گئیں۔ مولوی سعد رضوی کی گرفتاری کے چند گھنٹے کے اندر پورا ملک جام ہو گیا۔

لوگ بلوائیوں کے رحم و کرم پر تھے۔ دفعتاً کونے کھدروں سے ڈنڈا بردار نکل آئے اور عشق رسولﷺ کے نام پر جو سامنے آیا اسے دھو ڈالا۔ اس دوران ریاست اور ریاست کی رٹ ستو پی کے سوتی رہی۔ الیکٹرانک میڈیا کسی غیرمرئی اور خلائی طاقت کے اشارے پر چپ سادھے رہا۔ نواز حکومت میں تحریک لبیک کے دھرنے کی لمحے لمحے کی حرکات و سکنات اور مار دھاڑ کے سفاک مناظر دکھانے والا ”آزاد“ میڈیا اس بار بھیگی بلی بنا رہا۔ جب حالات قابو سے باہر ہوئے اور سوشل میڈیا پر ہاہا کار مچی تو مین سٹریم آزاد میڈیا صرف اتنی جرأت کر کے اتنا لکھ سکا کہ ایک مذہبی جماعت کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ہر شہر میں بڑی بڑی شاہراہیں بند ہیں اور مسافروں کو منزل مقصود پر پہنچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

یہ سب دنگا فساد، مار دھاڑ، جلاؤ گھیراؤ، شر انگیزی اور خون ریزی کچھ مذہبی جنون میں مبتلا مولوی اور ان کے ہرکارے عشق رسولﷺ، ناموس مصطفیٰﷺ اور تحفظ ختم نبوت کے مقدس نام پر کر رہے تھے۔ دہشت گردوں کو اسلام کے نام پر تمام وسائل مہیا کر کے پال پوس کر قریہ قریہ، محلہ محلہ اور گلی گلی آباد کر نے والی ریاست کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب بے شمار سکیورٹی اہلکاروں، کارکنان اور لوگوں کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔ ریاست اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان آنیوں جانیوں میں مصروف رہی اور جب تک ملک بے یقینی اور افراتفری کی سان پر چڑھا رہا۔

خبروں کے مطابق رات کو وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات ہوئی جس میں بہ امر مجبوری یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپنے ”سٹریٹجک اثاثوں“ کو لگام دینا ہی پڑے گی۔ گمان ہے کہ کل کو اگر کسی نون لیگ یا پی پی کی حکومت کے خلاف ان کی دوبارہ ضرورت پڑی تو وقت و حالات کو دیکھتے ہوئے کسی نئی جماعت کو نئے مذہبی نعرے کے ساتھ میدان میں اتار لیا جائے گا۔ ریاست نے تو صرف مولوی سعد رضوی کی ملکی سیاسی منظرنامے پر لانچنگ مہم کی اجازت دے کر اپنے ”لاڈلے“ کو ذرا سا دھمکانے کی کوشش کی تھی۔

مولوی سعد رضوی نے معمولی کارگزاریوں کے بعد جب سیدھی ”بم“ کو لات مارنے کی کوشش کی تو ریاست کو آڑے آنا ہی پڑا۔ بر سبیل تذکرہ اس بار تو ختم نبوت کے وہ مجاہدین اور سرفروش بھی دکھائی نہیں دیے جنہوں نے نواز شریف دور میں اسی جماعت کے مظاہرین میں انعامات بھی تقسیم کیے تھے، البتہ سرعام تحریک لبیک کے حق میں جوشیلی نعرے بازی کر کے اس کی اچھی خاصی تلافی کر دی۔

سنا ہے کہ حکومت اور ریاست نے تحریک لبیک پر اس کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے آئین کی رو سے پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم بغیر کسی اگر، مگر، لیکن اور چونکہ کی بیساکھیوں کا سہارا لیے ریاست کے اس فیصلے کی مکمل تائید کرتے ہیں۔ اس فیصلے کے حوالے سے ہر محب وطن اور ہوش مند پاکستانی ریاست و حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔

ہم حکومت کے پابندی کے فیصلے سے قبل ریاست سے صرف اتنی گزارش کریں گے کہ پہلے وہ اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کی مکمل ناکامی کا اعتراف کر کے پوری قوم سے معافی مانگے۔ اسی کی دہائی میں ساری دنیا سے دہشت گرد اکٹھے کر کے انہیں مجاہدین کا لقب دے کر افغان جنگ میں جھونک کر ڈالرز اینٹھنے جیسے گھناوٴنے کاروبار پر معافی مانگے۔ نائن الیون کے بعد انہیں مجاہدین کو فوراً دہشت گرد بنا کر انہیں امریکہ کے حوالے کر کے دوبارہ ڈالرز جمع کرنے جیسے اقدام پر معافی مانگے۔

پی پی کو کچلنے کے لیے ایم کیو ایم جیسی لسانی دہشت گرد تنظیم بنا کر ہزاروں شہریوں کے سفاکانہ قتل، بوری بند لاشوں کے تحفوں، ہیروئن اور کلاشن کوف کلچر کے فروغ پانے پر معافی مانگے۔ حافظ سعید، الطاف حسین، حافظ صلاح الدین، مسعود اظہر اور ان جیسے بے شمار دوسرے افراد کو ریاستی وسائل کے ذریعے پروموٹ کرنے کے مجرمانہ اقدام پر معافی مانگے۔

جن لوگوں نے پچھلی حکومت میں ختم نبوت، ناموس رسالتﷺ کے نام پر جس عفریت کو اپنے چھوٹے سے سیاسی فائدے کے لیے بری طرح حکومت کے خلاف استعمال کیا وہ بھی سرعام معافی مانگیں۔ جو لوگ احسن اقبال پر گولی چلنے جیسے سفاک واقعے پر اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس پر بغلیں بجا اور خوشیاں منا رہے تھے وہ بھی اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر کے ندامت کے آنسو بہائیں۔ جو طفل مکتب تحریک لبیک کے جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں میں شریک ہو کر عوام کو جلاؤ گھیراؤ اور مرنے مارنے کی ترغیب دیتے تھے وہ بھی اس جرم پر قوم سے معافی مانگیں۔ جو عاقبت نا اندیش اس وقت نواز شریف پر جوتا اچھالنے، خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکنے جیسے قبیح واقعات کو عوامی ردعمل قرار دے کر خوشیاں مناتے تھے ، وہ بھی عوامی کٹہرے میں آ کر اپنا جرم قبول کر کے پوری قوم سے معافی مانگیں۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلی حکومت میں فیض آباد دھرنوں کے خلاف دیے جانے والے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے فیصلے کے مطابق دھرنے کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کریں۔ خدانخواستہ اگر اس بار بھی تحریک لبیک پر برائے نام پابندی لگا کر محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کا کام ہی کیا جائے گا تو جسٹس قاضی کے بقول یہ ملک رہنے کے لیے گٹر سے بھی بدتر ہوتا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments