بشریٰ زیدی کی موت: خون کی وہ سرخی جس نے کراچی کا مستقبل سیاہ کر دیا

جعفر رضوی - صحافی، لندن


خون کی سرخی سڑک کی سیاہی کو دھندلا رہی تھی۔ اب لال لال خون، کالی سڑک پر ایک ہنستے بستے شہر کے اجڑ جانے کا نوحہ لکھ رہا تھا۔ یہ سرخی کراچی کا مستقبل سیاہ کرنے والی تھی۔۔۔

گَڈ مَڈ ہوتے سرخ و سیاہ رنگوں کے بیچ ڈولتا روشنیوں کا شہر، تشدد کی تاریکیوں میں ڈوبنے والا تھا۔

یہ پیر 15 اپریل 1985 کی تیز چمچماتی دھوپ سے نہاتی ہوئی صبح تھی۔

بالکل ابھی ابھی، کراچی کے سب سے معروف علاقوں میں سے ایک ناظم آباد کی (مشہور) چورنگی سے متّصل سیّد الطاف علی بریلوی روڈ پر ’ایکس تھری‘ رُوٹ کی ایک تیز رفتار فورڈ ویگن (منی بس) نے وہیں، بالکل ہی سامنے واقع سرکاری تعلیمی ادارے سرسیّد گورنمنٹ گرلز کالج کی بیس سالہ طالبہ بشریٰ زیدی اور اُن کی بڑی بہن نجمہ کو کچل دیا تھا۔

منی بس کے چرچراتے پہیوں نے طالبات کو ہی نہیں شہر کے امن و امان اور چین و سکون کو بھی کچل ڈالا۔ بشریٰ زیدی کا خون سڑک کی خاک میں کیا مِلا کہ شہر کے مقّدر میں صرف خاک و خون ہی رہ گیا۔

آج سے ٹھیک چھتّیس برس پہلے رونما ہونے والے اس حادثے میں ہلاک ہونے والی جواں سال طالبہ کے جسم سے بہنے والا خون اور اس کو کچل دینے والی منی بس کے ڈرائیور کے چہرے سے ٹپکنے والا خوف ایک چہرے اور ایک جسم تک محدود نہیں رہے۔۔ ۔پھر ہر بستی میں خون بہا، ہر محلّے پر خوف چھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

کراچی کی ’سیاست میں وقت کم اور مقابلہ سخت‘

اب کراچی وہ نہیں رہا

بدعنوانی کراچی کے کاروبار میں بڑی رکاوٹ: عالمی بینک

کراچی اور ڈھاکہ سب سے ناقابل رہائش شہروں میں شامل

ہر انسان کی طرح بشری زیدی کی جان بھی یقیناً انمول تھی۔ ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ اُن کے اہل خانہ کے لیے یہ زخم آج تک نہیں بھر سکا ہوگا۔

اِس حادثے کی وجہ سے اُن کے اہل خانہ و خاندان جس دکھ اور کرب سے گزرے ہوں اور ہر برس آج ہی کے دن جو اذیّت انہیں ہوتی ہوگی اُس کا اندازہ اُن کے علاوہ کسی کو نہیں ہوسکتا۔

یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے اہلِ کراچی کے دلوں سے پھوٹنے والی جو ہمدردی بشریٰ زیدی کے حصّے میں آئی، آج تک شہر کی کسی اور طالبہ کو کبھی نصیب نہ ہو سکی۔

آج 36 برس بعد اس حادثے کی ان تفصیلات کو لکھتے وقت بھی سر توڑ کوشش کے باوجود بشریٰ زیدی کے اہل خانہ سے رابطہ تو ممکن نہ ہوسکا مگر ہم سب اہلِ کراچی بشریٰ زیدی کے خاندان کے دکھ میں خود کو آج بھی برابر کا شریک تصوّر کرتے ہیں۔

لیکن کیا محض ایک حادثے میں ایک طالبہ کی ہلاکت سے زندگی سے بھرپور شہر ایسے تشدّد کی لپیٹ میں آسکتا تھا جس کے اثرات آسیب کی طرح آج بھی کراچی کی سڑکوں پر منڈلاتے ہیں؟

اِس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک اُس وقت کے کراچی پر ایک نظر نہ ڈال لی جائے، ان دنوں کی سیاست کا تجزیہ نہ کرلیا جائے، اِس حادثے، اُس کے نتیجے میں جنم لینے والے احتجاج اور ردِّعمل میں پھوٹ پڑنے والے فساد کی تفصیل نہ جان لی جائے۔

حادثہ کیسے ہوا؟

اُس وقت اور بعد کے اخبارات سے پتہ چلتا ہے کہ حادثے کی خبر پر ایک نہیں کئی موقف اختیار کیے گئے۔

بدقسمتی سے اُس زمانے کی انتظامیہ یا پولیس کے وہ زیادہ تر افسران جو اس واقعے یا اس کی تحقیقات سے متعلق رہے اب اسِ دنیا میں نہیں ہیں۔

وہ صحافی جنہوں نے اس واقعے اور بعد کے حالات کو رپورٹ کیا ان میں سے بھی زیادہ تر، یا تو اب ہمارے درمیان نہیں رہے یا پھر اُن کی یادداشت اس قدر دھندلا چکی ہے کہ اب تفصیل بتانے سے قاصر ہیں۔

لہٰذا محض اُس مواد پر بھروسہ کرنا پڑے گا جو آج یا تو بعض عینی شاہدین اور صحافیوں کی یادداشتوں میں دھندلا دھندلا سا محفوظ ہے یا پھر انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔

اب اس واقعے کو دوبارہ لکھنے کے لیے کئی روز تک درجنوں افراد سے گفتگو کی گئی ہے۔ ان افراد میں حادثے کے بعد احتجاج کے عینی شاہدین، جن میں اس وقت سرسیّد گرلز کالج کی طالبات، آس پاس واقع دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا اور قریبی علاقوں کے پرانے مکین شامل ہیں۔

اُن سب کے مطابق بشریٰ زیدی کا خاندان نارتھ ناظم آباد کے علاقے میں حیدری شاپنگ سینٹر کے قریب واقع ایم وائی سکوائر (یا ایم وائی اپارٹمنٹس) کی تیسری منزل پر رہائش پذیر تھا اور اُن کے والد (غالباً شبّر زیدی صاحب) حادثے کے وقت ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر کسی عرب ریاست میں مقیم تھے۔

حادثے کے پہلے موقف کے مطابق بشریٰ زیدی اور اُن کی بہن نجمہ کو کئی دیگر طالبات کے ساتھ کالج کے قریب سے سڑک عبور کرنے کی کوشش میں ایک تیز رفتار منی بس نے ٹکّر ماری اور جب یہ طالبات سڑک پر گر گئیں تو بریک لگتے لگتے بھی بس کی رفتار اس قدر تیز تھی کہ یہ طالبات اُسی منی بس کے پہئیوں کے نیچے کچل گئیں۔

دیگر دستیاب معلومات کے مطابق بشریٰ زیدی اور اُن کی بہن ’ایکس تھری‘ روٹ کی منی بس میں سوار کالج جارہی تھیں اور کالج کے قریب ترین بس سٹاپ پر اترنا چاہتی تھیں، مگر دراصل منی بس اپنے ہی روٹ کی ایک اور منی بس سے ریس کررہی تھی۔

کراچی

ریس کا مقصد تفریح نہیں لالچ تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ مسافروں کو سوار کرنے کا موقع دوسری منی بس کو نہ مل سکے اور آگے رہنے والی منی بس زیادہ مسافروں کو سوار کرکے زیادہ کرایہ وصول کرسکے۔

ممکنہ طور پر لالچ اور ضد کے یہی جذبات اس حادثے کی وجہ بن گئے۔

اسی ریس میں ڈرائیور نے کالج کے قریبی سٹاپ پر نہ رکنا چاہا جہاں اُس وقت سوار ہونے والا کوئی مسافر نہیں تھا۔

ڈرائیور کی کوشش تھی دوسری منی بس سے پہلے اگلے سٹاپ پر پہنچ کر وہاں موجود مسافروں کو سوار کرلیا جائے۔

اس جلدی میں ڈرائیور نے منی بس کی رفتار بڑھائی مگر جب بشریٰ اور اُن کی بہن نجمہ سمیت دو اور طالبات نے بھی ڈرائیور اور کنڈیکٹر سے کہا انہیں تو یہیں کالج کے سٹاپ پر اترنا ہے تو ڈرائیور نے کہا کہ وہ منی بس روکے گا تو نہیں مگر رفتار بہت کم کرسکتا ہے تاکہ یہ طالبات چلتی منی بس سے ہی اتر جائیں۔

جب بس کی رفتار آہستہ ہوگئی تو بشریٰ سمیت کئی طالبات نے چلتی بس سے اترنے کی کوشش کی اور اسی کوشش میں بس سے اترتے ہی لڑکھڑا گئیں۔

پہلے بشریٰ اور پھر نجمہ لڑکھڑا کر سڑک پر گریں اور اس ہی منی بس کے پچھلے پہیوں سے کچل گئیں۔

نتیجے میں بشریٰ جسم کے اوپری حصّوں اور سر پر چوٹ کی وجہ سے موقع پر ہی دم توڑ گئیں جبکہ اُن کی بہن نجمہ کی ٹانگ پہیوں سے کچل کر ٹوٹ گئی۔

روزنامہ ’نئی بات‘ کے ریزیڈینٹ ایڈیٹر مقصود یوسفی اُس وقت روزنامہ ’جسارت‘ کے لیے کراچی کے کرائم رپورٹر تھے۔

مقصود یوسفی نے بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے اس حادثے کے اسی موقف کی تائید کی۔

’اب جہاں تک میری یاد داشت کام کررہی ہے، بالکل ایسے ہی ہوا تھا۔‘ مقصود یوسفی نے یادداشت پر زور دیتے ہوئے کہا۔

’یہ منی بسیں اُس وقت بہت بے ہنگم انداز سے سڑکوں پر دوڑا کرتی تھیں اور ’یلو ڈیول‘ (پیلا شیطان) کہلاتی تھیں۔‘

جیو نیوز سے وابستہ صحافی مظہر عباس اُس وقت ڈان نیوز گروپ کے انگریزی اخبار ’اسٹار‘ کے کرائم رپورٹر تھے۔

مظہر عباس نے بھی دوسرے موقف کی تائید کی۔ ’مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ طالبات اُس ہی منی بس سے کچل گئی تھیں جس سے وہ اترنے کی کوشش کررہی تھیں۔‘

’غالباً وہ منی بس پوری طرح رُکی نہیں تھی مگر اب چونکہ چھتّیس سال گزر چکے ہیں تو اصل واقعہ تو دہرانے کے لیے اُس وقت کے اخبارات ہی کو دیکھنا پڑے گا تو فی الحال تو یہی یاد آرہا ہے کہ یہ حادثہ طالبات کے بس سے اترنے کی کوشش میں ہوا تھا۔‘

مگر ڈان گروپ کے اُس وقت شائع ہونے والے اردو اخبار ’حرّیت‘ کے اُس وقت کے کرائم رپورٹر تنویر خان پہلے موقف کی تائید کرتے ہیں۔

’تفصیلات تو اب مجھے بھی درست طور پر یاد نہیں ، مگر اتنا بڑے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ حادثہ تب ہوا جب یہ طالبات سڑک عبور کررہی تھیں۔ یہ وہی ’یلو ڈیول‘ منی بس تھی۔‘

کچل جانے کے بعد دونوں بہنوں کو زخمی سمجھ کر ناظم آباد سات نمبر میں واقع عباسی شہید ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹرز نے بیس سالہ طالبہ بشریٰ کے ہلاک ہو جانے کی تصدیق کی اور اُن کی زخمی بہن نجمہ کو طبّی امداد فراہم کی گئی۔

تیسرا موقف آج کی کراچی پولیس کی اعلیٰ افسران نے دیا۔

اب جب کراچی پولیس کی اعلیٰ قیادت سے اس واقعے کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تو کہیں نیچے دب جانے والے ریکارڈ تک رسائی میں مشکلات کے باوجود کراچی پولیس کے اعلیٰ افسران تا دمِ تحریر یہی تصدیق کرسکے کہ دونوں طالبات بشریٰ زیدی اور اُن کی بہن نجمہ جب اپنی منی بس سے اتریں تو انہیں عقب سے آنے والی ’ایکس تھری‘ رُوٹ کی کسی اور تیز رفتار منی بس نے کچل ڈالا۔

بشری

بشری کی قبر کا کتبہ

’ڈرائیور فرار نہ ہوتا تو بھی شاید معاملہ سلجھ سکتا تھا‘

صحافی مقصود یوسفی کا کہنا ہے کہ واقعہ ہوتے ہی ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا۔

’اگر حادثے کے بعد ڈرائیور فرار نہ ہوتا اور پولیس اُسے گرفتار کرلیتی یا پھر ٹرانسپورٹ اتحاد کے رہنما و قائدین بشری زیدی کے خاندان سے فوری طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے تو بھی شاید معاملہ سلجھ سکتا تھا۔‘ مقصود یوسفی نے کہا۔

ذرائع ابلاغ ہوں یا اہلِ علاقہ، اُس زمانے کے طلبا و طالبات ہوں یا صحافی و تجزیہ نگار، پولیس و انتظامیہ کے اہلکار ہوں یا سیاستدان، سب کے سب اس ایک نکتے پر متفق ہیں کہ کراچی میں اُس وقت شہریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز، مالکان، عملے اور پبلک ٹرانسپورٹ کی مختلف تنظیموں کے درمیان ایک کشیدگی پہلے ہی سے موجود تھی۔

’مگر ویسی نمایاں نہیں تھی جیسی اس حادثے سے ہوگئی۔‘

صحافی مقصود یوسفی، مظہر عباس اور تنویر خان تینوں ہی کا کہنا ہے کہ چونکہ ڈرائیور، پشتون، کشمیری یا پنجابی تھا اور اُس زمانے میں کراچی میں زیادہ تر بس، منی بس، ٹیکسی اور رکشہ سمیت قریباً نوّے فیصد پبلک ٹرانسپورٹ پختون آبادکاروں کی ملکیت تھی اور وہی ڈرائیور کنڈیکٹر سے لے کر ٹرانسپورٹ تنظیموں کے اعلیٰ عہدیداران بھی تھے۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے مسافروں میں سب سے زیادہ تعداد شہر کی قدیم اردو بولنے والی آبادی کی تھی جبکہ ڈرائیورز، عملہ (کنڈیکٹر ، کلینر وغیرہ) غیر مقامی تھے اور پشتو، کشمیری یا پنجابی بولتے تھے۔

شہر کے حالات، ثقافت اور مقامی آبادی کے طرز زندگی سے ناواقفیت کہہ لیجیے یا کم علمی یا پھر نئی جگہ کے اثرات یا کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی دھن، یہ گاڑیاں عموماً انتہائی لاپرواہی سے چلائی جاتی تھیں۔

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہو یا قواعد و ضوابط سے آگہی کی کمی ہو یا شہر کی ثقافتی زندگی سے ناواقفیت اس بنیاد پر مقامی شہریوں اور غیر مقامی ٹرانسپورٹرز کے درمیان اکثر چپقلش دکھائی دیتی تھی۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے عملے کے ارکان ڈرائیورز اور کنڈیکٹر وغیرہ کا طرز عمل اور مقامی شہریوں کی انا ہو یا رویّہ ان وجوہات کی بنا پر یا پھر کرائے، بد تہذیبی کی شکایات اور آئے دن رونما ہونے والے حادثات، سب نے مل کر مقامی شہریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کے اس عملے اور شہریوں کے درمیان ایک خلیج قائم کردی تھی۔

یہ شکایات بھی عام تھیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے غیر مقامی ڈرائیورز، کنڈیکٹرز یا مالکان، مسافروں خاص طور پر خواتین سے بدسلوکی کرجاتے ہیں اور زیادہ پیسے کمانے کی اس دوڑ میں مقامی ثقافت متاثر ہورہی ہے۔

شہری اس بے ہنگم ٹریفک سے بہت نالاں تھے خصوصاً نوجوانوں میں تاثر عام تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران خواتین خصوصاً کم عمر اور نوجوان خواتین سے بدسلوکی اور بس تہذیبی روز کا معمول بن گئی ہے۔

اب چاہے اتفاق کہہ لیجیے کہ جس منی بس نے بشریٰ زیدی کو کچل کر ہلاک کردیا تھا اُسے بھی ایک پشتون (یا کشمیری) ڈرائیور ہی چلا رہا تھا۔

اسی لیے بشریٰ زیدی کے اس حادثے پر احتجاج کرنے والے ان طلبا و طالبات کے اس غم و غصّے اور اشتعال کا رُخ اچانک تبدیل ہوگیا اور مشتعل ہجوم میں پبلک ٹرانسپورٹ کے خلاف جاگ جانے والے جذبات اچانک ایک نیا رخ اختیار کرگئے۔

صحافی مقصود یوسفی نے کہا کہ ’یہ بدقسمتی تب بھی تھی اور اب بھی ہے کہ ہمارے ہاں (پاکستان میں) اس قسم کے واقعات کے بعد ذمہ دار (ڈرائیور یا اور ملزمان) یا تو ’فرار‘ ہوجاتے ہیں یا پھر فرار کروا دیے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں ’ٹرانسپورٹ مافیا‘ بھی ایسا ہے کہ اس طرح کے واقعات کے بعد ڈرائیور فرار ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں ملی بھگت کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔

قوانین اور ضوابط یا تو تھے نہیں یا پھر درست طور پر نافذ نہیں تھے۔

’پولیس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ‘

ایک طرف تو بشریٰ زیدی کو کچلنے والا ڈرائیور بھی موقع سے ’فرار‘ ہوگیا اور دوسری جانب پولیس نے بھی ذمہ دار ڈرائیور کو گرفتار کرنے یا حادثے کے بعد کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے نہ تو مناسب اقدامات کیے اور نہ ہی مستعدی دکھائی۔

مقصود یوسفی نے کہا ’اگر بشریٰ زیدی کی اس المناک موت کا ذمہ دار ڈرائیور فرار نہ ہوتا یا پولیس معاملے میں سنجیدگی دکھاتی تو شاید اتنی تباہی و بربادی کی نوبت نہ آتی۔‘

صحافی تنویر خان کا کہنا ہے کہ اُن کی معلومات کے مطابق ڈرائیور پشتون نہیں بلکہ پنجابی تھا۔ اگر پولیس چاہتی تو اُسے گرفتار کرسکتی تھی۔

بعض ذرائع نے دعویٰ کیا کہ حادثے کی وجہ بننے والی منی بس دراصل کسی پولیس افسر کی ملکیت تھی اور حادثے کے بعد ہونے والے احتجاج سے نمٹنے کی ذمہ دار پولیس کے افسران یہ بات جانتے تھے۔

اسی لیے پولیس کی جانب سے سنجیدہ کارروائی نہیں کی گئی یا جانبداری کا برتاؤ کیا گیا۔

لیکن اب اتنے عرصے بعد آزاد ذرائع سے ان دعووں کی آزادانہ تصدیق یا تردید قریباً ناممکن ہے۔

پولیس

صحافی تنویر خان کا کہنا ہے کہ دراصل ٹرانسپورٹ سے متعلق قوانین اور قواعد و ضوابط یا تو بہت نرم تھے یا پھر اُن پر عملدرآمد کا طریقۂ کار ایسا تھا کہ ٹریفک حادثوں کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا نہیں مل پاتی تھی۔ ’اور ٹریفک حادثے جرمِ اتفاقی کے زمرے میں تھے ایسے مقدمات میں سزا کا امکان نہ ہونے کے برابر اور جرمانہ بہت معمولی ہوتا تھا۔‘

حادثے کے بعد شدید ردّعمل اور احتجاج کیسے منظم ہوا؟

سر سیّد کالج کی ایک سابق طالبہ عظمیٰ ندیم کا کہنا ہے کہ کالج کے آس پاس کئی اور تعلیمی ادارے بھی واقع تھے۔

’بالکل ہی برابر میں گورنمنٹ گرلز کالج کی عمارت تھی، ذرا ہی فاصلے پر عثمانیہ کالج تھا، کچھ ہی دور طلبا کے لیے مخصوص سٹی کالج اور سے چند سو گز دور مخلوط تعلٰیمی ادارہ پریمیئر کالج اور پھر سڑک کے عین دوسری جانب طلبا کا گورنمنٹ کالج فار مین تھا۔

یعنی ایک ہی سڑک پر پانچ اور دوسری طرف چھٹا کالج تھا۔ آس پاس کئی سکول بھی تھے جن میں طلبا و طالبات دونوں ہی زیر تعلیم تھے۔

عظمیٰ ندیم کی ایک اور ہم جماعت سیما رضوی کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کے تمام ہی تعلیمی اداروں سے طلبا و طالبات ہزاروں کی تعداد میں سرسیّد گورنمنٹ گرلز کالج کے سامنے عین جائے حادثہ پر جمع ہوگئے۔

سر سیّد کالج کی ایک سابق طالبہ سیما مسعود کے مطابق ’ان ہزاروں طلبا و طالبات کی اکثریت قریبی علاقوں ناظم آباد، رضویہ، پاپوش نگر، نارتھ ناظم آباد، حیدری اور دیگر علاقوں سے ان تعلیمی اداروں میں آتی تھی لہٰذا یہ خبر اُن علاقوں میں بھی چشمِ زدن میں پہنچ گئی۔‘

چونکہ موبائل یا ڈیجیٹل کمیونیکیشن (یا بے تار پیغام رسانی) کا تو تصوّر بھی نہیں تھا نہ فونز تھے، نہ انٹرنیٹ اور نہ ہی ٹی وی کے لائیو نیوز چینلز۔

’لہٰذا پریشان حال والدین یا طالبات کے بھائی بہن اور دیگر اہل خانہ اس صورتحال میں پھنس جانے والی اپنی بچیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے کالج کے مرکزی دروازے پر جمع ہونا شروع ہوئے اور یوں کچھ ہی دیر میں ایک اتنا بڑا مجمع جمع ہوا جس سے نمٹنا اس صورتحال میں قطعاً آسان نہ رہا۔‘

ڈاکٹر شگفتہ ناز نقوی اب امریکہ میں مقیم انتہائی مصروف ڈاکٹر ہیں بشریٰ زیدی کے حادثے کے وقت وہ سرسیّد کالج کی ممتاز طالب علم رہنما تھیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جب یہ واضح ہوگیا کہ ہلاک ہونے والی طالبہ بشریٰ زیدی کا تعلق بھی سرسیّد کالج سے ہی ہے تو کالج کی انتظامیہ کے بعض اراکین نے خود بھی طالبات کو باہر جانے اور احتجاج میں شامل ہونے کی ترغیب یا موقع دیا۔

ڈاکٹر شگفتہ نقوی نے کہا ’ہمیں تو خود تب کہا گیا کہ جاؤ باہر جاکر دیکھو۔ تب تک بے انتہا ہجوم کالج کے سامنے اور آس پاس کی سڑکوں ہو جمع ہوچکا تھا۔‘

ڈاکٹر شگفتہ کے مطابق ساتھی طالبہ کی اس المناک ہلاکت اور بے ہنگم پبلک ٹرانسپورٹ کی اس لاپرواہی کے خلاف اس ہجوم نے احتجاجاً سڑک پر دھرنا دے دیا۔

اُس وقت قریبی علاقے رضویہ کے مکین ڈاکٹر ناصر نقوی بھی اب امریکہ ہی میں مقیم ہیں۔

ڈاکٹر ناصر تب شہر کے جنوبی علاقے میں واقع آدم جی سائنس کالج میں زیر تعلیم تھے۔

’جب ہمیں اطلاع آئی کہ سرسیّد کالج کی کسی طالبہ کی کسی حادثے میں ہلاکت ہوئی ہے تو میں سر سیّد کالج میں زیرِ تعلیم اپنی بہن کی تلاش میں بڑی پریشانی کی حالت میں بھاگا بھاگا وہاں پہنچا۔‘

ناصر نقوی کا کہنا ہے کہ ’تب تک نہ صرف وہاں جمع ہوجانے طلبا و طالبات بلکہ ہجوم بھی بے انتہا جذباتی ہوچکا تھا۔‘

عظمیٰ ندیم کہتی ہیں کہ ’اس واقعے کے وقت وہ کالج کی تیسری منزل پر واقع اپنے کلاس روم میں تھیں۔‘

حادثے کی اطلاع اندر کالج میں پہنچنے پر پورے کالج کو زبردست خوف و ہراس اور بے چینی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

جب طالبات حادثے کے جمع ہوجانے والے ہجوم ہنگامے اور شور و غُل سے گھبرا کر کلاس رومز سے نکلنے لگیں تو ہماری پرنسپل (غالباً مسز نعیم شاہ) نے انہیں تاکید کی کہ وہ کالج کے اندر رہیں۔

سیما مسعود اور عظمیٰ ندیم کا کہنا ہے کہ ’اچانک کلاس کے باہر شور اور افراتفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔ شور اتنا بڑھا کہ بالآخر کلاس میں تدریس ہی رُک گئی اور ہم سب کلاس رومز سے باہر نکل آئے۔‘

ناظم آباد ہی کی رہائشی سیما رضوی بھی اُس وقت عظمیٰ ندیم کی ہم جماعت تھیں اور سر سیّد کالج کی طالبہ تھیں۔

سیما رضوی نے وہ منظر یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’کلاس رومز سے باہر نکل کر ہم سب کالج کے گراؤنڈ میں پہنچے تو قریباً تمام ہی طالبات کا زبردست ہجوم وہاں جمع تھا۔ ہم سب بہت پریشان تھے کہ اب ہوگا کیا؟‘

’میں چونکہ قریب ہی ناظم آباد میں واقع اپنے محلّے کی کئی دیگر طالبات کے ساتھ کالج آتی جاتی تھی اس لیے اس ہنگامی صورتحال سب سے پہلے تو مختلف جماعتوں کی سینکڑوں طالبات کے ہجوم میں اپنی دوستوں کو تلاش کرنا چاہا۔‘

’بہت خوف اور پریشانی کا عالم تھا۔ باہر ہجوم کی چیخ و پکار اور اندر کالج میں گھبرائی ہوئی طالبات کے فکر انگیز چہروں پر ٹپکتا خوف و ہراس۔‘

عظمیٰ ندیم کے بقول بھی ’ایسا اشتعال اور ایسی ہنگامہ آرائی تو اس سے پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کراچی میں ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔‘

سیما مسعود نے بتایا کہ ’جب تک ہم سب کالج سے باہر نکلے تب تک مشتعل ہجوم بے قابو ہونا شروع ہوچکا تھا۔ طلبا کی نعروں کی آوازوں سے سارا علاقہ گونج رہا تھا۔‘

ڈاکٹر ناصر نقوی نے کہا ’جب میں وہاں پہنچا تو سرسیّد کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کی طلبا و طالبات نے سڑک بند کر رکھی تھی۔‘

سرسیّد کالج کی سابق طالبہ سیما رضوی کے مطابق مشتعل ہجوم جن میں طلبا کی بہت بڑی تعداد تھی ان کی جانب سے جلد ہی گاڑیوں پر پتھراؤ شروع ہوگیا اور صورتحال قابو سے باہر ہوتی چلی گئی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سابق طالبعلم رہنما اور قریب واقع گورنمنٹ کالج فار مین کے سابق طالبعلم نے کہا کہ پھر ہجوم میں شامل بعض عناصر نے آتی جاتی مسافر بس، ویگن اور پبلک ٹرانسپورٹ سے متعلق دیگر گاڑیوں رکشہ یا ٹیکسی وغیرہ پر پتھراؤ شروع کردیا۔

انھوں نے نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا ’ہنگامہ آرائی اور ہجوم کے اشتعال کو بھانپتے ہوئے چورنگی سے گولیمار (جو اب گلبہار کہلاتا ہے) تک سڑک کے دونوں جانب پھیلے ہوئے کافی بڑے بازار کے دکانداروں نے بھی عافیت اسی میں جانی کے کاروبار بند کرکے محفوظ انداز میں انتظار کیا جائے اور دیکھا جائے کہ اب ہونے کیا جارہا ہے۔‘

اس طالبعلم رہنما کے مطابق ’پتھراؤ بے ہنگم یا غیر منّظم نہیں لگا جس سے اندازہ ہونے لگا کہ یہ بظاہر اچانک پھوٹ پڑنے والا احتجاج خاصا منظّم ہے اور یہ صورتحال بہت جلد نہیں سنبھلے گی۔‘

تشدد اوع ’لسانی فساد‘ کا آغاز کیسے ہوا؟

آہستہ آہستہ معاملہ اس قدر مخدوش ہوا کہ ہجوم میں شریک مشتعل عناصر نے آتی جاتی کسی بس (یا غالباً) بشریٰ زیدی کے حادثے کی ذمہ دار منی بس کو نذر آتش کر ڈالا۔

بس پھر کیا تھا۔ جب ایک گاڑی کو آگ لگا دی گئی ہو تو اُس کے بعد نہ تو کوئی گزرتی گاڑی محفوظ رہتی ہے اور نہ ہی کوئی تاخیر سے بند ہونے والی دکان، اور یہی ہوا۔

یہ واقعہ گلبہار تھانہ کی حدود میں ہوا تھا جو ذرا ہی دور واقع تھا۔ وہاں سے پولیس کے موقع پر پہنچنے تک جب ہنگامہ آرائی قابو سے باہر ہوئی تو پولیس نے آتے ہی مشتعل ہجوم پر دھاوا بول دیا۔

سیما مسعود کے مطابق جب سر سیّد کالج کی طالبات کی بڑی تعداد سڑک پر نکلی تب تک پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے گولے داغے جاچکے تھے۔

’اس قدر ٹئیر گیس (آنسو گیس) فائر کی گئی تھی کہ آس پاس کا ماحول آنسو گیس کی لپیٹ میں تھا، یوں لگتا تھا جیسے اندھیرا چھا گیا ہو۔‘

موقع پر بھیجی جانے والی پولیس نے مشتعل ہجوم پر قابو پانے کے لیے لاٹھی چارج اور گرفتاریاں شروع کیں تو بات صرف ناظم آباد چورنگی سے لسبیلہ جانے والی نواب صدیق علی خان روڈ یا لیاقت آباد سے پاک کالونی جانے والی سیّد الطاف علی بریلوی روڈ تک محدود نہیں رہی۔

پولیس سے ہونے والی جھڑپوں میں کئی طلبا زخمی اور درجنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

’آس پاس کے علاقوں میں بھی پرتشدّد واقعات رونما ہونے لگے اور پولیس اُن مظاہرین یا مشتعل احتجاجی مجمع کے تعاقب میں گلی محلّوں میں جاپہنچی۔‘

صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق ذرا ہی دیر میں بظاہر یہ اچانک شروع ہوجانے والا احتجاج پولیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور ہجوم کے خلاف طاقت کے زبردست استعمال کی وجہ سے ذرا ہی سی دیر میں منظّم لسّانی فساد کی شکل اختیار کرگیا۔

’جلد ہی آپ پاس کے کالجز کے طلبا بھی اس احتجاج میں شامل ہوگئے اور اور معاملہ تب بگڑا جب بعض عناصر نے گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کیا۔‘

کئی منی بسیں نذر آتش کردی گئیں اور جب پولیس موقع پر پہنچی تو کئی گاڑیوں (بس اور منی بس) کو نقصان پہنچ چکا تھا۔پولیس نے معاملے پر قابو پانے کی کوشش کی تو کئی طلبا زخمی ہوگئے اور کئی گرفتار کر لیے گئے۔

یہ ہنگامہ آرائی گولیمار، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور لیاقت آباد تک پھیل گئی جبکہ اورنگی ٹاؤن اور بنارس جیسے علاقوں میں بھی تواتر سے احتجاج کے واقعات رونما ہوئے۔

اس احتجاج کے دوران پہلے تو صرف پبلک ٹرانسپورٹ پر غصّہ نکالا گیا اور پھر ہر طرف اس اشتعال نے الگ الگ انداز اختیار کیا۔

شہر میں طویل عرصے سے آباد اہلِ کراچی کے مطابق دراصل جب بس، منی بس سمیت رکشہ، ٹیکسی اور پبلک ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والی دیگر گاڑیوں پر حملے ہوئے یا انہیں دوران احتجاج نذر آتش کیا جانے لگا تو ٹرانسپورٹ مالکان کی تنظیموں کی جانب سے بھی غم و غصّے کا اظہار ہوا۔

کراچی

ٹرانسپورٹرز اور اُن کی تنظیموں کی جانب سے بھی شہر کے مختلف علاقوں میں اس احتجاج کے خلاف آوازیں اور عملی مزاحمت کے واقعات رونما ہوئے۔

بس منی بس مالکان جن میں اکثریت پشتونوں یا غیر مقامی افراد کی تھی، اپنی گاڑیوں، ڈرائیورز اور عملے کے ارکان کی حفاظت کے لیے متحرک ہوئے اور مقامی آبادی اور غیر مقامی آبادکاروں کے درمیان مخالفت کا ماحول بن گیا۔

آس پاس کے علاقوں میں ناظم آباد، فردوس کالونی، خاموش کالونی، پاپوش نگر سے لے کر قصبہ، علی گڑھ، اورنگی ٹاؤن اور پہاڑ گنج جیسے علاقوں میں اردو بولنے والی مقامی آبادی اور ان ہی علاقوں میں آباد غیر مقامی (زیادہ تر پشتون) افراد کے درمیان کشیدگی کا ماحول پیدا ہوگیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے تشدّد کے چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے بڑے منظم حملوں میں بدلنے لگے۔

ڈیجیٹل کمیونیکیشن (انٹرنیٹ ، موبائیل فون وغیرہ) نہ ہونے کی سبب اصل حقائق کی سینہ بہ سینہ ترسیل کے ساتھ ساتھ افواہوں کا بازار بھی ایسا گرم ہوا کہ بات حملوں سے ہلاکتوں تک جاپہنچی۔

گُرو مندر سے لسبیلہ تک پٹیل پاڑہ، پاک کالونی بسم اللہ ہوٹل گارڈن اور نارتھ ناظم آباد سے کوچی کیمپ تک کی آبادیوں میں ذرا ہی دیر میں ایسے آتشیں ہتھیاروں کی گونج سنائی دینے لگی جو اس سے پہلے کراچی میں کبھی نہیں سنّی گئی تھی۔

جب ان واقعات میں ہلاکتوں کی اطلاعات آنی اور (اس وقت کے) وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کی انتظامیہ کے کانوں تک پہنچنی شروع ہوئیں تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

حالات اتنے بگڑے کے فوج کو طلب کرنا پڑا

ایک طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا طلبا و طالبات کا احتجاج باقاعدہ لسّانی فساد کی شکل اختیار کرکے کئی قیمتی جانوں کا خراج وصول کرچکا تھا۔

فساد کا دائرہ کئی بستیوں آبادیوں اور محلّوں تک پھیل چکا تھا اور ہر طرف سے حملوں اور ہلاکتوں کی اطلاعات آرہی تھیں۔

موجودہ پولیس افسران کے فراہم کردہ مواد کے مطابق صورتحال اتنی بگڑی کہ بالآخر فوج کو طلب کرنا پڑا۔

فوج کے آنے آنے تک گلی گلی میں خوف و ہراس کا اندھیرا چھانے لگا۔

پولیس کے مطابق فوج اور انتظامیہ نے سہراب گوٹھ سے کھارادر تک اور اورنگی ٹاؤن سے صدر تک جگہ جگہ ایسے علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا جہاں اردو بولنے والی مقامی یا پشتو بولنے والی غیر مقامی آبادیوں کے اکثریت تھی۔

قریباً پورے شہر پر یا تو جمود طاری تھا یا پھر دہشت اور وحشت برس رہی تھی۔

صورتحال اس قدر مخدوش تھی کہ انتظامیہ کو کرفیو کے نفاذ کے باوجود شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

کراچی

ہر قسم کی تجارتی و کاروباری سرگرمیاں معطل ہو گئیں اور جائیداد و املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایا گیا۔

پولیس کے مطابق کرفیو کے نفاذ سے خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کی بھی شدید قلّت پیدا ہوگئی جبکہ تمام تعلیمی ادارے بھی غیر معینہ مدّت تک کے لیے بند کردیے گئے مگر حملوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔

اخبارات کے مطابق بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فساد میں کئی افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔

منظّم حملوں میں ٹیوب لائٹ بموں اور کلاشنکوف کا استعمال

صحافی تنویر خان اور مقصود یوسفی کے مطابق رات گئے تک جاری رہنے والا یہ سلسلہ آئندہ کئی ہفتوں تک نہیں تھم سکا۔

’پھر پوری پوری آبادیوں پر بھرپور و منظم حملے شروع ہوئے اور ہر جانب سے موجود یا دستیاب یا اچانک دستیاب ہوجانے والے جدید و خودکار آتشیں اسلحے کا آزادانہ استعمال شروع ہوا۔‘

صحافی تنویر خان کے مطابق انہی فسادات کے دوران اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں پہلی مرتبہ ’ٹیوب لائٹ بم‘ استعمال کیا گیا۔

یہ بم بنانے کے لیے ٹیوب لائٹ میں بارود اور چھرّے یا نٹ بولٹ اور دیگر دھاتی مواد بھر کر اسے خصوصی طور پر تیار کردہ کمان کے ذریعے مخالفین کی جانب داغا جاتا تھا اور یہ جہاں گرتا وہاں آگ لگا دیتا تھا۔

حُکّام کا خیال تھا کہ ’یہ بم وہ تربیت یافتہ عناصر تیار کررہے ہیں جو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی جیسی مسلّح تنظیموں کا مقابلہ کرچکے ہیں اور اب اورنگی جیسے علاقے میں آباد ہیں۔‘

دوسری جانب کراچی والوں نے سہراب گوٹھ جیسی بستیوں میں وہ کلاشنکوف رائفل بھی پہلی بار چلتے دیکھی جو افغانستان کی جنگ کا ’تحفہ‘ بن کر پاکستان پہنچی تھی۔

اخبارات کا دعویٰ ہے کہ بشریٰ زیدی کی اس ہلاکت کے بعد کئی ہفتوں جاری رہنے والے تشدّد کے اس طویل سلسلے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد پچاس سے دو سو تک چلی گئی۔

مقصود یوسفی مظہر عباس اور تنویر خان سب نے ہی اتفاق کیا کہ شاید اصل تعداد اس سے بھی زیادہ رہی ہو۔

تنویر خان نے کہا کہ ’اُس زمانے میں صرف سول ہسپتال میں مورچری (مردہ خانہ) تھی جہاں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے لائی جاتی تھیں۔‘

’شہر کے اور کسی بھی ہسپتال میں یہ شعبہ موجود نہیں تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے روزانہ وہاں پچیس پچیس تیس تیس لاشیں آتی دیکھی تھیں۔‘

سر سیّد کالج کی سابقہ طالبات سیما مسعود، عظمیٰ ندیم اور سیما رضوی کا کہنا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو اُن کا کالج بھی بند تھا اور وہ بحفاظت اپنے گھروں میں تھیں مگر تب تک شہر میں جو ماحول بن گیا تھا اس سے تو گھر کے اندر بھی ڈر لگ رہا تھا۔

’مگر یہ ڈر سب کو نہیں تھا۔‘ ایک سابق طالبعلم رہنما نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بات کی۔

انھوں نے کہا ’اصل میں یہ غصّے کا وہ لاوا تھا جو بہت دیر سے پھٹ پڑنے کا منتظر تھا۔ یہ وہ نفرت اور اشتعال تھا جس کا ایک تسلسل اور پس منظر تھا۔‘

صحافی مظہر عباس بھی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا کہ اس سے پہلے کراچی میں ٹریفک حادثے نہیں ہوتے تھے یا ایسے حادثات میں معصوم جانیں ضائع نہیں ہوتی تھیں مگر جس انداز میں بشریٰ زیدی کے حادثے کا ردعمل آیا اور جس انداز سے پورے شہر میں آگ لگ گئی یا لگائی گئی وہ بہت حیران کُن تھا۔

’ایسا لگ رہا تھا کہ ایسے کسی واقعے کا انتظار کیا جارہا تھا۔‘ مظہر عباس نے کہا۔

تو پھر یہ پس منظر تھا کیا اور بشریٰ زیدی کے کسی حادثے کا انتظار اگر کیا جارہا تھا تو اِس کے پسِ پردہ کیا عوامل اور کون سی قوّتیں کار فرما ہوسکتی تھیں ؟

اس سوال کا جواب اُس وقت کی سیاسی ماحول کے جائزے اور تجزیے میں پوشیدہ ہوسکتا ہے۔

کراچی

اُس وقت کا سیاسی منظر نامہ کیا تھا؟

کراچی کی تاریخ پر گفتگو کرنے والے بہت سے صحافیوں ، تجزیہ نگاروں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ 1970 کی دہائی کے اختتام تک بھی کراچی میں ملک بھر کی تمام قومیتوں فرقوں اور نسلی گروہوں کے لوگ روزگار کی تلاش میں مختلف علاقوں میں آباد ہوچکے تھے یا اُن کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔

شہر کی کثیرالنسلی یا کثیرالقومی حیثیت بننا شروع ہوچکی تھی اور ہر رنگ نسل مذہب فرقے اور مسلک کے لوگ وہاں آباد تھے مگر اُس وقت شہر کا ماحول انتہائی پرامن تھا۔

مجھے یاد ہے کہ ہماری گلی میں ایک پختون ٹیکسی ڈرائیور کا خاندان آباد تھا اور ہم سب بچّے جن میں اُس گھرانے کے بچوں گُل شیر، خطاب اور مجید کے ساتھ مل کر محلّے میں کھیلا کرتے تھے۔

گھر ہو یا محلہ، شہر ہو یا مضافات، کہیں دور دور تک فرقہ واریت، عدم برداشت یا طاقت و تشدد کا نام بھی نہیں تھا۔

تب تک ہنستے کھیلتے شہر کے قریباً ہر علاقے میں صرف مذہبی رسوم و تقریبات ہی نہیں بلکہ ناظم آباد سمیت ہر محلّے میں میوزیکل کنسرٹس اور انسڑومینٹل فنکشنز باقاعدگی سے ہوتے تھے۔

گٹار، ڈھول، کانگو اور کی بورڈ سے شیعہ اور سنّی دیوبندی اور بریلوی تمام گھرانوں میں صرف موسیقی کے سر و تال پھوٹتے تھے بھائی چارے اور اجتماعی اپنائیت کے سینے پر فرقہ واریت کا ماتم تب تک شروع نہیں ہوا تھا۔

لیکن 5 جولائی 1977 کو اُس وقت پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل ضیاالحق نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹّو کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔

تب بھی ذوالفقار بھٹّو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے تحت اہلِ کراچی کو میرٹ یا قابلیت کی بجائے کوٹہ سے ملازمت اور تعلیمی اداروں کے داخلوں میں حصّہ ملتا تھا۔

سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے قابلیت کی بجائے رہائشی علاقے کو فوقیت دی جاتی تھی۔

کوٹہ سسٹم کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں میں چوں کہ تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل آبادی رہتی ہے اس لیے تمام داخلے یا ملازمتیں کراچی یا سندھ کی شہری آبادی والوں میں “بٹ” جاتی ہیں ، ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔

شہری آبادی کے بڑے حصّے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لئے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اردو بولنے والی اس آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں۔

ایسے میں ہی دراصل اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز شہریوں نے کراچی کے نوجوانوں کو اپنی سیاسی نمائندہ سیاسی تنظیم بنانے کا رہنما خیال پیش کیا۔

بالآخر اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے افراد کے خیالات سے شدید متاثر ہونے والے کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے شعبۂ فارمیسی کے طالبعلم الطاف حسین نے 11 جون 1978 کو آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) قائم کی۔

شہری سندھ کے احساس محرومی مایّوسی اور جواب میں انتہائی پرکشش نعروں کے سہارے یہ تنظیم شہر کے کئی تعلیمی اداروں میں جا پہنچی۔

پھر فروری 1981 میں اس تنظیم نے شہری علاقوں میں سرگرمیوں کا آغاز کیا جہاں خوب مقبولیت اور پذیرائی ملنے لگی۔

کراچی

پھر الطاف حسین امریکہ چکے گئے اور 18 مارچ 1984 کو اے پی ایم ایس او کی قیادت نے مہاجر قومی موومنٹ یا ایم کیو ایم بنانے کا اعلان کیا تو کچھ عرصے بعد الطاف حسین واپس کراچی آگئے۔

تب تک بھی ذوالفقار بھٹّو کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کرنے والے جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کو ملک بھر میں عوامی مدد اور حمایت حاصل نہیں تھی اور ضیا حکومت سیاسی حمایت اور پذیرائی کی متلاشی تھی اور سیاسی دوست تلاش یا ’پیدا‘ کرنا چاہتی تھی کہ اسی اثناء میں بشریٰ زیدی کا حادثہ رونما ہوا۔

فوجی حکومت کی جانب سے ’پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کی کوشش‘

بشریٰ زیدی سانحے پر گفتگو کرنے والے کئی تجزیہ نگار اس بات پر متفق نظر آئے کہ جنرل ضیا کی حکومت پیپلز پارٹی کے گڑھ یعنی سندھ خاص طور پر صوبے کے شہری علاقوں میں ذوالفقار علی بھٹّو کی پیپلز پارٹی کا زور توڑنا چاہتی تھی۔

’اس مقصد کے لیے بشریٰ زیدی کا حادثہ کافی ’مددگار‘ ثابت ہوسکتا تھا۔‘

ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا انتظامیہ کو یہ نظر آیا کہ اگر سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت توڑنے کے لیے لسّانی سیاست کے نام پر تقسیم کی پالیسی اپنا لی جائے تو شاید کراچی جیسے شہروں میں پیپلز پارٹی جیسے خطرات کو ٹالا جاسکتا ہے۔

ان تجزیہ نگاروں کے مطابق ضیا حکومت افغان جنگ کے ’ثمرات‘ سمیٹنے کے لیے مسلسل اقتدار میں رہنا چاہتی تھی اور ہموار (اسموتھ) حکمرانی کے لیے پیپلز پارٹی جیسی سیاسی مخالف قوتوں کا خاتمہ ضروری سمجھا گیا۔

اب محض اس حکمت عملی پر عملدرآمد کے لیے موقع کا انتظار تھا اس سلسلے میں سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی ہی کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پائی جانے والی بے چینی اور احساس محرومی کو استعمال کیا جاسکتا تھا۔

’اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سندھ کے شہری علاقوں میں لسّانی تقسیم اور اردو بولنے والی آبادی کی بے چینی اور اُس میں پائے جانے والے احساس محرومی کو بھی باآسانی اور بخوبی بھڑکایا جاسکتا تھا۔‘

سندھ اگر سندھی قوم پرستوں اور اردو بولنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے درمیان تقسیم ہوجاتا یا پھر وہاں گروہی نسلی فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات کا بیج بویا جاسکتا تھا تو یہ صورتحال پیپلز پارٹی کو اس پوزیشن میں نہیں رہنے دیتی کہ وہ پوری عوامی حمایت کی قوّت کے ساتھ جنرل ضیا کی فوجی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا سکے۔

بشری

بشری زیدی کی آخری آرام گاہ

’شاید ریاست کے فیصلہ سازوں نے یہی راستہ اپنانے کا فیصلہ کیا۔‘

اب صرف ایسی قوتوں کو تلاش کرکے مضبوط کرنا تھا جو اس حکمت عملی پر عملدرآمد کو ممکن بنا سکیں۔

جب الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے شہری علاقوں کے احساس محرومی پر آواز اٹھائی تو جنرل ضیا حکومت کو دکھائی دینے لگا کہ سندھ کے شہری علاقے خصوصاً کراچی کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا موقع حاصل کیا جاسکتا ہے۔

اب نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ اُن کے مخالفین کو بھی مضبوط کیا جانا تھا تاکہ یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔

عارف حسن پیشے کے اعتبار سے تو آرکیٹیکٹ ہیں مگر اُن کی اصل شہرت شہری علاقوں خاص طور پر کراچی کی آباد کاری (سوک ڈیویلپمنٹ) کے ماہر کے طور پر ہے۔

عارف حسن نے بشریٰ زیدی کے سانحے پر مجھ سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ یہ حادثہ ہوا کب تھا؟‘

جب افغانستان میں جنگ کے ’ثمرات‘ ہیروئن اور کلاشنکوف پاکستان پہنچ رہے تھے۔

حکومت کے اس وقت کیا مسائل تھے میں نہیں جانتا مگر جو مفاہمت کی جاسکتی تھی وہ نہیں کی گئی۔

’جسے ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں کیونکہ لوگ فوج کا نام لینے سے ڈرتے ہیں، وہ پیپلز پارٹی کی طاقت توڑنا چاہتی تھی۔‘

اس کو توڑنے کے لیے انھوں (جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت) نے ایم کیو ایم کو فروغ دیا۔

اس جھگڑے کو انھوں نے بڑھایا ایک زمانہ یہ بھی تھا کہ انھوں نے پیپلز پارٹی کو توڑنے کے ایم کیو ایم اور جئے سندھ کا بھی معاہدہ کروایا اور شہر کو اس حالت میں لے آئے تو وہ یونٹی (اتحاد) تھی سندھ میں وہ ٹوٹ گئی، جو وہ چاہتے تھے وہ ہوگیا۔

اہل کراچی میں ’شعور‘ کے نام پر شناخت لائی گئی کہ ہم کیا ہیں؟ اور یہ ایم کیو ایم لائی اور اب یہ ’شعور‘ بہت مشکل سے جائے گا۔‘ عارف حسن کے لہجے کی کاٹ بہت نمایاں تھی۔

صحافی مظہر عباس نے بھی عارف حسن کے موقف سے اتفاق کیا۔

مظہر عباس کا کہنا تھا ’اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‘

ایم کیو ایم کے لیے اسٹبلشمنٹ کا نرم گوشہ

بشریٰ زیدی کے حادثے کے وقت غوث علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اور میں ایک بار ان کا انٹرویو کیا تو غوث علی شاہ نے تسلیم کیا کہ انھوں نے جب سہراب گوٹھ آپریشن کرنا چاہا تھا تو انہیں کسی نے (اسلام آباد سے) فون کرکے کہا کہ ایسا نہ کریں اور انھوں نے مانا کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں روک دیا تھا۔‘

صحافی مقصود یوسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کا زور توڑنے کے لئے بشریٰ زیدی کی ہلاکت کے واقعے کو پوری طرح استعمال کیا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے پہلے میئر اور پھر پارٹی کے سب سے سینیئر رہنما سمجھے جانے والے ڈاکٹر فاروق ستار اب بشریٰ زیدی کے حادثے پر مجھ سے گفتگو میں (اور اس سے پہلے بھی کئی بار ہونے والی بات چیت میں) جنرل ضیا کی فوجی حکومت کی جانب سے الطاف حسین کی سرپرستی کو تسلیم کرچکے ہیں۔

فاروق ستار نے بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تو یکسر مسترد کردی کہ ایم کیو ایم کو مارشل لا نے پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کیلے لیے بنایا تھا مگر تسلیم کیا کوئی نرم گوشہ ضرور تھا۔

’بنایا جنرل ضیا نے نہیں تھا مگر مارشل لا دور میں ہم پروان چڑھ رہے ہیں تو یہ کھلی غمازی ہے کہ ساری توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے۔‘

کراچی

’وہاں پانچ لوگ جمع ہو جائیں تو دفعہ ایک سو چوالیس لگ جائے گی اور ہم کارنر میٹنگ علاقوں میں کررہے ہیں مگر کچھ نہیں ہورہا۔‘

فاروق ستّار نے بتایا کہ پوسٹر لگانے کے ’جرم‘ میں وہ خود ، ڈاکٹر عمران فاروق ، بدر اقبال اور اسحق خان شیروانی گرفتار ہوئے۔

مگر یہ جاننے کہ بعد ہم کو رہا کردیا گیا کہ ہمارا پیپلز اسٹوڈینٹس فیڈریشن (ذوالفقار بھٹّو کی پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم) سے کوئی تعلق نہیں۔

فاروق ستّار کا کہنا تھا ’پاکستان کی غلیظ سیاست کو اتنے قریب سے دیکھنے کے بعد اس سٹیج پر بھی میں یہ تسلیم نہ کروں کہ مارشل لا نے نرم گوشہ دیا تو میں انصاف نہیں کروں گا۔ میں مانتا ہوں سپیس دی گئی۔”

لیکن اب بشریٰ زیدی حادثے کے بارے میں گفتگو کے دوران فاروق ستّار نے کوٹہ سسٹم اور احساس محرومی پر بھی لب کشائی کی۔

’پاکستان بنانے والوں کا احساس محرومی تو بہت پہلے ہی سے بڑھ چکا تھا۔

انہیں یہاں ہجرت کرتے ہی جن مسائل کا سامنا ہوا اور جن حالات سے گزرنا پڑا ملازمتوں کے سلسلے میں اور اپنے بچوں کے تعلیمی اداروں کے داخلے کے سلسلے میں اور کوٹہ سسٹم جیسے معاملات پر ۔۔۔ تو ان میں احساس محرومی پہلے ہی سے تھا اور وہ اصل حقائق کو تو بہت پہلے بھانپ چکے تھے۔‘

’میں تو خود کوٹہ سسٹم کا شکار رہا ہوں۔ 1978 میں میرا سندھ میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخلہ ہوسکتا تھا مگر کوٹہ کی فہرست میں میرا ایک نمبر کم تھا۔‘

مجبوراً مجھے جام شورو یونیورسٹی میں داخلہ لینا پڑا وہاں بھی اردو بولنے کی وجہ سے جو سلوک ہوا اور پھر 1979 میں سندھ میڈیکل کالج میں میوچول ٹرانسفر کی بنا پر میرا داخلہ ہوا ۔ میں تو خود اس ناانصافی کا شکار رہا۔

فاروق ستار کے بقول ’ایسے ہی احساس محرومی کے ان گنت واقعات کے بعد بشریٰ زیدی کا واقعہ تو آخری کیل ثابت ہوا؟‘

فاروق ستّار کی بات بالکل درست ہوئی۔

بشریٰ زیدی کی ہلاکت کا المناک واقعہ آخری کیل تو ثابت ہوا مگر کراچی جیسے ہنستے بستے شہر کے امن کے تابوت میں۔۔۔

پھر اس کے بعد اس شہر کے باسی کبھی نسلی ، گروہی ، فرقہ وارانہ ، مسلکی اور قومی امن و سکون کے بستر پر ہم آہنگی کی نیند نہ سو سکے۔ سیّد الطاف علی بریلوی روڈ پر بہنے والے بشریٰ زیدی کے خون کا تاوان ہزاروں جانوں سے ادا کرنے والا کراچی آج بھی مکمل محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔

کسی بھی کالی سڑک پر کوئی بھی سرخ خون آج بھی بہایا جاسکتا ہے۔

ایم کیو ایم کی مقبولیت

تب تک کراچی میں جماعت اسلامی کو ایک طرح کی برتری حاصل تھی مگر جب شہری سندھ میں لسانی سیاست شروع ہوئی اور مخالف جماعت اسلامی کو زبردست سیاسی نقصانات کا اندازہ ہوا تو دونوں تنظیموں میں ٹرف وار (علاقہ گیری) کا آغاز ہوا۔

اسی دوران سہراب گوٹھ کے علاقے میں منشیات فروشوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کارروائی کی۔

سہراب گوٹھ پشتون اکثریتی آبادی کا علاقہ تھا اور اس آپریشن کے فوراً بعد مہاجر اکثریتی آبادیوں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں فائرنگ کے پراسرار واقعات ہوئے جن میں درجنوں افراد مارے گئے اور اسے سہراب گوٹھ آپریشن کا ردعمل سمجھا گیا۔

اس کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں شدید لسّانی کشیدگی پھیل گئی جس کا زبردست فائدہ الطاف حسین اور اُن کی ایم کیو ایم کو ہوا۔

ڈر اور خوف کی یہ فضا ردعمل میں ایم کیو ایم کو مضبوط کرتی چلی گئی۔

ضیا مارشل لا دور میں صرف بلدیاتی انتخابات ہوتے تھے تو نمائندگی سے محروم عام لوگوں کو ایم کیو ایم کے ذریعے اپنی سیاسی نمائندگی کی امید نظر آنے لگی۔

ایم کیو ایم نے ماحول کا فائدہ اٹھایا اور 8 اگست 1986 کو نشتر پارک میں ایک بڑا جلسہ کرکے طاقت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا۔

کراچی والوان کو کو شعلہ بیانی پر قدرت رکھنے والے الطاف حسین میں اپنا ایک جارح اور زبردست ترجمان دکھائی دیا۔

جیو نیوز سے وابستہ سینئیر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’نشتر پارک جلسے کی کامیابی نے ہی اُن کے لئے 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کی ایسی راہ ہموار کی جس کا اندازہ تو شاید خود الطاف حسین اور اُن کی تنظیم کو بھی نہیں رہا ہوگا۔‘

ان انتخابات میں فقیدالمثال کامیابی کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے تقریباً تمام نشستیں حاصل کیں اور ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے پہلے مئیر منتخب ہوئے۔

اسی فضا میں 1988 میں جب بہت طویل عرصے کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم نہ صرف کراچی و حیدرآباد کی تمام نشستوں پر فاتح رہی بلکہ سندھ کے کئی دیگر شہری علاقوں میں بھی نشستیں جیت جانے میں کامیاب رہی۔

پھر حیدرآباد میں حیدر بخش جتوئی چوک پر ہونے والے جلسے میں جاتے ہوئے الطاف حسین کے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ کا واقعہ ہوا جو ہمیشہ ایک معمہ رہا۔

مظہر عباس نے کہا ’پراسرار اس لیے کہ وہاں بعض ایسے پولیس افسران موجود تھے جنہیں اس وقت وہاں نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ اس واقعے میں حیدرآباد میں قریباً 250 افراد ہلاک ہوئے اور بعد میں کراچی میں بھی فائرنگ کے واقعات میں تقریباً 150 کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ مگر اس قتل عام کی وجوہات کبھی سامنے نہیں آ سکیں۔

1988 کے انتخابات میں شہری سندھ پورا ایم کیو ایم اور دیہی سندھ مکمل طور پر پیپلز پارٹی میں بٹ گیا۔ پھر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے مل کر صوبائی اور وفاقی حکومتیں تشکیل دیں۔

مقبولیت کی اس انتہا پر الطاف حسین کی ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے کراچی کی سیاسی ، بلدیاتی ، انتظامی اور مالی معاملات کی مالک بن گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32468 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp