میشا یوسف: نوجوان پاکستانی امریکی جو مغربی معاشرے میں اپنی الگ شناخت پر فخر کرتی ہیں

سناء الخوری - نامہ نگار برائے مذہبی اُمور، بی بی سی عربی


کہا جاتا ہے کہ پیشہ ورانہ کامیابی اور صبح سویرے جاگنے کے مابین ایک تعلق ہوتا ہے۔ ہر جگہ ترقی کے مشہور مضامین میں یہی تجویز دی جاتی ہے۔

جب میں نے امریکہ میں پاکستانی نژاد براڈکاسٹر اور پروڈیوسر میشا یوسف کے ساتھ فون پر رابطہ کیا تو ان کی کمپنی میں آپریشن کوارڈینیٹر نے مجھے بتایا کہ وہ لاس اینجلس کے مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے جب یہاں بیروت میں پانچ بج رہے ہوتے ہیں، ملنا جلنا پسند کرتی ہیں۔

اگر میں ان کی جگہ ہوتی تو کبھی اتنی جلدی نہ اٹھتی چاہے میرا انٹرویو کرسٹیئن امانپور ہی کیوں نہ لے رہی ہوتیں۔

میں نے انھیں بتایا کہ مجھے دیر کا وقت ملنے کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں ہوگی تو دوسری جانب سے اصرار کیا گیا کہ صبح کا وقت رکھنا ہے کیونکہ میشا کا دن مصروف ہوگا۔

مجھے یہ خوف تھا کہ زوم پر انٹرویو کے دوران میری مہمان آدھی نیند میں ہوں گی لیکن جب وہ مقررہ وقت پر صبح سویرے سکرین پر نمودار ہوئیں تو سرخ سویٹر، بڑے بڑے چمکدار بُندے پہنے وہ توانائی سے بھرپور لگ رہی تھیں۔ اگرچہ میں نے اس روز بہت زیادہ کافی پی تھی لیکن وہ مجھے سے زیادہ چُست لگ رہی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ صبح سویرے اٹھنے والوں میں سے ہیں اور لگتا تھا کہ اس عادت نے انھیں کامیابی میں مدد دی ہے۔ ان کی عمر 27 برس ہے اور ان کی ذاتی پوڈ کاسٹ کمپنی ڈسٹ لائٹ ہے۔ یہ امریکہ میں پوڈکاسٹ کمپنیز میں ایک بڑا نام ہے۔

وہ امریکہ کے بہت سے مقامی ریڈیو سٹیشنز کے لیے کام کرتی ہیں اور سنہ 2017 میں اُنھوں نے بیگنرز کے نام سے پہلی پوڈکاسٹ شروع کی۔ اس میں انھوں نے کوشش کی ہے کہ بچپن اور جوانی میں امریکی معاشرے میں ضم ہونے کے لیے اُنھوں نے جو کچھ کیا، اس پر نظر ڈالی جائے۔

ان اقساط میں وہ ہمیں بھی اس سفر میں لے کر جاتی ہیں کہ کیسے انھوں نے موٹر سائیکل چلانی سیکھی، تیرنا سیکھا، والد کے ساتھ بیئر پی، بچوں کی کہانیاں پڑھیں اور ڈزنی کے فلمی گانے گاتیں۔

https://twitter.com/meuceph/status/948670294964645888?s=20

میشا اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے امریکہ سنہ 2003 میں منتقل ہوئی تھیں۔ اس وقت ان کی عمر 11 برس تھی اور یہ آسان تجربہ نہیں تھا۔ خاص طور پر نائن الیون کے واقعے کے بعد جب مسلمان وہاں خود کو مکمل طور پر اجنبی تصور کرتے تھے اور انھیں برائی کا محور سمجھا جاتا تھا۔

سکول میں اُنھیں نئی ثقافت اور زبان کے مطابق ڈھلنا پڑا اور خود کو یہ سمجھنے کے لیے وقت دینا پڑا کہ غیر سفید فام بچوں کے حوالے سے کتنے دقیانوسی تصورات موجود ہیں۔ وہ باتھ روم میں تنہا لنچ کرتی تھیں۔

وہ اپنی مسلسل کوششوں کے باوجود خود کو سفید فام امریکی بنانے میں ناکام رہیں۔ وہ تعصب سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتیں چاہے وہ کپڑوں کا انتخاب ہوتا یا امریکی لہجے میں بات چیت میں عبور حاصل کرنا۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا پھر وہ آخر کار امریکی بن گئیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ’میں امریکی ہوں اور یہ میری شناخت کا ایک لازمی حصہ ہے۔ لیکن آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میں پاکستانی ہوں؟’

ان کا کہنا تھا ’میں پاکستانی ہوں، مجھے میری اردو زبان سے محبت ہے اور میں یہ روانی سے بولتی ہوں۔ مجھے اپنے کلچر سے محبت ہے اس کی کہانیوں، آرٹ اور میوزک سے۔ ابھی بھی اس جگہ کی دھندلی یادیں موجود ہیں۔ مجھے اس ملک کی خوشبو یاد آتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بچپن کے دوستوں سے بات چیت کرتی ہوں۔ آپ کو اپنی شناخت کے کسی حصے کو دبانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ ہم ان سب چیزوں کے ساتھ بھی رہ سکتے ہیں۔‘

اوباما خاندان کی دلچسپی

پہلی پوڈکاسٹ کے بعد میشا نے سنہ 2019 میں ایک بڑی اہم پوڈ کاسٹ ’دی بِگ ون: یور گائیڈ ٹو سروائیول‘ پر بطور پروڈیوسر کام کیا جس میں لاس اینجلس میں ممکنہ زلزلے پر تحقیق کی گئی ہے۔

سنہ 2020 میں انھوں نے سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشیل اوباما کی پوڈ کاسٹ بنائی۔ اس کے لیے اُنھوں نے بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر کام کیا۔

اس کے علاوہ اُنھوں نے پوڈکاسٹ ’رینیگیڈز: بورن ان یو ایس اے‘ (2021) بھی پروڈیوس کی جسے امریکی صدر براک اوباما اور امریکی راک آئکن بروس سپرنگسٹن نے سپانسر کیا تھا۔

ميشا يوسف

میشا بی بی سی عربی کو انٹرویو دیتے ہوئے

اس سے ان کو پروفیشنل سطح پر پہچان ملی۔ خاص طور پر جب انھوں نے ‘ٹیل دیم آئی ایم‘ کے عنوان سے پوڈکاسٹ پیش بھی کی اور اس کو پروڈیوس بھی کیا۔

میشا کے بقول ’اس تجربے کے بعد اوباما فیملی کو دلچپسی پیدا ہوئی کیونکہ ان کے اور میرے وژن میں مطابقت تھی۔‘

اس طرح اوباما کی کمپنی ’ہائر گراؤنڈ‘ نے یہ پروگرام حاصل کیا تاکہ اس کا دوسرا سیزن سپوٹیفائی پر پیش کیا جا سکے۔

یہ پروگرام رمضان کے مہینے کے لیے ہے اور جو اپنے مہمانوں کی زندگی کے اہم لمحات کے بارے میں بتاتے ہیں۔

میشا کہتی ہیں کہ یہ لمحات عالمگیر ہیں یعنی پوری دنیا کے لوگوں کی زندگیوں میں آتے ہیں۔ ‘لوگوں کے ساتھ ہمارا جڑنا، ہمارے عقائد اور اور ثقافتوں کا ملنا۔‘ لیکن میشا اپنے پروگرام میں ان مسلمانوں کی آواز سناتی ہیں جو امریکہ میں رہتے ہیں، جو یہاں ہجرت کر کے آئے یا پھر یہاں پیدا ہوئے۔

اپنے پہلے سیزن میں انھوں نے انٹرٹینمنٹ، آرٹس اور سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والی مختلف عمر کی شخصیات سے بات کی۔ ان کا تعلق عرب اور مشرقی ایشیا کے خطوں سے تھا جو اپنے اسلام کے ساتھ تعلق کے بارے میں بتاتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘میں نے یہ یقینی بنایا کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے آپ کو متعارف کروانے کا موقع ملے جیسے ہم چاہتے ہیں، اس طرح نہیں جیسے دوسروں نے ہم سے تعبیر کیا ہے۔‘

خزانے کا نقشہ

اپنی ایک پوڈکاسٹ میں انھوں نے کہا کہ میری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کو سرپرائز دوں کہ میں اس سے بہتر ہوں جو وہ مجھ سے توقع کرتے ہیں۔

وہ اپنے ماضی اور اپنی پرورش کے پس منظر کو نظر انداز کیے بغیر یہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ ایک لگے بندھے انداز میں نہ رہیں۔ اس لیے انھوں نے اس میں کوئی عار نہیں سمجھی کہ وہ اپنے روحانی سفر کے بارے میں کھل کر بتائیں۔ اس پر انھوں نے ‘ٹیل دیم آئی ایم‘ کے پہلے اور دوسرے سیزن میں بات کی۔

پہلے سیزن میں انھوں نے اپنے خاندان اور زندگی کے تجربات کو لے کر اپنے مہمانوں سے پوچھا کہ انھیں صحت کے لیے کیا چیلینجز تھے، کون سے حالات ان کے لیے اپنے خاندان کے سامنے شرمندگی کا باعث بنے اور کون سے حالات میں انھیں خاندان کی جانب سے رد کیے جانے کا خوف تھا۔

دوسرے سیزن میں انھوں نے مہمانوں سے اپنے خالق کے بارے میں پوچھا۔ اس میں میشا کا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے جب وہ ایک حادثے میں بال بال بچی تھیں۔ یہ دو سال پہلے کی بات ہے جب وہ کام سے واپس لوٹ رہی تھیں۔

پہلی قسط میں وہ امریکی ریپر ماسٹر مائنڈ اور برطانوی بیکر نادیہ حسین سے بات کرتی سنائی دیں۔ ‘پھر آنے والی اقساط میں دلچسپی کا محور امریکہ سے آگے امیگریشن کے مسائل اور دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں جیسے اویغور اور روہنگیا برادریوں کی جانب بڑھا۔

ان کے مہمانوں میں نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی، صومالی ماڈل حلیمہ عدن، عراقی ’ڈریگ کوئین’ عمر القاضی، ایرانی نژاد امریکی خلا باز انوشے انصاری، سوڈانی گلوکارہ سارہ، ایرانی نژاد امریکی اطہر نفیسی اور انڈین موسیقار ذاکر حسین شامل ہیں۔

اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں میشا یوسف نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ ‘ثقافتی مسلم‘ ہیں، یہ اصطلاح کچھ ممالک میں ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو مذہب پر پوری طرح عمل تو نہیں کرتے مگر ثقافتی طور پر یا خاندان کے باعث اسلام سے محبت/تعلق ضرور رکھتے ہیں۔

دوسرے سیزن میں وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو فقط مسلمان کے طور پر متعارف کرواتی ہیں۔

ان میں ایسا کیا بدلا ہے؟

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’میں خود کو صرف مسلمان کے طور پر متعارف کروانے میں خوفزدہ ہوتی تھی کیونکہ میں ایک آزاد زندگی بسر کر رہی ہوں۔ میرے جذباتی تعلقات ہیں، میں شراب پیتی ہوں اور میں اپنے بال ڈھانپ کر نہیں رکھتی۔ کچھ لوگ شاید میری بطور مسلمان شناخت کو پسند نہ کریں۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں مجھے سمجھ آئی کہ یہ بہت اہم ہے کہ میں اس موضوع پر بات کروں، ان لوگوں کے لیے جگہ بنانے کے لیے جو ان جیسے ہیں۔‘

وہ اپنی پوڈکاسٹ میں کہتی ہیں کہ ‘اسلام کے بارے میں دو تصورات ہیں، سفید فام ورژن، جس کے مطابق اسلام ایک عجیب و غریب صحرائی مذہب ہے جو دہشت گردی میں مدد دیتا ہے۔ دوسری جانب سیاہ فام تصور ہے جس کی توجہ اس بات پر ہے کہ قوانین پر زیادہ عمل کون کرتا ہے۔ میرے لیے اسلام ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے میرے لیے یہ ایک نقشے کی مانند ہے۔ ایک خزانہ ہے جو پاک دنیا کے قوانین کے بارے میں میری رہنمائی کرتا ہے۔‘

بی بی سی سے گفتگو میں میشا نے بتایا کہ انھیں 16 برس کی عمر میں یہ لگن تھی کہ وہ روحانیت کے بارے میں جانیں۔

‘میں ہمیشہ کائنات کی حقیقت کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ اور میرے خیال سے ہمارے زمین پر موجودگی کی وجہ کو تلاش کرنا ایک بہت اہم علم ہے۔‘

اس کا ایک ثبوت پوڈکاسٹ کا موضوع ‘ٹیل دیم آئی ایم‘ کا انتخاب کرنا ہے۔

اس میں تورات کی ایک آیت کا حوالہ ہے جس میں خدا پیغمبر موسیٰ سے کہتا ہے انھیں بتاؤ کہ میں ہوں۔

اُن کی رائے ہے کہ یہ آیت اس بات کی جانب گہرائی سے اشارہ کرتی ہے کہ خدا کو ایک خانے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔

میشا کہتی ہیں کہ اسلام ثقافتی ورثے کا مذہب ہی نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کا ایک مکمل فلسفہ ہے جو لوگوں کی زندگی میں آنے والے چیلنجز پر اثر ڈالتا ہے۔

اپنے تجربات کی بنیاد پر ان کے یو ٹیوب اکاؤنٹ پر ایک ٹاک شو ’دی قرآن ریڈنگ کلب‘ ہے جس میں وہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات کرتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ قرآن کی مختلف آیات کا ان کے نزدیک کیا مطلب ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘مجھے قرآن سے محبت ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک حیران کر دینے والی کتاب ہے اور پہلا لفظ جو پیغمبر اسلام محمد پر اتارا گیا وہ پڑھنے کا ہے۔ میں اپنی عمر کے لوگوں کے ساتھ اس پر گفتگو کرنا پسند کرتی ہوں کہ قرآن کی مختلف آیات کا مطلب ان کے لیے کیا ہے۔ وہ اسے کیسے سمجھتے ہیں۔’

وہ کہتی ہیں کہ ان کے پروگرام کا مقصد ہے کہ وہ ایک محفوظ جگہ نوجوانوں کو فراہم کریں جس میں وہ بات کریں اپنی شناخت کے بارے میں، اس سے لڑنے پر، اور بغیر کسی فیصلے کے اپنی کمزوری پر بات کریں۔’

پوڈ کاسٹ کی شاعرہ

جب میشا چھوٹی تھیں تو ان کے والدین کیسٹس پر اردو شاعری سنتے تھے۔ یہ اب بھی ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ ٹیل دیم آئی ایم کی کچھ اقساط میں وہ اردو کی کچھ معروف نظموں کے حصے بھی شامل کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پوڈ کاسٹنگ میں ان کی دلچسپی کی جڑیں پاکستانی اور اسلامی ورثے کے بارے میں کہانیاں سنائے جانے کی روایت سے جڑی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ مجھے پوڈ کاسٹ سے محبت ہے اور میں اس کہانی کی تلاش میں رہتی ہوں جو کوئی اور نہیں بتا سکتا۔ ‘مجھے دوسروں کی آواز اپنے کانوں میں سننے سے محبت ہے یہ مجھے سچی خوشی دیتا ہے۔‘

کورونا وائرس کے دوران پوڈکاسٹ کا دوسرا سیزن پروڈیوس کرنا بہت مشکل کام تھا۔

وہ گھر کے گیراج کے اندر سٹوڈیو بنا کر سارے ضوابط کے مطابق ریکارڈنگ کرتی تھیں پھر مشینوں کی کوالٹی کو چیک کرنا اور انھیں مہمانوں کے گھروں کو بھیجنا بھی ایک مشکل کام تھا۔

میشا سمجھتی ہیں کہ قرنطینہ نے ان کے اپنے مہمانوں کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنایا ہے کیونکہ ہر کسی کو تفصیلی گہرائی میں جاکر بات کرنے کی ضرورت تھی۔ کچھ ایسے مہمان تھے جو انٹرویو کے دوران جذباتی ہو جاتے تھے۔

وہ محسوس کرتی ہیں کہ اپنی کپمنی ’ڈسٹ لائٹ‘ بنانا ایک اچھی چوئس تھی کیونکہ وہ اپنی توجہ کوالٹی پوڈ کاسٹ پر مرکوز کرنا چاہتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ تمام ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے پروڈیوسر کے لیے میدان فراہم کرنا اہم ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ مسلمان نسل سے تعلق رکھنے والی ایک عورت کا کمپنی کا سربراہ ہونا اہم ہے اور یہ میرے بعد کے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔

وہ جس جذبے سے قرآن اور پاکستان کے بارے میں بات کرتی ہیں، اسی طرح سے اپنے کام کے بارے میں بھی بات کرتی ہیں۔

’میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ مجھے یہ فیلڈ اتنی پسند کیوں ہے۔ یہ محبت کی طرح ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے ہم پہلے کسی شخص سے محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر اس کے لیے جواز تلاش کرتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp