تین دن کی ایک زینب


میں ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی جب یہ واقعہ میں نے سنا اور آج بہت سے سال گزرنے کے بعد بھی یہ اکثر میرے ذہن کی دیواروں سے ٹکراتا رہتا ہے۔

میں کسی رشتے دار کے انتقال پر اپنی فیملی کے ساتھ ایک گاؤں میں گئی ہوئی تھی۔ ایک طرف خاموشی سے بیٹھی آتے جاتے لوگوں کو سچ مچ روتے اور دکھاوے کی ہوں ہوں کرتے دیکھ رہی تھی۔ تعزیت کے نام پر لوگ مرحوم کے بچوں کا مزید دل دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔ فوتگی کے گھر میں آتے جاتے لوگ مرحوم کے اقارب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حاضری لگوا رہے تھے اور میں اس سارے منظر میں ہی گم تھی کہ دو گاؤں کی خواتین کی گفتگو میرے کانوں میں پڑی۔

ایک خاتون ساتھ والے گاؤں میں اپنے جاننے والے کی بیٹی کی موت پر نہ جا سکنے کی وجہ بتا ہی رہی تھی کہ دوسری نے اس کو ٹوکتے ہوئے بتایا کہ اپنی ماری ہوئی بیٹی کا افسوس کس سے کریں؟ ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ متعلقہ شخص کی یہ چوتھی بیٹی تھی جو کہ پیدا بالکل تندرست ہوئی مگر باپ اور دادی نے سوچ بچار کے بعد ایک دن کی بچی کو دسمبر کی سرد رات میں بغیر کپڑوں کے پنکھے کے نیچے لٹا دیا۔ ماں تڑپتی رہ گئی مگر کئی دھمکیوں تلے دب کر کچھ کر نہ سکی۔ بچی شدید سردی کی وجہ سے بہت بیمار پڑ گئی اور اگلے دو دن میں ہی اس گندے سماج پر لعنت بھیج کر لوٹ گئی۔

میں کئی سال گزرنے کے باوجود یہ واقعہ نہیں بھول سکی۔ خیال آتا ہے کہ ایسے کئی اور بھی تو واقعات ہوتے ہوں گے جہاں بربریت کے آگے کھلتی زندگی گھٹنے ٹیک دیتی ہو گی اور اس ننھی بچی کی باقی بہنیں جو اس باپ کی بیٹیاں ہیں جس نے اپنی اولاد اپنے ہاتھوں سے قتل کی۔ وہ بچیاں کیسی زندگی گزار رہی ہوں گی ؟ ایسی کئی کبھی بھی نہ چاہے جانے والی تو ہزاروں لاکھوں بیٹیاں ہوں گی جو اس ننھی کی طرح خوش قسمت نہیں ہوں گی کہ اس گندگی میں پنپنے سے پہلے ہی لوٹا دی جائیں۔ یہ بچیاں تو روز ماری جاتی ہوں گی ، دوسروں کے ان پر مسلط غلط فیصلوں سے، تکلیف دہ الفاظ سے اور بوجھ ہونے کے خطاب سے۔

ذہن میں بارہا زینب کا خیال گردش کرتا ہے جس نے اس سماج کے سیاہ ترین رخ کو جھیلا اور پھر موت کے گھاٹ اتار دی گئی۔ میرے لیے تو ظلم سہتی ہر بچی ہی زینب ہے جو اپنے وجود کی اتنی بڑی قیمت چکا رہی ہو۔ ایسی ہر بچی کی کہانی درحقیقت ایک ہی نقطے سے جا ملتی ہے کہ اس بوسیدہ گندے سماج میں ایک بچی کا کیا مقام ہے۔ بیٹے پیدا کرتے کرتے بیٹیاں تو ایک سائیڈ پراڈکٹ کے طور پر اس دنیا میں آ جاتی ہیں۔ کہیں ایک ساتھ ہی مار دی جاتی ہیں تو کہیں آہستہ آہستہ تڑپا تڑپا کر ان کا قصہ تمام کیا جاتا ہے۔کئی ہوس کے مارے کتے بھی نظر لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کب کسی سلگتی ہوئی شمع کو روندنے کا موقع ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments