سدھار ویمبو: وہ ارب پتی جس نے امریکہ کے بجائے تمل ناڈو کے دور دراز گاؤں میں رہنے کو ترجیح دی
سوامی نتھن نترجن - بی بی سی ورلڈ سروس
چاول کے لہلہاتے کھیت پر نظر دوڑاتے ہوئے سدھار ویمبو کہتے ہیں کہ ’میں ایک ریموٹ سی ای او کی طرح ہوں۔‘
سدھار اور ان کے بھائیوں نے 1996 میں امریکہ کیسیلیکون ویلی میں زوہو نامی کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ سیلیکون ویلی ٹیکنالوجی کے شعبے میں جدت کی عالمی آماجگاہ مانی جاتی ہے۔
آج 25 سال کے بعد زوہو نامی اس کلاؤڈ سافٹ ویئر کی کمپنی کے 9500 ملازمین ہیں اور فوربز جریدے کے مطابق ان بھائیوں کی کل دولت ڈھائی ارب ڈالر کے قریب ہے۔
مگر کیلیفورنیا میں تقریباً تین دہائیاں گزارنے کے بعد سدھار نے ایک قدرے خاموش جگہ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور وہ جگہ ہے جنوبی انڈیا میں ایک دور دراز گاؤں۔
نہ کوئی مرکزی شاہراہ، نہ پانی کے نلکے اور نہ نکاسی
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سدھار اس گاؤں کا منظر کچھ ایسے بیان کرتے ہیں: ’یہ چاول کے کھیتوں میں چار یا پانچ گلیاں ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
وبا کے دوران انڈیا کے کروڑ پتی افراد میں ملک سے ہجرت کرنے کے رجحان میں اضافہ
کیا سعودی امیر زادی کے خوابوں کا شہزادہ واقعی پاکستانی ڈرائیور ہے؟
سپیس ایکس کی پرواز پر چاند کا سفر اور وہ بھی مفت!
یہ گاؤں چنائی شہر سے 600 کلومیٹر جنوب میں تینکاشی ضلع میں پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔
اس میں 200 سے کم لوگ رہتے ہیں اور نہ کوئی مرکزی سڑک ہے، نہ پانی کا نظام ہے اور نہ نکاسی۔ بجلی کا نظام اس قدر غیر مستحکم ہے کہ سدھار کو ڈیزل جینریٹر پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
یہ سیلیکون ویلی سے تو کافی مختلف ہے تو سدھار یہاں کام کیسے کرتے ہیں؟
یہاں انٹرنیٹ موجود ہے اور سدھار کو ہائی سپڈ انٹرنیٹ تک رسائی ہے اور ایک انتہائی کامیاب کمپنی کے مالک ہونے کے کچھ تو فائدہ ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے صرف بڑے بڑے پالیسی کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ کمپنی اب اتنی بڑی ہو چکی ہے کہ بہت سارے فیصلے ٹیمیں آپس میں کر لیتی ہیں۔‘
دیہی زندگی اپنانا
کوئی بھی سینیئر ایگزیکٹیوو یا پرسنل سیکرٹری ان کے قریب نہیں رہتا۔ پھر بھی سدھار خود کو ایک ایسا لیڈر مانتے ہیں جو کام میں کافی مصروف رہتا ہے۔
‘میں ایک ٹیم کی سربراہی خود کرتا ہوں۔ میں پروگرامرز کے ساتھ کافی قریب سے کام کرتا ہوں اور ٹیکنالوجی کےچند پیچیدہ پروجیکٹس میں کام کرتا ہوں۔ سافٹ ویئر ٹیم کے دنیا بھر میں انجینیئر پھیلے ہوئے ہیں۔‘
سدھار نے حال ہی میں ایک دو کمروں کا فارم ہاؤس بنایا ہے اور پوری طرح دیہاتی طرزِ زندگی کو اپنا لیا ہے۔ ان کے گھر میں کوئی اے سی نہیں اور گاڑی کے بجائے وہ آٹو رکشہ یا سائیکل کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ وہ اکثر گاؤں کی چائے کی دکان پر جا کر مقامی لوگوں سے گپ لگاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے یہاں زندگی میں بہت مزہ آ رہا ہے۔ مجھے اس گاؤں اور آس پاس کے گاؤں کے بہت سے لوگوں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔‘
وہ اکثر جینز یا ٹی شرٹ پہنتے ہیں مگر اب کبھی کبھی وہ دھوتی میں بھی نظر آتے ہیں۔
‘معروف مگر سلیبریٹی نہیں‘
میڈیا میں آنے کی وجہ سے اب زیادہ تر مقامی لوگوں کو پتا ہے کہ وہ کون ہیں مگر ان کا اصرار ہے کہ وہ ایک سلیبریٹی نہیں ہیں۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ ان کے گاؤں کا نام نہ شائع کریں تاکہ بن بلائے لوگ پہنچ نہ جائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘دیہاتی زندگی کافی مختلف ہے۔ لوگوں کے پاس دوستیاں کرنے کا وقت ہے۔ لوگ ایسے ہی آپ کو اپنے گھر کھانے پر بلا لیں گے۔ ابھی جب میں ساتھ والے گاؤں گیا تو 10 یا 15 لوگوں سے بات چیت کی۔‘
سدھار کہتے ہی کہ وہ کبھی بھی دنیا میں بھاگتے مصروف بزنس مین نہیں تھے اس لیے انھیں اپنی پرانی زندگی یاد نہیں آتی۔
‘میں کبھی گولف نہیں کھیلتا تھا۔ میں کوئی سوشل انسان نہیں تھا۔ میں کاروبار کے لیے سفر کرتا تھا مگر اب تو وہ زیادہ تر ویڈیو پر ہی ہوتا ہے۔‘
وہ اپنی انڈسٹری میں تازہ ترین ٹرینڈز جاننے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ہی سیٹلائٹ دفاتر
کورونا وائرس کی وبا کے آنے کے بعد سے بہت سے لوگ گھروں سے کام کرنے پر مجبور ہیں مگر اب بہت سی کمپنیوں نے گھروں سے کام کرنے کی مستقل اجازت دے دی ہے۔
مگر سدھار تو یہ کام بہت پہلے سے کر رہے تھے۔ ان کی کمپنی زوہو نے پہلا دیہاتی دفتر دس سال پہلے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد زوہو نے انڈیا کے دس دیہاتوں میں اپنے سیٹلائٹ دفاتر کھولے ہیں۔
سدھار کہتے ہیں کہ ‘ہمیں ابھی مکمل طور پر یہ سمجھ نہیں آیا کہ کام کرنے کا طریقہ کیسے بدل جائے گا مگر ہم ان دیہاتی دفاتر میں کافی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم آن لائن ٹولز میں بھی کافی پیسے لگا رہے ہیں۔‘
ان کا اندازہ ہے کہ ان کے عملے میں سے 20 سے 30 فیصد مستقل طور پر گھروں سے یا سیٹلائٹ دفاتر کام کرنے کو ترجیح دے گا۔ سدھار کا کہنا ہے کہ یہ سیٹلائٹ دفاتر ایک سو ملازمین تک کی جگہ رکھیں گے۔
تو یہاں منتقل کیوں ہوئے؟
سدھار انڈیا میں پیدا ہوئے تھے اور اپنے آبائی گاؤں میں سکول کے دنوں کو ہمیشہ یاد کرتے تھے۔
امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے کے باوجود ان کی ہمیشہ خواہش تھی کہ وہ انڈین دیہات میں لوٹ جائیں۔
جن انھوں نے سان فراسسکو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کے ساتھی کچھ زیادہ حیران نہیں ہوئے۔
ان کی کمھنی کے مارکیٹنگ کے نائٹ صدر پاول سنگھ کہتے ہیں ‘ایک طرح سے دیکھیں تو سدھار ہمیشہ سے ریموٹ کام ہی کرتے تھے۔ وہ ایک ایسی کمپنی کیلی فورنیا میں بیٹھے چلا رہے تھے جس کے 90 فیصد ملازمین انڈیا میں ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ‘ہماری ٹیمیں ہمیشہ سے دنیا کے مختلف کونوں میں ہیں۔ اس لیے اس سے فرق نہیں پڑھتا کہ سی ای او کہاں بیٹھا ہے۔‘
سدھار اکثر امریکہ، برازیل اور سنگاپور میں اپنے ملازمین سے رابطے میں ہوتے ہیں۔
تعلیمی نظام سے پریشانی
سدھار انڈیا اور امریکہ میں اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں گئے مگر اب وہ تعلیمی نظام کے بارے میں زیادہ خوش نہیں ہیں۔
انھوں نے مدراس میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے انجننیئرنگ کی اور پھر امریکہ میں پرنسٹن یونیورسٹی سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی۔
مگر ان کا اصرار ہے کہ ان کی کامیابی میں تعلیم کا کوئی کردار نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘میں ایک انتہائی میتھیمیٹیکل شعبے میں پروفیسر بننے جا رہا تھا اور اب میں صرف بنیادی جمع تفریق کرتا ہوں۔‘
سدھار کہتے ہیں کہ روزمرہ کی زندگی میں استعمال کا طریقہ سمجھنے سے قبل طلبہ کو ’سیاق و سباق کے بغیر نظریات‘ پیش کرنا، بے معنی ہے۔
’میں نے الیکٹریکل انجیئنرنگ کی تربیت حاصل کر رکھی ہے، میں نے میکس ویل کے فارمولے پڑھے تھے لیکن مجھے اس کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں۔‘
’میکس ویل کے فارمولے (جو برقی مقناطیسیت کے بارے میں ہیں) اہم ہیں لیکن میں کہوں گا کہ یہ آپ کے لیے اس وقت ہی اہم ہو سکتے ہیں جب آپ بجلی کی موٹروں کو چلانے اور تباہ کرنے کے ذریعے یہ سیکھیں کہ یہ کام کیسے کرتی ہیں۔‘
سدھار کی غیر روایتی سکولنگ
تعلیم کی فراہمی کے طریقہ کار کے بارے میں پرجوش محسوس کرتے ہوئے سدھار نے ’زوہو سکول‘ قائم کیے ہیں جو درس و تدریس کے روایتی طریقوں کو ختم کر چکے ہیں۔
ایسے ہی دو سکول تامل ناڈو میں ہیں اور وہ باقاعدگی سے ضلع تینکاشی میں واقع ایک سکول کا بھی دورہ کرتے رہتے ہیں۔
ان کے سکول سافٹ ویئر ٹیکنالوجی، نظم و نسق، ڈیزائن، تخلیقی تحریر وغیرہ جیسے مضامین پر دو سال کے پروگرام آفر کرتے ہیں۔ داخلہ حاصل کرنے کے لیے آپ کی عمر 17 سے 20 سال ہونا ضروری ہے اور آپ کے پاس اس سے پہلے کم از کم 12 سال کی سکول کی بنیادی تعلیم بھی ہونی چاہیے۔
یہاں طلبا و طالبات کو کھانے کے علاوہ ماہانہ 140 ڈالر الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔
سدھار کہتے ہیں ’ہم آپ کو پروگرامنگ سکھاتے ہیں آپ اصلی ایپس کو کوڈ کریں۔ کرنے سے ہی آپ سیکھتے ہیں۔‘
’آپ فلڈ ڈائنامکس کو سمجھے بغیر ایک بہت بڑے پلمبر ہو سکتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس کے گہرے اصولوں کو سمجھے بغیر آپ ایک بہترین پروگرامر بن سکتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔‘
سدھار کے 900 طلبا زوہو سکولز سے تربیت حاصل کرنے کے بعد اب کے ان کے کاروبار کے لیے کام کر رہے ہیں۔
صرف بل گیٹس اور وارن بفیٹ جیسے چند ارب پتی افراد نے ہی اپنی دولت کے بڑے حصے کو انسان دوست مقاصد کے لیے مختص کیا لیکن سدھار کا کہنا ہے کہ وہ مغربی ماڈل کی تقلید کے خواہشمند نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی ذمہ داری ان کے کاروبار کے لیے لازمی ہے۔
’ہم بہت سارے کام کرتے ہیں اور انھیں خیراتی کام کا لیبل نہیں لگاتے ہیں۔ جب ہم روزگار کے لیے ہنر مندی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ہم دراصل کمپنی کی مدد کر رہے ہیں اور جس شخص کو تربیت دی جارہی ہے اس کی بھی مدد کر رہے ہیں۔‘
لیکن سدھار یہاں ہی رکنے والے نہیں۔ انھوں نے جنوبی انڈیا میں 250 بیڈز پر مشتمل ایک ہسپتال بنانے کے منصوبے کا اعلان بھی کیا ہے۔
جنوری میں انھیں انڈیا کا چوتھا سب سے بڑا سول اعزاز دیا گیا۔ انھیں قومی سلامتی کے مشاورتی بورڈ میں بھی تعینات کیا گیا ہے، جہاں ان کا کام مختلف شعبوں میں سائنسی معلومات حاصل کرنے کی راہیں تلاش کرنے میں انڈیا کی مدد کرنا ہے، جو ملک کی معاشی اور سلامتی ضروریات کے لیے اہم ہے۔
لیکن کیا وہ زندگی بھر گاؤں سے ہی کام کریں گے؟
سدھار کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کے بعد وہ امریکہ میں موجود اپنے دفتر واپس جانے کی امید رکھتے ہیں لیکن یہ ایک مختصر دورہ ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا مستقل طور پر وہاں واپس جانے کا کوئی منصوبہ نہیں اور وہ سیلیکون ویلی کے گلیمر اور دولت کے لالچ میں مبتلا نہیں۔
’میں ایک کمپنی چلاتا ہوں جو ایک امیر کمپنی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرا اپنا لائف سٹائل ایسا ہے۔ مجھے اس میں دلچسپی نہیں۔‘
انھوں نے کہا ’میں اس زندگی کو کسی بھی چیز کے لیے نہیں چھوڑ سکتا۔‘
’ہم اکثر سوچتے ہیں کہ پیسہ تمام چیزوں کا حل ہے لیکن ایسا نہیں۔ آپ کو سماجی رابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‘
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
- خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟ - 29/03/2024
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).