زہرا خان: پاکستانی نژاد برطانوی شیف غیر معمولی کارکردگی پر 30 سال سے کم عمر کی کامیاب شخصیات کی فہرست میں شامل

محمد زبیر خان - صحافی


’میرا بچپن لاہور میں گزرا۔ میری والدہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود اکثر اوقات گھر ہی میں کیک وغیرہ بنایا کرتی تھیں۔ میں ان کے ساتھ مدد کرتی تھی جس سے مجھے بچپن ہی میں نہ صرف کیک بنانا آگیا بلکہ کھانا پکانے کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔‘

پاکستان سے تعلق رکھنے والی برطانوی شیف زہرا خان گذشتہ برسوں کے دوران ایک کامیاب بزنس وومن بن کر ابھری ہیں۔ فوربز میگزین نے ان کا نام یورپ میں ریٹیل اور ای کامرس کے شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والی 30 سال سے کم عمر شخصیات کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

لندن میں ان کے دو کاروبار فیا کیفے اور ڈائیس آئس کریم مشہور ہیں۔ ان کے مطابق ’کامیابی کا راز انتھک محنت اور ایمانداری ہے۔‘ کئی ایوارڑز ملنے کے علاوہ انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے سوشل میڈیا، خاص کر انسٹاگرام، کو ایک مخصوص انداز میں استعمال کرتے ہوئے اپنے کاروبار کو نئی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔

ان کی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ ان کے تین ریستورانوں میں 75 فیصد عملہ خواتین پر مشتمل ہے۔

’ڈاکٹر، انجینیئر ماں باپ کی شیف بیٹی‘

زہرا خان پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئیں۔ 16 سال کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ کینیڈا منتقل ہوگئی تھیں۔ ان کی والدہ ڈاکٹر جبکہ والد انجینیئر ہیں۔

کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں انھوں نے بیچلر آف سائنس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد لندن سے بیکنگ اور کوکنگ میں ڈپلوامہ حاصل کیا۔

بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں زہرا خان نے بتایا کہ لندن میں اپنا کیفے شروع کرنا اور کامیابی حاصل کرنا ’جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ڈونٹ کنگ‘ جو زندگی میں دو بار ککھ سے لکھ پتی بنا

ڈپریشن میں زیادہ کھانے سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟

’بیرسٹر نشا نے شیف بننا کیوں پسند کیا؟`

ریستوران میں برتن دھونے والا نیپالی ماسٹر شیف کے فائنل میں

’پہلے تو شیف بننے میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر کاروبار کرنا کبھی بھی آسان نہیں تھا۔ کاروبار کے آغاز میں میری دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اپنی بیٹیوں کی پیدائش اور دیکھ بھال کے ساتھ روزانہ کئی کئی گھنٹے کام کرنا پڑا۔‘

زہرا کے مطابق ’میری کامیابی کا راز من پسند کام ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میرا بچپن لاہور میں گزرا۔ میری والدہ ڈاکٹر ہونے کے باوجود اکثر اوقات گھر ہی میں کیک وغیرہ بنایا کرتی تھیں۔ میں ان کے ساتھ مدد کرتی تھی جس سے مجھے بچپن ہی میں نہ صرف کیک بنانا آگیا بلکہ کھانے پکانے کا بھی شوق پیدا ہوگیا۔ ‘

ان کے والدین نے ان کے شیف بننے پر ابتدائی طور پر اعتراض کیا تھا۔

’میری والدہ چاہتی تھیں کہ میں ان کی طرح ڈاکٹر بنوں۔ ان کا خیال تھا کہ ڈاکٹر اور انجینیئر کی بیٹی کا شیف بننا کوئی اچھا نہیں لگے گا۔۔۔ (وہ سمجھتی تھیں کہ) شیف کے کام میں کوئی چارم، سٹیٹس نہیں۔‘

پھر والدین کے ساتھ کینیڈا منتقل ہونے کے بعد انھوں نے والدین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پری میڈیکل تعلیم حاصل کرنا شروع کردی۔

’کینیڈا میں، میں نے تعلیم کے ساتھ آن لائن کیک بنانے کا کام شروع کیا۔ کچھ عرصے میں وہ کافی چل گیا۔ میری پری میڈیکل کی تعلیم مکمل ہوئی تو میں نے سوچا کہ میں تو شیف کے کام میں لطف حاصل کرتی ہوں۔‘

میڈیکل کی تعلیم چھوڑنے پر انھوں نے اپنے والدین کو راضی کیا اور 2015 میں لندن میں مختلف کھانوں اور بیکنگ سے متعلق ایک قدیم تعلیمی ادارے سے ڈپلومہ حاصل کر لیا۔

’مجھے (دوسری پوزیشن کا) ایوارڈ ملا تو والدین کو میرے شیف بننے پر کوئی اعتراض نہیں رہا۔۔۔ مجھے یہ کام پسند تھا اس لیے دل و جان سے محنت کر کے یہ مقام پایا۔‘

بیٹی کی پیدائش اور کیفے کا افتتاح

کورس مکمل کرنے کے بعد انھوں نے برطانیہ میں ہی رہائش اختیار کر لی اور ان کی شادی یہیں کے ایک بینکر شمائل انجم سے ہوئی۔ ’شادی کے بعد انھوں نے مجھے کام کرنے اور اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کا حوصلہ دیا تھا۔‘

زہرا نے بتایا کہ ’شمائل کے ساتھ مشاورت کے بعد ہم دونوں نے مل کر کیفے کے لیے جگہ تلاش کرنا شروع کردی اور اپنے برانڈ پر بھی کام کرتے رہے۔ مختلف تجربات کے بعد واضح ہوگیا مجھے کیا کرنا ہے۔‘

انھیں کیفے کے لیے بہترین جگہ درکار تھی جہاں بڑی تعداد میں لوگ ان کے کیفے آسکیں اور کاروبار بڑھے۔

’ہم چاہتے تھے کہ ہمیں مرکزی لندن میں آکسفورڈ سٹریٹ کے پاس جگہ ملے جہاں پر پہلے بھی کئی مشہور زمانہ ریستوران اور کیفے موجود ہیں۔ مگر ہمیں کامیابی نہیں مل رہی تھی۔ جو جگہ خالی ہوتی تھی وہاں کے مالکان بڑے محتاط ہوتے تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی جگہ پر کرایہ دار ایسا کاروبار شروع کریں جس سے ان کی جگہ کی مارکیٹ میں اضافہ ہو۔‘

’مالکان یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ایسا (نیا) کاروبار شروع ہو جس کے چلنے کے امکانات کم ہوں اور وہ جگہ پھر خالی ہوجائے۔ اکثر اوقات وہ (ہمیں) مسترد کر دیتے تھے۔‘

اس کام میں انھیں ڈیرھ سال لگا اور اس دوران ان کی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ ’ابھی میں ہسپتال ہی میں تھی کہ مجھے بتایا گیا کہ ہمیں جگہ ملنے کے امکان پیدا ہوچکے ہیں۔‘

جگہ ملنے کے بعد ان کے آرام کے دن ختم ہوچکے تھے۔ ’نومولود بچی کی دیکھ بھال کے ساتھ کیفے شروع کرنے کے انتظامات کیے۔‘

’کبھی وکیل کے پاس جانا تو کبھی مالکاں کے ساتھ مذاکرات۔ کبھی کیفے کے لیے (سامان کی) خریداری کرنا۔۔۔ مگر ہم دونوں ماں باپ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہماری بیٹی خوش قسمت ثابت ہورہی ہے جس وجہ سے اپنی بیٹی کے نام پر فیا کیفے قائم کیا۔‘

میں نے خود فرش بھی صاف کیے ہیں‘

زہرا بتاتی ہیں کہ فیا کیفے میں انھوں نے حلال اجزا سے پیسٹری، کیک، اور ناشتے کی سروسز شروع کیں۔

’کیفے یا ریستوران کا کاروبار صرف اچھی اور معیاری اشیا کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ اچھی سروس اور دیگر لوازمات بھی لازم ہیں۔ میں نے اپنے کیفے کی سجاوٹ وغیرہ بھی کچھ ہٹ کر کروائی تھی۔ جب ہم نے اپنا کیفے کھولا تو لوگ صرف اسے دیکھنے کے لیے باہر کھڑے ہوجاتے تھے۔‘

’کیفے بہت محنت مانگتا ہے۔ میں خود ایک نوجوان ماں تھی تو سٹاف میں بھی کچھ نوجوان مائیں رکھ لیں تھیں کہ شاید اس طرح ان کے کچھ مسائل حل ہوسکیں۔‘

وہ بتاتی ہیں ’سٹاف ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے خود کو عملی نمونہ بنایا۔ کبھی میں کچن میں ہوتی تو کبھی کسٹمرز کو دیکھتی۔ (بعض اوقات) فرش بھی خود صاف کیے۔ صبح سات بجے کیفے جاتی اور رات ایک بجے تک وہاں کام کرتی۔‘

ان کی کاروباری زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کے ویزے کی مدت ختم ہوگئی اور انھیں کینیڈا واپس جانا پڑا۔ اس دوران ’تین ماہ تک میں نے اپنے کاروبار کی نگرانی کیمروں اور آن لائن کی مدد سے کی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ ایک مشکل وقت تھا۔۔۔ دن دیکھا نہ رات، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا کاروبار جم گیا۔‘

میٹنگز میں میری چھوٹی بیٹیاں بھی ساتھ ہوتی ہیں‘

وہ کہتی ہیں کہ 2018 میں کیفے کے قیام کے کچھ عرصے بعد اسے پذیرائی ملنا شروع ہوگئی اور ’موسم گرما میں ہمارے کیفے کے باہر لائن لگنا شروع ہوچکی تھی۔

’سوشل میڈیا پر فالوورز بڑھتے جارہے تھے۔ جو ایک مرتبہ ہمارے کیفے آتا، وہ تعریف ضرور کرتا۔‘

انھوں نے پہلے سال کے منافع سے کاروبار میں دوبارہ سرمایہ کاری کی اور لندن میں ہی آئس کریم، چائے اور ملک شیک کا پارلر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

مگر اس بار بھی انھیں مناسب جگہ ڈھونڈنے میں دشواری ہوئی۔ ’ابھی مجھے اپنے نئے پارلر کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی کہ میری دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔

’لوگ اس کو اتفاق کہتے ہیں مگر میں کہتی ہوں کہ میری بیٹیاں خوش قسمت ہیں۔ دوسری بیٹی کی پیدائش کا پہلا دن تھا کہ مجھے اطلاع ملی کہ مالک ہمیں آئس کریم اور ملک شیک پارلر کی جگہ دینے کے لیے تیار ہے۔‘

’میرے پاس بھی ضائع کرنے کے لیے وقت نہیں تھا۔ میں بیٹی کی پیدائش کے دوسرے ہی دن میٹنگز کے لیے ان کے پاس پہنچ گئی۔ معاہدہ کر کے فوراً کام شروع کردیا اور وہ پارلر جلد چل پڑا۔‘

زہرا کا کہنا ہے کہ تین لوگوں کے ساتھ شروع کیے جانے والے کاروبار میں اس وقت 53 لوگوں کا عملہ ہے۔

’کاروبار بڑھ چکا ہے تو کام بھی بڑھ چکا ہے۔ میں کام پر جاتی تو میری دونوں بچیاں میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ میں ان کی دیکھ بھال کیفے اور پارلر ہی میں کرتی تھی۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اکثر اوقات مختلف میٹنگز پر جانا پڑتا ہے۔ خریداری اور دیگر مسائل ہوتے ہیں تو ان میں میری بیٹیاں میرے پاس ہی ہوتی ہیں۔

’برطانیہ میں لوگ اس کو محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ پسند کرتے ہیں کہ نوجوان ماں اپنے دونوں فرائض ادا کر رہی ہے۔‘

تاہم اب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن اور دیگر سختیوں کی وجہ سے ان کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔

’مجھے امید ہے جب بھی لاک ڈاؤن ختم ہوگا، ہمارا کاروبار ایک بار پھر چل پڑے گا۔۔۔ مجھے پاکستان، عرب دنیا اور دنیا بھر سے فرنچائز کی بھی پیشکش ہوئی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp