تعلیم کا کاروبار کرنے والا مافیا


مافیا کا اطلاق ان جرائم پیشہ گروہوں پر ہوتا ہے جن کا تنظمی ڈھانچہ اور ضابطہ اخلاق یکساں ہوتا ہے۔

پاکستان میں مافیا ایک جانا پہچانا لفظ ہے۔ یہاں پر کئی طرح کے مافیاز سرگرم عمل ہیں جن میں ہسپتال مافیا ، تعلیمی مافیا ، آٹا مافیا ، گندم مافیا ، میڈیکل اسٹور مافیا ، قبضہ مافیا ، شوگر مافیا،  بھیک مافیا قابل ذکر ہے۔ موجودہ حکومت کا سب سے پسندیدہ لفظ اور اس دور میں سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ مافیا ہے۔ ہر ناکامی کا ذمہ دار مافیا کو قرار دے کر حکومت بری الزمہ ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مافیا حکومت سے بھی زیادہ طاقتور ہے یا پھر یہ مافیا حکومت کا حصہ ہے۔

یہاں پر تعلیمی مافیا کو زیربحث لایا جائے گا۔ پاکستان میں تعلیمی نظام تین حصوں میں تقسیم ہے۔ جس میں سرکاری تعلیمی ادارے پرائیویٹ درس گاہیں اور مدارس کا تعلیمی نظام شامل ہے۔ تینوں نظام ایک دوسرے سے یکسر مختلف اور ایک دوسرے کا الٹ ہیں۔

سرکاری تعلیمی ادارے حکومتوں کی عدم توجہ کا شکار ہیں۔ تعلیم کا بجٹ انتہائی قلیل رکھا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت جس کے منشور میں تعلیم کو بہتر کرنا اور عام کرنا شامل تھا۔ اس حکومت نے تعلیمی بجٹ کو کم کر کے سسکتے ہوئے نظام کو ونٹیلیٹر پر ڈال دیا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں مناسب سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی تربیت یافتہ استاد موجود ہیں۔

اکثر سرکاری اسکول انسانوں کی بجائے مویشیوں کو تعلیم دینے بلکہ ان کے قیام کی جگہ بن چکے ہے۔ جہاں تک پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی بات ہے وہ تعلیم کی بجائے پیسہ کمانے کا ذریعہ بن چکے ہے۔ اچھی تعلیم بچوں کو دلانا سب والدین کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اس لیے زیادہ تر والدین بچوں کو تعلیم دلانے کے لئے نجی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

اسکولوں کی بڑی بڑی عمارتوں میں انتہائی چھوٹی ذہنیت کے مالک لوگ براجمان ہوتے ہیں جنہوں نے تعلیم جیسے مقدس شعبے کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ وہاں پر تعلیم کے نام پر والدین کا صرف معاشی استحصال نہیں کیا جاتا ہے بلکہ انہیں ذہنی اذیت سے بھی دو چار کیا جاتا ہے۔

ان نجی تعلیمی اداروں کا تعلیم سے کتنا تعلق ہے ، اس بارے میں ایک واقعے کا ذکر کرتی ہوں۔

ایک دن مجھے موبائل پہ ایک کال موصول ہوئی۔ ایسی کال جس کا مجھے تین، چار ماہ سے انتظار تھا۔ جیسے ہی میں نے کال اٹھائی، جوآواز مجھے سنائی دی۔ وہ کچھ یوں تھی۔ کیا اپ عنایا کی مدر بات کر رہی ہیں۔ آپ نے اپنی بیٹی کی فیس کچھ مہینوں سے جمع نہیں کروائی ہے۔ آپ کب تک کروا دیں گی۔ (مجھے اس بات کی امید نہیں تھی ، مجھے توقع تھی کہ وہ پوچھیں گے کہ عنایا اسکول کیوں نہیں آ رہی ہے) میں نے محترمہ سے سوال کیا۔ کیا آپ کو معلوم ہے عنایا اسکول اٹینڈ کر رہی ہے کہ نہیں۔ محترمہ کا جواب تھا مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے۔ آپ بس مجھے یہ بتا دیں کہ آپ کب تک فیس جمع کروا دیں گی۔

میں نے محترمہ سے کہا میری بیٹی پچھلے کچھ مہینوں سے اسکول نہیں آ رہی ہے لیکن اسکول کی جانب سے رابطہ نہیں کیا گیا ہے ۔ کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی ہے کہ طالب علم کلاس سے غیر حاضر کیوں ہے۔ لیکن فیس کیوں جمع نہیں کروائی ہے یہ ہے آپ کا مسئلہ۔ آپ کے نزدیک طالب علم کی غیر حاضری کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔

میری اس بات پہ محترمہ نے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی۔ اسکول انتظامیہ کو تعلیم اور طالب علم کی حاضری کی نسبت صرف فیس میں دلچسپی ہے۔

یہ تو ایک واقعہ ہے جو بیان کیا ہے۔ مزید بہت سے قصے ہیں جو ان نجی تعلیمی اداروں کی حقیقت دکھانے کے لئے قلم بند کیے جا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنائے اور ان بے لگام اداروں کو لگام دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments