شمالی علاقہ جات کا حسن کیوں ماند پڑ رہا ہے؟


چند روز قبل ایک شادی کی تقریب میں شمولیت کے لئے تقریباً 4 سال بعد اپریل کے مہینے میں اپنے آبائی گاؤں جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا تعلق شمالی علاقے سے ہے، مارچ اور اپریل کے مہینوں میں یہاں موسم نہایت حسین اور دلکش ہوتا ہے۔ چونکہ 4 سال بعد موسم بہار میں گاؤں جا رہی تھی، اس لئے بہت خوش تھی کہ خوبصورت نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔

گاؤں میں صبح سویرے ناشتہ کرنے کے بعد دن کے اوقات میں ہر شخص اپنے مشاغل میں مصروف تھا تو اس دوران میں صحن میں بیٹھ کر سامنے کے چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس بار ان پہاڑوں کو دیکھ کر دل بے چین سا ہو گیا اور زیادہ خوشی نہ ہوئی۔ میرے ذہن میں آج سے آٹھ دس سال پہلے کے مناظر گردش کرنے لگے۔

ہمارا بچپن چونکہ گاؤں میں گزرا ہے اس لیے مجھے بچپن کی یادیں ستانے لگیں۔ جب بچپن میں ہم اسی صحن میں بیٹھ کر سامنے پہاڑوں کو دیکھتے تھے تو یہ پہاڑ بلاشبہ مارگلہ کے قدرتی جنگلات کی طرح گھنے تو نہ تھے لیکن اس قدر خالی (درختوں کے بغیر) بھی نہ تھے۔ قدرت کے ان خوبصورت نظاروں کو دیکھ کر جن کی خوبصورت پہلے سے ماند پڑ چکی ہے، میرے ذہن کو دھچکا سا لگا۔ خیال آیا کہ اگر یونہی چلتا رہا تو چند سالوں بعد خدانخواستہ یہ پہاڑ کوئٹہ کے چٹیل پہاڑوں جیسے ہی نہ ہو جائیں۔

جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں چیڑ بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چیڑ کا درخت اگر ایک نسل لگائے تو وہ دوسری نسل کے ساتھ تیار ہوتا ہے یعنی ایک اندازے کے مطابق چیڑ کو مکمل تیار ہونے میں پینتیس سے چالیس سال کی مدت درکار ہے۔ لیکن آج ان پہاڑوں پر چیڑ کے درخت بہت کم رہ گئے ہیں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، نہ صرف اپنے گاؤں میں بلکہ گاؤں کے نزدیک کے باقی علاقوں سے بھی ہمیشہ مضبوط اور تناور درختوں کی کٹائی اور لکڑی کی غیر سرکاری ترسیل کی خبریں سنتے آئے ہیں۔

اس وقت تو شاید کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے تھے کہ لکڑی کی ترسیل غیر سرکاری کیوں ہوتی ہے۔ اب ماضی کے تمام سوالات کے جوابات تو معلوم ہو گئے ہیں، لیکن نئے سوالات ہیں جن کے جوابات تو مل سکتے ہیں لیکن ان مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔

درختوں کی بے دریغ کٹائی کرنے والوں سے یہ سوال ہے کہ کیا انہوں نے کبھی کوئی درخت لگایا بھی ہے؟ یقیناً ان کا جواب ’نہیں‘ ہی ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی رہی سہی کسر ترقی کے چکر میں زمینیں بیچ کر پوری کی جا رہی ہے۔ انویسٹرز شمالی علاقہ جات میں زمینیں خرید کر وہاں کی قدرتی خوبصورتی کو تباہ کیے جا رہے ہیں اور عوام نہ جانے کون سے سبز باغوں کے خواب دیکھ رہے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے نہ صرف میرے گاؤں میں بلکہ کئی دوسرے علاقوں میں لوگ بڑے پیمانے پر زمین بیچنے میں مشغول ہیں۔ یہ بات بجا ہے کہ جب کسی بھی علاقے میں کوئی تعمیری کام ہوتا ہے تو اس جگہ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور عوام کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوتے ہیں۔

انفراسٹرکچر کی بہتری جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے، اس کے لئے بھی پہاڑوں اور درختوں کی کٹائی کی جا رہی ہے۔ لیکن اس ترقی کے زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ وہ علاقے جو قدرتی خوبصورتی کی بناء پر مشہور تھے، ان کی خوبصورتی مصنوعی کی جا رہی ہے۔

قدرتی خوبصورتی سے مالا مال علاقے جہاں سیاحوں کے لئے پر کشش ہیں، وہیں بڑی بڑی کمپنیاں اور انویسٹرز ان علاقوں میں اپنا سکہ جمانے کے لئے عوام کو چند روپوں کا لالچ دے کر زمینیں خرید کر اپنی من مانی کرتے پھر رہے ہیں اور ہمارے پہاڑ قدرتی خوبصورتی سے محروم ہو رہے ہیں۔

اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں حکومت نے سیاحت کے لئے کئی اقدامات کیے ہیں وہیں ان علاقوں میں نئی عمارات تعمیر کرنے والوں پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے۔ ہر شخص کے لئے یہ عمل ضروری بنایا جائے کہ وہ تعمیر کے لئے جتنے درخت کاٹے گا، اتنے ہی درخت کسی اور جگہ پر ضرور لگائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی جنگلات کی حفاظت کا شعور اجاگر کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں۔ حکومت کی مداخلت کے ذریعے ہی ہم شمالی علاقہ جات کی قدرتی خوبصورتی کو بچا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments