عورت کا کھانا بنانا نامحرموں میں ہیجان کا باعث تو بنتا ہو گا؟


عورتوں کو کھانا نہیں بنانا چاہیے، عورتوں کو اچھا کھانا نہیں پکانا چاہیے، عورتوں کو اچھا کھانا پکا کر نامحرموں کو نہیں کھلانا چاہیے۔ بادیان کے پھول اور زعفران کا استعمال سرکاری سطح پر جرم قرار دے کر مجرموں یعنی کھانے میں ان خوشبودار اجزاء کا استعمال کرنے والی عورتوں کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔ کھانے کی مہک غیر مردوں کو عورت کی طرف غلط خیالات کے ساتھ متوجہ کر سکتی ہے۔ اس لئے عورت کو اچھا کھانا بنانا ہی نہیں چاہیے۔

بالکل ویسے ہی جیسے عورتوں کو ہمہ وقت سر ڈھانپ کر رکھنا چاہیے، کوئی اجنبی گھر میں قدم رکھ دے تو چھپکلی کی طرح کسی سوراخ میں دبک جانا چاہیے، گھر سے باہر نہیں جانا چاہیے، تعلیم مکمل نہیں کرنی چاہیے، تعلیم حاصل کر بھی لی، اس کو منطقی انجام تک پہنچا کر ملک و قوم کی خدمت نہیں کرنی چاہیے۔

ظاہری پردے کا سختی سے احترام اور دیگر ستر کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ عام زبان میں پردے کا متضاد فحاشی ہے، جبکہ عورت کے معنی بھی ڈھکی ہوئی چیز کے ہیں، جس سے مراد علامتی طور پر عورت بھی ایک چیز ہی ہے یعنی فحاشی کا مترادف عورت ہے۔ اب ہے ہی یہ فتنہ گر صنف تو کیا کیا جائے؟ اب حضرات کو ہی اس سے بچاؤ کے لئے جنگی اقدامات کی ضرورت ہے۔

عورت کو ہر اس کام سے رک جانا چاہیے جو کسی ایرے غیرے، کوسوں دور یا پڑوس میں بیٹھے حضرت کو بدی پر مجبور کرے، ایسا کوئی بھی عمل جس سے مرد اس کی جانب راغب ہو، اس سے عورت کو عملی طور پر پرہیز کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر رنگ رنگ کے لباس سے اجتناب، زیور یا بناؤ سنگھار سے رخصت، یہاں تلک کے خوش الحانی سے بھی باز رہنا کہ عورت چاہے لاکھ پردے میں رہ کر قرآت یا نعت خوانی کیوں نہ کرے مگر کیا معلوم اس کی خوبصورت آواز مرد کو اس کی جانب متوجہ کر دے۔

عورتوں کو ذہین ہونے کا بھی حق نہیں ہونا چاہیے، ایک تو یہ ذہین ہو کر مردوں کی نوکریاں چھیننے کا باعث بنی ہیں، جس سے معاشرے میں بے روزگاری اور گھریلو زندگی میں ناچاقی پیدا ہوتی ہے، اب ظاہر سی بات ہے عورت شوہر یا بھائی سا کمائے گی تو ان کی عزت نفس پر کیسے منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ عورت کو نوکریاں اور ڈگریاں دلا کر مردوں کی نفسیاتی صحت کا ستیاناس ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئی مینٹل ہیلتھ نام کی بحث ہے بھی کہ نہیں؟

آپ کو معلوم ہے کہ ذہین فہیم انسان بھی بہت حد تک پرکشش ہوتے ہیں۔ چاہے مرد ہو یا عورت۔ عورتوں کی ذہانت کی یوں سرعام نمائش ہو گی تو لوگ تو ان کی جانب کھچے چلے جائیں گے کہ نہیں؟ جس طرح پائلوں کی چھنک پرکشش معلوم ہوتی ہے ویسے ہی چند افراد کے لئے ذہانت۔ اس لئے ان پر ذہانت کے در بند ہونے چاہئیں، اب ہر مرد تو اتنی قوت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے ہیجانی جذبات کو قابو میں رکھ سکے۔ کیا معلوم کس بشر کے لئے عورت کی کون سی ادا پرکشش ہو؟ ذہانت، آواز یا خوش طعم پکوان؟

اب دیکھیں یہ نقاب بھی کیا بلا ہے، بلکہ پردے کے نام پر دھوکہ ہے، یہ عورتیں نقاب کے نام پر بھی فیشن کرتی ہیں۔ برسوں قبل زینب مارکیٹ کراچی میں ایک کپڑے کے تاجر کو دوسرے کے کان میں یہ سرگوشی کرتے سنا ”دیکھو اس لڑکی نے عبایہ کے نیچے جینز پہن رکھی ہے، بڑی آئی پردے دار“ تو تب ہی علم ہو چلا تھا کہ پردہ دار لڑکیوں کی کتنی عزت ہے۔ لڑکیوں نے بھی نہ عبایہ کو مذاق بنا رکھا ہے۔ کپڑے استری کرنے کا جی نہ ہو تو برقعہ نکال لیتی ہیں۔

عبایہ کے ساتھ یہ نقاب بھی کیا آفت ہے۔ آفت بن کر دل جلوں جو اپنے احساسات پر اچھی گرفت رکھنے سے عاری ہیں، پر آفت بن کر ٹوٹتا ہے۔ نقاب کو بھی کم رومانوی جامے نہیں پہنائے گئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ نقابی عورتوں کو جنسی ہراسانی کم سہنا پڑتی ہے مگر بہت پہلے چاہ میراں بازار سے پہلے گلی کا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جب میری نقاب پوش خالہ کو دو عدد موٹر سائیکل والوں نے بدتمیزی کا نشانہ بنایا۔ اب مرد ہیں کیا کریں وہ بھی بیچارے، ان جنم جلی عورتوں کا بس نہیں چلتا بس۔ سیاہ نقاب میں لمبی لمبی سیاہ آنکھیں؟

اللہ کا عذاب نہیں برسے گا تو کیا برکھا رت برسے گی؟ نقاب میں کالی کالی آنکھیں ایسی تابناک معلوم ہوتی ہیں کہ دل پھٹ جائیں، حسن کی دیویاں کہیں کی۔ کبھی سوچا ہے کہ کس قدر بے حیائی کا پرچار ہوتا ہے ان باہر امڈ کر آنے والی کالی اکھیوں سے؟ اس لئے اچھی مستورات ہر وہ عمل انجام دیتی ہیں جس سے نامحرم ان کے شر سے محفوظ رہیں۔

مرد کے دل کا راستہ اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ اس لئے ہم تو کہتی ہیں کہ عورتوں کے کھانا بنانے کی بھرپور انداز میں مذمت ہونی چاہیے۔ لذیذ لذیذ پکوان بنا کر خدا جانے کتنے غیروں کو اپنے ذائقہ کا گرویدہ بناتی ہوں گی، ان کے ہاتھوں کے لمس گرم گرم روٹی کے پھلکوں میں ابھی تازہ ہی ہوتے ہوں گے جو شوہروں اور بھائیوں کے دوستوں کے لبوں سے چھوتے ہوئے ان کے تالوؤں کو مس کرتے ہوں گے۔

بے حیائی کی میراث ہے عورت کا کھانا پکانا، اس دور جہالت کی رسم کو تو فنا کر دینا کسی بھی اسلامی ریاست کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ عورتیں چاہتی ہی کیا ہیں کہ مرد حضرات کو بہکا سکیں، چاہے یہ دفتر میں کرسی پر دراز ہوں، بازار میں نقاب در نقاب ہوں یا باورچی خانے میں نیکو کار بیوی کی حیثیت سے، سنگین موسم میں نو ماہ حمل کے باوجود کھانا پکانے کے ڈھونگ میں مردوں کو اپنی جانب کھینچتی ہوں۔

صدیوں سے یہ تماشا ہوتا آیا، اور کسی غیرت مند صاحب ایمان و قوت حضرت نے اس جانب دھیان نہیں دیا۔ پچھلے ایک ہزار برسوں میں پردے اور ستر پوشی پر علماء نے ہزاروں کتب تحریر کی ہوں گی، پردے کی اہمیت و فضیلت پر تحاریک چلیں مگر یہ کیسا گناہ سرزد ہوا کہ کھانے اور پردے کے تعلق پر کسی نے انگشت کو جنبش تلک نہ دی؟ ایک نحیف طبیعت کا مرد کب اور کہاں کس لمحے کی قید میں آ کر سالن کے ذائقے سے پکانے والی کے لئے ہیجانی جذبات پیدا کر لے؟

مرد تو مرد ہے، عورت کو شرم کرنا چاہیے کہ وہ لذیذ پکوان بنائے ہی نہ۔ کیا معلوم معاشرے میں پھیلی صدیوں پرانی اس فحاشی کے پیش عورت کے ہاتھ کے کھانے ہوں۔ حکومت کو فوری طور پر عورتوں کے کھانا نہ بنانے پر قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے ورنہ دیگچیوں کی گھن گرج اور شوربے کا یہ تموج رہی سہی اقدار کو بھی بہا نہ لے جائے۔

سالن کے بھگار کا جو شور اٹھتا ہے، اس سے نامحرم کے دل کے تمام تار ہل جاتے ہوں گے، ادرک لہسن کے سلگتے تیل میں مدھم رقص اور گرم خوشبو یقیناً پکانے والی عورت کا نقشہ کھینچ کر نامحرم کی آنکھوں تلے رکھ دیتا ہو گا۔ عورت مچلتے مصالحوں کے بھگار کو جلنے سے بچانے کے لئے ٹھنڈے پانی کا جو گداز سا چھڑکاؤ کرتی ہو گی، وہ نامحرم کی آنکھوں پر شبنم بن کر باورچی خانے سے اٹھتے دھوئیں کو ریشم میں تبدیل کرتا ہو گا۔ بریانی میں تہ در تہ سموتا ہلدی کا رنگ کھانے والے کو باورچن کے لباس کے رنگ کی تصویر کھینچ کر دیتا ہو گا۔

گرمی میں خاتون خانہ کی انگلیوں سے رستے شکنجبین کے یخ گلاس پر ٹھہرے پانی کے قطرے پیاسوں کا پسینہ چھڑوا دیتے ہوں گے۔ عورت کی نرم نرم ہتھیلیوں پر کباب کی مصوری ہو یا ہتھیلیوں کی گرمائش سے پگھلتا مکھن جو سیدھا مہمان کی طشتری میں جاتا ہے، سراسر بے حیائی نہیں تو اور کیا ہے؟ ان سب کے بعد اور کس نشانی کی ضرورت بچ جاتی ہے کہ عورت کے ہاتھ کا بنا کھانا بھی ویسی بے پردگی ہے جیسے اس کی دل کش آواز، چوڑیوں کی چھنکار، نقاب سے چھلکتی سیاہ آنکھیں، سرکاری عہدوں پر نمائندگی، منچ پر للکارتی اس کی ذہانت۔

پردے کی سختی کرنے والے حضرات کو چلو بھر پانی میں کیا، آلو گوشت اور سری پائے کے روش میں ایک آدھ غوطہ لگا لینا چاہیے جنہوں نے اپنے گھر کی عورتوں کے ہاتھوں سے بنے کھانے اپنے یاروں دوستوں کو خوب سیر ہو کر کھلائے، دعوتیں اڑائیں، رس گھولتے شربت نوش کروائے۔ یہی وقت ہے آنکھیں کھولنے کا۔ بھائیو! اٹھو اور باورچی خانے کی ذمہ داری اپنے فولادی کندھوں پر لاد کر جت جاؤ، اس سے پہلے کہ کوئی کمزور نفس اور آوارہ فطرت کا ساتھی آپ کی بہن بیوی کے ہاتھوں سے پکے لذیذ کھانے سے متاثر ہو اور معاشرے میں شرم و حیاء اور قانون کا نظام درہم برہم ہو۔ جیسے عورت کے خوشبو لگانے سے جن بھوت تعاقب کرتے اس کو چمٹ جاتے ہیں، اسی طرح گھر میں پکے ذائقہ دار کھانے کی خوشبو کا باہر جانا بھی بے پردگی ہو سکتا ہے، بالکل اس کی تعلیم یا کھیلوں میں حصہ لینے کی طرح کہیں ایسا نہ ہو کوئی کمزور شخص کھانے کی مہک کا تعاقب کرتے آپ کے گھر کی دہلیز پار کر لے۔

اس لئے خدا کا شکر ادا کیجیے اور عورت کو فی الفور کھانا پکانے سے روکیے۔ رمضان کا مقدس مہینہ ہے، اس نیک اور سماج دوست کار خیر کا آغاز ابھی سے ہی کیجیے، چاہے کچھ بھی ہو جائے، سردی ہو یا گرمی، سحر ہو یا افطار، درس ہو یا نکاح اپنی عورتوں کو نامحرموں کی بری فطرت سے بچانا ہے تو ان کے کھانا پکانے کے ستر کا خیال رکھیں اور کھانا خود بنائیں تاکہ کسی کے ہیجانی جذبات کا رستہ رک سکے اور معاشرے میں جرائم کی شرح میں کمی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments