ٹریسٹا سن: وہ خاتون جو چین میں چلتے پھرتے بینکروں کی ایک فوج تیار کر رہی ہیں

جسٹن ہارپر - برنس رپورٹر، بی بی سی نیوز


ایچ ایس بی سی بینک چین بھر میں امیر صارفین کی تلاش میں سینکڑوں کی تعداد میں بینکروں کو ملازتوں کی پیشکش کر رہا ہے۔

یہ بینک کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت بینک تین ہزار ایسے بینکروں کو ملازمت دینا چاہتا ہے جو ڈیجیٹل ٹیبلٹ کے ساتھ خود صارفین کے پاس جائیں گے۔

ایسے چلتے پھرتے بینکروں کی اس تیزی سے بڑی ہوتی ہوئی ٹیم کی سربراہی ایک خاتون کر رہی ہیں جن کا نام ٹریسٹا سن ہے۔

ٹریسٹا سن ایچ ایس بی سی میں ڈیجیٹل بینکنگ کا نظام تیار کرنے میں مدد کر رہی ہیں جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کافی عرصے سے التوا کا شکار تھا۔

کئی دوسرے بین الاقوامی بینک بھی چین میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں جن میں گولڈ مین سیئکس اور جے پی مورگن جیسے امریکی ادارے بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

لبنیٰ ال اولایان سعودی عرب کی پہلی خاتون بینک سربراہ

افریقہ کی امیر ترین خاتون نے اپنے ’ملک کو کیسے لوٹا‘

بینک پر پابندیاں عائد کرنے پر چین امریکہ سے ناراض

ایچ ایس بی سی بینک کے ذریعے کیسے کروڑوں ڈالر کے فراڈ کی رقم منتقل کی گئی؟

موبائل بینکروں کے اس منصوبے کو ’ایچ ایس بی سی پِن ایکل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ بینک کے چیف ایگزیکٹیو نوئل کوئن کے اس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ ایشیا میں زیادہ سرمایہ کاری اور ویلتھ مینیجمنٹ پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

اس ہفتے ایچ ایس بی سی نے تصدیق کی ہے کہ وہ اپنے چار اعلی تین اہلکاروں کو لندن سے ہانگ کانگ منتقل کر رہا ہے جن میں اس کے ویلتھ، پرسنل بینکنگ اور گلوبل کمرشل بینکنگ کے چیف ایگزیکٹو شامل ہیں۔

ٹریسٹا سن نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی ٹیم چین کے شہروں شنگھائی، ہینگجاو اور شینجین میں کام شروع کر چکی ہے۔ یہ ٹیم ان شہروں میں اپنے انشورنس اور سرکامیہ کاری کے کاروبار کے لیے امیر صارفین کی تلاش میں ہے۔

ٹریسٹا سن نے شنگھائی میں اس منصوبے کے تحت ایک فائنینشل ٹیکنالوجی پلیٹ فارم بھی بنا لیا ہے۔ یہ چین میں کسی بھی غیر ملکی مالی ادارے کی جانب سے پہلا اقدام ہے۔

پِن ایکل نامی اس منصوبے کا ہدف ہے کہ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مڈل کلاس میں اپنی زیادہ سے زیادہ جگہ بنائی جائے۔ بینک کا اندازہ ہے کہ سنہ 2028 تک چینی مڈل کلاس کی آبادی 60 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ ایچ ایس بی سی کے ویلتھ بزنس کا حجم ایک عشاریہ چھ کھرب ڈالر ہے جس کا نصف حصہ ایشیا سے آتا ہے۔

ایچ ایس بی سی

ایچ ایس بی سی کو گولڈ مین سیئکس اور جے پی مورگن جیسے اپنے روایتی حریفوں کے علاوہ چین میں علی بابا اور ٹینسینٹ جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں سے بھی مقابلے کا سامنا ہے۔

تاہم ایچ ایس بی سی کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں ہزاروں کی تعداد میں بینکروں کو ملازمتیں دینے کی وجہ سے انھیں اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہو جائے گی۔

ٹریسٹا سن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ‘ہم سمجھتے ہیں کہ مالی منصوبہ بندی کا ایک ایسا ماڈل جو ڈیجیٹل اور انسانوں کا ملاپ ہو اور جس میں صارفین اور مالی منصوبہ سازوں کو بھی شامل کیا گیا ہو، امیر صارفین کے لیے بہت پر کشش ہے۔’

ٹریسٹا سن اس سے قبل لندن اور ہانگ کانگ میں ایچ ایس بی سی کے ہیڈکواٹر میں کام کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ سے انھیں نگرانی کے مختلف نظاموں اور ماحول، مقابلے کا منظر نامہ، صارفین کی پریشانیوں اور ٹیکنالوجی کو سمجھنے سے معاملات کا تجربہ رہا ہے۔

سنہ 1984 میں ایچ ایس بی سی وہ پہلا غیر ملکی بینک تھا جس نے چین میں بینکنگ لائسنس حاصل کیا تھا۔ اب اس بینک کی وہاں 160 کے قریب شاخیں ہیں جو وہاں کسی بھی غیر ملکی بینک سے زیادہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp