وبا کے دوران انڈیا کے کروڑ پتی افراد میں ملک سے ہجرت کرنے کے رجحان میں اضافہ

نِکھل انعام دار - بی بی سی نامہ نگار برائے بزنس، ممبئی


ایک شخص کی تصویر
راہل ٹیکس سے متعلق افسران کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے بعد اپنی کمپنی کی دیکھ بھال کے لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر دوبئی چلے گئے تھے
انڈیا کے امیر افراد کا نام اس فہرست میں سب سے اوپر نظر آ رہا ہے جو دوسرے ممالک میں اس ویزہ پروگرام کے تحت جانا چاہتے ہیں جس کے ذریعے سرمایہ کاری کے بدلے میں شہریت یا پھر رہائش کا حق دیا جاتا ہے۔

راہل (فرضی نام ) نے جب چھ سال قبل انڈیا کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس کی سب بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کی زندگی میں بہت ساری چيزیں ایسی ہو رہی تھیں جو ان کے حق میں بہتر نہیں تھیں۔

ان کا تعلق دلی کے ایک امیر گھرانے کی دوسری نسل سے ہے۔

ان کے خاندان کا برآمدات کا پھلتا پھولتا بزنس ہے اور تیزی سے ترقی کرنے والی انڈسٹری، جسے عام طور پر ‘سن رائز سیکٹر’ بھی کہا جاتا ہے، اس میں ان کی کاروباری حیثیت بہت اچھی ہے۔ لیکن راہل نے یہ سب پیچھے چھوڑ دیا اور سنہ 2015 میں کمپنی کے بیرونِ ملک کاروبار کو بڑھانے کے لیے دبئی چلے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن سکے گا؟

انڈیا: ٹیکس ناہندگان نے اربوں کے گوشوارے جمع کروا دیے

انڈیا: انکم ٹیکس کے چھاپے، کروڑوں کی نئی کرنسی ضبط

سرکاری سطح پر ’ہراسانی‘، ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا میں اپنے دفاتر بند کرنے پر مجبور

انھوں نے سرمایہ کاری کر کے ایک کیریبیئن ملک کی شہریت بھی حاصل کر لی۔ وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ میں موجود ٹیکس حکام انھیں ہراساں کرتے تھے اور ان کے دبئی جانے کی ایک اہم وجہ یہی تھی۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’میں یہ دیکھ سکتا تھا کہ یہ ایک ایسے شخص کے لیے مسئلہ بن رہا ہے جس کا کاروبار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔

’غیر ملکی پاسپورٹ کے ساتھ، ریڈ ٹیپ یعنی سرکاری پابندیاں واضح طور پر کم ہو گئی ہیں۔ میں بلاوجہ مختلف طرح کے ٹیکس کے مطالبات نہ ہونے سے اب کافی سکون میں ہوں‘۔

انڈین کارپوریٹ سیکٹر سے تعلق رکھنے والے بڑے تاجروں کے درمیان ’ٹیکس کا خوف‘ ایک معمول کی شکایت ہے۔ سنہ 2019 میں جب انڈیا کی سب سے بڑی کافی چین ‘کیفے کافی ڈے’ کے بانی اور مالک نے خودکشی کی تو انہوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل نے انہیں ہراساں کیا تھا۔ اس کے باوجود حالیہ برسوں میں انڈین حکومت نے بڑے تاجروں کے گرد ٹیکس کا شکنجہ مزید تنگ کیا ہے۔

کیفے کافی ڈے

انڈیا میں ٹیکس کا نظام کافی سخت ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں انڈیا کے انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کی جانے والی تحقیات میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ یہ سب کالے دھن، ٹیکس حکام سے چھپائے جانے والے غیر قانونی رقوم کے خاتمے کے علاوہ ٹیکس ادائیگی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اکثر یہ جارحانہ رویہ افسران کی جانب سے اپنے سالانہ ریونیو جمع کرنے کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بھی اپنایا جاتا ہے۔

راہل کہتے ہیں کہ ٹیکس افسران کی جانب سے ہراساں کرنا ان کے ملک چھوڑنے کی صرف ایک وجہ تھی۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ انڈین سیاست میں ’تقسیم اور حکمرانی‘ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے بھی انہوں نے ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے انڈیا کے بڑھتے ہوئے منقسم ماحول میں پرورش حاصل کریں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ان کے حلقہ احباب میں موجود امیر دوست بھی اپنی انڈین شہریت چھوڑ رہے ہیں۔

یہ دعوے وال سٹریٹ انویسٹمنٹ بینک مورگن سٹینلے کے اعداو شمار سے منظر عام پر آئے ہیں۔

بینک کی سنہ 2018 کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2014 سے 2018 تک 23 ہزار انڈین کروڑپتی افراد نے ملک چھوڑا ہے۔

عمارت

ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 کے بعد سے 23 ہزار انڈین لکھ پتی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں

حال ہی میں ‘گلوبل ویلتھ مائیگریشن ریویو’ کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف سنہ 2020 میں تقریباً پانچ ہزار کروڑپتی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یہ تعداد انڈیا میں امراء کی آبادی کا دو فیصد حصہ ہے۔

لندن میں مقیم عالمی شہریت سے متعلق مشورے دینے والی کمپنی ہینلی اینڈ پارٹنرز یعنی ‘ایچ اینڈ پی’ کی فہرست میں وہ انڈین سرفہرست ہیں جو سرمایہ کاری کے بدلے بیرونی ممالک میں شہریت کے خواہش مند ہیں۔

وبا کے دوران ہجرت میں اضافہ

ایچ اینڈ پی کے مطابق ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں جا بسنے اور اپنی زندگیوں کو بہتر کرنے کے پہلے سے ہی جاری رجحان میں کووڈ 19 کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے۔

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیرونِ ملک رہائش اختیار کرنے سے متعلق رجحان میں اضافے کے پیش نظر کمپنی کو وبا کے دوران انڈیا میں اپنا دفتر کھولنا پڑا ہے۔

دبئی سے ویڈیو کال پر ‘ایچ اینڈ پی’ کمپنی کے گروپ ہیڈ پرائیویٹ مسٹر ڈومینک وولیک نے بتایا کہ ’میرے خیال سے ہمارے صارفین یہ سمجھ چکے ہیں کہ وہ وبا کی دوسری یا تیسری لہر کا انتظار نہیں کر سکتے۔ وہ اس وقت گھر پر بیٹھے اپنے کاغذات ابھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ کسی دوسری ملک ہجرت کرنے کا مشورہ ’انشورنس پالیسی یا پلان بی‘ کے طور پر دیتے ہیں۔

مسٹر وولیک کا کہنا ہے کہ وبا ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ امیروں کو زیادہ مربوط انداز میں ہجرت کے بارے میں سوچنے کا موقع دے رہی ہے۔ اب یہ فقط ویزا فری سفر یا پھر عالمی مارکیٹ تک آسان رسائی کی بات نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق دولت کے تنوع، صحت و تعلیم کی بہتر سہولیات اور وبا سے پیدا ہونے والی غیر یقینی سے بچنے سے ہے۔

ایچ اینڈ پی کے مطابق ’گولڈن ویزا‘ پروگرام چلانے والا ملک پرتگال، اور اس کے علاوہ مالٹا اور قبرص جیسے ممالک امیر انڈین افراد کی پسندیدہ منزلیں ہیں۔

ائیرپورٹ

ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 5000 کروڑپتی افراد نے صرف سنہ 2020 میں انڈیا چھوڑ کر باہر سکونت اختیار کی

ضروری نہیں ہے کہ بڑے پیمانے پر رقم کی اس منتقلی کی نوعیت مستقل ہو۔ لوگ اپنے آبائی ملک سے اپنا تمام سرمایہ نکالنے اور کاروباری تعلق ختم کرنے کے بجائے مشکل وقت میں سہارے کے لیے دوسرے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ یہ انڈیا جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔

ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن آف کینیڈا میں ممتاز فیلو روپا سبرامنیا کہتی ہیں کہ ’جب ایسا ہوتا ہے تو وہ خود ملک سے نکل جاتے ہیں، ساتھ ہی ان کی تجارتی صلاحیت، ان کی کمائی اور دولت بھی نکل جاتی ہے۔ اس کے مستقبل میں نقصانات ہو سکتے ہیں۔ ان افراد کے ملک چھوڑ کر جانے سے انڈیا کے ‘تجارت کے لیے سازگار’ ماحول اور ساکھ پر منفی اثر پڑتا ہے‘۔

جوہانسبرگ میں مقیم ویلتھ انٹیلیجنس گروپ ‘نیو ورلڈ ویلتھ’ کے سربراہ انڈریو اموئلز نے بزنس سٹینڈرڈ نامی اخبار کو بتایا ’یہ مستقبل میں پیش آنے والے مشکل حالات کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ اکثر امیر افراد پہلے ملک چھوڑ کر جانے والوں میں ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے مڈل کلاس کے مقابلے میں بہتر وسائل و ذرائع ہوتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp