گمبھیر مسائل


ان ہی کالموں میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چینی صدر کا مجوزہ دورہ پاکستان مؤخر ہو سکتا ہے جو کہ ایک بار اس سے قبل بھی مؤخر ہو چکا ہے اور تکلیف دہ امر یہ ہے کہ چینی صدر کا دورہ پاکستان ایک بار پھر مؤخر ہو گیا ہے۔ چین جیسے دوست ملک کے صدر کے دورے کا بار بار مؤخر ہونا نیک شگون کسی طور پر بھی نہیں ہے جب کہ یہ واضح ہے کہ چین کی بین الاقوامی حیثیت اور بالخصوص پاکستان کے لیے اہمیت مسلمہ ہے۔ سی پیک کے معاہدے کے بعد پاکستان چین دوستی نے ایک نئی جہت اختیار کرلی اور معاملات، مفادات سے صرف علاقائی سطح پر جڑے ہوئے نہیں رہے بلکہ اس کا تناظر بین الاقوامی ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ یہ صرف ایک معاشی معاہدہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی خاصیت اسٹریٹجک نوعیت کی ہے۔ کیونکہ چین کا پاکستان سے تجارتی حجم چین کی مجموعی تجارت میں صرف زیرو اعشاریہ چار فیصد ہے۔ اس بات کا امکان موجود تھا کہ سی پیک کے کچھ منفی نتائج بھی پاکستانی صنعتوں پر پڑیں گے لہذا اس خطرے کو رفع کرنے کے لئے نواز شریف نے ذاتی طور پر چینی ہم منصب سے بات کی تھی اور دونوں ممالک کے درمیان دوسرا تجارتی معاہدہ ہوا تھا کہ جس میں پاکستان کی 350 اشیاء پر سے چین میں ٹیکس کو پاکستانی ضروریات کے مطابق کر دیا گیا تھا تاکہ اس معاہدے کے صرف ثمرات ہی ثمرات وطن عزیز کے حصے میں آئے۔

سی پیک میں یہ طے شدہ تھا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہو گا کہ جس کو کسی بھی تیسرے فریق کے ساتھ شیئر نہیں کیا جائے گا۔ مگر اس ضمن میں پہلا دھچکا اس وقت پہنچا جب 2019 کے اوائل میں پاکستانی حکومت نے اس معاہدے کے معاملات کو آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کر لیا۔ اعتماد کو زبردست نقصان پہنچا کیونکہ جب یہ طے تھا کہ اس معاہدے کو کسی کے ساتھ شیئر نہیں کیا جائے گا تو پھر ایسا ہونا ایک سانحے سے کم نہیں ہے۔

اس شیئر کرنے کا نقصان یہ ہوا کہ جب آئی ایم ایف نے اپنی شرائط تیار کیں تو ان کے سامنے سی پیک کی تمام تصویر موجود تھی لہٰذا انہوں نے پاکستان پر ایک خاص حد سے زیادہ کسی دوسرے ملک سے قرضہ لینے پر پابندی لگا دی۔ ایم ایل ون جو سی پیک کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے اس کا قرضہ آئی ایم ایف کی عائد کردہ حد سے زیادہ ہے۔ چینی بینک کا قرضہ منظور کر چکا ہے جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہے لیکن پاکستان کے سامنے آئی ایم ایف کی ایجاد کردہ پابندیاں ہے اور ایم ایل ون اسی سبب سے کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

سونے پر سہاگہ یہ کیا گیا ہے کہ جے سی سی جو کہ پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے حوالے سے فیصلہ سازی کا فورم ہے غیر فعال کر دیا گیا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ نومبر 2019 سے جی سی سی کا کوئی اجلاس سرے سے منعقد ہی نہیں کیا گیا ہے ، جب اجلاس ہی منعقد نہیں کیا گیا تو فیصلہ سازی اور دیگر معاملات پر مشاورت کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ سی پیک میں ایک اہم عنصر مختلف صنعتی زونوں کا قیام ہے۔ صنعتی زونوں کے قیام یا ان کے فعال ہونے کے لیے صنعتی پالیسی ایک لازمی عنصر ہے۔

صنعتی پالیسی کی عدم موجودگی کی صورت میں صنعتی زونوں کے فعال ہونے کا خیال ماسوائے ایک سراب کے کچھ بھی نہیں اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صنعتی زون حقیقت میں ہی سراب کا روپ دھار چکے ہیں۔ اور اگر صنعتی زونوں کے معاملات ایسے ہی موجود رہیں تو صنعتی پالیسی کی عدم موجودگی کیا گل کھلائے گی، اس کو سمجھنے کے لئے بھارتی کسانوں کی موجودہ حالت سب سے بہتر اسٹڈی کیس ہے کہ جیسے وہ رل رہے ہیں یہاں بھی ایسا ہی ہو گا ، اسی لئے چین کے قونصل جنرل نے بالکل درست طور پر نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں روز نئی پالیسی تشکیل پاتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ یہاں پالیسی کا تسلسل سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور بات صرف چینی قونصل جنرل کے بیان کی نہیں ہے بلکہ چینی وزیر خارجہ کے اس بیان کی بہت اہمیت ہے کہ جس میں انہوں نے ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کا تذکرہ کیا، مبصرین کے مطابق اشارہ صرف جنرل مشرف کی طرف نہیں ہے بلکہ آئی ایم ایف کے سامنے سی پیک کے معاملے پر ڈھیر ہونا بھی اس میں شامل ہے۔ خیال رہے کہ ایران اور چین کے مابین ہوئے حالیہ معاہدہ میں بھی یہ شامل ہے کہ یہ معاہدہ کسی اور کے ساتھ شیئر نہیں ہو گا۔ ایران اور چین کے درمیان کیے گئے حالیہ معاہدے کو صرف چین کے ساتھ کامیاب سفارتکاری کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ایران کی مضبوط سفارتکاری کے ایک ستون کے طور پر اس معاملے کو سمجھنا چاہیے۔ دنیا میں ایران نے اس کے ذریعے واضح پیغام بھیجا ہے کہ وہ عالمی منظرنامے میں تنہائی کا شکار نہیں ہے۔

علاقائی طور پر قطر ، کویت ، مسقط ، لبنان شام اور عراق سے وہ اپنے اچھے تعلقات قائم کر کے دنیا کو یہ پیغام پہلے ہی دے چکا ہے کہ وہ علاقائی طور پر تنہائی کا شکار نہیں ہے پھر جب امریکہ جوہری معاہدے سے باہر بھی آ گیا تو بھی یورپ نے معاہدے کو نہیں توڑا اور اب تو امریکہ بھی مذاکرات کی جانب راغب ہو چکا ہے مگر ہمارے یہاں یہ صورتحال ہے کہ قطر کی سرمایہ کاری کے آگے سرخ فیتہ لگا دیا گیا ہے اور ان کے موجودہ سفیر کی کوشش کے باوجود بات کو آگے نہیں بڑھنے دیا جا رہا ہے حالانکہ وہ امیر قطر کے قریبی عزیز اور اپنے والد کے زمانے سے کراچی میں ذاتی رہائش رکھتے ہیں ، ان تمام عوامل سے فائدہ اٹھانے کی بجائے بس ٹس سے مس نہ ہونے پر عمل کیا جا رہا ہے۔

نئی صورت حال یہ بھی ہے کہ امریکہ بھی پاکستان کے لیے ایک اقتصادی پیکج پر گفتگو کرنا چاہ رہا ہے مگر اس کی خواہش ہے کہ اس اقتصادی پیکج کی قیمت کے طور پر پاکستان وہی کردار ادا کرے جو ماضی میں سوویت روس کے معاملے میں ادا کر چکا ہے ۔ اب امریکا کے لئے نیا سوویت روس کون ہے یہ معاملہ بالکل صاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments