جنیوا معاہدے کے 33 سال:جب کوئلے کی کان میں ہم نے منہ کالا کروایا


80 ء کی دہائی کے وسط میں افغانستان پر حملہ آور سوویت افواج کے خلاف افغان جنگجو مذہبی گروہوں کی گوریلا کارروائیاں اپنے عروج پر تھیں کہ ماسکو میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی۔ میخائل گورباچوف نے سوویت یونین میں طاقت کے اہم مرکز کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھال لیا، اگلے ہی سال 1986ء میں چرنوبل سوویت ایٹمی تنصیبات میں دھماکے ہوئے، ایٹمی تابکاری کے خدشات نے ملکوں کو لرزا دیا، دنیا بھر میں ایٹمی تنصیبات کے غیر محفوظ ہونے پر تحفظات کی آوازیں بلند ہوئیں۔

یونائیٹڈ سوویت سوشلسٹ ری پبلک کے آٹھویں اور آخری صدر ثابت ہونے والے میخائل گورباچوف نے اپنی تمام تر توجہ کا مرکز داخلی استحکام کو بنا لیا اور گلاسناسٹ (کھلے پن) اور پریسٹرائکا (تعمیر نو) کی اصلاحات کی راہ پر گامزن ہو گئے، انہوں نے امریکی صدر رونلڈ ریگن کے ساتھ ایٹمی پھیلاؤ کو محدود کرنے اور دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان جاری سرد جنگ کو ختم کرنے پر اتفاق کر لیا۔

یہیں سے افغانستان میں روسی فوجی مداخلت کے اختتام اور افغانستان سے اپنی افواج کو واپس بلانے کی سوچ نے فروغ پانا شروع کر دیا۔ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے 80ء کی دہائی کے اوائل ہی سے اس سوچ پر کام کر رہے تھے۔ ماسکو کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بھی وزیراعظم محمد خان جونیجو افغان جنگ کی عسکری ترجیحات سے لاتعلقی کا رجحان رکھتے تھے لہٰذا ماسکو، واشنگٹن اور اسلام آباد میں رابطہ سازی کا آغاز ہوا، ماسکو نے کابل سے اپنی افواج کی پرامن واپسی کی راہ مانگی۔

14 اپریل 1988ء وہ تاریخی دن تھا جب سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں افغانستان سے سوویت فوجوں کے انخلاء کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ 6 سال کی انتھک کوششوں سے طے پایا تھا۔ جنیوا میں اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹرز میں پاکستانی معیاری وقت کے مطابق شام پانچ بجے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پیریز ڈیکویار کے زیر صدارت منعقدہ ہونے والی ایک تقریب میں پاکستان کی طرف سے وزیر مملکت برائے امور خارجہ زین نورانی اور کابل انتظامیہ کے وزیر خارجہ عبدالوکیل نے سمجھوتے پر دستخط کیے جبکہ سوویت یونین کے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیوارڈ ناڈزے اور امریکہ کے وزیر خارجہ جارج شلز نے بطور ضامن اور پیریز ڈیکویار نے بطور سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کیے ۔

38 صفحات پر مشتمل اس تاریخی معاہدے میں پاکستان میں قیام پذیر افغان پناہ گزینوں کی رضا کارانہ واپسی، تین ماہ میں سوویت افواج کی پچاس فیصد تعداد اور نو ماہ میں اس کا افغانستان سے مکمل انخلاء طے پایا، معاہدے کے مطابق سوویت افواج کی واپسی کے عمل کا آغاز 15 مئی 1988ء سے 15 فروری 1989ء تک مکمل ہونا طے پایا۔ یہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان دوطرفہ باہمی معاہدہ تھا۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر اتفاق کیا۔ معاہدہ پر عمل درآمد کی نگرانی کا مینڈیٹ اقوام متحدہ کو دیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق کابل حکومت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے افغانستان میں وسیع بنیادوں پر نئی حکومت تشکیل دے کر اس میں ”مجاہدین“ کی شرکت کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا۔

بدقسمتی سے جنیوا معاہدے پر دونوں ممالک نے من و عن عمل نہیں کیا۔ پاکستان میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت جنیوا معاہدہ کی تکمیل کو اپنا تاریخی کارنامہ تصور کرتی تھی۔ انہوں نے مطلق العنان فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی ہدایات کو رد کرتے ہوئے جنیوا معاہدے سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔ تین روز تک وزیراعظم ہاؤس میں جاری رہنے والی اس کانفرنس میں بے نظیر بھٹو، خان عبدالولی خان، رسول بخش پلیجو، مختلف بلوچ اور پختون قوم پرست رہنما شریک ہوئے اور کھل کر جنرل ضیاء الحق کے خلاف بولے۔ ان سب کی رائے اور حمایت حاصل کر کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اسے ”قومی اتفاق رائے“ قرار دیا۔ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد وہ جنیوا روانہ ہوئے اور افغان امن معاہدے میں پاکستان کی شرائط شامل کروا کر اس پر دستخط کیے ۔

کچھ سیاسی دانشور 29 مئی 1988ء کو جنرل ضیاء الحق کی طرف سے آئین کے ارٹیکل 58 ( 2 ) بی کے تحت جونیجو حکومت کی برطرفی کی سب سے اہم وجہ جنیوا معاہدے کو قرار دیتے ہیں۔ جنیوا معاہدے کو ایک معجزے سے تعبیر کرنے والے جنرل ضیاء الحق دراصل اس معاہدے سے خوش نہیں تھے اور اس حوالے سے ان کا یہ ”تاریخی“ جملہ بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ ”کوئلے کی کان میں منہ دے کر ہم نے منہ ہی کالا کروایا ہے“ ۔

اپنی بعض بنیادی خامیوں کے باعث جنیوا معاہدہ افغان مسئلے کا مکمل حل پیش نہیں کرتا تھا۔ اس معاہدے کے باوجود کچھ جہادی تنظیمیں نہ صرف افغانستان میں سرگرم عمل رہیں بلکہ جینوا معاہدے میں متبادل افغان حکومت کے قیام کو نظرانداز کرنے کے نتائج یوں نکلنا شروع ہوئے کہ روسی افواج کے خلاف مزاحم افغان جنگجو مجاہدین گروہوں کے درمیان پشتون اور شمالی اتحاد کے ازبک، تاجک گروہ متحد نہ ہو سکے۔ سوویت اتحادی افغان صدر محمد نجیب اللہ 1992ء تک کابل کے حکمران رہے۔

ان کے بعد اقتدار افغان ”مجاہدین“ کے ہاتھ آن لگا۔ 28 اپریل 1992ء کو صبغت اللہ مجددی افغان صدر قرار پائے، بعد میں برہان الدین ربانی نے صدارت کا عہدہ سنبھالا، وزارت عظمیٰ کے لئے اہم کمانڈر گلبدین حکمت یار کا نام 17 جون 1993ء کو فائنل ہوا۔ انہی برسوں میں کابل پر طاقت و اختیار کی خوفناک محاذ آرائی نے اسے سوویت افواج کے لگائے دکھوں سے بھی زیادہ زخمی کر دیا۔

پشتون حکمت یار کے مخالف ازبک کمانڈر عبدالرشید دوستم اور تاجک کمانڈر احمد شاہ مسعود کی فوجوں کے درمیان خونریز تصادم ہوئے۔ حتیٰ کہ افغان شہر قندھار کے مضافات میں ملا محمد عمر نامی جنگجو ایک اتفاقی واقعے کے ردعمل میں اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگجو مزاج کے افغان اس کے گروہ میں شامل ہوتے چلے گئے۔ سوویت افواج کے چھوڑے اسلحے سے ملک بھر میں مقامی وار لارڈز نے اپنی اپنی حاکمیت کے جھنڈے گاڑ دیے اور افغانستان اپنی تاریخ کی شدید خانہ جنگی اور بحران کا شکار ہوا۔

جنیوا معاہدے پر عمل نہ ہونے کے باعث افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے تعلقات بھی بہتر نہیں ہو سکے۔ اگر جنیوا معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل ہوتا تو عین ممکن تھا کہ افغانستان میں طالبان جنم ہی نہ لیتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments