بابا جان: گلگت بلتستان کے ’چی گویرا‘ اور عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما مکمل صوبے کی حیثیت اور داخلی خود مختاری کیوں مانگ رہے ہیں؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


بابا جان، baba jan

عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان (جی بی) کے رہنما بابا جان کا کہنا ہے کہ ’عبوری صوبہ‘ کچھ نہیں ہوتا، گلگت بلتستان کو مکمل صوبہ بنایا جائے یا پھر داخلی خود مختیاری دیں، ان دونوں کے بغیر عوام کو کوئی فیصلہ قابل قبول نہیں۔

پاکستان کی وفاقی حکومت نے جی بی کو عبوری صوبہ بنانے اور اس کے لیے آئینی ترامیم کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت تک جی بی کو پاکستان کے دیگر صوبوں جیسی حیثیت حاصل نہیں ہے۔

بابا جان اور اور ان کے دو ساتھیوں افتخار کربلائی اور شکر للہ بیگ عرف مٹھو کو گذشتہ سال تقریباً دس سال کی طویل نظر بندی کے بعد رہا کیا گیا تھا۔

گلگت بلتستان میں وادی ہنزہ سے تعلق رکھنے والے بابا جان اور دیگر سیاسی کارکنوں کو سنہ 2011 میں عطا آباد جھیل کے متاثرین کی جانب سے کیے گئے اجتجاج کے دوران ہنگامہ آرائی کرنے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور بعد ازاں عدالت نے گرفتار ہونے والے افراد کو 40 سال سے نوے سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔

بابا جان کو مقامی عدالت نے دہشت گردی اور لوگوں کو بھڑکانے کے الزام میں 71 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، جسے قریب 10 سال بعد معطل کر دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت بدلنے جا رہی ہے؟

عوامی ورکرز پارٹی کے بابا جان سمیت دیگر اسیران کی نو برس بعد رہائی

‘گلگت بلتستان عملی طور پر صوبہ ہے قانونی طور پر نہیں’

بچپن سے جدوجہد کا آغاز

اپنے بچپن کے بارے میں بات کرتے ہوئے بابا جان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں بجلی سمیت کئی مسائل تھے، بزرگ جب کال دیتے تھے تو وہ اس میں شامل ہو جاتے تھے۔ جب وہ کالج میں تھے تو ان دنوں ایک طالب علم سے جنسی زیادتی کی کوشش ہوئی، اس نے اپنی ’عزت بچانے کے لیے‘ دریا میں چھلانگ لگا دی اور اس کی موت واقع ہوئی۔

بقول بابا جان کے، ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی جس کے بعد انھوں نے لوگوں کو متحرک کر کے احتجاج کیا اور یوں ان کی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوا۔

‘گلگت اور چین کے سرحدی علاقے سست میں ایک ڈرائی پورٹ تھا۔ ایک چینی کمپنی اور مقامی خواتین نے یہ بنایا تھا مقامی شاہی خاندان نے اس پر قبضہ کرلیا، مقامی لوگوں نے ہم سے رابطہ کیا یہ جنرل پرویز مشرف کا دور حکومت تھا میں نے ان کی قیادت کی اور قبضہ ختم کرایا۔‘

’عطا آباد جھیل کے حادثے نے زندگی بدل دی‘

عطا آباد کے مقام پر دریائے ہنزہ میں ایک پہاڑی تودہ گرنے کے بعد کی صورتحال نے بابا جان کی ذاتی اور سیاسی زندگی تبدیل کردی۔ تودے گرنے سے ایک مصنوعی جھیل بن گئی اور شاہراہ قراقرم 18 کلومیٹر تک دفن ہوگئی تھی۔

بابا جان کا کہنا ہے اس وقت جو عطا آباد میں سیاحتی مقام بنا ہوا ہے، جھیل کے نیچے کئی دردناک کہانیاں ہیں، یہاں لوگوں کی آبائی قبریں، عبادت گاہیں، گھر اور زمینیں ہیں۔

گلگت

‘اس حادثے سے پہلے ہم ماحولیاتی تباہ کاریوں پر کام کر رہے تھے۔ اسی دوران چار جنوری 2010 کو یہ عطاآباد کا حادثہ ہوا جس میں 19 جانیں ضائع ہوگئیں اور پانی آگے بڑھتا گیا۔ 28 کلومیٹر کا رقبہ اور تین چار گاؤں اس کی لپیٹ میں آگئے، گلگت حکومت نے وعدہ کیا کہ تمام زمینوں کا معاوضہ دیں گے۔‘

بابا جان کا کہنا ہے کہ حکمران ان کی جدوجہد سے خائف تھے، انھیں اعتراض تھا کہ نوجوانوں کو منظم و سرگرم کر کے ان کے خلاف کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درحقیقت وہ ان کی مخالفت میں نہیں بلکہ لوگوں کے حق میں کام کر رہے تھے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ احتجاج کے نتیجے میں حکومت نے چھ، چھ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا، وہ بھی اقساط میں، پینتیس گھروں کو ایک روپے بھی نہیں ملا، اس کے علاوہ ایک چیک جعلی نکلا تھا کیونکہ بینک میں پیسے نہیں تھے۔

‘11 اگست 2011 کو جب وزیر اعلی مہدی شاہ آرہے تھے تو متاثرین نے علی آباد میں دھرنا دیا، لوگوں کو پیسے دینے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کے بجائے لوگوں پر لاٹھی چارج کیا گیا اور فائرنگ کی گئی، پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں باپ بیٹا ہلاک اور پانچ افراد زخمی ہوگئے، اس کے بعد جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔ ‘

بابا جان کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کے دوران وہ وہاں موجود نہیں تھے بلکہ راکا پوشی کے مقام پر ایک عوامی اجتماع میں عمائدین کے ساتھ سٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ان پر جلاؤ گھیراؤ کا الزام ڈالا گیا اور طویل سزائیں دی گئیں۔ اس وقت گلگت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔

جیل سے انتخابات میں حصہ

بابا جان نے 2015 میں جیل سے گلگت بلتستان کے انتخابات میں حصہ لیا۔ وہ پروگریسیو نوجوانوں کے پسندیدہ رہنما بن گئے۔ انھیں کیوبا کے گوریلا لیڈر چی گویرا کی مناسبت سے ‘ہنزہ ویلی کا چی گویرا‘ پکارا جانے لگا۔ نوجوانوں نے ان کی مہم چلائی ان کے لیے گیت لکھے گئے اور یہ سیاسی گیت گائے گئے۔

انھوں نے 5200 ووٹ حاصل کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی جبکہ کامیاب امیدوار نے چھ ہزار سے کچھ زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔

گلگت

بابا جان کا دعویٰ ہے کہ ’وفاق نے وسیع پیمانے پر دھاندلی کی‘ اور اس کے باوجود وہ دوسرے نمبر پر آئے کیونکہ وہ جیل میں تھے۔

‘ایسے مقابلے کا تصور تو نہیں ہوتا کہ ایک امیدوار کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر دوسرے کو آزاد چھوڑ دیا جائے الیکشن کے لیے تو سب کو برابری کے موقعہ ملنا چاہیے۔‘

بابا جان کے لیے سیاسی جماعتیں متحد ہوگئیں

وادی ہنزہ میں بابا جان اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کے لیے گذشتہ سال اکتوبر مرد و خواتین نے دھرنے دیے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔

بابا جان کا کہنا ہے کہ 2011 کے بعد پیپلز پارٹی کا کردار بدل گیا۔ بلاول بھٹو نے ان کے حق میں بیان دیا اور وہاں جو پیپلز پارٹی کا رہنما تھا امجد حسین ایڈووکیٹ، وہ ان کے کیس میں بھی پیش ہوا اور جلسوں و دھرنوں میں بھی شرکت کی۔

بقول بابا جان ہنزہ کے دھرنے کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بھی دھرنے دیے گئے۔ ان دھرنوں کی قیادت وہاں کے پروگریسیو لوگ کر رہے تھےاور ان دھرنوں کی نتیجے میں ان کی رہائی ممکن ہوئی نہ کہ کسی سمجھوتے کے نتیجے میں۔

’کشمیر جتنے بھی حقوق نہیں‘

برصغیر کی تقسیم کے بعد گلگت بلتستان کی عوام نے 1947 میں ڈوگرہ حکومت سے بغاوت کر کے پاکستان سے الحاق کیا تھا۔

بابا جان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کا دارالخلافہ کراچی میں تھا، وہاں سے ان کی کوئی امداد نہیں کی گئی تھی لوگوں نے اپنے ڈنڈوں اور زور بازو پر گلگت بلتستان کو آزاد کرا کے اس کے پاکستان سے الحاق کے لیے خطوط لکھے تھے لیکن بدقسمتی سے یہاں کے حکمرانوں نے اس الحاق کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کو سابق حیثیت میں برقرار رکھا اور ایف سی آر کا قانون نافذ کردیا۔

‘جب گلگت کا سوال سیاسی طور پر زیادہ ابھرا اور لوگوں نے برابری کے حقوق کے مطالبات کیے تو ایک معاہدہ کیا گیا، جس میں کشمیر اسمبلی کے صدر سردار ابراہیم اور مسلم کانفرنس کے بانی صدر چوہدری غلام عباس نے پاکستان کے وزیر مشتاق گرامانی سے معاہدہ کیا کہ پاکستان عارضی بنیادوں پر خطے کے انتظامات چلائے گا۔ اس کا پورا نقصان گلگت کے لوگوں کو ہوا کیونکہ انھیں نہ کشمیر کے برابر حقوق دیے گئے نہ پاکستان کی قومی اسمبلی، سینیٹ یا این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دیا گیا۔‘

بابا جان کا کہنا ہے کہ ستر سال گزرنے کے باوجود گلگت بلتستان پسماندہ ہے، وہاں ایک بھی میڈیکل، انجنیئرنگ اور شعبے قانون کی یونیورسٹی نہیں۔

گلگت

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے سنہ 2020 کے دوران گلگت بلتستان کے علاقے کو عبوری صوبائی حیثیت دینے کا اعلان کیا تھا۔

اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2009 کو گلگت بلتستان کے خطے کو صوبے جیسی حیثیت دی گئی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت میں 2015 کو گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قرار داد پاس کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ انھیں پاکستان کے صوبے کا درجہ دیا جائے۔ سینیٹر سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن عمل درآمد نہ ہوا۔

انڈیا نے اگست 2019 کو جب اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنا حصہ قرار دیا اور جاری کیے گئے نقشے میں گلگت بلتستان کے علاقوں کو نئی ریاست لداخ کا حصہ ظاہر کیا تو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو عارضی صوبہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا اور گلگت اسمبلی نے ایسی قرار داد بھی منظور کی۔

بابا جان کا کہنا ہے کہ ’عبوری صوبے‘ کی اب ایک نئی بات چھیڑ جارہی ہے، جس سے یہ واضح نہیں ہے کہ گلگت بلتستان سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کتنی نشستیں ہوں گی، قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی ایوارڈ) سے کتنے وسائل ملیں گے اور وفاقی بجٹ میں کتنا حصہ رکھا جائے گا۔

‘وہاں کے زیادہ تر عام لوگ پاکستان کا صوبہ بننے کے طلب گار ہیں جبکہ وہاں (ہم سمیت) سیاسی کارکنان کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک انھیں داخلی خود مختاری دی جائے۔‘

’اس علاقے کو چلانے کے تمام اختیارات وہاں کی اسمبلی کے پاس ہوں۔ پھر بجلی پیدا کرنا ہو، سکول سے سڑکوں تک کی تعمیر یا آئینی عدالتوں کا قیام، یہ مقامی اختیارات ہوں۔‘

پاک چین اقتصادی راہداری

گلگت

چین پاکستان اقتصادی راہداری کا داخلی گیٹ گلگت بلتستان صوبہ ہے۔

بابا جان کے سیاسی سفر میں یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جہاں سے یہ سڑک گزر رہی ہے ہنزہ اور نگر اضلاع کے پچاس فیصد افراد کو معاوضہ نہیں دیا گیا جو پچاس ارب ڈالر کے آس پاس رقم قرضے یا امداد میں حاصل کی گئی ہے۔ ‘اس کا ایک روپیہ بھی گلگت بلتستان کی ترقی اور تعمیر کے لیے خرچ نہیں کیا گیا۔‘

‘مقامی لوگوں کے پاس جلانے کے لیے ایندھن نہیں ہے ظاہر ہے پہاڑوں سے قدیم درخت کاٹ کر لاتے ہیں اور جلاتے ہیں۔ ان کو متبادل دینے کے لیے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ایسا کوئی منصوبہ نہیں لہذا ہمارے لوگوں کو برابری کی بنیاد پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

‘اگر مداخلت نہ ہو تو اچھے نتائج ملیں گے‘

بابا جان کی نظر بندی کے دوران اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں گلگت بلتستان کے طالب علموں کے ساتھ عوامی ورکرز پارٹی، یوتھ پروگریسو الائنس سمیت دیگر لیفٹ کی تنظیمیں ان کی حمایت میں احتجاج کرتی رہی ہیں۔ نومبر میں رہائی کے بعد سخت سردی اور برف باری میں بھی لوگوں نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔

بابا جان کا کہنا ہے کہ اگر انہیں موقعہ دیا جائے پابندیاں عائد نہ ہوں تو ان کے ساتھی نوجوان انتخابات میں حصہ لیں اور انتخابات میں اچھے نتائج ملیں گے۔

’2009 سے لے کر 2020 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور اب تحریک انصاف نے اپنے ادوار میں سرکاری وسائل کا بیدریغ استعمال کیا، انتظامیہ کو اپنے ساتھ شامل کرکے پولیس کا استعمال کیا لوگوں کو آزادانہ حق رائے دہی استعمال کرنے نہیں دیا گیا۔

’اگر بینظیر کارڈ، صحت کارڈ، احساس پروگرام کا کارڈ دینے کے اعلانات اور دیگر ایسے حربے استعمال نہ کیے جائیں تو الیکشن میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp