پاکستانی ریاست کے اسلامی سیاسی تصورات اور ان کے فکری اسباب


پاکستان کو سرکاری سطح پر ایک اسلامی نظریاتی مملکت بنانے کے عمل کا آغاز مارچ 1949 ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری سے ہوا جس کے بعد ملک میں جاری تحریک نفاذ اسلام اختتام پذیر ہوئی، اور یہ بحث بظاہر مذہبی طبقات کی کامیابی پر منتج ہوئی، کہ آیا پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہونا چاہیے یا مذہبی۔ تاہم یہ منظوری مذہبی جماعتوں کی یکسر کامیابی نہیں تھی کیونکہ قرارداد مقاصد نہ تو ایک خالصتاً ملائی (theocratic) ریاست کی تشکیل کر رہی تھی، اور نہ ہی اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دینے کے بعد ، مذہبی طبقات کی وہ توقع پوری ہو سکی جس کی آس وہ قرارداد مقاصد کی منظوری سے لگائے ہوئے تھے : یعنی پاکستان میں ”صالحین“ کی جماعت کبھی برسر اقتدار نہیں آ سکی۔

درحقیقت قرارداد مقاصد کی صورت میں ”مذہبی ریاستی تصورات“ اور ”جدید جمہوری روایات“ کا ایک دلچسپ امتزاج تشکیل دیا گیا۔ کسی بھی جدید جمہوری ریاست کے دستور اساسی کی مانند قرارداد مقاصد میں یہ طے کیا گیا کہ پاکستان ایک وفاقی جمہوری ریاست ہو گا، جس میں طاقت عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہو گی، اور جس میں شامل وفاقی اکائیاں اپنے بیشتر معاملات میں خود مختار ہوں گی؛ قرارداد مقاصد میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کو ریاست کے رہنما اصول قرار دیا گیا؛ قرارداد میں ملکی سالمیت کا تحفظ کے عزم کا اظہار کیا گیا، اور شہریوں کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کی ضمانت فراہم کی گئی۔

ان جدید ریاستی خدو خال کے ساتھ ساتھ قرارداد مقاصد میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان ایک سیکولر نہیں بلکہ اسلامی ریاست ہو گا۔ قرارداد مقاصد کے متن کی ابتدا خالصتاً مذہبی حوالے سے کی گئی۔ یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکت غیرے حاکم مطلق ہے۔ اس نے عوام کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے، وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ قرارداد میں طے کیا گیا کہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی انصاف کے اصول، ان تصورات کے اسلام مفاہیم کے مطابق نافذ ہوں گے۔

ریاست مسلمان عوام کی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے گی، لیکن غیر مسلم اقلیتوں کو اپنے مذہب، عقائد اور ثقافت پر کاربند رہنے کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ یہ وہ دستوری نقاط تھے جن کے ذریعے دراصل، قیام پاکستان کے قریباً ڈیڑھ برس بعد ، پاکستانی سیاست میں مذہب کے فکری و عملی سطح پر ”پہلے سے موجود عمل دخل“ کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا۔

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی سیاست میں مذہب کا عمل دخل، اولاً، چند طاقتور حکمرانوں کے مذہبی رجحانات کا باعث ہوا، اور، دوئم، مذہب کا استعمال حکمران اشرافیہ کی جانب سے ایک تدبیر کے طور پر کیا گیا، تاکہ ایک طرف تو پاکستانی قومیت کے نوزائیدہ اور ناتواں تصور کو مضبوط کیا جا سکے، اور دوسری طرف سیکولر اشرافیہ کو مذہبی رعایا کے لیے قابل قبول بنا کر اشرافیہ کے سیاسی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ تاہم یہ دونوں مظاہر (یعنی حکمرانوں کا مذہبی رجحان اور مذہب کا قومی و سیاسی استعمال) اصل صورتحال نہیں، بلکہ ایک پہلے سے موجود زمینی صورتحال کا منطقی نتیجہ یا سوچا سمجھا استعمال ہیں۔ پاکستانی سیاست میں مذہبی نظریات کے نفوذ کا بنیادی سبب وہ خود پسندانہ انداز فکر اور قدامت پرست خیالات ہیں جو مذہب اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کے حوالے سے بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کے مسلمانوں کے اذہان پر حاوی ہو چکے تھے۔

جہاد سیاسی اسلام کا اولین تصور ہے۔ اسلام غلامی کا مذہب نہیں ہے۔ اسلامی نظریات کے غلبے کی مسلسل جدوجہد کرتے رہنا ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے۔ جہاد کا دائرہ کار النفس سے الناس تک، اور طریقہ کار تبلیغ سے تلوار تک پھیلا ہوا ہے۔ عوامی مذہبی شعور کے مطابق ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ”بالآخر غلبۂ اسلام“ کے دور کے ظہور پر ایمان رکھے، کہ جس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار لکھتے ہیں کہ یہ پیشین گوئی قرآن سے دلالۃً (by inference) اور متعدد احادیث صحیحہ میں تو صراحتاً ثابت ہے ؛ اور یہ اعتقاد ایک مسلمان کے لیے صلح کل اور بقائے باہمی جیسے تصورات کو ایمان کی کمزوری کی علامت بنا دیتا ہے۔

مولانا مودودی لکھتے ہیں : ”اسلام کا اپنے مخصوص نظام زندگی کی طرف دعوت دینا عین اپنی فطرت میں اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ دوسرے نظامات کو ہٹا کر ان کی جگہ اپنے نظام کی اقامت کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لیے اپنے پیروؤں کو جدوجہد کی ان تمام صورتوں کے اختیار کرنے کا حکم دے جن سے یہ مقصد حاصل ہوا کرتا ہے۔ اور مدعیان اتباع کے ایمان اور عدم ایمان کا نشان امتیاز اسی سوال کو قرار دے کہ آیا وہ اس جدوجہد میں جان و مال کی بازی لگاتے ہیں، یا باطل نظامات کے ماتحت جینے پر راضی ہوتے ہیں؟ پھر جب حقیقت یہ ہے تو یقیناً ہمارے وجود کو ہر غیر اسلامی حکومت کے لیے کھلا چیلنج ہونا ہی چاہیے۔ کوئی اس کو برداشت کرے یا نہ کرے، غیر مسلموں کے ساتھ تعاون و تعامل ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ بہرحال اگر ہم اپنے ایمان میں صادق ہیں تو ہمارا کام یہی ہے کہ جہاں بھی اللہ کا قانون شریعت نافذ نہیں ہے، وہاں ہم اس کے نفاذ کے لیے جدوجہد کریں۔ بے شک اسلام امن اور سلامتی کا حامی اور مؤید ہے، مگر اس کی نگاہ میں حقیقی امن و سلامتی وہی ہے جو حدود اللہ کی اقامت سے حاصل ہوتی ہے۔ جس کسی نے امن اور سلامتی کا مطلب یہ سمجھا ہے کہ شیطانی نظامات کے زیر سایہ اطمینان کے ساتھ سارے کاروبار چلتے رہیں اور مسلمان کی نکسیر تک نہ پھوٹے، اس نے اسلام کا نقطۂ نظر بالکل نہیں سمجھا۔ اسے اچھی طرح معلوم ہو جانا چاہیے کہ اسلام ایسے امن و سلامتی کا ہرگز حامی اور مؤید نہیں ہے۔ اسے دوسروں کا قائم کردہ امن نہیں، بلکہ اپنا قائم کردہ امن مطلوب ہے اور اسی میں وہ انسان کی سلامتی دیکھتا ہے۔“

جاوید احمد غامدی جہاد کے اس تصور کو بنیاد پرستی اور کٹر ملائیت سے منسوب کرتے ہیں، اور قانون اتمام حجت کے تحت، بزور طاقت دین کے پھیلاؤ کو مسترد کرتے ہوئے جہاد کے متبادل بیانیہ کی ترویج کرتے ہیں۔ تاہم اسلام کا سواد اعظم اور مغربی دنیا بہ تمام زمان اور بیک زبان اسی وحدانیت اور عالمگیریت کو اسلام کی حقیقی تعبیر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ہنری کسنجر اپنی مشہور تصنیف ورلڈ آرڈر میں لکھتے ہیں کہ اسلامی دنیا میں عالمی نظام کے رائج تصور کے مطابق صرف دین کے تابع واحد عالمی حکومت ہی امن عالم اور فلاح انسانیت کی ضمانت بن سکتی ہے۔

سیاسی اسلام کا دوسرا اہم تصور یہ ہے کہ دین کا راستہ اختیار کرنا نہ صرف اخروی نجات بلکہ دنیاوی کامیابیوں کے لئے بھی ضروری ہے۔ ہندوستان میں مغلیہ دور کے زوال کے اہم ترین اسلامی مصلح شاہ ولی اللہ کے نزدیک مسلمانوں کے بتدریج بڑھتے زوال کا سبب دین سے دوری تھی، اور بعینہ یہی بات اپریل 2019 میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امام کعبہ عبداللہ عود الجہنی نے کہی کہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کا سبب دین سے دوری اور آپس میں نا اتفاقی ہے، اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

شارحین اسلام بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مخلص بندوں سے تین پکے وعدے کیے ہیں کہ اگر وہ اسلام پر کاربند ہوں گے تو وہ انہیں دنیا میں حکومت و اقتدار، مال و دولت اور امن و امان عطا کرے گا۔ قرآن میں مذکور ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ان کو لازماً زمین میں حکومت عطا کرے گا۔ عدی بن حاتم طائی راوی ہیں کہ نبی پاک نے فرمایا، عدی تم وہ وقت دیکھو گے کہ ایک تنہا عورت اونٹنی پر سوار ہو کر حیرہ سے مکہ کا سفر کرے گی لیکن اسے سوائے خدا کے کوئی خوف نہیں ہو گا، اور کسری کے خزانے مسلمانوں کے لئے کھول دیے جائیں گے اور ایک شخص سونا خیرات کرنے نکلے گا اسے کوئی شخص خیرات قبول کرنے والا نہیں ملے گا۔

دین و دنیا کا یہ التزام پاکستانی مسلمانوں کے اس عمومی تصور کی بنیاد ہے کہ دین سے دوری ہی تمام خرابیوں کا سبب ہے۔ قومی زوال ہو یا معاشرتی بگاڑ، غلامی ہو یا نقالی، علمی کم مائیگی ہو یا صنعتی پسماندگی، مہنگائی ہو یا بیروزگاری ہو، سودی لین دین ہو یا غیر ملکی قرضے، گھریلو جھگڑے ہوں یا اسٹریٹ کرائم، فرقہ واریت ہو یا دہشتگردی، بے حیائی ہو یا طلاق کی شرح، رشوت ستانی ہو یا ملاوٹ، صحت کے مسائل ہوں یا نفسیاتی عوارض، زلزلے ہوں یا وبائیں، یہ تمام مسائل اسلام سے افتراق کا نتیجہ ہیں اور ان سب خرابیوں کا علاج یہی ہے کہ انسان مذہبی تعلیمات پر مزید شدت سے کاربند ہو جائے، اپنے ایمان کو مضبوط سے مضبوط تر کرے، عبادات کا اہتمام کرے، شرعی حلیہ اختیار کرے اور دین کی تدریس و تبلیغ سے وابستگی اختیار کرے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی اصلاحی تحاریک نے ہمیشہ مذہبی رجحانات میں اضافے اور مذہبی فرائض کی ادائیگی پر ہی زور دیا ہے۔

عقائد کی یہ بنیاد اس طرزعمل کی کافی توجیہ ہے جو انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمانوں نے انگریزی حکومت اور انگریزی تعلیم کی مخالفت کرنے میں اختیار کیا۔ کالونیل دور کے انگریز مورخ اور انڈین سول سرونٹ ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتے ہیں : ”ہندوستان کے مسلمان سالہاسال ہندوستان میں برطانوی اقتدار کے لیے ایک دائمی خطرہ بنے رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہ ہمارے نظام سے الگ تھلگ رہے ہیں اور وہ تبدیلیاں جنہیں نسبتاً لچکدار ہندوؤں نے خوش دلی سے قبول کر لیا، مسلمان انہیں اختیار کرنا سخت گناہ سمجھتے ہیں۔“

ایک عرصہ تک ہندوستان کے مسلمان عواقب و نتائج کو پس پشت ڈال کر انگریزوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ لیکن آتش نمرود میں بے خطر کودنے سے پہلے ابراہیم کا سا ایمان پیدا کرنا بھی ضروری ہے۔ مصلحت سوز ہمت حماقت ہوتی ہے۔ ہندوستان کے مسلمان یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ نئی طاقت کے مقابلے میں ان کے ولولے اور وسائل ناکافی ہیں اور بدلتی ہوئی سیاسی اور سماجی صورتحال سے مصالحت کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ سید احمد شہید کے جہاد سے آزادی کی جنگ تک، ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر کے ’دی انڈین مسلمانز‘ کے پاس انگریز حکمرانوں کے خلاف بغاوت رچانے کے سوا کوئی تدبیر نہیں تھی۔

انجام کار، شکست کی ذلت کے ساتھ ساتھ انہیں انتقام کے مصائب بھی جھیلنا پڑے۔ متواتر ناکامیوں کے بعد عملیت پسند (pragmatic) رہنماؤں نے انہیں اپنے نئے حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اور یہ آمادگی محض بچاؤ کی تزویراتی منصوبہ بندی نہیں تھی، بلکہ اس تدبیر کے پس پردہ مغربی تہذیب کی پرشکوہ عظمت کا اعتراف بھی موجود تھا۔ سرسید پورے خلوص کے ساتھ سمجھتے تھے کہ انگریز ایک بہتر قوم ہیں اور ان کا طرز زندگی ہندوستانی طرز زندگی سے برتر ہے۔

سرسید کے ہم عصر حالی اور شبلی کی منظومات اور تحاریر میں قوم کی تہذیبی حالت پر مایوسی اور مغربی تہذیب سے مرعوبیت کا تاثر موجود ہے۔ لیکن بہر طور انگریز استعماری حکمران تھے جن سے رعایا کی وفاداری ان کے ناقابل تسخیر ہونے کے خوف سے عاری نہیں تھی، اور جنگ عظیم کے بعد ان کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر زائل ہونے کو تھا۔

سرسید کی علیگڑھ تحریک کا اثرات انقلابی تھے۔ مسلمانوں کے اندر اپنے آپ اور اپنے رسوم و رواج کے لیے اعتماد پیدا ہوا۔ وہ اپنی عزت کرنے لگے۔ غدر کے بعد کی یاسیت نے ایک تازہ ولولے کے لیے جگہ خالی کر دی۔ اب مسلمانوں کی انگریزوں کے ساتھ وفاداری پر سوال نہیں اٹھایا جاتا تھا۔ اب ہندو مسلمانوں کو بے پروائی کے ساتھ نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ تھے۔ علی گڑھ کالج سے فارغ التحصیل گریجویٹ حکومتی ملازمتوں میں حصہ حاصل کر رہے تھے۔

وہ کاروبار، تجارت، صنعت میں دلچسپی لے رہے تھے۔ سرسید کی پالیسیاں ثمر آور ثابت ہو رہی تھیں۔ لوگوں کے دل امید سے بھرپور تھے۔ حتی کہ کچھ رہنما سنجیدگی کے ساتھ سیاسی معاملات پر بھی سوچ بچار کرنے لگے تھے۔ ”دوسری جانب عالمی جنگوں نے یورپ سے بین الاقوامی فرماں روائی کے لیے درکار مادی قابلیت اور نفسیاتی اہلیت چھین لی تھی۔ ان جنگوں نے ناصرف یورپ کو کنگال کیا بلکہ اس کی تہذیبی عظمت کے تصور کو بھی گہنا دیا۔ ایک طویل عرصہ سے دنیا بھر کا علمی اور عملی حکمران رہنے والا مغرب دیگر تہذیبوں کے لیے ترقی کا قابل تقلید نمونہ نہیں رہا تھا۔ یورپ اب شاخ نازک پر قائم آشیانہ تھا جو اپنے خنجر سے آپ خود کشی کر رہا تھا۔ علم، اطوار اور اخلاق کا وہ یورپی قالب جس کے پیش نظر سرسید ہندوستانیوں کو وحشی قرار دیتے رہے، اب ایک سفاک قاتل تھا جس نے مادی ترقی کی دوڑ میں انسانیت کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔

انیسویں صدی کے نصف اول کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کی فکری ترقی اور سیاسی شعور کی نمود مغرب سے بے حد متاثر رہی تھی، لیکن اسی انحصار نے مقامی افراد میں ایک احساس کمتری بھی پیدا کیا جو ان کے قومی تفاخر کو زک پہنچاتا رہا تھا۔ لیکن اب بظاہر خود ہلاکتی کی سمت بڑھتے مغربی تہذیب کے قدم اس قومی تفاخر کو مضبوط کرنے کا مدلل موقع فراہم کر چکے تھے۔ اسلامی دنیا میں نشاۃ ثانیہ کا بگل بج چکا تھا۔ ماضی کی عظمت کے گیت سرسید، شبلی اور حالی نے بھی گائے لیکن ان گیتوں کا مقصد محض یہ تھا کہ قوم کو نا امیدی اور مایوسی کے گرداب سے نکالا جا سکے، اور ان کو اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ بحال کرنے کی ترغیب دی جائے۔

لیکن بیسویں صدی کے ہندوستان کے مسلم علماء اور قوم پرست مسلمانوں نے ماضی کی اساطیر اور مستقبل کے خواب کے ملغوبے سے عہد گزشتہ کی ایک ایسی آدرشی ریاست کا تصور تخلیق کیا جو تاریخ عالم میں اسلام کا سنہرا دور تھا۔ ماضی کی اس ریاست کو شاعروں اور ادیبوں نے ایسی حقیقی اور خیالی خوبیوں سے مزین کیا جو نوزائیدہ قوم کے اپنے اور اپنے شاندار ماضی کے بارے میں خوابناک تصورات کو مزید خوابناک بناتی تھیں۔ بالآخر یہ ”کلچرل نیشنل ازم“ قومی ریاست کے قیام کے خواب میں ڈھل گیا۔

فرانس، امریکہ اور برطانیہ کے ”سیاسی و معاشی نیشنل ازم“ کے تصور، جس کے تحت عوام نے سیاسی اور معاشی حقوق کے حصول کی جدوجہد کی، کے برعکس ”کلچرل نیشنل ازم“ نے آدرشی ریاست کے احیاء کو قوم کا مقصد قرار دیا۔ قوم کا فوری مشن یہ تھا کہ وہ اپنے لیے ایک خود مختار ریاست حاصل کرے تاکہ بعد ازاں سیاسی اور سماجی تجربات کے ذریعے آنے والے کسی دور میں اس ریاست کو ماضی کی یوٹوپیائی ریاست میں تبدیل کر کے قوم کے سنہرے دور کا احیاء کیا جا سکے۔

ایک عام ہندوستانی مسلمان کے تصوراتی خاکے میں یہ یوٹوپیائی ریاست ایک ایسی اسلامی مملکت تھی جس کی بنیاد اسلام اور قرآن کے اصولوں پر ہو گی، جہاں خلافت راشدہ کے طرز کی مثالی حکومت قائم ہو گی، اسی اسلامی ریاست کے ذریعے تمام اسلامی ممالک کا اتحاد اور خلافت اسلامیہ کا قیام عمل میں آئے گا اور بالآخر اسلام کو تمام عالم میں غلبہ نصیب ہو گا۔ یوں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کے نزدیک یہ سیاسی تصورات کم وبیش دینی عقیدے کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن ان تصورات کو عملی سیاسی تحریک کی صورت عطا کرنا، ہندوستان کے مسلمانوں کے حصہ میں آیا، جس کی وجہ مسلمانان ہند کا اسلامی تہذیب اور اسلامی دنیا کے ساتھ غیر معمولی لگاؤ تھا، اور اس لگاؤ کے پس پردہ محرکات میں پر خلوص اعتقادیت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مسلمانوں کی مخصوص سیاسی مجبوریاں بھی تھیں۔

ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں تھے، جنہیں ہندو قوم پرست سیاست سے بقا کا خطرہ لاحق تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں پان اسلام ازم کے نظریہ کو دیگر اسلامی ممالک کی نسبت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی، کیونکہ اتحاد بین المسلمین ہندوستان کے مسلمانوں کا ہندو غلبے کے خلاف مدافعت کا ایک طریقہ تھا۔ اکثریت کے ممکنہ جبر کے خلاف انہیں اپنے ہم مذہب بھائیوں کا ساتھ درکار تھا۔

محمد علی جناح ہندوستانی مسلمانوں میں کلچرل نیشنل ازم کے ابھرتے ہوئے جذبات سے بخوبی واقف تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ تصورات ہندوستان کے مسلمانوں کو سیاسی تحریک کی شکل میں متحد رکھنے کا ذریعہ ہیں۔ تحریک خلافت سے دور رہنے والے زیرک قائد اس بات سے انجان نہیں تھے کہ یوٹوپیائی ریاست کے احیاء کی جدوجہد ایک نپی تلی جانچ شدہ مہم کی بجائے، ایک مبہم نقشے کا سفر ہے، جس کے نتائج غیر واضح ہیں اور یہ مشن ابہام، تضاد، حد سے زیادہ خود اعتمادی اور تہذیبی نرگسیت سے بھرپور ہے۔

لہذا قیام پاکستان سے تین روز قبل ہی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی سے اپنے پہلے صدارتی خطاب میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ پاکستان میں ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ بظاہر اپنے گزشتہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے، قائد اعظم نے کسی بھی ایسے تصور کو مغالطہ پر مبنی قرار دیا جس کے مطابق پاکستان ایک مذہبی ریاست ہو گا۔ لیکن اگر قائد اعظم نے یہ سوچ رکھا تھا کہ حصول پاکستان کے بعد وہ باآسانی رجعت پسند مذہبی سیاسی تصورات پہ روک لگا سکیں گے، تو یقیناً وہ اس میں چوک گئے۔

قیام پاکستان اسلامی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ ہندوستان جیسے مشرک ملک کے بطن سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کا ظہور اس بات پہ مہر تھا کہ پاکستان کا قیام اسلام کے عالمی غلبے کی خدائی تدبیر کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ حتیٰ کہ مولانا مودودی جو مطالبہ پاکستان کے سخت ناقد تھے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ وہ اس واقعہ میں تائید الٰہی کو شامل پاتے ہیں۔ پاکستان کا معجزانہ قیام اقبال کے تصورات کو درست ثابت کر رہا تھا۔

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔ شکر گزاری، فتح مندی اور تفاخر کے جذبات سے معمور عثمانی کہہ اٹھتے ہیں کہ ”بارگاہ ایزدی سے عالم اسلام میں احیائے اسلام اور تجدید خلافت اسلامیہ کے لیے ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے بخت کی فیروز مندی اور طالع کی ارجمندی کس قدر قابل رشک ہے کہ رسول اللہ کی نگاہ لطف و کرم ہندوستان کے بکھرے اور منتشر مسلمانوں پر پڑتی ہے۔“ اور ڈاکٹر اسرار لکھتے ہیں کہ ”بالآخر اسلام پوری دنیا پر غالب آ کر رہے گا اور پورے کرہ ارضی پر اسلام کی حکمرانی قائم ہو کر رہے گی؛ اسلام کے اس عالمی غلبے میں ایک اہم اور فیصلہ کن کردار پاکستان کو ادا کرنا ہے اور یہ پاکستان کی تقدیر ہے۔“

اب تک مسلم ہندوستان اسلامی دنیا کے خاندان کا یتیم بچہ تھا۔ ہندوستان کے اقلیتی مسلمان اعانت کے لیے اسلامی دنیا کی طرف دیکھتے رہے تھے۔ لیکن اب یہی بے سر و سامان غریب الوطن اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے وارث تھے۔ خدا نے اپنے فضل سے انہیں اسلامی دنیا کی رہنمائی کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ تاہم خاندان کی نظر میں اپنا آپ ثابت کرنے کے لیے اس یتیم کو کچھ بڑا کر کے دکھانے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ سر زمین ہند کے مسلمانوں کے لیے پاکستان زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ ہو گی جہاں وہ اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں گے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہو گا جو امت مسلمہ کی رہنمائی کرے گا اور مادیت کے گرداب اور تشکیک و الحاد کی تاریکی میں گھری ہوئی دنیا کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گا۔

یہ اس نظریاتی اور تاریخی پس منظر کا اجمالی خاکہ ہے جس کے سیاق و سباق میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کی۔ دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پر ہونے والی بحث کے دوران مسلم اراکین کی جانب سے ایوان میں کی جانے والی تقاریر کے متن کے زیر زمین موجزن نظریات اور تصورات کے اس سمندر کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے جو قرارداد مقاصد کا فکری محرک تھا۔ ذیل میں ان نظریات اور تصورات کا نکتہ وار خلاصہ درج کیا جا رہا ہے :

1۔ جدید سائنسی انکشافات اور ایجادات نے زندگی کے لیے روح فرسا خطرات پیدا کر دیے ہیں، جدید سیاسی نظاموں نے معاشروں کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور جدید معاشی نظاموں نے انسانیت کو بدحال کر دیا ہے۔

2۔ ان مسائل کا سبب یہ ہے کہ انسان نے روحانیت اور مذہب کو پس پشت ڈال کی مادیت اور لادینیت کا راستہ اپنا لیا ہے۔

3۔ ان مسائل کا حل یہ ہے مذہب، روحانیت اور خدا کی بالادستی کے تصور کو بحال کیا جائے۔

4۔ تمام مذاہب میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کے پاس دور جدید کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ اسلام ہر قسم کے سیاسی، معاشی، سماجی نظاموں کا بہترین متبادل ہے۔

5۔ جمہوریت، مساوات اور سماجی انصاف کے تصورات صرف اسلام میں ہی درست طریقے سے پیش کیے گئے ہیں۔ ان اصطلاحات کے جدید مفاہیم گمراہ کن ہیں۔

6۔ اسلام میں مذہب اور سیاست کی علیحدگی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور زندگی کہ ہر شعبے بشمول سیاست کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

7۔ اسلامی نظام کے نفاذ کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان ایک تھیوکریسی ہو گا اور قانون سازی پر پیشہ ور مذہبی علماء کی اجارہ داری ہو گی۔ درحقیقت اسلام میں پاپائیت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ اسلام میں کوئی ایسا طبقہ موجود نہیں ہے جو دینی سربراہی کا فریضہ انجام دیتا ہو۔

8۔ اسلام اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ بلکہ دنیا کا کوئی اور دستوری نظام اقلیتوں کا اتنا بڑا محافظ نہیں ہو سکتا جتنا اسلام ہے۔

9۔ اسلامی تاریخ اسلامی نظریات کی افادیت کی گواہ ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ جب جب اسلام کا صحیح معنوں میں نفاذ ہوا، مسلمانوں کو عروج اور خوشحالی نصیب ہوئی۔

10۔ قرارداد مقاصد کا پیش ہونا، تاریخ عالم کا ایک انقلابی ترین موقع ہے کیونکہ ہم پاکستانی مسلمان مذہب کی بنیاد پر ایسا دستور بنانے جا رہے ہیں جو تمام دنیا کے لیے مشعل راہ ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments